آج کل کی دنیا میں، بااختیار عورتوں کی ضرورت بہت زیادہ ہے۔ یہ ان کی زندگی کے کئی مسائل کے حل کرنے کا راستہ ہے۔ یہ ان کو آگے بڑھنے
اور اپنے مقصد تک پہنچنے میں مدد دیتی ہے۔ ایک بااختیار عورت اپنے خوابوں کو خود انجام دینے پر یقین رکھتی ہے اور کامیاب ہوتی ہے۔
خواتین کو بہتر تعلیم، مہارت اور تربیت فراہم کرنا چاہئے تاکہ وہ بہتر معاشرے کی تشکیل کرسکیں ۔
بااختیار ہونا ایک عورت کو پَر دینے کا کام کرتا ہے۔ جس کی بدولت وہ اڑان بھر سکتی ہے تا کہ اسے کسی اور پر منحصر نہ ہونا پڑے۔ خواتین کو بااختیار ہونا چاہئے، ایک بااختیار عورت ہر طرح کے جذباتی، ذہنی، اور معاشی امور سے نمٹنے کے لئے تیار رہتی ہے۔ یہ ان کے لئے ضروری ہے کہ وہ زندگی کی ہر صورت میں آگے بڑھ سکیں اور خود اپنے مقاصد تک آپ پہنچیں۔ آج کل کی دنیا میں، بااختیار عورتوں کی ضرورت بہت زیادہ ہے۔ یہ ان کی زندگی کے سخت مسائل کے حل کرنے کا راستہ ہے۔ یہ ان کو آگے بڑھنے اور اپنے مقصد تک پہنچنے میں مدد دیتی ہے۔ ایک بااختیار عورت اپنے خوابوں کو خود انجام دینے پر یقین رکھتی ہے دوسروں کے اعتماد پر نہیں۔ اس معاشرے میں لوگ مردوں کو بااختیار ہونے کی حمایت کرتے ہیں، لیکن جب بات عورتوں کی آتی ہے تو معاشرہ انہیں پیچھے کر دیتا ہے۔ یہی وجہ ہے کہ عورتوں کو سب سے زیادہ مشکلات کا سامنا کرنا پڑتا ہے۔ اگر خواتین کی راہ میں کوئی کانٹا بننے کی کوشش نہ کرے تو وہ بڑے سے بڑے کام انجام دے سکتی ہیں۔
سروجنی نائیڈو، اندرا گاندھی، سشما سوراج، ثانیہ مرزا، اروندھتی رائے، کرن بیدی، سدھا مرتی، برکھا دت، میتھالی راج، کلپنا چاولا، اور گنجن سکسینہ جیسی سیکڑوں عورتوں کے نام لئے جا سکتے ہیں جو اپنے کام کی وجہ سے اپنے خاندان اور اپنے ملک کی عزت و وقار اور فخر کا باعث بنیں۔
دورِ حاضر اور خاص کر پچھڑے ہوئے علاقوں کی کہانی کچھ مختلف ہے، یہاں عورتوں کو خواب دیکھنے سے پہلے ہی ان کے خواب کچل دئیے جاتے ہیں، انہیں یہ سوچنے پر مجبور کر دیا جاتا ہے کہ شادی بیاہ ہی ان کی زندگی کا کل اثاثہ ہے۔ اس ضمن میں میں نے جب اپنے محلہ میں نظر دورائی تو مجھے قریب ۴۷؍ سال کی زینت بیگم نظر آئیں جو چار بچوں کی ماں ہیں اور ان کے شوہر کی چند سال پہلے وفات ہوگئی ہے، میں نے پوچھا کہ کیا وہ پڑھی لکھی ہیں؟ زینت بیگم نے بتایا کہ وہ پڑھی لکھی نہیں ہیں۔ وہ اپنے شوہر کی کمائی پر منحصر تھی، لہٰذا اُن کے شوہر کی وفات کے بعد اُنہیں بہت مشکلات کا سامنا کرنا پڑ رہا ہے۔ اُن کے پاس کوئی ذریعہ نہیں ہے کہ وہ اپنے بچوں کا پیٹ پالیں اور اُنہیں تعلیم دلوا سکیں۔ جس کی وجہ سے اُن کے بچے جن کو اس عمر میں پڑھائی کرنی چاہئے، وہ محنت مزدوری کر کے اپنا گھر چلا رہے ہیں۔
زینت بیگم نے کہا کہ اگر میں پڑھی لکھی ہوتی اور اپنے دم پر پیسے کما سکتی تو شاید میرے بچوں کا مستقبل اس طرح خراب نہ ہوتا۔ اُنہوں نے یہ بھی کہا کہ جو بھی ہو، ہر لڑکی کو حصولِ تعلیم کا موقع ملنا چاہئے تاکہ اُن کو مستقبل میں میری طرح مشکلات کا سامنا نہ کرنا پڑے۔ اسی حوالے سے جب میں نے شگفتہ ناز سے پوچھا تو انہوں نے کہا کہ تعلیم ہر عورت کیلئے بہت ضروری ہے۔ میرے والدین نے میری تعلیم مکمل کروائی تھی جس کی بدولت آج میں اپنا خرچ خود اٹھا سکتی ہوں اور مجھے کسی اور پر منحصر نہیں ہونا پڑ رہا۔ میں پیشے سے ایک استانی ہوں اور بچوں کو پڑھاتی ہوں اور مجھے بہت خوشی محسوس ہوتی ہے کہ میں اس قابل ہوں کہ میں خود کا خرچ خود نکال سکتی ہوں اور میں اپنی بیٹیوں کو بھی بااختیار بنانا چاہتی ہوں۔ سبھی والدین کو اپنی بیٹیوں کو تعلیم حاصل کرنے دینا چاہئے اور کریئر بنانے کا موقع دینا چاہئے۔
مشرق تا مغرب، شمال تا جنوب ہر صدی اور ہر عہد میں عورت نے اپنے حقوق کی پاسداری کے لئے آواز بلند کی۔ مگر افسوس کہ بہت بار اس کی آواز کا گلہ گھونٹ دیا جاتا ہے۔ دنیا میں جتنے مذاہب کے ماننے والے لوگ ہیں، ہر مذہب میں عورت کی اہمیت کو بیان کیا گیا ہے۔ زمانے کی تنگدستی و تنگ نظری جب جب عورت کی راہ میں رکاوٹ بنی تب تب عورت نے احتجاج کیا لیکن حقیقت یہ ہے کہ ہر بار اسے دنیا کی دقیانوسی سوچ نے دھتکار دیا۔ یہ عورت ہی ہے جو کبھی ماں بن کر کبھی بیٹی اور بہن اور کبھی بیوی بن کر اپنے گھر کی تربیت کرتی ہے مگر جواب میں اس کی تذلیل کی جاتی ہے۔ عورت وہ ہے کہ جو زمانے کے خزاں رسیدہ گلستان میں ایک سدا بہار پھول بن کر محبت کی خوشبو مہکاتی ہے۔ عورت وہ ہے کہ جس کے دم سے یہ دنیا اپنی زندگی کا چراغ جلانے میں کامیاب ہوئی کیونکہ عورت کے دم سے ہی مرد کا وجود بھی ہے۔ آج ضرورت ہے تو خواتین کے حقوق کو بحال کرنے کی ہے، ضرورت ہے تو ایک عورت کو معیاری تعلیم دلوانے کی ہے تا کہ وقت آنے پر وہ مرد کے شانہ بشانہ چل سکے اور اپنی زندگی عزت اور وقار کے ساتھ جئے۔ انہیں بہتر تعلیم، مہارت اور تربیت فراہم کرنا چاہئے تاکہ وہ بہتر معاشرے کی تشکیل کرسکیں کیونکہ نئی نسل انہیں کی گود میں پرورش پاتی ہے۔ عورتوں کے حقوق کا احترام کرنا ہماری معاشرتی بنیادوں کے لئے بہت اہم ہے اور یہ ایک عدالتی، مساوی اور بہتر معاشرتی نظام کی بنیاد ہے۔
(چرخہ فیچرز)