گزشتہ ہفتے مذکورہ بالا عنوان دیتے ہوئے ہم نے ’’اوڑھنی‘‘ کی قارئین سے گزارش کی تھی کہ اِس موضوع پر اظہارِ خیال فرمائیں۔ باعث مسرت ہے کہ ہمیں کئی خواتین کی تحریریں موصول ہوئیں۔ ان میں سے چند حاضر خدمت ہیں
EPAPER
Updated: December 29, 2022, 12:23 PM IST | Mumbai
گزشتہ ہفتے مذکورہ بالا عنوان دیتے ہوئے ہم نے ’’اوڑھنی‘‘ کی قارئین سے گزارش کی تھی کہ اِس موضوع پر اظہارِ خیال فرمائیں۔ باعث مسرت ہے کہ ہمیں کئی خواتین کی تحریریں موصول ہوئیں۔ ان میں سے چند حاضر خدمت ہیں
روایتی غذاؤں کی اہمیت بتائیں
گزشتہ دہائیوں میں ناشتہ میں باقاعدہ اہتمام کیا جاتا تھا پراٹھے، دودھ، انڈے، جَو کی روٹی اور دلیہ وغیرہ۔ دوپہر کے کھانے میں سبزی، مچھلی اور گوشت جیسی صحت بخش غذاؤں سے دسترخوان مزین ہوتا تھا اور رات کو مزید دو چار ڈشوں کے اہتمام کے ساتھ پھل کا ہونا لازم تھا لیکن اب ناشتے میں چائے اور بیکری سے تیار شدہ اشیاء کھائی جاتی ہیں۔ دوپہر اور رات کے کھانے میں بھی کوئی خاص روایتی پکوان تیار نہیں کیا جاتا بلکہ ہوٹلوں اور ڈھابوں کے کھانے کا رجحان بڑھتا جا رہا ہے۔ بچوں سے لے کر بڑے بوڑھوں کو فاسٹ فوڈ کھانے کی اس قدر عادت ہوگئی ہے کہ جب تک وہ یہ غذا کھا نہ لیں ان کا معدہ شکم سیر نہیں ہوتا۔ لہٰذا بچیوں کو فاسٹ فوڈ اور روایتی پکوانوں کے درمیان فرق بتائیں۔ روایتی پکوان کی اہمیت بتائیں تاکہ ان کی دلچسپی فاسٹ فوڈ کی طرف کم اور روایتی پکوانوں کی جانب زیادہ ہو۔
خان شبنم فاروق (گوونڈی، ممبئی)
کھانا بناتے وقت بیٹیوں کا ساتھ
آج بے حد مصروفیت کے چلتے ہر کوئی باہر کے کھانے پر منحصر ہونے لگا ہے۔ گھر پر کھانا بنانا جیسے کسی پہاڑ توڑنے کے برابر ہے۔ روایتی پکوان کا رواج تقریباً ختم ہوتا جا رہا ہے۔ بچوں کے ساتھ ساتھ بڑوں کا بھی رجحان جنک فوڈ کی طرف بڑھ رہا ہے جو صحت کیلئے نہایت مضر ہے۔ مستقبل میں صحتمند زندگی گزارنے کیلئے اشد ضروری ہے کہ آج کی مائیں خود گھر میں لذیذ پکوان بنائیں۔ ملازمت پیشہ خواتین کیلئے یہ ذرا مشکل ہے مگر ناممکن نہیں۔ مائیں کھانا بناتے وقت اپنی بیٹیوں کو بھی ساتھ رکھیں۔ خود بھی دلچسپی کے ساتھ نئے نئے انداز میں روایتی پکوان بنائیں اور گھر کے افراد کو خوبصورتی سے سجا کر پیش کریں۔ کبھی کبھی بچیوں سے فرمائش کریں کہ وہ فلاں فلاں لذیذ روایتی پکوان تیار کریں اور جب بچیاں پکوان بنا کر پیش کریں تو کسی کمی و بیشی کے باعث ان کے بنائے پکوان میں کوئی نقص تلاش کرنے کے بجائے ان کی تعریف کریں۔
ڈاکٹر روحینہ کوثر سیّد (ناگپور، مہاراشٹر)
ہفتے میں ایک پکوان ضرور بنوائیں
موجودہ دور میں لڑکیوں کا رجحان باورچی خانے کی جانب بہت کم ہو گیا ہے۔ وقت کی کمی اور محنت سے بچنے کیلئے زیادہ تر آسان اور جلد تیار ہونے والی چیزوں کو فوقیت دی جا رہی ہیں۔ لڑکیاں خاص طور پر فاسٹ فوڈ کھانوں کی شوقین ہوتی ہیں۔ یہی وجہ ہے کہ اب روایتی پکوانوں کو ترجیح نہیں دی جا رہی ہے۔ البتہ روایتی پکوانوں کی اپنی اہمیت اور افادیت ہیں، جن سے انکار نہیں کیا جاسکتا ہے۔ ماؤں کی ذمہ داری ہے کہ وہ روایتی پکوانوں کی اہمیت کو سمجھیں اور اس جانب بچیوں کو راغب کریں۔ یہ بات درست ہے کہ روایتی پکوانوں میں وقت اور محنت، دونوں درکار ہوتا ہے مگر ان کا ذائقہ چکھنے کے بعد بنانے والا ساری مشقت بھول جاتا ہے۔ مائیں اپنی بچیوں سے ہفتے میں کم از کم ایک پکوان ضرور بنوائیں اور پورے گھر والوں کے ساتھ مل کر کھائیں۔ اس طرح بچیاں ضرور روایتی پکوان بنانے کی جانب راغب ہوگی۔
آیت چودھری (آیت گنج، یوپی)
فاسٹ فوڈ بنام روایتی پکوان
روایتی پکوان سے مراد وہ پکوان ہیں جو خاص تہواروں کے موقعوں پر بنائے جاتے ہیں۔ اب سوال یہ پیدا ہوتا ہے کہ ان روایتی پکوانوں کے لئے بچیوں کو کیسے راغب کیا جائے جو فاسٹ فوڈ کھانے کی شوقین ہیں۔ وہ شارٹ کٹ پر یقین رکھتی ہیں۔ بچیاں ہی نہیں شادی شدہ خواتین بھی شارٹ کٹ پر یقین رکھتی ہیں۔ ہر چیز اب بازار کیا گلی گلی میں دستیاب ہے جو فوراً خرید کر استعمال کی جاسکتی ہے۔ اس لئے ان کا رجحان یا ان کی رغبت روایتی پکوان کی طرف مشکل سے ہی مائل ہوتی ہیں۔ پھر بھی ماؤں کو حتی الامکان کوشش کرنی چاہئے کہ ان کی بچیاں روایتی پکوان بنانا بھی سیکھیں۔ لڑکیوں کی تعلیم میں امورِ خانہ داری کی تربیت بھی شامل ہونی چاہئے۔ یہ ان کی معاشرتی زندگی میں انتہائی اہم ہے۔ سلائی، کڑھائی، پکوان کے مختلف اصول اور بچیوں کی پرورش کے طریقے بھی ان کے نصابِ تعلیم کا حصہ ہونے چاہئیں۔
نجمہ طلعت (جمال پور، علی گڑھ)
پرانے قصے بیان کرکے ترغیب دیں
ہم نے اکثر اپنی مما، خالہ، نانی اور بڑے لوگوں سے سنا ہے کہ آ دمی کے دل کا راستہ پیٹ سے ہو کر گزرتا ہے۔ اسی لئے پہلے زمانے میں اور آ ج کے وقت میں بھی کسی لڑکی کا کہیں رشتہ طے ہو جائے تو ماؤں کو سب سے پہلے اس بات کی فکر ستانے لگتی ہے کہ بچی کو اچھا کھانا بنانا سب سے پہلے آنا چاہئے تا کہ وہ جہاں بھی جائیں اپنی امورِ خانہ داری اور لذیز کھانے سے لوگوں کا دل جیت لیں۔ بدلتے وقت کے ساتھ ہم نے نہ صرف خود کو تبدیل کیا بلکہ بہت سے پرانے طور طریقوں کو بھی پیچھے چھوڑ دیا ہے، اسی میں ہمارے روایتی پکوان بھی شامل ہیں۔ آج ہر ماں کو چاہئے کہ وہ لڑکیوں میں روایتی پکوان بنانے اور انہیں سیکھنے کی ان میں جستجو پیدا کرنے کیلئے اپنے وقت اور زمانے کے قصوں سے انہیں متعارف کروائیں اور خود بھی وقتاً فوقتاً کسی خاص موقع پر روایتی پکوان بنانے کو ترجیح دیں۔ ساتھ ہی بیٹیوں کی حوصلہ افزائی بھی کریں۔
صبیحہ عامر (بھیونڈی، تھانے)