چھتیس گڑھ کی اس دوشیزہ کو گزشتہ دنوں منعقدہ’نیشنل یوتھ پارلیمنٹ فیسٹیول‘ میںبہترین تقریر پیش کرنے پرتیسرے انعام سے نوازا گیا تھا،انہیں سوشل میڈیا
پر خوب پذیرائی مل رہی ہے ،انقلاب سے گفتگو کرتے ہوئے ماہرہ نے نوجوانوںکو کئی مشورےدئیے، بات چیت پر مبنی اقتباس یہاں پیش کیا جارہا ہے
ماہرہ خان، مرکزی وزیر انوراگ ٹھاکراورلوک سبھا اسپیکر اوم برلا کےہاتھوں ٹرافی لیتے ہوئے۔(فائل فوٹو)
ماہرہ خان جنہیں گزشتہ دنوں’نیشنل یوتھ پارلیمنٹ فیسٹیول‘ مقابلے میںبہترین تقریر پیش کرنے پرتیسرے انعام سے نوازا گیا تھا، ان دنوں سوشل میڈیاپر کافی مقبول ہوچکی ہیں اور ہرطرف ان کی پذیرائی ہورہی ہے۔ماہرہ خان نے اپنی اس تقریرسے نہ صرف اپنی ریاست چھتیس گڑھ کا بلکہ پوری قوم کا سر فخر سے بلند کردیا ہے۔ اپنی پُر کشش آواز، منفرد لب و لہجہ اور دلنشیں انداز سے انگریزی میں پیش کی گئی تقریر کو ا نہوں نے ہندی کے اقوال اور اردو کے اشعار سے زینت بخشی ۔جب وہ تقریر کررہی تھیں تب پارلیمنٹ میں موجود سبھی سامعین ہمہ تن گوش رہنے پر مجبور ہوئے۔ سوم مقام پر رہنے والی اس تقریر نے نہ صرف یوٹیوب پر ریکارڈ توڑ کامیابی حاصل کی ہےبلکہ اول اور دوم مقام حاصل کرنے والی تقریروں کو بھی پیچھے چھوڑ دیا ہے۔ ان کی تقریر کا عنوان تھا ’پیس بلڈنگ اینڈری کنسیلی ایشن: اشرنگ اِن این ایرا آف نووار‘۔(قیام امن و استحکام: زمانہ امن کی طرف پیش قدمی )۔پارلیمنٹ کے سینٹرل ہال میں پیش کی گئی اس تقریر کو پارلیمنٹ ٹی وی سمیت متعدد نیوز چینلوں نے اَپ لوڈ کیا۔انقلاب سے خصوصی گفتگو میں ریاست چھتیس گڑھ کی دوشیزہ نے اپنی اس کامیابی سے متعلق کئی باتیں بتائیں۔ ماہرہ خان طالب علمی کے زمانے سے ہی اسکول کے ذریعے منعقدہ پروگراموں میں بڑھ چڑھ کر حصہ لیتی رہی ہیں۔
ماہرہ نے کہا ’’ مسلسل پروگراموں میں بڑھ چڑھ کر حصہ لینے کی عادت پروان چڑھی۔ تقریر کرنے کا فن آیا، اسکول اور کالج کی میں ہیڈ گرل بنی۔ ٹرائبل ائیریا میں کام کرنے کا موقع دستیاب ہوا۔ ساتھ ہی مطالعہ کا شوق بیدار ہوا اور ادبی ذوق پیدا ہوا جس سے میری پرسنالٹی بھی ڈیولپ ہوتی رہی ۔‘‘ ماہرہ نے آج کے نوجوانوں کی تعلیم کے تئیں عدم دلچسپی پر فکرمندی اور گہرے افسوس کا اظہار کرتے ہوئے کہا ’’ مجھے بہت کوفت محسوس ہوتی ہے جو آج کل کے نوجوانوں کا بیشتر وقت سوشل میڈیا، گیمز، سستی کاہلی اور نکڑ بازی میں گزرتا ہے۔ ایک رات میں آپ ہیرہ (ڈائمنڈ) نہیں بنتے۔ مہینوں کے رَت جگے اور برسوں کی محنت درکار ہوتی ہے تب آپ کو کسی فیلڈ میں انفرادی حیثیت حاصل ہوتی ہے۔ آپ ایک مقام حاصل کرنے کیلئے اتنی محنت کریں کہ اس میں آپ ماہر ہو جائیں، تب آپ کی سماج میں اس کام سے پہچان ہوگی اور لوگ آپ کو سننےکیلئے بے چین ہوں گے۔ میرا مقصد خود نمائی ہرگز نہیں مگر اب میں جس مقام پر ہوں اس کی قدر و قیمت ہے۔ چونکہ میں نے محنت و لگن سے یہ مقام حاصل کیا۔ اس مقام تک پہنچنا آسان کام نہیں۔‘‘
یوتھ پارلیمنٹ مقابلہ کی تفصیلات بیان کرتے ہوئے ماہرہ نے کہا کہ ’’اس مقابلہ میں شرکت کے لئے یہ میری دوسری کوشش تھی۔ یہ ایک مشکل ترین مقابلہ ہے جس میں انتخاب آسان نہیں۔ سب سے پہلے آپ اپنے ضلعی سطح افسر (این وائی کے ایس) کے رابطہ میں رہے۔ جہاں نوٹیفکیشن کے بعد آپ کو ضلعی سطح پر رجسٹریشن کرنا ہوتا ہے۔ مقابلے کی اچھی تیاری کر کے ضلع بھر میں اول، دوم مقام حاصل کرنا لازمی ہے جس کے بعد آپ کا مقابلہ اپنی ریاست کے ہر ضلع سے منتخب کردہ فاتح طلبہ سے ہوتا ہیں جن سے مقابلہ ہونے کے بعد اگر آپ اول، دوم اور سوم مقام حاصل کرتے ہیں تو آپ اپنی ریاست کے فاتح کہلاتے ہیں۔ اب آپ کا مقابلہ دیگر تمام ریاست کے فاتحین سے ہوتا ہے جہاں مقابلے کے بعد صرف وہی شرکاء جو پہلی، دوسری اور تیسری پوزیشن حاصل کرتے ہیں وہ قومی سطح کے مقابلہ کے لئے منتخب ہوتے ہیں اور ان میں سے ہر ریاست سے اول مقام حاصل کرنے والے کو پارلیمنٹ کے سینٹرل ہال میں ریاست کی نمائندگی کا موقع ملتا ہے۔جہاں پہلے دن مقابلہ کے لئے تقریر پیش کرنی ہوتی ہے اور دوسرے دن قومی سطح پر اول، دوم اور سوم انعام یافتگان کو اپنی تقریر معززین کے سامنے پیش کرنے کا موقع ملتا ہے۔‘‘یاد رہے کہ اس قومی سطح کے مقابلہ میں۲۹؍ ریاستوں کے۲؍ لاکھ سے زائد مقررین شریک ہوتے ہیں۔اس میں وہی طلبہ کامیاب ہو سکتے ہیں جن کا مطالعہ وسیع ہے، بچپن سے تقریری مقابلوں میں شرکت کا ذوق و شوق ہے ، زبان پر مہارت ہے، خود اعتمادی ہے اور محنت پر یقین ہے۔
ماہرہ نے تقریر سے متعلق پوچھے گئے سوال پر کہا ’’ میں نے پارلیمنٹ میں پیش کی گئی تقریر کو ایک ہی نشست میں لکھا لیکن میں اسے مسلسل اَپ ڈیٹ کرتی رہی۔ یہ تقریر چونکہ بین الاقوامی سطح تک پہنچتی ہے اسلئے اسکا اسٹرکچر اور اسکرپٹ بہت واضح اور موضوع سے قریب تر ہونا چاہئے۔ مختصر دورانیے کی تقریر اور اچھے مواد کیلئے تحقیق اور صاف نقطہ نظر ہونا ضروری ہے۔ میری تقریر ۵؍ منٹ۴۵؍ سیکنڈ کی تھی۔ چونکہ گزشتہ سال کی تقریر کا مجھے اچھا تجربہ تھا اسلئے مجھے عنوان کی مناسبت سے جامع تقریر تیار کرنی تھی۔ اسلئے میں نے چند نکات ذہن میں رکھ کر ان پر کام کرنے کا فیصلہ کیا۔‘‘
ماہرہ کے بقول’’ حکومت بہت سے کام کرتی ہے ، آپ کا ہر کام سے متفق ہونا ضروری نہیں لیکن کچھ ایسے کام ضرور ہوتے ہیں جو ملک کے مفاد میں بہتر ثابت ہوں (جیسے، صفائی مہم، تعلیم اور ہیلتھ کا شعبہ) انکی ستائش اور تشہیر ضروری ہے۔ میں نے فیصلہ کیا میں اپنی تقریر میں کچھ ایسے گوشہ رکھوں جن پر مختلف زاویوں سے بات کی جاسکے۔میں نے اپنی بات کو جامع انداز میں پیش کرنے کےلئے کچھ تاریخی حقائق، اقوال، اشعار اور مثالیں پیش کیں جن سے بات میں وزن پیدا ہو۔ الحمد للہ میری تقریر بہت اچھی رہی، خوب تعریف بھی ہوئی میں نے اپنی تقریر کا آغاز ہندی نظم سے کیا۔ بچپن سے ڈائری میں اہم اقوال واشعار کو لکھنے کی عادت سے اردو اشعار کے ساتھ اپنی تقریر ختم کرنے میں مدد ملی۔ جس کے ذریعے میں نے بہت جامع اور متاثر کن واضح پیغام دیا کہ’’بڑھے چلو، بڑھے چلو، یہ ندائے وقت ہے، یہ کائنات یہ زمیں، یہ کہکشاں کا راستہ، اسی پہ گامزن رہو،امن کی راہ پر چلو۔پُرمغز تقریر کی وجہ سے میں انعام کی حقدار کہلائی۔‘‘
یوتھ پارلیمنٹ میں تقریر کے خواہشمند نو جوانوں کیلئے ماہرہ خان نے کا پیغام یہ ہے’’ آپ کہیں بھی تقریر کریں، تقریر کے چند بنیادی اصول کو اپنانا نہایت ضروری ہے۔ چند جملوں میں اختصار کے ساتھ مدلل بات کہنے کیلئے موزوں الفاظ، محاوروں، ضرب المثل، کہاوتوں اور اقوال کے استعمال کے فن سے آپ کی واقفیت ضروری ہے۔ جس پلیٹ فارم سے آپ تقریر کررہے ہیں اس کے مقاصد کو مد نظر رکھتے ہوئے خوش اسلوبی سے اپنی بات کو پیش کرنا آنا چاہئے، تنقید برائے اصلاح ہو، اعداد و شمار کے ذریعے موضوع کو حقیقت سے قریب کیا جا سکتا ہے۔