ماں بچے کی شخصیت کو بہت متاثر کرتی ہے۔ بچہ ماں کی ہر بات کی نقل کرتا ہے۔ ماں کی ہر بات بچے کیلئے قابل ِ تقلید ہوتی ہے۔ وہ ماں کی حرکت کا بہت تجسس کے ساتھ باریک بینی سے عہد طفولیت ہی سے مشاہدہ کرتا ہے اورمشاہدہ کرتے کرتے انہیں اپناتا ہے۔ اس لئے پہلے اپنے قول و فعل پر قائم رہیں۔
بچوں کے چھوٹے چھوٹے جھوٹ کی حوصلہ افزائی ہرگز نہ کریں۔ تصویر : آئی این این
معاشرے میں ہر گھر کی حیثیت ایک اکائی کی ہوتی ہے۔ جب سب اکائیاں یعنی گھر ملتے ہیں تو معاشرہ بنتا ہے۔ اس معاشرے کے آئینہ میں یہ صاف دکھائی دے رہا ہے کہ ہمارے گھروں میں سچائی کا چلن کم سے کم ہوتا جا رہا ہے۔ سچائی کا فقدان ہے۔ سچائی پر سے یقین متزلزل ہونا یقیناً تشویش کا باعث ہے جس کے سبب ہمارے بچے ہماری نوجوان نسل میں بے یقینی کی کیفیت ہے۔ کیونکہ اب سچائی کا زمانہ نہیں رہا، ’’سچائی کی کوئی قیمت نہیں ہے....‘‘ کا شور چاروں طرف سے سنائی دے رہا ہے۔ اس شور کا دن بہ دن شدید سے شدید تر ہونا فکر کی بات ہے۔
اب جھوٹ کے نقارخانے میں سچائی کی آواز طوطی کی حیثیت ہی کیوں نہ رکھتی ہو یہ طوطی کی آواز جھوٹ پر بھاری پڑے گی۔ اس میں بڑی طاقت ہے۔ یہ ایک مسلم حقیقت ہے۔ کیونکہ سچائی ایک آفاقی اہمیت کی حامل ہے۔ اس کی افادیت ہر دور میں یکساں تھی، یکساں ہے اور یکساں رہے گی، اس میں کوئی تغیر ممکن ہی نہیں ہے۔ جب کوئی تغیر ممکن ہی نہیں ہے تو بھلے ہی شور شدید سے شدید تر کیوں نہ ہو کہ اب سچائی کا زمانہ نہیں رہا، سچائی کی کوئی قیمت نہیں رہی ہے ا س کے زیر سایہ جھوٹ کا بازار گرم ہو رہا ہے، دھوکے بازی، فریب دہی، نفرت اور انتقام اپنے عروج کی انتہا پر ہے۔ یقین جانئے یہ ایک عارضی دھوکہ ہے۔
پھر بھی اس عارضی دھوکے سے ہمارے بچے ضرور متاثر ہوتے ہیں ۔ ان میں تشدد پیدا ہو رہا ہے ہے۔ یہ وقت کا تقاضا ہے کہ ان کی اصلاح کی جائے۔ بحیثیت والدین آپ کس طرح اپنے گھر اور اپنے بچوں کو جھوٹ سے بچائیں گے، یہ بہت بڑا چیلنج ہے۔ مانا کہ یہ مشکل ضرور ہے مگر اس کے لئے کسی جادو کی نہیں صرف بہتر سے بہتر کوشش کی اشد ضرورت ہے۔
اس کوشش میں والدین اس بات کا تجزیہ کریں کہ آپ اپنے معاملات میں کس حد تک سچائی پر قائم ہیں ؟ کس حد تک آپ کے اپنے قول و فعل میں یکسانیت ہے؟ کس حد تک حق اور صداقت کی آواز پر آپ لبیک کہتے ہیں ؟ یہ تجزیہ آپ کو اپنے معاملات میں سچائی کے فقدان اور سچائی کی کمی کی نشان دہی کرے گا۔ یہ تجزیہ خود کی اصلاح کروائے گا خود کے معاملات میں سچائی کو فوقیت دینے میں اہم رول ادا کرے گا۔
کسی دانا کا قول ہے کہ دنیا میں کسی کو سدھارنا ہے کسی کو سنوارنا ہے کسی کی اصلاح کرنا ہے تو وہ کوئی اور نہیں خود کی ذات ہوتی ہے۔ اس لئے خود کی اصلاح کریں ۔ اپنے معاملات میں سچائی کو فوقیت دیں تب ہی آپ کو اپنے بچوں کی تربیت میں کامیابی ملے گی کیونکہ ایک بہتر انسان جس کا عمل سچائی پر مبنی ہے وہی دوسرے کے لئے مشعل راہ کا کام دے گا۔
کچھ نہیں ہوگا اندھیرے کو برا کہنے سے
اپنے حصے کا دیا ہم کو جلانا ہوگا
بچہ دین فطرت پر پیدا ہوتا ہے۔ وہ سچا ہوتا ہے۔ اس میں کوئی ملاوٹ نہیں ہوتی۔ جیسے جیسے وہ پروان چڑھتا ہے گھر کا ماحول والدین کی تربیت اس پراثر انداز ہوتی ہے۔ ریسرچ سے یہ بات ثابت ہوئی ہے کہ گھر کا ماحول اور گھریلو تربیت اس کی شخصیت پر گہرا اثر ڈالتی ہے۔ ماں بچے کی شخصیت کو بہت متاثر کرتی ہے۔ بچہ ماں کی ہر بات کی نقل کرتا ہے۔ ماں کی ہر بات بچے کے لئے قابل ِ تقلید ہوتی ہے۔ وہ ماں کی حرکت کا بہت تجسس کے ساتھ باریک بینی سے عہد طفولیت ہی سے مشاہدہ کرتا ہے اورمشاہدہ کرتے کرتے انہیں اپناتا ہے۔
ماہرین کی رائے میں ، بچے کی تربیت اور کردار سازی ۵؍ سال کی عمر تک ہوجاتی ہے۔ ان پانچ برسوں میں بچہ جو سیکھتا ہے جن خطوط پر تربیت کی جاتی ہے۔ آگے کی زندگی بھی اسی راہ پر چل پڑتا ہے۔ ایک عمل ہے کہ لوہے کو گرم کرنے کے بعد اس پر ضربیں لگائیں اس سے بھی بہتر یہ ہے کہ لوہے کو گرم کرتے کرتے اس پر ضربیں لگائیں تو ایک بہترین مجسمے کی تشکیل ہوگی۔
فطری طور پر بچے میں خیر و شر کے دونوں عناصر موجود ہیں ۔ والدین کی تربیت ان کے صاف و شفاف دل پر وہی تصویر ابھارتی ہے جس کی آبیاری کی گئی ہو۔ اس لئے تربیت کا عمل کچھ ایسا ہو کہ شر پر خیر غالب آجائے۔ جھوٹ پر سچائی کو فوقیت دی جائے۔ لیکن عملی طور پر ہوتا اس کے برعکس ہے۔ سچ کے بجائے جھوٹ کی آبیاری کی جاتی ہے۔ تربیت کا عمل گھر کے ماحول میں پلنے والا جھوٹ قول اور فعل کا تضاد، بچہ کو عہد طفولیت ہی سے متاثر کرتا ہے۔ اس پر ستم ظریفی یہ کہ جب بچہ چھوٹے چھوٹے جھوٹ بولتا ہے تو اس کی ستائش کی جاتی ہے اور یہ باور کروانے کی کوشش کی جاتی ہے کہ جھوٹ بولنا کوئی بری بات نہیں ہے۔ یہ عادت اس میں پختہ ہوجاتی ہے۔
والدین کو چاہئے کہ عہد طفولیت ہی سے سچائی کا فروغ ہو۔ اچھے اقدار کو اپنی تربیت کا مرکز بنائیں تو ایک بہت انسان کی تشکیل ہوگی۔