ستاد انسان کو جینے کا سلیقہ سکھاتا ہے لیکن جب انسان پیدا ہوتا ہے تو سب سے پہلے اپنی ماں کا لمس محسوس کرتا ہے۔ ایک ماں اپنے بچے کو بہتر انسان بناتی ہے یہی وجہ ہے کہ ماں کی گود کو بچے کی پہلی درسگاہ کہا گیا ہے۔ بچہ ماں ، باپ اور استاد، تینوں سے سیکھتا ہے۔ چونکہ بچہ اپنی ماں سے سب سے زیادہ قریب ہوتا ہے اسلئے وہ اپنی ماں کی تقلید کرتا ہے۔ یوں کہنا زیادہ بہتر ہوگا کہ ایک بچہ جب بڑا ہوتا تو اس میں اس کی ماں کا عکس جھلکتا ہے۔ ۵؍ ستمبر، یوم ِ اساتذہ کے موقع پر انقلاب نے یہ جاننے کی کوشش کی ہے کہ اولاد کی نظر میں اُس کی ماں ایک بہترین معلمہ کیوں ہے؟ ان کی رائے ملاحظہ فرمائیں
مائیں بچوں کے زیادہ قریب ہوتی ہیں اور ان کی نصیحتیں جلد قبول کرتے ہیں۔ تصویر:آئی این این
ماں نے ہمیشہ حوصلہ دیا
میری بہترین معلمہ میری والدہ ہیں ۔ بچپن، لڑکپن، جوانی اور ماں بننے تک زندگی کے مختلف ادوار میں ایک سائے کی طرح وہ ہمیشہ ساتھ رہیں ۔ ہمیشہ اپنی باتوں سے حوصلہ دیا ساتھ دیا۔ درد میں ہمیشہ مرہم بنیں ۔ رشتے نبھانے کا ہنر سکھایا۔ ان کی سادگی، ایمانداری، دی ہوئی تعلیمات، نصیحتیں ، بے لوث محبتیں جن سے میں نے ہمیشہ سیکھا اور کامیابی حاصل کی۔ مَیں بارہویں جماعت میں تھی اور پورے شہر میں اول پوزیشن حاصل کی تھی۔ خاص بات یہ ہوئی کہ تقسیم انعامات میں آڈیٹوریم سے میرے نام کے ساتھ میرے والدین کا نام پکارا گیا۔ وہ لمحہ میرے لئے بہت قیمتی تھا۔ اپنی قربتوں اور نمائندگی کی وجہ سے والد کی کمی محسوس نہ ہونے دی بلکہ ایسے مشکل وقت میں ماں کے ساتھ ساتھ والد کا کردار بھی بخوبی نبھایا۔ آج جو کچھ بھی ہوں ان کی وجہ ہی سے ہوں ۔n
صبیحہ عامر (بھیونڈی، تھانے)
بحیثیت معلمہ میری والدہ نے کئی طلبہ کی زندگی سنواری
میری والدہ محترمہ شکیلہ ناز ایک بہترین معلمہ ہے۔ انہوں نے ۱۵؍ سال تک اسکول میں بطور ایک معلمہ ہندی، اُردو اور مراٹھی میڈیم کے طلبہ کو تعلیم فراہم کیں جبکہ انہوں نے اپنی پوری تعلیم اُردو میڈیم سے حاصل کی ہے۔ وہ اپنے زمانے کے ایک بہترین معلمہ تھی۔ ایم اے بی ایڈ تھی اسکے باوجود وہ ریاضی بہت اچھا پڑھایا کرتی تھی۔ ہم نے اکثر دیکھا ہے کہ امتحانات کے دوران اور پڑھانے کے دوران بھی وہ گھر ہی سے کافی تیاری کرکے جاتی تھی۔ وہ ایک بہترین معلمہ تھی اس بات سے ثابت ہوتا ہے کہ جب کہیں انہیں ان کے طلبہ کسی مجلس میں مل جاتے ہیں تو وہ بڑے خلوص اور عزت کے ساتھ ملتے ہیں ۔ کسی وجوہات کی بنا پر امی کو یہ پیشہ ترک کرنا پڑا لیکن آج کل وہ آن لائن عربک کلاسیز لیتی ہیں ۔ انہوں نے اسکول میں کئی دفعہ مفت میں بھی پڑھایا ہے اور فی الحال وہ ۷۰؍ سال کی ہے۔
ڈاکٹر روحینہ کوثر سید (ناگپور، مہاراشٹر)
ہر قدم پر میری رہنمائی کی
مجھے یقین ہے کہ میری والدہ ایک بہترین معلمہ ہیں کیونکہ آج مَیں جو بھی ہوں وہ ان کی وجہ سے ہوں ۔ بچپن سے لے کر آج تک انہوں نے ہر قدم پر میری رہنمائی کی ہے۔ اسکول کے زمانے میں پڑھائی کے سلسلے میں مدد فرمائی ہیں پھر آگے چل کر گھر کے کام کاج، کھانا پکانا، صفائی ستھرائی غرض ہر ایک فعل میں ان کی رہنمائی حاصل رہی۔ الحمدللہ میرے ہاتھ کے بنے ہوئے کھانے سبھی کو پسند آتے ہیں مجھے اس ہنر میں ماہر کرنے میں سب سے بڑا ہاتھ میری امی جان کا ہے۔
مختلف مسئلوں سے کیسے نمٹنا ہے، کن مواقع پر صبر و تحمل سے کام لینا ہے، کن مواقع پر مناسب جواب دینا ہے، مہمانوں کی خاطر تواضع، پڑوسیوں سے بہترین میل جول، کسی کے دل دکھانے پر صبر سے کام لینا اور بدلے میں ان سے حسن سلوک روا رکھنا، یہ تمام باتیں میری امی نے مجھے سکھائی ہیں ۔ نماز روزوں اور قرآن پاک کی تلاوت سے محبت، یہ تو انہوں نے ہم بھائی بہنوں کو گویا گھٹی میں پلا دیا ہے۔ آج بھی مجھے کوئی مسئلہ درپیش ہو تو اپنی امی سے رہنمائی دریافت کرتی ہوں اور الحمدللہ ہمیشہ بہترین حل حاصل ہوتا ہے۔
رضوی نگار (اندھیری، ممبئی)
آگے بڑھنے کا حوصلہ ملتا ہے
ایک معلمہ میں جو خصوصیات ہوتی ہیں وہ سب میری والدہ میں ہیں ۔ وقت کی پابندی کے ساتھ ہر روز اسکول میں حاضر رہتی ہے۔ ان کی پہلی ترجیح درس و تدریس ہے۔ زندگی میں کتنی بھی پریشانیاں کیوں نہ ہوں وہ اپنے طلبہ کے سامنے ہمیشہ ہشاش بشاش رہتی ہے۔ میری والدہ صبر اور شجاعت کا پیکر ہے۔ اپنے شاگردوں کی چھوٹی چھوٹی کاوشوں کی بہتر انداز میں حوصلہ افزائی کرتی ہے تاکہ ان میں مزید آگے بڑھنے کا جذبہ پیدا ہو۔
انصاری قنوت وکیل احمد(بھیونڈی، تھانے)
نرم مزاج والی میری والدہ غلطی پر سختی بھی کرتی تھیں
آج میں جو کچھ بھی ہوں اپنے ماں باپ کی بدولت ہی ہوں ، خاص طور پر امی کی۔ انہی کی وجہ سے آج اپنےگھر ہی نہیں سسرال میں بھی میرا ایک مقام ہے عزت ہے۔ ابا تو صبح کے گئے رات کو گھر آتے تھے۔ دن بھر امی ہی ہوتی تھیں ۔ گھر کا کام وہ خود ہی کرتی تھیں ۔ ہم پانچوں بہنوں کی دیکھ بھال، ہمیں اسکول بھیجنا، ہوم ورک کا دھیان رکھنا، دینی تعلیم سے بھی غفلت نہیں برتی اور باقاعدگی سے مدرسے بھیجتی تھیں ۔ تھوڑے بڑے ہوئے تو گھر داری بھی سکھا دی۔ سلائی کرتی تھیں تو مجھے بھی ساتھ میں سکھاتی جاتی تھیں ۔ جتنی نرم مزاج تھیں کوئی غلطی کرنے پر اتنا ہی لتاڑ بھی دیتی تھیں ۔ کروشیے کا کام بھی میں نے امی ہی سے سیکھا۔ صحیح کہتے ہیں کہ ماں سے اچھی معلمہ کوئی نہیں ہوسکتی۔
یاسمین محمد اقبال (میرا روڈ، تھانے)