• Wed, 15 January, 2025
  • EPAPER

Inquilab Logo

میری مخلص سہیلی جسے مَیں کھونا نہیں چاہتی

Updated: August 03, 2023, 10:56 AM IST | Saaima Shaikh | Mumbai

گزشتہ ہفتے مذکورہ بالا عنوان دیتے ہوئے ہم نے ’’اوڑھنی‘‘ کی قارئین سے گزارش کی تھی کہ اِس موضوع پر اظہارِ خیال فرمائیں۔ باعث مسرت ہے کہ ہمیں کئی خواتین کی تحریریں موصول ہوئیں۔ ان میں سے چند حاضر خدمت ہیں۔

A friend who supports both good and bad times in life is called sincere
زندگی میں اچھے اور برے، دونوں وقت میں ساتھ دینے والی سہیلی مخلص کہلاتی ہے

مخلص سہیلی نصیب سے ہی ملتی ہے

انور سلطانہ میری بچپن کی بہت مخلص سہیلی ہے۔ اس کے ساتھ بہت ساری یادیں وابستہ ہیں۔ وہ ایک نیک دل، خوش اخلاق اور بہت اچھے نیک نامور والدین کی اولاد ہے۔ اس کی بہت ساری باتیں میرے دل پر نقش ہیں۔ وہ بھی مجھے بہت مانتی ہے اور ہمیشہ بہت خیال رکھتی ہے۔ ہر معاملے میں مجھ سے صلاح مشورہ کرتی ہے۔ میری شادی کو ۴۵؍ سال گزر چکے ہیں لیکن آج تک اس سے ویسا ہی رشتہ ہے جیسا بچپن میں تھا۔ اس نے میرا بہت سے معاملات میں بہت ساتھ دیا۔ میری شادی میرے دادا کے وطن شیرکوٹ سے ہوئی اور وہ میرے ساتھ ایک ہفتہ پہلے سے چلی گئی اور میری شادی کی تمام تیاریاں مکمل کروائیں۔ آج بھی وہ مجھے ہر کام میں، ہر خوشی اور ہر غم میں شریک رکھتی ہے۔ اپنا ہر غم اور ہر خوشی مجھ سے ظاہر کرتی ہے۔ جب بھی میں اپنے وطن بجنور جاتی ہوں تو وقت نکال کر اس سے ضرور ملتی ہوں۔ گھنٹوں باتیں کرنے کے بعد بھی ایسا لگتا ہے ملاقات ادھوری ہے۔ وہ اسکول کی ساتھی ہے۔ جب ہم ملتے ہیں تو اسکول کے زمانے کا ذکر ہماری بات چیت کا مرکز ہوتا ہے۔
نجمہ طلعت (جمال پور، علی گڑھ)
ہماری دوستی ایک جان دو قالب کی مانند ہے


حضرت علیؓ فرماتے ہیں: دوستی کرنا اتنا آسان ہے، جیسے مٹی سے مٹی پر لکھنا۔ لیکن دوستی نبھانا اتنا مشکل ہے جیسے پانی سے پانی پر لکھنا۔
 ہر عمر کے انسان کا ایک مخلص دوست ہوتا ہے جو اسے اچھے اور برے وقت میں سہارا دیتا ہے۔ کسی بھی انسان کو پیدا ہوتے ہی خونی رشتے خود بخود حاصل ہو جاتے ہیں لیکن دوستی ایک ایسا رشتہ ہے جو قربانی اور ایثار سے بنتا ہے۔ زندگی میں حقیقی دوستی کا حصول آسان کام نہیں ہے لیکن جب ایسا دوست مل جاتا ہے تو کوئی بھی اپنی سچی دوستی کو کسی قیمت پر نہیں کھونا چاہتا۔ ہر انسان کی طرح میری بھی ایک مخلص سہیلی ہے جو مجھے جان سے زیادہ عزیز ہے۔ وہ میرے سکھ دکھ میں ساتھ رہتی ہے اور مجھے بھی اس سے لگاؤ ہے۔ ایسی مخلص سہیلی کو خدا نہ کرے کہ میں کبھی کھو دوں۔ اسکے بغیر میں جینے کا تصور بھی نہیں کرسکتی کیونکہ ہماری دوستی ایک جان دو قالب کی مانند ہے۔ 
سیدہ نوشاد بیگم (کلوا، تھانے)
میری ایمانی دوست
صبح اور شام کی سرخی، شفق میری خالہ زاد بہن اور ساتھ ہی ساتھ ایک مخلص سہیلی بھی۔ بچپن کے دنوں میں تو ہماری تفصیلی ملاقات صرف نانی کے گھر پر ہی ہوتی تھی لیکن دھیرے دھیرے ہم ڈجیٹل زمانے میں داخل ہوتے گئے اور فون پر بھی ہماری گفتگو ہونے لگی اور اس دوران ہم صرف خالہ زاد بہن ہی نہیں بلکہ کافی اچھی سہیلی بن چکے تھے۔ یوں تو ہماری زندگی میں بہت سارے دوست ہوتے ہیں لیکن آپ کا مخلص اور سچا دوست وہی ہے جو آپ کو ایمان کے قریب لے کر جائے۔ آپ کی ہر بات پر ہاں میں ہاں ملانے کے بجائے آپ کو صحیح اور غلط کا فرق بتائے۔ آپ کی غلط بات پر آپ کو روکے۔ آپ کی اچھائیوں اور آپ کے نیک کاموں پر آپ کی حوصلہ افزائی کرے۔ زندگی میں ایک ایسے دوست کا ہونا کافی ضروری ہے اور میں خوش قسمت ہوں کہ میرے پاس ایک ایسی دولت اور ایک ایسی سہیلی ہے۔ مجھے آج بھی یاد ہے ابو کے انتقال کے بعد اس نے کس طرح مجھے سنبھالا تھا، میرا حوصلہ بڑھایا تھا۔ شکریہ میری ایمانی دوست۔ ایسے مخلص لوگوں کو بھلا کون کھونا چاہے گا۔
سارہ فیصل (مئو، یوپی)

ان تمام سہیلیوں کو میں کبھی کھونا نہیں چاہتی


صاف نیت کے ساتھ دنیا کے کسی وقتی فائدے کی توقع کے بغیر کئے جانے والے کام یا عمل کو خلوص کہتے ہیں۔ ہمارے اطراف موجود کئی لوگ مخلص ہوتے ہیں جو خلوص کے ساتھ ہمارا کام کرتے ہیں جن میں ہماری سہیلیاں بھی شامل ہیں وہ ہمارے دکھ سکھ میں ہمارا ساتھ دیتی ہیں۔ میری بچپن کی سہیلیاں (رشتے داروں میں میری ہم عمر لڑکیاں)، اسکول اور مدرسہ کی سہیلیاں، کالج کی سہیلیاں، جہاں میں ملازمت کرتی ہوں وہاں کی سہیلیاں ان سب نے ہر وقت خلوص کے ساتھ میرا ساتھ دیا اور میری مدد کی۔ ان کا میں دل کی عمیق گہرائیوں سے شکریہ ادا کرتی ہوں ساتھ ہی ساتھ ان تمام سہیلیوں کو میں کبھی کھونا نہیں چاہتی۔
عظیم النساء صاحب لال صوبیدار (شولاپور، مہاراشٹر)
شاذی تم میری سب سے اچھی سہیلی ہو


دوست خدا کی طرف سے عطا کیا گیا بہترین تحفہ ہے اور خدا نے ایسے کئی بیش بہا قیمتی تحفے مجھے بھی عطا کئے ہیں۔ لیکن میں یہاں جس کا ذکر کرنا چاہتی ہوں وہ ہزاروں میں نہیں لاکھوں میں ایک ہے۔ میری تحریروں پر تبصرہ کرنیوالی، ان پر مبارکباد دینے والی، میری خوشی میں خوش اور غم میں غمگین ہونے والی، اس کی دلفريب مسکراہٹ مجھے ہر غم اور تکلیف سے آزاد رکھتی ہے۔ اس کا نام ہے شاذیہ رفیق، جو کہ اب شاذیہ سلیم کے نام سے جانی جاتی ہے۔ وہ ایک اچھی ناول نگار، افسانہ نگار اور بہترین شاعرہ ہے۔ وہ نہ صرف ایک اچھی دوست ہے بلکہ اس سے بڑھ کر وہ ایک اچھی انسان بھی ہے۔  ہاں ! شاذی تم میری سب سے اچھی اور پیاری سہیلی ہو!
ساجدہ جمال (بھیونڈی، تھانے)
ہم سہیلیوں کی دوستیاں دوام پا رہی ہیں


طالب علمی کے زمانے کی سہیلیاں جنہیں میں کبھی کھونا نہیں چاہوں گی، ان میں نسرین، نرگس، یاسمین، عارفہ اور تبسم شامل ہیں۔ نسرین میری طرح بھیونڈی شہر میں سکونت پذیر ہے، انتہائی نرم دل اور مخلص ہونے کی وجہ سے ہم سہیلیاں اس کی قدر کرتے تھے۔ اسی طرح یاسمین ہے جو فی الحال دھولیہ شہر میں خوشحال زندگی بسر کر رہی ہیں۔ وہ روتی ہوئی سہیلی کے چہرے پر مسکراہٹ لے آتی تھی۔ عارفہ کو دین سے بڑا لگاؤ تھا۔ فی الحال وہ گجرات میں ہے اور اپنے سسرال میں خوش ہے اور دینی اجتماع اور تبلیغ کا کام کرتی ہے۔ ہم سہیلیوں کی دوستیاں دوام پا رہی ہیں۔ اسی لئے میں اپنی مخلص سہیلیوں کو کبھی کھونا نہیں چاہوں گی۔
نصرت عبدالرحمٰن (بھیونڈی، تھانے)
میری سہیلی میری امی


میری تو بہت ساری سہیلیاں تھیں اور ہیں۔ الحمدلله سب کی سب بے حد مخلص تھیں جو ہیں وہ بھی کم نہیں۔ لیکن ان سب میں جو میرے لئے سب زیادہ مخلص تھیں وہ میری امی جان عزیز آرا تھیں۔ ان کی زندگی میرے لئے ایک روایتی ماں سے قطعاً مختلف تھی۔ وہ مثالی شخصیت تھیں۔ ۹؍ اپریل ۲۰۱۰ء کو اللہ کو پیاری ہوگئیں۔ میرے لئے وہ ماں سے زیادہ میری سہیلی تھیں۔ جس طرح ننھے سے بچے کو اس کی انگلی پکڑ کر چلنا سکھایا جاتا ہے اسی طرح وہ میری دوست بن کر سدا میری رہنمائی کرتی رہیں۔ دنیا کہتی ہے کہ ’’وہ لحد میں محفوظ ہیں‘‘ لیکن کوئی مجھ سے پوچھے ’’وہ میرے دل میں رہتی ہیں اور سدا رہیں گی۔‘‘ یہ سچ ہے ’’میں انہیں کھونا نہیں چاہتی۔‘‘
ناز یاسمین سمن (پٹنه، بہار)
بیمار سہیلی کیلئے پریشان ہوگئی تھی


اپنی سہیلیوں سے میں نے بہت کچھ سیکھا ہے۔ میری سہیلیاں میری طاقت ہے۔ ان کی خوشی دیکھ کر میں خوش ہوجاتی ہوں اور انہیں غم میں مبتلا دیکھ کر پریشان ہو جاتی ہوں۔ لاک ڈاؤن کی بات ہے تب میری سہیلی تحسینہ شیخ کی طبیعت خراب ہوگئی تھی۔ یہ سن کر مَیں کافی پریشان ہوگئی تھی۔ اس وقت میرے پاس دعا کے علاوہ اور کوئی راستہ نہیں تھا۔ میں ہر وقت اس کی صحت یابی کے لئے اللہ تعالیٰ سے رو رو کر دعا کرتی رہتی تھی۔
 ربِ کریم نے میری دعا کو شرف قبولیت بخشا اور آج الحمدللہ وہ صحت یاب ہے۔ میں تحسینہ شیخ اور دیگر تمام سہیلیوں کو کبھی کھونا نہیں چاہتی۔
واحدہ تبسم آصف شاملیک (شولاپور، مہاراشٹر)
ہر مشکل میں وہ شانہ بنی


میری زندگی میں امی جان جو ہر دکھ سکھ میں پکی سہیلی ہیں، ان کے بعد ایک مخلص سہیلی ناہیدہ خان  ہے۔ یہ رشتہ اور وہ دل کی عمیق گہرائیوں سے زیادہ مجھے عزیز ہیں۔ سترہ سال پرانے اس رشتے میں زندگی کے نشیب و فراز اور غموں کی دھوپ میں وہ چھاؤں کی طرح ہمیشہ ساتھ رہی۔ ہر مشکل میں وہ شانہ بنی۔ اس کے احساس و فکر نے ہمیشہ یہ احساس دلایا کہ میری زندگی کی خوشیوں کے ساتھ آزمائش و کسوٹی کی راہ میں بھی وہ ساتھ ہے۔ شادی کے بعد ایک دوسرے سے دور ہونے کے باوجود ہمارے دل آج بھی جڑے ہوئے ہیں اور محبت میں کبھی کوئی فرق نہیں آیا۔ اپنی اس سہیلی کو میں کبھی بھی کھونا نہیں چاہتی۔
صبیحہ عامر (بھیونڈی، تھانے)

دوستی روح کا رشتہ ہے 
یہ انسان کا مزاج ہے کہ سگے رشتے ناطوں کے علاوہ کہیں نہ کہیں ایسے تعلقات کا خواہشمند ہوتا ہے جس سے اس کا روح کا رشتہ ہوتا ہے اور دوستی کا رشتہ بڑا بے غرض اور روح سے جڑا ہوتا ہے۔  اپنی سہیلیوں کی فہرست میں اگر میں کسی ایک کا نام لوں تو شاید یہ حق تلفی ہو جائیگی کیونکہ میری زندگی کو سنوارنے میں مربیان کے علاوہ میری وہ سب سہیلیاں شامل ہیں جو مسلسل نو سال تک میرے ساتھ اخلاص کے ساتھ رہیں۔ بسا اوقات بوقت ضرورت ان سے رابطہ منقطع ہو جانا اس بات کی دلیل نہیں کہ میں نے انہیں کھو دیا ہے بلکہ وہ ہمیشہ میرے ساتھ ہیں اور میری دعاؤں میں ہی شامل ہیں۔ کسی بھی معاملے میں ان کا حوصلہ بڑھانے کا انداز آج بھی بڑا نرالا ہوتا ہے۔ ملاقات ہو جانے پر آغاز گفتگو ہی کچھ ایسا ہوتا ہے کہ آخر تک ہنسی نہیں رکتی۔ کہنے کو یہ سب مجھ سے اتنی دور ہیں کہ شاید تاحیات ملاقات نہ ہو سکے مگر آج بھی کبھی اگرفون پر گفتگو ہو جائے تو رگ و پے میں سکون سا اتر جاتا ہے۔
 یہ میری وہ سہیلیاں ہیں جنہیں میں کبھی کھونا نہیں چاہتی ہوں۔ 
سحر جوکھن پوری (جوکھن پور، بریلی)
تاحیات ان کی دوستی سے سرشار ہوتی رہوں ....


زندگی میں کئی لوگ ملتے ہیں اور بچھڑ جاتے ہیں مگر کچھ لوگ ایسے ہوتے ہیں جن کے وجود کی چھاپ ہمیشہ ہمارے دلوں پر قائم رہتی ہے۔ ایسی ہی میری دو سہیلیاں ہیں صبا شاداب اور فرزانہ شیخ۔ ہماری ملاقات ڈی ایڈ میں ہوئی تھی۔ بہت ہی مختصر عرصے میں ہم میں گہری دوستی ہو گئی تھی۔ کالج کے دوران اپنے ٹفن سے لے کر دکھ سکھ میں سب ساتھ رہتے تھے اور اب بھی رابطے میں ہیں۔ میں بے حد خوش نصیب ہوں کہ یہ دونوں میری زندگی کا حصہ ہیں۔ ہم اب بھی ایک دوسرے سے ملتے ہیں۔ اپنے دکھ سکھ بانٹتے ہیں۔ میں اللہ کی شکر گزار ہوں کہ اس مصروفیت والے دور میں بھی میرے پاس ایسی سہیلیاں موجود ہیں جو نہ کہ مجھے سنتی ہیں بلکہ میری اصلاح بھی کرتی ہیں اور وقتاً فوقتاً اپنی رائے سے بھی فیضیاب کرتی ہیں۔ میں اللہ کی بارگاہ میں دعا گو ہوں کہ تاحیات ان کی دوستی سے سرشار ہوتی رہوں ۔
مومن رضوانہ محمد شاہد (ممبرا، تھانے)
میری یہ تحریر اور جذبات اس کیلئے....
زندگی کی راہ میں مختلف دور میں الگ الگ وقتوں میں کئی دوست بنے۔ کسی سے وقتی دوستی رہی کسی سے آج بھی ہے مگر ملنے کے، بات کرنے کے مواقع نہیں ملتے مگر میری ایک دوست ایسی ہے جو بچپن سے میرے ساتھ ہے۔ ملاقات تو جلدی نہیں ہوتی مگر بات کچھ اس طرح ہوتی ہے کہ بھرپور ملاقات کا لطف آتاہے۔
 وہ میری نہ صرف کزن بہن ایک بے تکلف دوست، ہمدرد، ہمدم اور غمگسار ہے۔ ہم دونوں ایک دوسرے کے مشکل وقت میں بھی ایک دوسرے سے وابستہ رہے۔ ہنسے بھی مل جل کر اور اشک بھی بہائے ساتھ ساتھ۔ خود کے لئے بھی روئے ایک دوسرے کے پاس اور ایک دوسرے کے لئے بھی اور ایسی مخلص سہیلی کو کھونے کی سوچ اگر خواب میں بھی تکلیف دے تو میں یہ سوچوں ہی کیوں؟ بہت دعائیں اس کے لئے بھی اور ہماری دوستی کے لئے بھی۔ اللہ یوں ہی بنائے رکھے ہماری دوستی (آمین)۔ اس سہیلی کا نام منیرہ الاسکر ہے۔ میری یہ تحریر اور جذبات اس کیلئے۔ 
شاذیہ سلیم شیخ 
(میرا روڈ، تھانے)
آج پھر ہم سب سہیلیاں ساتھ ہیں


میری دوستی کا دائرہ اگر بہت وسیع تو نہیں، تو بہت مختصر بھی نہیں، ہاں مگر کوئی ایک ایسی سہیلی ہوتی ہے جو ہمارے لئے بہت مخلص ہوتی ہے، ایسی ہی ہے میری سہیلی ثمینہ۔ ہم لوگوں کی دوستی تقریباً ۳۵؍ سال پرانی ہے، ہم لوگ کزنز ہیں اس لئے کبھی ایک دوسرے کے گھر آنے جانے کا بھی کوئی مسئلہ نہیں رہا۔ اسکول میں جو ساتھ تھا وہ تو تھا ہی ساتھ ہی کوچنگ بھی ہوگئی تو زیادہ تر وقت تو ہم لوگوں کا ساتھ ہی گزرتا تھا، اور وہ کچھ عمر کا دور ایسا تھا، جس میں ایک چھٹی کا دن بھی بڑا طویل لگتا تھا، ہم لوگوں کی باتیں تھیں جو ختم ہونے کا نام ہی نہیں لیتی تھیں، پتہ نہیں کہاں سے اتنی باتیں کرلیتے تھے۔ شادی کے بعد کچھ عرصہ یہ سلسلہ منقطع ہو گیا تھا مگر پھر مصروفیت سے وقت نکال کر آج پھر ہم سب سہیلیاں ساتھ ہیں۔ اللہ نہ کرے کہ کبھی وہ برا وقت ہم لوگوں کی زندگی میں آئے جو ہم لوگوں کو ایک دوسرے سے جدا کرے۔
فرح حیدر (اندرا نگر، لکھنؤ)
مجھے خالدہ سے بے حد لگاؤ ہے
اس دنیا کا سب سے انمول اور بے غرض رشتہ دوستی ہے۔ ہر شخص کی زندگی میں دوست بہت ہی اہمیت کا حامل ہوتا ہے۔ یہ روحانی رشتہ روز ازل سے چلا آ رہا ہے۔ میری زندگی میں کافی ساری سہیلیاں بنیں۔ لیکن جو محبت اور لگاؤ مجھے خالدہ سے ہے وہ کسی اور سے نہیں۔ اسکول میں کتنی ساری شرارتیں ہم نے مل کر کی ہیں، اسکول کے دنوں کی اتنی ساری یادیں ہمارے ذہن میں آج بھی محفوظ ہے کہ جنہیں ہم کبھی بھولے سے بھی نہیں بھولنا چاہیں گے۔
 ہماری دوستی کی مدت تقریباً پانچ سال تک رہی اور اتنے ہی دنوں میں میں نے اپنی زندگی کے خوشگوار لمحوں کو جی بھر کے گزارا۔ خالدہ خوش مزاج اور شرارتی تھی اس کی وجہ سے کلاس کا ماحول ہمیشہ خوشگوار رہتا تھا۔ خالدہ کے ساتھ کبھی بوریت محسوس ہی نہیں ہوئی۔ ہم نے زندگی کے ان لمحات کو اتنے پیار اور محبت سے گزارا کہ اب بھی جب کبھی وہ لمحے یاد آتے ہیں تو ہمارے چہرے پر مسکان خودبخود آجاتی ہے۔ بس اسی وجہ سے میں اپنی پیاری سہیلی خالدہ کو کبھی کھونا نہیں چاہوں گی۔ 
فریحہ سرفراز احمد (اعظم گڑھ، یوپی)

ہمارا دن ایک دوسرے سے بات کئے بغیر نہیں گزرتا


ویسے تو میرے کئی سارے دوست ہیں لیکن میری ایک خاص سہیلی ہے مرجینا جسے میں ہرگز کھونا نہیں چاہتی۔ میں چاہتی ہوں کہ وہ میرے ساتھ تاحیات رہے۔ ہماری دوستی میں کوئی لین دین نہیں ہے۔ ہم صرف ضرورت پڑنے پر ایک دوسرے سے بات نہیں کرتے بلکہ ہمارا دن ایک دوسرے سے بات کئے بغیر نہیں گزرتا۔ وہ میری ہر چیز میں مدد کرتی ہے اور اس کے بدلے میں وہ مجھ سے کچھ نہیں چاہتی۔ ہماری دوستی ایک مثال ہے اور میرے لئے مرجینا بہت اہمیت رکھتی ہے۔ 
صدف الیاس شیخ (تلوجہ)
 مجھے عشرت یاد آجاتی ہے....


چوتھی جماعت میں تھی جب میری ملاقات عشرت سے ہوئی تھی۔ بعد میں مجھے پتہ چلا کہ وہ میرے گھر کے قریب ہی میں رہتی ہے بس پھر کیا تھا ہم دونوں زیادہ تر وقت ایک ساتھ گزارنے لگے۔ چونکہ عشرت کے والدین ملازمت پیشہ تھے اس لئے وہ دن بھر تنہا رہتی تھی۔ اس وجہ سے میں اسے اپنے ساتھ لے آتی تھی۔ ہم ساتھ کھاتے، اسکول کا ہوم ورک کرتے، یوں پورا دن ایک ساتھ گزارتے تھے۔ کم عمر میں اس کی شادی گاؤں میں کر دی گئی پھر ہماری کبھی ملاقات نہیں ہوئی۔جب بھی مخلص سہیلی کا ذکر آتا ہے تو مجھے عشرت یاد آجاتی ہے۔ 
شاہدہ وارثیہ (وسئی، پال گھر)
کتابیں ہی میری مخلص سہیلی ہے


اسکول ختم ہوتے ہی ساری سہیلیاں چھوٹ گئیں، کالج میں نئی سہیلیاں بنیں جنہوں نے بعد میں مختلف اضلاع کی یونیورسٹیوں میں داخلہ لیا۔ ایسے میں جس نے میرا ساتھ کبھی نہیں چھوڑا وہ ہیں ’’کتابیں‘‘۔ کتابیں جو اچھے، برے کی تمیز سکھاتی ہیں، ہمارے آباء و اجداد کی بہادری کے قصے سناتی ہیں، وطن عزیز سے محبت کرنا سکھاتی ہیں، کبھی ’’پریم چند‘‘ کے افسانوں سے رلاتی ہیں اور کبھی ’’دلاور فگار‘‘  کی نظموں سے ہنساتی ہیں۔ زندگی سے بھری یہ کتابیں ہی تو ہیں جو مطالعہ کے بعد ہمیں اور آپ کو معزز و محترم بناتی ہیں۔ مختصر یہ کہ کتابیں ہی میری مخلص سہیلی ہے جسے میں کھونا نہیں چاہتی۔n    عصمت آفرین (گیا، بہار)
اس کی قربانی زندگی بھر یاد رہے گی


 میری زندگی میں کئی سہیلیاں ہیں اور ان کے ساتھ کافی بہتر تعلقات بھی ہیں مگر ایک ہی مخلص سہیلی ہے جو میری ہم نام، ہم عمر، ہم جماعت اور آج ہم پیشہ ہے جس کا نام قمر جہاں ہے۔ ۱۷؍ سال پرانی بات ہے۔ ہم ڈی ایڈ کالج میں داخلہ لینے گئے وہاں صرف ایک سیٹ موجود تھی جس میں وہ آسانی سے داخلہ لے سکتی تھی مگر میرا ساتھ دینے کیلئے اس نے اس کالج کا انتخاب نہیں کیا بلکہ جس کالج میں مجھے داخلہ مل رہا تھا اس کالج میں میرےساتھ داخلہ لیا۔ اس قربانی کو میں زندگی بھر نہیں بھول سکتی۔ اللہ ہماری محبت ہمیشہ برقرار رکھے ۔
قمر النساء جمیل احمد  (مالونی، ملاڈ)

women Tags

متعلقہ خبریں

This website uses cookie or similar technologies, to enhance your browsing experience and provide personalised recommendations. By continuing to use our website, you agree to our Privacy Policy and Cookie Policy. OK