ہم اللہ کی رحمت کے ہمہ وقت طلبگار ہوتے ہیں۔ جب وہ کہتا ہے بیٹیاں رحمت ہیں تو اس کے معنی کیا ہوتے ہیں ؟ یہ ایک جامع بات ہے اس کا مطلب ہر عورت کسی کی بیٹی ہے خواہ وہ کسی رشتہ سے وابستہ ہو، کیا اس رحمت کا اکرام ویسے ہی ہوتا ہے جو اس کا منصب ہے؟ عالمی یوم ِ خواتین کے موقع پر اس سوال پر غور کرنے کی ضرورت ہے۔
کیا ایک باعزت اور پرسکون زندگی ہر ذی شعور کا حق نہیں؟ یہ چبھتا ہوا سوال اپنے آپ سے پوچھئے۔ تصویر: آئی این این
وہ دن جو نکھری اور فرحت بخش روشن صبح کے ساتھ شروع ہوتا ہے وہ بھی دنیا کی ارزانی دیکھ کر شام ڈھلے سرخ ہو جاتا ہے۔ گوتم بدھ کو برگد کے سائے میں یہ گیان ملا کہ جیون دکھ ہی دکھ ہے مگر میرا عقیدہ مجھے سوال پوچھنے پر اکساتا ہے۔ مذہب یہ کہتا ہے کہ خالق ایک تو مخلوق میں فرق کیسا! لیکن یہ فرق تو روا رکھا گیا کسی کو بڑھانے اور کسی کو گھٹانے کیلئے۔ انسانی تاریخ کی عظیم خواتین بی بی ہاجرہ، بی بی آسیہ جو تین عظیم المرتبت انبیا ٔسے نسبت رکھتی ہیں مسلمانوں کی تاریخ میں فراموش کرنے کی کامیاب کوشش کی گئی۔ بی بی مریم کو عیسائیوں نے جگہ دی لیکن توازن قائم نہیں رکھا جبکہ معجزے کے ذریعہ یہ بات ہمیں سمجھا دی گئی کہ عیسیٰ ؑ ابنِ مریم ہوسکتا ہے یعنی تخلیق کی صعوبتوں کیلئے وجودِ نسائی ہی وہ ظرف اور ہمت رکھتا ہے جو اس کے قدموں کے نیچے جنّت رکھ دیتا ہے لیکن نام نہاد پرو پیگنڈہ کے تئیں اس کا وجود ہی قدموں کے نیچے ہوتا ہے۔ اس کڑوی سچائی کو شہد میں لپیٹ کر جائز قرار دیا جاتا رہا۔ ہم اللہ کی رحمت کے ہمہ وقت طلبگار ہوتے ہیں۔ جب وہ کہتا ہے بیٹیاں رحمت ہیں تو اس کے معنی کیا ہوتے ہیں ؟ یہ ایک جامع بات ہے اس کا مطلب ہر عورت کسی کی بیٹی ہے خواہ وہ کسی رشتہ سے وابستہ ہو، کیا اس رحمت کا اکرام ویسے ہی ہوتا ہے جو اس کا منصب ہے؟ حاکم اور محکوم ہونے میں فرق ہوتا ہے، آدابِ بندگی اور آزارِ غلامی میں تفاوت ہوتا ہے۔ غلام گر دشیں کتنی ہی مزین کیوں نہ ہوں آزادی کا جھونکا وہاں سانس نہیں لیتا۔ ہر بندہ کو اللہ نے آزاد پیدا کیا ہے، اپنی بندگی اور اطاعت کیلئے بھیجا گیا لیکن اطاعت کیلئے محبت شرط ہے نہ کہ جبر۔ ہمارے معاشرے میں ایک طبقہ کیلئے صرف چاکری ہے جسے سگھڑاپے کا نام دے کر اس لفظ کے مفہوم کو بدل دیا گیا ہے۔ ہمارا مذہب سلامتی اور عدل کا ہے لیکن مساوات کی زبان ہمارے معاشرے میں سلب کر لی گئی جس نے اسے سیکھا، اس نے سمجھانے کی کوشش نہیں کی کیونکہ اسے سرکشی قرارا دے دیا گیا اس میں وہ خواتین جو منافقت کو قلم، کتاب، علم اور سوالات کے ذریعہ چیلنج کرنا چاہتی تھیں انہیں مغرب زدہ اور بھٹکا ہوا قرار دے دیا گیا۔
مولانا آزاد کا قول ہے کہ اہل ِ اقتدار کو جب بھی کسی سے خطرہ لاحق ہوا تو مفتی کے قلم اور سپہ سالارکی تلوار نے یکساں کارنامہ سر انجام دیا۔ لوگ آتے ہیں اور جاتے ہیں ہر انسان کے ساتھ ہم ایک انفرادی کہانی کھو دیتے ہیں، اس کے ساتھ بہت سی ہلاکتوں کو بھی۔ کب سیکھنے کی ترغیب اسلحہ کو پیچھے کر دے گی؟ کب خالی صفحات کہانیوں سے قلمبند ہوں گے؟ کب سیکھا ہوا بھلانے کی کوشش ہوگی؟ یعنی تعلیم صرف پیٹ بھرنے کیلئے نہیں بلکہ دماغوں کو سوچنے کی صحیح خوراک بھی مہیا کرسکے گی۔ کہتے ہیں ایک تعلیم یافتہ خاتون پورے خاندان کو فیضیاب کرتی ہے لیکن میرا یہ ماننا ہے ایک با شعور خاتون پوری قوم کو آزاد کرتی ہے۔ مجھے امید ہے کہ مساوات کی زبان کو اب ترجمہ کی ضرورت نہیں رہے گی۔ مرکزی دھارے میں ابلاغ بننے کا وقت آچکا ہے جو تعلیم کے حروف تہجی کی حیثیت اختیا کر لے گا۔
شریعت صرف صحرا نوردوں کیلئے نہیں اتری تھی جن کی کرسیوں کے نیچے سے تیل نکل آیا ہے بلکہ پوری انسانیت کیلئے ہے۔ ترقی یافتہ ممالک کی ترقی کے اسباب کیا ہیں؟ یہ بھی جاننے کی ضرورت ہے۔ ہمارے یہاں متوازن غذا، صحتمند ماحول، جسمانی ورزش، سیر ان تمام سہولتوں سے عام طور سے خواتین کو محروم رکھا گیا ہے اور ہم ایسی نسل چاہتے ہیں جو آئیڈیل ہو۔ جن ماؤں کی زندگی خوف میں بسر ہو رہی ہے جو نام نہاد ناموس کے نام پر رُل رہی ہیں ان کی آغوش میں جرأت مند افراد کیسے پرورش پا سکتےہیں؟ جرأت کا مطلب ہتھیار چلانا نہیں اپنی ہستی کو معتبر رکھنا ہے، کسی کے حق اور احترام میں اپنا زیاں بھی گوارا کر لینا ہے۔ دراصل ہم ایسا ہی معاشرہ چاہتے ہیں جو اپنی کاہلی اور کوتاہ بینی کو قناعت کا نام دیتا ہے جن کے نزدیک اشرف المخلوقات ہونا اہم نہیں، جس طرح نباتات، جمادات، پرند چرند جی رہے ہیں ہم بھی عمر گزار رہے ہیں اور اس بونوں کی بھیڑ میں کوئی دراز قد نکل آئے تو اس سے دشمنی نبھانا فرضِ اوّلین ہوتا ہے اور زبان کا سب سے آسان اور ارزاں ہتھیار فتویٰ نافذ کرنا ہوتا ہے۔
یہ کون سا جذبہ ہے جو صرف لینا جانتا ہے۔ رہی بات ظرف کی تو اب یہ لفظ لغت سے خارج ہے۔ دراصل علم کی ابتدا کلام سے ہے۔ سب سے عظیم معجزہ میں بھی رب کائنات مخا طب ہے جو کلامِ الٰہی ہے، اس کا اسلوب سوالیہ ہے۔ ہم نے کلام اور سوال دونوں کو پس پشت ڈال دیا جوا ظہار کی قدرت رکھتا ہے اسے ذلیل کردو جو سوال پوچھتا ہے اسے بد تمیز قرار دےدو،اپنے تلخ رویوں اور درشت لفظوں سے بحث کرنے والے شرعی حلیوں کی معزز اشرافیہ کو یہ معلوم ہی نہیں کہ یہ ہمارے رویہ ہی ہوں گے جو آخرت میں ہما ری سکونت اور رفاقت طے کریں گے۔ ایک رویہ نفس کے اردگرد گھومتا ہے دوسرا خدا کے۔