• Sun, 08 September, 2024
  • EPAPER

Inquilab Logo

اوڑھنی اسپیشل: کوئی ایسا واقعہ جہاں آپ کا صبر کام آگیا

Updated: July 22, 2024, 12:58 PM IST | Saaima Shaikh | Mumbai

گزشتہ ہفتے مذکورہ بالا عنوان دیتے ہوئے ہم نے ’’اوڑھنی‘‘ کی قارئین سے گزارش کی تھی کہ اِس موضوع پر اظہارِ خیال فرمائیں۔ باعث مسرت ہے کہ ہمیں کئی خواتین کی تحریریں موصول ہوئیں۔ ان میں سے چند حاضر خدمت ہیں۔

Woman Smiling. Photo: INN.
صبر انسان کو اندھیرے سے روشنی کی طرف لے آتا ہے۔ تصویر: آئی این این۔

وہ حادثہ انتہائی دردناک تھا


ایک بار ایسا واقعہ پیش آیا کہ میں اپنے چھوٹے بیٹے کو اسکوٹی سے اسکول سے لینے کیلئے جارہی تھی تبھی پیچھے بائیک سوار مسلسل ہارن بجا رہا تھا۔ میں دھیرے چلاتی ہوں تو مجھے لگا کہ پیچھے والے کو جلدی ہے میں نے اپنی اسکوٹی لیفٹ سائیڈ کرلی۔ وہ لڑکا فوراً آگے بڑھا اور ڈیوائیڈر سے ٹکرا گیا اور اسی وقت اسے سر میں چوٹ لگنے کی وجہ سے مرگی آنے لگی منہ سے جھاگ نکلنے لگا۔ وہ اپنے ہاتھ پیر پٹخنے لگا۔ میں یہ سارا منظر دیکھ رہی تھی۔ میری آنکھوں میں آنسو بھر گئے۔ میں سوچنے لگی اگر میں نے اسے آگے جانے کا راستہ نہ دیا ہوتا تو شاید یہ حادثہ میرے ساتھ ہونے والا تھا۔ یہ سوچ کر اللہ کا شکر ادا کرکے میں آگے بڑھ گئی۔
شاہدہ وارثیہ (وسئی، پال گھر)
یہ واقعہ یاد ہے ڈراؤنے خواب کی طرح
۱۹۹۵ء کا وہ واقعہ جس کی یاد سے آج بھی رونگٹے کھڑے ہوجاتے ہیں۔ ہوا یوں کہ اپنی خالہ ذات بہن کی شادی میں ہم سب دربھنگہ سے پٹنہ جا رہے تھے۔ صبح ۷؍ بجے گھر سے پوری فیملی بذریعہ گاڑی روانہ ہوئی۔ ایک گھنٹے کا سفر ہی گزرا تھا کہ پیچھے سے ایک بس نے ہماری گاڑی کو زبردست ٹکر ماری جبکہ گاڑی روڈ کے کنارے کھڑی تھی۔ گاڑی نیچے کھائی میں گرتی چلی گئی ہم سب کی چیخ نکل گئی اور موت کو سامنے کھڑا پایا۔ سب کی زبان پر کلمہ شہادت اور اللہ سے دعا جاری تھی کہ اچانک گاڑی ایک درخت سے ٹکرائی اور رک گئی۔ ہم لوگ ایک جھٹکے سے رک گئے۔ ہوش آیا تو گاڑی الٹی ہوگئی تھی۔ آگے کا شیشہ ٹوٹ چکا تھا۔ اسی راستہ سے ہم لوگ باہر نکلے۔ سبھوں کو چوٹ آئی کسی کو خون بھی نکل رہا تھا۔ میرے شوہر کو زیادہ چوٹ آئی تھی۔ ہم لوگ گھر لوٹ آئے۔ کچھ دن علاج جاری رہا اور سبھی صحت یاب ہوگئے۔ آج بھی یہ واقعہ یاد ہے ڈراؤنے خواب کی طرح۔ واقعی اُس دن ہمارا صبر کام آگیا اور نئی زندگی ملی شکر ہے اللہ کا!
سلمہ صلاح الدین (دربھنگہ، بہار)
بس اس مقام پر مَیں نے صبرکا دامن  تھامے رکھا
۱۰؍ مارچ ۲۰۲۲ء کی شام ہم ابّا جان کی خیریت معلوم کرنے گئے۔ ابّا کی طبیعت کئی دنوں سے ناساز تھی۔ کمرے کے باہر بیٹھی چھوٹی بہن نے بتایا کہ ابّا ٹھیک نہیں ہے اور ابّا سے ملنے کے بعد مجھے بھی فکر لاحق ہوگئی۔ اس کے باوجود ابّا کہہ رہے تھے ’’مَیں ٹھیک ہوں۔‘‘ ان کی حالت کو دیکھتے ہوئے ہم انہیں ڈاکٹر کے پاس لے گئے۔ وہاں ان کا علاج شروع ہوا۔ ہماری زبان پر صرف ان کی صحت یابی کی دعا تھی۔ لیکن اللہ کو کچھ اور منظور تھا۔ ابّا جان ہمیں چھوڑ کر اپنے حقیقی مالک سے جاملے۔ وہ بے حد مشکل وقت تھا۔ وہ باپ جو ہمارے سرد گرم موسم میں گھنی چھاؤں کی طرح ہم پر سایہ فگن تھا۔ جس نے حسب استطاعت ہماری ہر ضرورت کو پورا کیا، شادی کے بعد بھی بیٹیوں کی فکر کرتے رہے، ان کے وجود سے ہم محروم ہوگئے۔ بس اس مقام پر مَیں نے صبر کا دامن تھامے رکھا۔ ان کی جدائی کے غم کو حد سے تجاوز نہیں ہونے دیا۔ گھر، شوہر اور بچوں کی ذمہ داری سنبھالی۔ کچھ ہی دنوں میں رمضان کا مہینہ شروع ہوچکا تھا، مَیں نے خود کو عبادت میں مصروف کر لیا۔ صبر اور ایمان کی طاقت نے میرے دل کو تقویت پہنچائی۔
بنت شبیر احمد (ارریہ، بہار)
مَیں نے امی کو بہت سمجھایا لیکن وہ نہیں مانی


یہ اُس وقت کی بات ہے جب مَیں دہم جماعت میں پڑھتی تھی۔ ہمارے اسکول سے سبھی طلبہ کو پکنک پر ایسل ورلڈ لے کر جانے والے تھے۔ سبھی طلبہ کو پکنک کی فیس ۱۰۰؍ روپے لانے کو کہا گیا۔ مَیں نے گھر آکر امی ابو سے پکنک اور فیس کے بارے میں بتایا۔ ۱۰۰؍ روپے اُس وقت بہت زیادہ تھے لیکن کسی طرح فیس کا انتظام ہوگیا اور ساتھ ہی امی نے جانے کی بھی اجازت دے دی۔ لیکن جس دن پکنک جا رہے تھے اسی دن امی نے مجھے پکنک جانے سے منع کر دیا۔ مَیں نے امی کو بہت سمجھایا لیکن وہ نہیں مانی۔ مجھے تکلیف ہوئی کیونکہ میری ساری سہیلیاں پکنک جا رہی تھیں۔ مَیں نے امی سے وجہ معلوم کی تو انہوں نے کہا بیٹا تم ایک لڑکی ہو۔ پتہ نہیں وہاں کا ماحول کیسا ہوگا۔ ٹیچر تمہارا دھیان رکھیں گی یا نہیں؟ تمہیں کچھ ہوگیا تو مَیں تمہارے ابّو اور دادی کو کیا جواب دوں گی۔ دراصل وہ کئی خدشات میں مبتلا تھی۔ ان کی باتیں سن کر مجھے احساس ہوا کہ وہ اپنی جگہ درست ہے۔ اس وقت مَیں نے صبر کر لیا۔ آج اللہ مجھے اس کا بہترین اجر دے رہا ہے۔ مَیں ایک معلمہ ہوں۔ ہر سال اسکول کے بچوں کو پکنک پر لے جاتی ہوں۔ اس دوران بچوں کے والدین کو فکرمند دیکھ کر مجھے اپنی ماں یاد آجاتی ہے۔ یقیناً اللہ صبر کرنے والوں کے ساتھ ہوتا ہے۔
سیّد شمشاد بی احمد علی (کرلا، ممبئی)
صبر اور مستقل مزاجی
جب میں ایک امتحان کی تیاری کر رہی تھی اس وقت مجھے بہت دباؤ محسوس ہو رہا تھا اور ایسا لگ رہا تھا کہ میں شاید اس امتحان میں کامیاب نہ ہوسکوں۔ میں نے صبر و تحمل سے کام لیا۔ اپنے وقت کو منظم کیا۔ روزانہ کچھ وقت پڑھائی کیلئے مختص کیا۔ اور اپنی محنت جاری رکھی۔ بالآخر امتحان کے دن میں پرسکون اور مطمئن تھی۔ اور میں نے اچھے نمبروں کے ساتھ امتحان پاس کیا۔ یہ واقعہ مجھے یاد دلاتا ہے کہ صبر و مستقل مزاجی سے ہم مشکل حالات پر قابو پاسکتے ہیں۔
گلناز مطیع الرحمٰن قاسمی (مدھوبنی، بہار)
بگڑتے حالات اور میرا صبر


مَیں نے ہمیشہ صبر کا دامن تھاما۔ حالات کمزور ہونے پر میرے شوہر سعودی عرب گئے۔ چار بچوں کی پڑھائی، اسکول لانا لے جانا غرض کہ ہزار کام ہوتے ہیں اور کوئی دیکھ بھال کرنے والا نہیں تھا۔ مَیں نے ہمت نہیں ہاری بلکہ گھر کی دیکھ بھال کی اور بچوں کا بھرپور ساتھ دیا۔ آج میرے بچے ڈاکٹر اور وکیل بن گئے ہیں۔ یہ اللہ کا کرم، بڑوں کی دعائیں اور میرے صبر کا نتیجہ ہے۔
شمع پروین فرید (کوچہ پنڈت، دہلی)
مَیں نے افسوس اور شکوہ کرنے کے بجائے صبر کیا
برسوں پہلے جب مَیں نے ٹیچر ٹریننگ مکمل کی تھی تب ایک خیرخواہ کے توسط سے غالب گمان تھا کہ مجھے مضافات کے ایک اسکول میں ملازمت مل جائے گی لیکن عین وقت پر نہ مل سکی۔ تب مَیں نے افسوس اور شکوہ کرنے کے بجائے صبر کیا تھا اور کہا تھا کہ اللہ اس سے اچھا بدلہ دے گا اور پھر میرا صبر رنگ لایا اور مجھے گھر کے قریب ملازمت مل گئی۔ مجھ پر کئی بیماریوں نے حملے کئے تکلیف سے چیخیں نکل جاتی تھیں لیکن مَیں نے صبر کیا۔ خیر خواہوں نے دعائیں کیں۔ ڈاکٹر نے کوشش کی اور اللہ کی رحمت سے مَیں صحت یاب ہوگئی۔ اس زمانے میں کئی حاسدین نے در پردہ طنز کیا اور کہا گناہوں کا کفارہ ادا ہوجائے گا۔ اس وقت مَیں نے اپنے رب سے یہی کہا، اے پروردگار میں بہت گنہگار ہوں۔ یقیناً یہ تیرا فضل ہے ورنہ مَیں ایک سانس بھی نہ لے سکوں۔ اللہ ہم سب کو توبہ کی اور رب کی رضا میں راضی رہنے کی توفیق دے (آمین)۔
رابعہ عبدالغفور شیخ (ممبئی)
ہم سب کے لئے بہت مشکل وقت تھا!
صبر خدا کی نعمتوں میں سے ایک عظیم ترین نعمت ہے۔ اور اس کی بڑی فضیلتیں بھی ہیں۔ اللہ تعالیٰ نے صبر کرنے والوں کے لئے قرآن مجید میں کئی جگہ ارشاد فرمایا ہے: بےشک اللہ صبر کرنے والوں کے ساتھ ہے۔ ویسے تو ایسے بہت سے مواقع آئیں جن پر میں نے صبر سے کام لیا ہے، لیکن میرے لئے سب سے مشکل ترین لمحہ وہ تھا جب مجھ سے کہا گیا کہ آپ کی ماں کا بچنا بہت مشکل ہے۔ یہ آج سے تقریباً چار سال پہلے کی بات ہے، جب میری سب سے چھوٹی بہن پیدا ہونے والی تھی۔ جوں جوں اس کے پیدا ہونے کا وقت قریب آرہا تھا، ویسے ویسے میری ماں کی تکلیفوں میں اضافہ ہو رہا تھا۔ ڈاکٹر نے آپریشن کا کہا تھا، آپریشن سے دو دن پہلے ڈاکٹر نے کہا کہ ماں اور بچے دونوں کی جان خطرے میں ہے۔ بہت مسائل ہیں، خون بھی کم ہے، بلڈ پریشربھی کم ہو رہا ہے۔ اور بھی بہت سے مسائل تھے۔ میری ماں بہت کمزور ہو گئی تھیں۔ یہ سب سننے کے بعد ان کے دل میں خوف سا بیٹھ گیا تھا۔ ان کی حالت مجھ سے دیکھی نہیں جارہی تھی۔ میں ان کی سب سے بڑی اولاد ہوں۔ نہ جانے وہ مجھے کیا کیا تلقین کرنے لگی تھیں۔ یہ میرے لئے بہت مشکل وقت تھا۔ میں نے یہاں پر صبر اور نماز کے ذریعہ خدا کی مدد طلب کی۔ مجھے یاد بھی نہیں کی ان دو دنوں میں، مَیں نے کتنی نوافل ادا کی تھیں۔ کتنی دعائیں خدا سے مانگیں، اور اس بات کو دل و دماغ میں بٹھایا کہ زندگی اور موت تو خدا کے ہاتھ میں ہے۔ مجھے آج بھی یاد ہے جب امی آپریشن سے چند گھنے پہلے گھر سے جانے لگیں تو ان کے آنکھوں میں بہت مایوسی تھی۔ وہ اپنے سارے بچوں کو پکڑ کر رو رہی تھیں۔ یہ ہم سب کے لئے بہت مشکل وقت تھا۔ لیکن ہم نے صبر سے کام لیا۔ ہم سارے بھائی بہنوں نے آپریشن کے دوران خوب نمازیں پڑھیں۔ خوب دعائیں مانگیں۔ اور پھر کچھ ہی دیر میں خبر ملی کہ ہمارے گھر میں ایک اور ننھی سی پری کا اضافہ ہوا ہے۔ اور میری ماں اور ننھی پری دونوں صحیح سلامت ہیں۔ جب مجھے یہ خبر ملی تو میں جائے نماز پر تھی، میری آنکھوں سے آنسو بہنے لگے، اور مجھے وہی بات یاد آئی کہ موت اور زندگی اللہ کے ہاتھ میں ہے اور بےشک اللہ تعالیٰ صبر کرنے والوں کے ساتھ ہے۔
فائقہ حماد خان (ممبرا، تھانے، مہاراشٹر)
طالبہ کا مجھ سے جھگڑنا اور....


یہ اس وقت کا واقعہ ہے جب میں ساتویں جماعت میں زیر تعلیم تھی اور ہم اسکول سے اورنگ آباد جا رہے تھے۔ میں اور میری سہیلیوں نے جلدی سے آکر آگے کی کھڑکی والی سیٹیں سنبھال لی تھیں۔ کچھ ہی دیر میں ساری طالبات بھی اپنی اپنی سیٹوں پر آکر بیٹھ گئیں۔ اچانک ایک طالبہ آکر میری سیٹ پر بیٹھنے کی ضد کرنے لگی اور کہنے لگی کہ مجھے یہی بیٹھنا ہے۔ میں نے اپنی سیٹ دینے سے انکار کر دیا تو وہ نوک جھونک کرنے لگی۔ شور شرابہ سن کر ٹیچرز بھی آگئے اور دونوں کو سمجھانے لگے لیکن وہ طالبہ کسی کی بات سننے کو تیار نہ تھی۔ بالآخر ٹیچر نے مجھے سمجھایا اور کہا آپ بات مان لو ورنہ جانا منسوخ ہو جائے گا۔ مجھے بہت برا لگا لیکن میں نے صبر و تحمل سے کام لیا اور ٹیچر کی بات مان لی اور خاموشی سے اپنی سہیلی کے ساتھ جا بیٹھی۔ ابھی ہم کچھ دور ہی گئے تھے کہ اس طالبہ کے ساتھ بیٹھنے والی بچی کو الٹی شروع ہوگئی جس کی وجہ سے پوری سیٹ خراب ہوگئی۔ آخر کار اس طالبہ کو بھی پیچھے ہی جا کر بیٹھنا پڑا۔ لڑائی کرنے سے کچھ بھی حاصل نہ ہوسکا لیکن مجھے یہاں میرا صبر کام آیا۔
خان نرگس سجاد (جلگاؤں، مہاراشٹر)
صبر کام آگیا
یہ ایک مسلمہ حقیقت ہے کہ صبر کا پھل ہمیشہ میٹھا ہوتا ہے۔ لیکن اس پھل کی مٹھاس سے وہی لوگ آشنا ہوسکتے ہیں جو وقت پر صبر و تحمل کا مظاہرہ کرتے ہیں اور اپنے رب کے فیصلوں پر راضی رہتے ہیں۔ زندگی کے معاملات میں بہت سے واقعات ایسے ہوتے ہیں جہاں جذبات کو بالائے طاق رکھتے ہوئے صبر کا دامن تھامنا پڑتا ہے۔ میں نے جس بات پر صبر کیا وہ ملازمت کے سلسلے اپنے شہر عزیز سے باہر رہنا ہے۔ میں درس و تدریس کے پیشے سے وابستہ ہوں۔ یہ صبر کا دورانیہ کم و بیش ۱۲؍ برسوں پر محیط ہے۔ اپنی فیملی سے دور رہنے کا یہ سفر بڑا ہی مشکل رہا ہے لیکن صبر و ہمت سے اور اللہ پر بھروسہ کا نتیجہ یہ رہا کی ۲۰۲۳ء میں میرا اپنے شہر میں انتہائی قریبی مقام پر تبادلہ ہوگیا۔ صبر کا یہ طویل دورانیہ میری زندگی کا ایک اہم حصہ ہے جہاں آج میں اپنے اپنوں کے درمیان ہوں۔ اپنے رب پر امید اور صبر نے میرا حوصلہ بنائے رکھا!
سمیرہ گلنار محمد جیلانی (ناندیڑ، مہاراشٹر)
چپ رہنے کی عادت دن بہ دن پختہ ہو تی گئی
صبر کو اپنانے والوں کا راستہ جنت کی طرف جاتا ہے۔ آخرت میں آسانی ہی آسانی ہے۔ دنیا میں بہت سی برائیوں سے محفوظ رہتا ہے۔ بچپن ہی سے مجھے خاموش رہنا پسند ہے۔ اسی عادت کی وجہ سے بہت ڈانٹ پڑتی تھی کہ منہ میں دہی جمائے ہو کیا۔ کچھ کہا کرو کچھ بتایا کرو۔ لیکن چپ رہنے کی عادت دن بہ دن پختہ ہو تی گئی۔ تعلیمی سفر اور پھر شادی کے بعد جب حقیقی زندگی کا سامنا ہوا تو روز ہی ایک محاذ آرائی کا سامنا تھا۔ اس قسم کے حالات کا پہلی مرتبہ سامنا ہوا۔ لیکن ہر جگہ میں نے صبر کا دامن مضبوطی سے پکڑ ے رکھا۔ اسی وجہ سے بہت سی برائیوں سے محفوظ رہی۔ کوئی ایک واقعہ کیا میری پوری زندگی ہی صبر کے پیکر میں ڈھل گئی۔ اسی وجہ سے آج حالات بہت مختلف ہیں۔ آگے بھی اسی راہ پر چلنا ہے اور زندگی کو آسان بنانے کی کوشش کرنا ہے۔
ایس خان (اعظم گڑ ھ، یوپی)
بے شک ہر عمل کو اللہ دیکھ رہا ہے
ہمارے پڑوس میں ایک شادی شدہ خاتون رہتی ہیں۔ جب گھر پر میری ساس، نند اور دیور نہیں ہوتے تب وہ آکر میرے سسرال والوں کی برائیاں کرتیں۔ ’’ہر عمل کو اللہ دیکھ رہا ہے۔‘‘ اتنا کہہ کر مَیں خاموش ہو جاتی۔ وہ جب بھی میرے پاس آتیں میرے سسرال والوں کے بارے میں برا ہی کہتیں۔ دھیرے دھیرے یہ ان کے معمول کا حصہ بن گیا۔ مَیں ہمیشہ خاموش رہتی۔ ایک دن انہوں نے میری ساس، نند اور دیور کے سامنے کہا کہ تمہاری بہو تم سب کے خلاف بہت بُرا کہتی ہے۔ یعنی جو کام وہ کرتی تھیں اس کا الزام مجھ پر لگا دیا۔ اس کے بعد سے میرا سسرال میں رہنا مشکل ہوگیا۔ مجھے ہر وقت طعنہ دیا جاتا۔ اس وقت مَیں نے صبر سے کام لیا۔ ہر وقت اللہ سے دعا کرتی کہ یا اللہ! مجھے اس الزام سے بری کر دے۔ خدا کا کرنا ایسا ہوا کہ ایک خاتون ہمارے گھر آئی۔ حال چال پوچھنے کے بعد میری اُداسی کے بارے میں دریافت کیا۔ میرے سسرال والے میرے برے اعمال کا دفتر کھول کر بیٹھ گئے۔ اُسی وقت اس خاتون نے ساری باتوں کو جھٹلا دیا اور کہا، جتنے الزام تم تمہاری بہو پر اُس کے کہنے پر لگا رہی ہو وہ تمام اُسی کے پیدا کردہ ہیں۔ وہ عورت دوسروں کے گھروں میں اختلاف پیدا کرتی ہیں۔ ساری حقیقت سامنے آگئی اور میرے سسرال والوں کی آنکھیں شرم سے جھک گئیں۔ میرے دل و دماغ پر جو ہر وقت ایک بوجھ سا لگتا تھا وہ یک لخت غائب ہوگیا۔ اور میں ایک لافانی خوشی سے سرشار ہوگئی۔ دوسری جانب یہ خیال مستحکم ہوگیا کہ عورت ہی عورت کی دشمن ہوتی ہے۔ کس عورت پر اعتبار کریں کس پر نہ کریں؟ یہ سوال مستقل میرے پیش نظر رہتا ہے۔ اس کے بعد مَیں محتاط رہتی ہوں۔
عظمیٰ مزمل انعامدار (شولاپور، مہاراشر)
سسرال کے معاملات میں صبر


میرا سسرال، ساس، سسر، جیٹھ جیٹھانی، دیور، دیورانی اور میں، میرے شوہر پر مشتمل ہے۔ جب میں نئی دلہن بن کر اس گھر میں آئی تب گھر کا عجیب و غریب ماحول تھا۔ جیٹھانی، دیورانی اور ساس تمام کے تمام گھر کے کام کاج سے دستبردار ہوگئے۔ اس پریشانی کے ساتھ ساتھ مجھے یہ طعنہ سننے کو ملا کہ مَیں منحوس ہوں کیونکہ میرے اس گھر میں آتے ہی جیٹھانی کی بیٹی بیمار پڑنے لگی تھی۔ مجھے ان کی سوچ پر بے حد افسوس ہوا۔ جی میں آیا کہ منہ توڑ جواب دوں۔ لیکن پھر خیال آیا کہ اللہ تعالیٰ صبر کرنے والوں کے ساتھ ہے۔ جب تنہائی میسر آتی دو رکعت نفل نماز پڑھ کر اللہ تعالیٰ کے حضور رو رو کر دعا کرتی، اے اللہ کون منحوس ہے؟ منحوسیت کیا ہوتی ہے؟ ان کم عقل لوگوں کو سمجھا دے۔ انہیں عقل سلیم عطا کر۔ میرے تمام سسرال والوں کیلئے ہدایت کا دروازہ کھول دے۔ مَیں نے سارے معاملات اللہ کے حوالے کر دیئے۔ کچھ دنوں کے بعد خدا کا کرنا ایسا ہوا کہ ایک معاملے پر دیور دیورانی، جیٹھ جیٹھانی سے تو تو میں میں ہوگئی۔ بحث و مباحثہ طول پکڑ گیا۔ اس دوران جیٹھ نے کہا، ’’دوسروں کو منحوس کہتے ہو۔ یاد ہے ڈاکٹر نے کیا کہا تھا۔ بچی کمزور ہے ممکن ہے مرگی کے دورے پڑ سکتے ہیں اور تم چھوٹی بھابھی کو منحوس کہہ رہے ہو؟ ہمارے ماں باپ بھی عجیب ہیں۔ کون صحیح ہے، کون غلط؟ اس کو سمجھتے ہی نہیں۔ جب بڑے ہی ایسی ذہنیت کے ہوں تو اچھائی اور برائی کا مسئلہ کیسے سلجھے گا!‘‘ ہاتھ اُٹھا کر جیٹھ نے کہا: ’’یا اللہ ان لوگوں کو عقل عطا کر۔ اچھائی اور برائی کی تمیز سکھلا دے۔‘‘ دیور دیورانی، ساس سسر ایک دوسرے کا منہ دیکھتے رہے۔ لیکن مجھے ایسا لگا جیسے میرا صبر کام آگیا۔ موقع ملتے ہی میں نے دو رکعت شکرانہ ادا کی۔ یہ صبر کا کرشمہ ہے۔ جس سے سسرال میں اُخوت، پیار و محبت کا مقام حاصل ہوا ہے۔
جبیرہ عمران پیرزادے (پونے، مہاراشٹر)
اور میرے بچے کامیاب ہوگئے....


مجھے گورنمنٹ سروس کرنے کی اجازت نہیں ملی تھی۔ مَیں نے صبر سے کام لیا۔ میری زندگی میں ایسا واقعہ پیش آیا کہ میرے بچوں کی ٹیوشن فیس کیلئے پیسے نہیں تھے۔ اللہ نے میرے شوہر کے دل میں بات ڈالی اور مجھے نوکری کرنے کی اجازت مل گئی اور میں ایک اسکول میں معلم کی حیثیت سے اپنے فرائض انجام دے کر بچوں کو کامیاب کر پائی۔ آج اللہ تعالیٰ کے فضل سے بیٹی گورنمنٹ ہیلتھ آفیسر ہے۔ بیٹا انجینئر ہے۔ مَیں نے ہمیشہ صبر سے کام لیا ہے۔
بے شک اللہ تعالیٰ صبر کرنے والوں کے ساتھ ہے۔ آج بچوں کو کامیاب دیکھ کر بڑی خوشی محسوس ہوتی ہے۔
فرحین انجم (پیراڈائز کالونی، امراؤتی، مہاراشٹر)
حصول علم کے لئے بیرون ملک کا سفر
علم کا شوق مجھے میرا سب کچھ ترک کرنے پر مجبور کر گیا۔ ایک‌خواب سا لگا جب میں نے یونیورسٹی کے اختتامی پروگرام میں شرکت کی۔ میری پانچ سالہ محنت، مشقت، صبر اور یقین پیہم نے میرے خواب کو ایک خوبصورت تعبیر دیا۔ اپنے اہل خانہ اور وطن عزیز کو چھوڑ کر بیرون ملک میں تعلیم حاصل کرنا میرے لئے ایک چیلنج تھا۔ احباب و اقارب کے تضحیک آمیز جملے، طعن و تشنیع میرے لئے ایک صبر آزما وقت تھا مگر رب کریم پر کامل یقین نے میرے اندر کے جذبے و حوصلے کو سمیٹ لیا جو کئی بار بکھر چکے تھے۔ میرے شریک حیات اور میرے بچوں (اللہ انہیں اپنے حفظ و امان رکھے) کی انتھک محنت اور قربانیوں اور ان کے صبر نے اور میرے رب کی رضا سے میرے خواب کو شرمندۂ تعبیر کرنے میں میرا ‌بھرپور تعاون کیا۔ زندگی میں اگر کوئی مقام حاصل کرنا ہے تو لوگوں کے طنز کو اپنی طاقت بنالیں، منزلیں آپ کی منتظر ہیں۔
ایم ممتاز اعظمی (اعظم گڑھ، یوپی)
والد صاحب نے صبر کی تلقین کی


انسان کی زندگی میں صبر و تحمل کی بہت اہمیت ہے۔ غم میں پریشانی میں تنقید کا نشانہ بنائے جانے پر اگر صبر سے کام لیا جائے تو وقت بہترین جواب دیتا ہے۔ صبر کی یہ تلقین مجھے میرے والد محترم سے ملی ہے۔ میں نے ہمیشہ انہیں صبر و شکر کرتے دیکھا۔ تلخ سے تلخ بات کا بھی جواب نہیں دیتے تھے۔ اسی طرح میری زندگی میں بھی کئی نشیب و فراز آئے لیکن چپ رہ کر اپنے کام اور اخلاق سے اللہ تعالیٰ نے کامیاب کیا۔ ماں کے گزرنے کے بعد لوگوں نے کئی طرح سے تنقید کا نشانہ بنایا اور راہ میں کانٹیں بچھائے لیکن ہر بار صبر و ضبط نے ان کانٹوں کو پھولوں میں تبدیل کر دیا اور عزت و توقیر عطا کی۔ اسی طرح اسکول میں میری انگریزی کی کاپی ہمیشہ پرنسپل کے پاس چیک ہونے جاتی لیکن کسی نے بدمعاشی کی اور ان کاپیوں کو غائب کر دیا اور میں بہت روئی کیونکہ امتحان قریب تھے لیکن میں نے صبر کیا اور دوبارہ محنت کی اور کلاس میں سب سے زیادہ نمبر حاصل کی۔
جویریہ طارق (سنبھل، یوپی)
مجھے کامیابی مل گئی....
مَیں بچپن ہی سے بہت صابر لڑکی ہوں۔ شاید میرے حالات نے مجھے صبر کرنا سکھا دیا۔ اسکول میں بھی مَیں اچھی بچی تھی۔ کوئی مجھے کچھ بھی کہے مَیں کوئی ردعمل ظاہر نہیں کرتی تھی۔ خاموش رہنا پسند کرتی تھی۔ شاید یہ میری فطرت میں شامل ہوگیا تھا۔ جب میری شادی ہوئی تو میرے سسرال والے میری سوچ سے مختلف تھے۔ حقیقت میں صبر کیا ہوتا ہے یہ مجھے میرے سسرال جانے کے بعد معلوم ہوا۔ اس وقت مشکل وقت سے گزر رہی تھی۔ نیا ماحول لوگ اجنبی.... شروع میں بہت کچھ کہا گیا۔ وہ لوگ مجھے پسند نہیں کرتے تھے۔ مَیں کسی سے بھی جھگڑتی نہیں تھی۔ بس صبر کرتی رہی۔ سجدے میں روتی تھی۔ بالآخر میرا صبر کام آگیا۔ جو لوگ میرے خلاف تھے آج وہ میرے ساتھ ہیں، الحمدللہ!
سمیہ معتضد (اعظم گڑھ، یوپی)

استاد کی ڈانٹ پر صبر اور اس پر عمل
میرا طالب علمی کا زمانہ تھا۔ روزانہ دانش گاہ جاتی اور درس گاہ میں حاضر ہوتی تھی۔ استاذ کو گزشتہ سبق سنانے میں سب سے پہل کرتی تھی، استاد محترم بہت خوش ہوتے اور چند کلمات مدح و ستائش کے کرتے۔ ایک دن میں دانش گاہ گئی اور درس گاہ پہنچی تو فوراً ہی استاد سبق کے بارے سوال کر لیا، اتفاق سے میں اس دن اپنا سبق یاد کرکے اور اپنا ہوم ورک پورا کرکے نہیں آئی تھی اور دوسری طالبات بھی پڑھ کر نہیں آئی تھیں تو استاد محترم بہت ناراض ہوئے اور طعن و تشنیع کی، ڈانٹ ڈپٹ کی کہ تم لوگ محنت نہیں کرتے سبق سنانے میں کوتاہی و کاہلی کرتے ہو۔ تم لوگ بہت سست و کاہل ہوگئے۔ حالانکہ میں روز اپنا کام پورا کر لیا کرتی تھی، استاد کی یہ حالت غضب دیکھ کر مجھے خود پر بہت افسوس ہوا کہ میں کتنی بیکار اور ناکارہ ہوں۔ استاد کی ڈانٹ پر صبر کرتے ہوئے اسی دن سے، میں نے یہ عہد کیا چاہے میرے دوست سبق سنائیں یا نہ سنائیں، وہ ہوم ورک کریں یا نہ کریں مجھے ان کو دیکھ کر کام نہیں کرنا بلکہ خود سے محنت کرنی ہے اور روزانہ درسگاہ میں دیا ہوا سبق ازبر کرنا ہے۔ اپنے استادِ گرامی کی بات پر صبر و استقامت کے ساتھ عمل کیا اور کبھی بھی اپنا ہوم ورک اپنے دوستوں پر نہیں چھوڑا، بلکہ خود سے اپنے سبق کا مطالعہ کرتی رہی۔ اللہ کا شکر ہے کہ آج میں ایک عظیم درسگاہ کی ٹیچر ہوں۔
رضاء الفاطمہ (نوساری، گجرات)
والدہ کی وصیت اور میرا صبر


میری زندگی کا ایسا واقعہ جسے واقعہ کہنا بے جا ہوگا۔ ایک ناقابل فراموش درد ناک المیہ و سانحہ جو اب تک میرے دل و دماغ پر نقش ہے۔ ۱۹۷۶ء کی بات ہے جب مَیں ۲۲؍ سال کی تھی۔ میری پیاری امی کا انتقال ہوا تھا۔ انتقال کے روز ہم سب بھائی بہنوں کی حالت ناقابل قبول تھی۔ مجھ سے میرے بھائی بہن بہت چھوٹے تھے۔ ان کے بارے میں سوچ سوچ کر دل غم و صدمے سے نڈھال تھا۔ سب کی حالت غیر تھی۔ ظہر کی نماز کے بعد امی کا جنازہ رخصت ہوا۔ مجھ پر بیہوشی طاری تھی۔ ہم بھائی، بہن ایک ہفتے تک شدید بخار میں مبتلا تھے۔ خواہشات، ارمان اور سکون و خوشیاں سب امی کے ساتھ دفن ہوچکے تھے۔ اللہ تعالیٰ سے دعا کرتی رہی کہ اے اللہ مجھ کو صبر و جمیل عطا فرما تاکہ مَیں مستقبل میں کچھ کر پاؤں ورنہ میری زندگی ایسے ہی امی کو یاد کرتے کرتے گزر جائے گی۔ ایسے ہی دن گزرتے جا رہے تھے کہ اچانک امی کی وصیت یاد آگئی۔ انہوں نے مرنے سے چند ماہ قبل مجھ سے اپنی خواہش کا اظہار کیا تھا کہ ’’تم ٹیچر بننا یہی تمہارے لئے مناسب ہوگا۔‘‘ لہٰذا مَیں نے اُن کی اس وصیت اور خواہش کا احترام کرتے ہوئے معلمہ کا پیشہ اختیار کیا اور اس پیشے میں کافی مصروف ہوتی چلی گئی۔ اور دھیرے دھیرے مجھے صبر آتا چلا گیا۔ میرا صبر کام آگیا، واقعی! صبر کا پھل میٹھا ہوتا ہے۔ اللہ نے مجھے میرے صبر کا اچھا صلہ دیا۔ آج میں اللہ تعالیٰ کے فضل و کرم سے اور میری مرحومہ امی کی دعاؤں سے ریٹائرڈ ڈپٹی معلمہ ہوں اور بے حد خوش ہوں۔
ریحانہ قادری (جوہو اسکیم، ممبئی)
الزام کو برداشت کر لیا لیکن....
کئی برس قبل میری ایک رشتے دار نے مجھ پر الزام لگایا تھا۔ اُس وقت میں نے صبر کیا۔ کچھ وقت گزرنے کے بعد سچائی سب کے سامنے آگئی۔ گھر والوں نے اُس رشتے دار سے ناراضگی ظاہر کی۔ مجھے خوشی ہے کہ میرا صبر کام آگیا۔
الف انصاری (ممبئی)
اس شخص کے فرار ہونے سے صدمہ لگا


ایسے کئی واقعات ہوئے ہیں ہمارے ساتھ، خیر ایک گوش گزار کرتی ہوں۔ ۱۵؍ سال قبل تلوجہ کا علاقہ اتنا معروف نہیں تھا۔ اس وقت بہت کم لوگوں نے شاید اس کا نام سنا ہو تو ہمیں کسی رشتے دار نے بتایا کہ وہاں پلاٹ کم قیمت میں مل رہے ہیں۔ اس وقت پیسے تو اتنے تھے نہیں اسی لئے ہم نے اپنے زیور بینک میں رکھے اور پیسوں کا انتظام کیا اور بچوں کے بہتر مستقبل کے لئے ہم نے وہاں دکان اور مکان کے لئے پلاٹ خریدا۔ باقاعدہ ایک بس کا انتظام کیا گیا اور بس پوری بھری ہوئی تھی اور ہمیں اس جگہ کو بتایا گیا کہ یہ پلاٹ آپ کا ہے، یہ اپ کا رہے گا۔ چند مہینوں تک یہ سلسلہ جاری رہا۔ اس کے بعد ایک دن پتہ چلا کہ اندھیری میں جہاں اس شخص کا آفس تھا ارگنائزر بن کر جس نے ہمیں یہ سب دکھایا تھا، معلوم ہوا کہ اس نے سب کے پیسے اکٹھے کئے اور انہیں لے کر فرار ہو گیا۔ یہ بہت بڑا صدمہ تھا ہمارے لئے۔ ہم نے زیور بینک میں رکھ کر قرض لے کر بچوں کے لئے پلاٹ لئے تھے۔ اس وقت بھی مجھے صبر سے کام لینا پڑا۔ ایسے کئی واقعات ہیں۔ اللہ تعالیٰ ہمیں صحیح سمجھ بوجھ عطا کرے اور لوگوں کے فراڈ سے بچائے۔
نسیم رضوان شیخ (کرلا، ممبئی)
الحمدللہ، میرا صبر رائیگاں نہیں گیا


کچھ عرصہ پہلے کی بات ہے کہ ہمارے مرکز کے چند معلمین کو ایک اہم تعلیمی پروجیکٹ پر کام کرنے کا موقع دیا گیا۔ میرا نام بھی اس فہرست میں شامل تھا۔ ہم سب نے اس پروجیکٹ کو مکمل کرنے کیلئے بے حد محنت کی اور اپنے اپنے حصے کا کام بخوبی انجام دیا۔ جب ضلعی سطح پر اس پروجیکٹ پر کام کرنے والے اساتذہ کو سرٹیفکیٹ دینے کیلئے نام پیش کئے گئے تو اس فہرست میں میرے علاوہ سبھی کے نام شامل تھے۔ ان تمام لوگوں نے ضلع پر جا کر اپنے اعزاز اور سرٹیفکیٹ حاصل کئے اور اس کی تصاویر بھی شیئر کی گئیں۔ یہ لمحہ میرے لئے بہت صبر آزما تھا کہ میں نے بھی اتنی ہی محنت کی تھی لیکن اس کا صلہ نہ ملا۔ تاہم، میں نے صبر کا دامن نہیں چھوڑا اور یہ سوچ کر خود کو تسلی دی کہ عزت اور ذلت سب اللہ کے ہاتھ ہے اور اللہ بہتر جاننے والا ہے۔ الحمدللہ، میرا صبر رائیگاں نہیں گیا۔ اللہ کے کرم سے مجھے نہ صرف ضلعی سطح پر بلکہ ریاستی اور ملکی سطح پر بھی کئی اعزازات، سرٹیفکیٹ اور نقد انعامات سے نوازا گیا۔
نکہت انجم ناظم الدین (مانا، مہاراشٹر)
بالآخر تعلیم مکمل کی


تعلیم حاصل کرنا کسے پسند نہ ہوگا۔ مجھے بھی خوب پڑھنے کا شوق تھا اور میں نے انٹر تک تعلیم حاصل بھی کی۔ اس کے بعد میری خواہش تھی کہ آگے کی پڑھائی کے لئے کالج میں داخلہ لوں۔ میں ریگولر کالج جاؤں۔ مجھے روک ٹوک بالکل پسند نہیں تھی۔ لیکن گھر کا ماحول ایسا نہیں تھا۔ اتنی آزادی نہیں تھی اس وقت۔ لوگ کیا کہیں گے، رشتے دار کیا کہیں گے، اس بات کی زیادہ فکر تھی۔ مجھے اپنے والدین کو راضی کرنا نہیں آیا اور میں نے صبر کر لیا۔ پھر میری شادی ہوگئی پروفیسر صاحب سے اور انہوں نے میری ادھوری تعلیم کو مکمل کروایا۔ میں ایم اے کرچکی ہوں اور اب پی ایچ ڈی کرنے کا ارادہ ہے۔
نشاط پروین (مونگیر، بہار)
صبر کرکے بہترین نتیجہ پایا


ایک بار کا واقعہ ہے کہ میرے چچا کڈنی تبدیل والے آپریشن کے مرحلے سے گزرے تھے۔ اس کے بعد ممبئی سے گاؤں پہنچے تو ان سے ملاقات کرنے کیلئے احباب و رشتے داروں کا تانتا لگ گیا۔ انہیں میں سے ایک میرے شوہر نامدار بھی تھے، جو جلد ہی سعودی عرب سے ناکام واپس آئے تھے۔ جب انہوں نے چچا سے ہاتھ ملانا چاہا تو ایک رشتے دار نے یہ کہہ کر روک دیا کہ انفیکشن کے سبب داکٹر نے منع کیا ہے۔ جبکہ کچھ لوگ ان سے ہاتھ ملا چکے تھے۔ شام میں میرے شوہر نے یہ واقعہ مجھے سنا کر اپنی تحقیر ہونے کا احساس مجھے بھی دلایا۔ پھر کہنے لگے کہ میں تو مصلحتاً صبر کر گیا مگر تم یہ بات اپنے بھیا اور اماں سے ضرور کہنا۔ میں نے ’ہاں‘ تو کر دی، مگر کسی سے نہ کہا بلکہ صبر کا دامن مضبوطی سے تھام کر دعا کرتی رہی کہ، ’’اے اللہ! میرے شوہر کو وہ بلندی عطا کر۔‘‘ تقریباً ۲۰؍ سال بعد جب وہ سالانہ تعطیل پر گھر آئے تھے۔ اپریل کی ایک سلگتی دوپہر میں وہ پیدل کہیں جا رہے تھے کہ راستے میں وہی شخص مل گئے۔ انہوں نے دبئی میں پھنسے اپنے داماد کی روداد سنائی اور مدد مانگی۔ واضح رہے کہ میرے شوہر اس وقت دبئی کی ایک معروف کمپنی میں پروجیکٹس منیجر کے عہدے پر فائز تھے۔ انہوں نے اپنے تعلقات کی بنیاد پر چچا کے داماد کی بر وقت مدد کی۔ اسے بقایا تنخواہ کے ساتھ ہندوستان صحیح و سلامت بھجوا دیا۔ یہ تھا اللہ پر بھروسہ، صبر اور نماز سے کام لینے کا بہترین نتیجہ۔
پروین افتخار (نزد ہندوستانی مسجد، بھیونڈی)
وہ ایوارڈ ہی سالانہ جلسے سے خارج کر دیا گیا


یہ اس وقت کی بات ہے جب میں ڈی ایڈ کے فائنل ایر میں تھی۔ اس وقت فائنل ایئر کے طلبہ کو اسٹوڈنٹ اف ایئر کے خطاب سے نوازاجاتا تھا۔ الحمدللہ میری ۲؍ سالہ کارکردگی بے حد متاثر کن تھی۔ سبھی کو، یہاں تک کہ فرسٹ ایئر کے طلبہ کو بھی اس بات کا یقین تھا کہ اسٹوڈنٹ اف دی ایئر کے خطاب سے ’’انصاری رضوانہ‘‘ کو ہی نوازا جائے گا۔ مگر فریق اے اور فریق بی کے درمیان ہمیشہ مقابلہ ارائی رہتی تھی۔ اس سال اتنی زیادہ ہو گئی تھی کہ یہ ایوارڈ ہی سالانہ جلسے سے خارج کر دیا گیا۔ میں بے حد پُر امید تھی۔ مگر جیسے ہی اس ایوارڈ کے خارج ہونے کی خبر ملی۔ بے حد تکلیف ہوئی۔ مگر میرے چہرے یا ماتھے پر ایک بھی شکن کی لکیر نہیں ائی۔ کیونکہ میرا دل مطمئن تھا کہ میں نے جو کچھ کیا ہے وہ میرے ساتھی، میرے جونیئر اور میرے اساتذہ بخوبی جانتے ہیں۔ اور میں نے صبر تحمل سے کام لیا۔ میری ہمت کے مظاہرے سے میرے اساتذہ بھی بے حد خوش ہوئے۔ مگر یہ بات اج بھی میرے دل و ذہن کے کسی کونے میں قید ہے۔
مومن رضوانہ محمد شاہد (ممبرا، تھانے)
رشتہ داروں کی شرارتیں اور میرا صبر


مَیں زندگی کے مختلف اتار چڑھاؤ سے گزری ہوں۔ اپنوں کی بے رخی، شرارتوں اور ایذا رسانیوں کو بڑے ہی کرب کے ساتھ جھیلا ہے، خاص طور سے ۱۹۷۷ء سے ۱۹۸۱ء کے درمیان جب مَیں ۹؍ سال کی تھی۔ ان دنوں نہ مجھے اپنی کچھ خبر تھی اور نہ اپنوں کی سازشوں کا اندازہ تھا۔ ۱۹۷۸ء میں تو حد ہوگئی۔ میرے خلاف بیحد شرارتی انداز میں سازشیں کی گئیں۔ میں بچپن سے نماز کی پابند رہی اور کم سخن اور خاموش طبیعت تو تھی ہی۔ میری امی اور میرے بڑے ماموں جان نے میری اسی نہج پر تربیت کی۔ جب میں طالبہ تھی تو اپنے ادارے جامعة الصالحات، رامپور میں نماز کی انچارج بنائی گئی۔ میرے اسی صبر اور نماز نے میرے خلاف سازشوں کو ناکام بنایا اور ۱۹۸۱ء کے آتے آتے میرا صبر الحمدللہ میرے کام آگیا، جس بات کی وجہ سے میری مخالفت کی گئی میں اس میں کامیاب رہی اور میرے خلاف سازش کرنے والے سب کے ناکام و نامراد رہے۔
ناز یاسمین سمن (پٹنہ، بہار)
مختلف نظریات اور اختلاف


یہ ضروری نہیں ہے کہ فرد واحد کی ہر بات یا نظریہ دوسرے کو پسند آئے۔ ایسی صورت میں اختلاف کا ہونا لازمی ہے۔ کبھی یہی اختلاف مخاصمت و مخالفت اور دشمنی میں بدل جاتی ہے، پھرتکرار و بحث اور لڑائی و جھگڑے کی نوبت آجاتی ہے۔ یہ صورتحال ناپسندیدہ اور قابل مذمت ہے۔ جب ایسی صورت حال پیدا ہونے کے امکانات زیادہ ہوتے ہیں، اسلامی تعلیمات پر عمل کرتے ہوئے میں نے ہمیشہ خاموشی اور صبر و تحمل اور برداشت کا مظاہرہ کرنے کی کوشش کی ہے۔ صبر کرنے کا سب سے بڑا فائدہ یہ ہوتا ہے کہ آپ کا شمار آخرت میں صابر لوگوں میں ہوگا اور صبر انسان کو اندرونی طور پر مضبوط بناتا ہے۔ صبر کرکے مجھے یہ فائدہ ہوا کہ میری اپنی شخصیت پر مجھے غور کرنے کا موقع ملا۔
آفرین عبدالمنان شیخ (شولا پور، مہاراشٹر)
دیر رات کا سفر اور بدمعاش


۱۹۹۴ء میں ایک واقعہ ایسا رونما ہوا تھا جہاں صبر اور تحمل کی بدولت ہم رہزنوں کے ہاتھوں ایک بڑے حادثے کا شکار ہونے سے بال بال بچ گئے تھے۔ یوپی کے دیہی علاقے سے ایک تقریب میں شرکت کرنے کے بعد دونوں بچوں کیساتھ ہم چار افراد دہلی اپنے گھر واپس آرہے تھے۔ کار کا ڈرائیور بڑی ہوشیاری اور مستعدی سے اچھی رفتار سے کار ڈرائیو کر رہا تھا۔ رات کا ڈیڑھ بجے کا وقت رہا ہوگا کہ اچانک تین موٹر سائیکلوں پر سوار کچھ جرائم پیشہ افراد نے کار کو دونوں جانب سے حصار میں لے لیا۔ دونوں بچے گہری نیند سو رہے تھے اور یہ اچھا ہی تھا ورنہ مشکل اور زیادہ بڑھ سکتی تھی۔ پیچھے کی کھڑکیاں پردے سے ڈھکی تھیں۔ میرے شوہر نے ڈرائیور کو دھیمی آواز میں سمجھایا کہ ڈرنے کی ضرورت نہیں اور وہ حسب ِ معمول رفتار پر گاڑی ڈرائیو کرتا رہا۔ میں خود خاموش ہوگئی۔ ڈرائیور سے اونچی آواز میں گفتگو کرتے ہوئے میرے شوہر بائیک سوار بدمعاشوں کو یہ احساس کرانے میں کامیاب رہے کہ کار میں دو سے زیادہ مرد ہیں اور اسلحہ بھی ہے۔ بدمعاشوں نے سن لیا کہ کار میں سوار مرد اُن پر اگلے موڈ پر فائر کھولنے کا ارادہ رکھتے ہیں اور ان کو کوئی خوف ہی نہیں ہے۔ اس طرح کے مقابلے کیلئے بدمعاش تیار نہیں تھے۔ وہ سمجھ گئے کہ کار کا لوٹ مار کے ارادے سے اور زیادہ تعاقب کرنا ان کیلئے اچھا نہیں ہوگا۔ اُنہوں نے اپنا ارادہ بدل دیا اور وہاں سے بھاگ کھڑے ہوئے۔ ۱۵؍ سے ۲۰؍ منٹ کے اس وقفے میں صبر و تحمل ہی کام آیا تھا۔ اس واقعے کے بعد ہم نے دیر رات کا سفر بہت کم کر دیا۔
سلطانہ صدیقی (جامعہ نگر، نئی دہلی)
امی کے الفاظ: بیٹا! صبر کرو اور اللہ سے مدد مانگو!
انسانی زندگی آزمائشوں سے بھری ہے۔ صبر اور شکر ہی وہ راستے ہیں جن پر چل کر ہم زندگی کو خوشگوار بناسکتے ہیں۔ اب تک کی زندگی میں ایسے کئی واقعات رونما ہوچکے ہیں جہاں میرا صبر کام آیا۔ ایک واقعہ جو میری تعلیمی زندگی پر منحصر ہے آپ سب کے گوش گزار کرنا چاہوں گی۔ میں دہم جماعت میں ہی تھی کہ میری تعلیم کو روک دیا گیا۔ وجہ تو مجھے معلوم نہ ہوسکی۔ لیکن ہمارے معاشرے کی یہ تلخ حقیقت ہے کہ لڑکیوں کی شادی کم عمر میں ہی کر دی جاتی ہے۔ اس وقت مجھے بہت اچھے گھرانوں سے رشتے آئے ہوئے تھے۔ مجھے لگتا تھا اب میری بھی شادی کر دی جائے گی۔ میں کچھ دن تک بہت روئی۔ امی سے، نانا سے کہا مجھے اسکول جانا ہے، پڑھنا ہے لیکن کوئی صورت نہیں بن پا رہی تھی۔ امی نے بس اتنا کہا، بیٹا! صبر کرو اور اللہ سے مدد مانگو، یقین رکھو سب بہتر ہوگا۔ دو ماہ بعد مجھے دوبارہ اسکول بھیجا گیا۔ یہ معجزہ کیسے ہوا نہیں پتا لیکن میں بہت خوش ہوگئی، اللہ پر یقین بڑھ گیا۔ یہ واقعہ یہی ختم نہیں ہوا۔ جب میں بارہویں جماعت پاس ہوگئی تو دوبارہ یہی سب کچھ ہونے لگا۔ شادی کروانے پر زور دیا جانے لگا اور شادی بھی ہوگئی، ذہن سوچوں میں گم تھا آیا اب کیا کریں؟ لیکن اس بار امی کی بات ذہن میں رہی اور صرف صبر کیا۔ کسی سے کچھ نہیں کہا۔ جس کا صلہ یہ ملا کہ اب تک میری تعلیم جاری ہے۔ ابھی پی ایچ ڈی کر رہی ہوں۔ دعا، صبر اور اللہ پر یقین نے مجھے میرے خواب حقیقت میں بدلنے کیلئے ایسے انسان کا ساتھ دیا جس نے نہ صرف میری تعلیم کو جاری رکھنے میں مدد کی بلکہ زندگی کی ہر مشکل گھڑی میں میرے ساتھ کھڑے رہے، اور میں یہاں تک کا سفر طے کر پائی، الحمدللہ!
فردوس انجم (بلڈانہ، مہاراشٹر)
ایسے نازک وقت میں صبر ہمارے کام آیا


صبر انسان کا ایک ایسا ہتھیار ہے جس کے سامنے بڑی سے بڑی طاقتیں بھی سر نگو ں ہو جاتی ہیں۔ میرے ساتھ بھی صبر ایسی جگہ کام آیا کہ اگر ہم صبر و ضبط سے کام نہیں لیتے تو کوئی بھی حادثہ پیش آسکتا تھا۔ ہوا یہ کہ ہم شوہر کے ساتھ کہیں دورسفر پر جارہے تھے۔ ٹرین کے جنرل ڈبے میں ہم لوگ بیٹھے ہوئے تھے۔ ہمارے ساتھ دو افراد پر مشتمل ایک مسلم فیملی بھی بیٹھی ہوئی تھی جو ہمارے ہی ساتھ اس ڈبے میں سوار ہوئی تھی۔ باقی سارے مسافر جو اپنے لباس و ظاہری چیزوں سے غیر مسلم لگ رہے تھے محو گفتگو تھے۔ ان لوگوں نے ہمارے وہاں بیٹھنے کے بعد اپنی باتوں کا رخ ہماری تہذیب اور مذہب کی طرف موڑ دیا اور پھر ان کے طنزیہ فقرے اور اعتراضات شروع ہوگئے۔ ہم ان کے طنزیہ فقروں کو سہتے رہے۔ کچھ دیر کے بعد ان کے فقروں میں شدت آگئی اور انہو ں نے ہم کو نشانے پر لے لیا۔ اس وقت ہم پر خوف طاری ہوگیا۔ ایسے نازک وقت میں صبر ہمارے کام آیا۔ ہم بہت خاموشی کے ساتھ اپنے سفر پر رواں دواں تھے اور خیریت سے اپنی منزل پر پہنچنے کے لئے اللہ تعالیٰ سے دعا گو تھے۔ نگاہیں اپنی منزل کی طرف لگی ہوئی تھی۔ بالآخر منزل پر پہنچے اور اللہ کا شکر ادا کیا۔
ترنم صابری (سنبھل، یوپی)
آن لائن کلاسیں شروع کر دی مَیں نے....
انسانی زندگی میں اکثر اوقات ایسے واقعات پیش آتے ہیں جن میں انسان اپنے ہوش و حواس کو بھول کر جذبات کے سمندر میں بہہ جاتا ہے۔ انسان کے جذبات اس کی عقل و فہم پر پردہ ڈال دیتے ہیں جس کی وجہ سے وہ غیظ و غضب کی آگ میں جلنے لگتا ہے اور چاہتا ہے کہ جس پر اسے غیظ و غضب آرہا ہے یا جس کی وجہ سے آرہا ہے اسے نیست و نابود کر دے اپنی پوری طاقت سے۔ مَیں آگے بڑھنا چاہتی تھی لیکن لوگ خوب بات کرنے لگے۔ میں صبر کرتی گئی۔ لوگوں کی باتوں پر بالکل بھی دھیان نہیں دیا۔ جب ایک انسان آگے بڑھتا ہے تو بہت کچھ سننا اور سہنا پڑتا ہے۔ صبر کرنا پڑتا ہے اور میں کرتی گئی۔ آن لائن کلاسیں شروع کر دی میں نے.... تعلیم دینے لگی بچیوں کو الحمدللہ۔ اور میرا صبر کام آگیا۔ اور آج یہی لوگ جو کل کو ہماری روک ٹوک بنتے تھے یہی معاشرہ، یہی لوگ اب تعریفوں کے پل باندھنے لگے۔
ہاجرہ نورمحمد (چکیا، حسین آباد، اعظم گڑھ، یوپی)
بے شک اللہ کی مرضی کے بغیر کچھ نہیں ہوتا!
ہماری زندگی میں حادثات رونما ہوتے رہتے ہیں۔ اس وقت ہمیں صبر اور استقامت کی ضرورت پڑتی ہے۔ میری زندگی میں بھی ایک حادثہ ایسا گزرا جو دل پر نقش ہوگیا تھا مگر میرے صبر نے مجھے اس حادثے سے نکال دیا۔ آج سے پانچ سال پہلے ہماری بیٹی حوریہ کی ولادت ہوئی۔ اس کی ولادت سے قبل ڈاکٹرز نے ہمیں سنگین خطرے سے آگاہ کر دیا یہ کہہ کر کہ بچہ صحتمند نہیں ہے۔ دوسرے اسپتال منتقل کردیا اور یہ بھی کہا کہ ڈیلیوری نارمل ہی کروانا کیونکہ جب بچہ صحیح ہی نہیں ہے تو آپریشن کروانے کا کیا فائدہ۔ یہ سب سن کر ہم سب پریشان ہو گئے مگر ہمیں اللہ پر کامل یقین تھا کہ وہ ہمیں اس مشکل سے نکالے گا۔ ڈاکٹرز کو اللہ نے حکمت ضرور دی ہے مگر اللہ کی مرضی کے بغیر تو کچھ بھی نہیں ہوتا۔ ہمارا آپریشن ہوا اور شکر اس ذات باری کا کہ اس نے ہمیں اپنی رحمت سے نوازا اور ہمارا صبرکام آگیا۔ یقیناً صبر انسان کو حالات سے لڑنے کی طاقت دیتا ہے۔
ایمن سمیر (اعظم گڑھ، یوپی)
اگلے ہفتے کا عنوان: کسی کی حوصلہ افزائی جو میری کامیابی کا سبب بنی
اظہار خیال کی خواہشمند خواتین اس موضوع پر دو پیراگراف پر مشتمل اپنی تحریر مع تصویر ارسال کریں۔ وہاٹس ایپ نمبر: 8850489134

متعلقہ خبریں

This website uses cookie or similar technologies, to enhance your browsing experience and provide personalised recommendations. By continuing to use our website, you agree to our Privacy Policy and Cookie Policy. OK