بچوں کے امتحانات ختم ہوتے ہی درسی کتابوں کو ردّی سمجھا جاتا ہے۔ اکثر گھروں میں اِن کو ردی والے کے حوالے کر دیا جاتا ہے۔ کم از کم آپ ایسا نہ کریں۔ خواتین چاہیں اور کوشش کریں تو یہ کتابیں ضرورتمند بچوں تک پہنچائی جاسکتی ہیں۔ یہ حسن ِ عمل ہے، غریب پروری ہے، علم کو آگے بڑھانے اور تعلیم کو عام کرنے کا ذریعہ ہے۔ یہ کارِ خیر ہے۔
یہ سمجھنا غلط ہے کہ آج کے دور میں بچوں کو کتابوں سے اُنسیت نہیں۔ اگر ایسا ہے تو یہ بڑوں کی ناکامی ہے۔ بچے کو جو سکھائیں وہ وہی سیکھتا ہے۔ تصویر: آئی این این
امتحانات ختم ہو چکے ہیں۔ بچوں کے بستے ہلکے ہو چکے ہیں اور ماں کی گود میں اب کچھ سکون ہے۔ لیکن اب وہ مرحلہ بھی آ پہنچا ہے جب پورے سال دل و جان سے خریدی گئی کتابیں ایک کونے میں پڑی گرد کھا رہی ہیں یا پھر وزن کم کرنے کے چکر میں ردی میں تولی جا رہی ہیں۔ کتابیں، جو کبھی علم کا خزانہ تھیں، جو کبھی روشن مستقبل کی علامت تھیں، اب صرف ۲۰؍ روپے فی کلو کے حساب سے کسی کباڑی کو دے دی جاتی ہیں اور وہ کباڑی ان کتابوں کو ترازو میں تولتا ہے۔ نہ ان کے الفاظ کو جانتا ہے، نہ ان کے احساس کو۔ نہ وہ محنت دیکھتا ہے جو ماں نے فیس کٹوتی کرکے ان کتابوں کے لئے پیسے بچائے تھے، نہ وہ خواب دیکھتا ہے جو کسی بچے نے ان کتابوں کے اوراق میں بسائے تھے۔ سوچنے کی بات ہے.... کیا ہم واقعی تعلیم یافتہ ہیں؟ کتابیں ردی میں دینا صرف ایک چیز کو بے وقعت کرنا نہیں، یہ ایک سوچ کا دیوالیہ پن ہے۔ اگر ہم ہزار روپے کی کتابیں ۵۰؍ روپے میں ردی والے کو دے دیں تو ہم نے نہ صرف پیسے ضائع کئے بلکہ موقع بھی.... ایک نیکی کا، ایک خدمت کا، ایک زندگی بدلنے کا۔
محترم خواتین! آپ ہی تو اصل معمارِ قوم ہیں۔ آپ کے ہاتھوں میں جھولنے والا ننھا بچہ کل کا لیڈر، استاد، یا سائنسدان بن سکتا ہے.... اگر آپ اسے شعور کے ساتھ پالیں۔ آپ کو قدرت نے یہ صلاحیت دی ہے کہ آپ نہ صرف اپنے بچوں کی بلکہ پوری نسل کی تربیت کریں۔
تو آئیے، ایک قدم اٹھائیں.... علم بانٹنے کا، محبت پھیلانے کا، اور رحم دلی کا۔
آپ کے گھر میں پڑی وہ پرانی کتابیں جن پر اب کسی کو توجہ نہیں، کسی اور کے گھر میں امید کی کرن بن سکتی ہیں۔
ایک بچہ جو کتابیں خریدنے کی طاقت نہیں رکھتا، ان کتابوں سے پڑھ کر اپنی دنیا بدل سکتا ہے۔
شاید وہ بچہ آج سڑک کنارے کوئی کام کر رہا ہو مگر اگر اسے آپ کی دی ہوئی کتابیں مل جائیں تو کل وہ کسی اسکول میں پہلا انعام جیت سکتا ہے۔
کتابیں کب ردی بنتی ہیں؟
جب ہم شعور کھو دیتے ہیں، جب ہمیں صرف قیمت دکھائی دیتی ہے، قدر نہیں۔
جب ہم سمجھتے ہیں کہ کام کی چیز صرف نئی ہوتی ہے، پرانی نہیں۔
لیکن سچ یہ ہے کہ کتابیں نہ کبھی پرانی ہوتیں، نہ ردی.... وہ ہمیشہ علم، شعور اور روشنی کا سرچشمہ رہتی ہیں۔
اگر ہم خواتین اپنے بچوں کے ساتھ ایک چھوٹا سا قدم اٹھا لیں.... ہر سال پرانی کتابوں کو چنیں، ان کی فہرست بنائیں، اور کسی وہاٹس ایپ گروپ میں شیئر کریں.... تو شاید کئی ماؤں کی آنکھوں میں سکون اتر آئے گا۔
یہ قدم چھوٹا لگتا ہے، مگر اس کا اثر بہت بڑا ہوتا ہے۔
کسی کا تعلیمی سال بچ سکتا ہے۔
کسی ماں کی دعا مل سکتی ہے۔
کسی بچے کا خواب بکھرنے سے بچ سکتا ہے۔
ماحول کو بھی فائدہ ہوگا کیونکہ نئی کتابیں درخت کاٹ کر بنتی ہیں اور ہم پرانی کتابوں کو دوبارہ قابلِ استعمال بنا کر قدرت کا شکر ادا کرسکتے ہیں آئیں، آج ہم یہ عہد کریں:
ہم کتابیں ردی میں نہیں دیں گے۔
ہم علم کا چراغ بجھنے نہیں دیں گے۔
ہم کسی کی امید بنیں گے، کسی کی روشنی۔
ہم اپنے بچوں کو بھی یہ سکھائیں گے کہ دینے میں ہی لینے کا راز ہے۔
ہم اپنے گھر سے یہ مہم شروع کریں گے کیونکہ ہر تبدیلی کی شروعات ماں کی گود سے ہوتی ہے۔
کتابوں کو ردی میں مت تولیں، انہیں دل میں تولیں۔ انہیں محبت سے سنبھالیں اور جب آپ کو لگے کہ وہ اب آپ کے کسی کام کی نہیں تو انہیں کسی کے ’کام‘ کا ذریعہ بنا دیں۔
کتابوں کی اصل قیمت ان کے لفظوں میں ہے، ان کے اندر چھپے سبق میں ہے اور ان ہاتھوں میں ہے جو انہیں محبت سے آگے بڑھائیں۔
یاد رکھیں، ہم نے اگر علم کو صرف پڑھ کر بند کر دیا تو ہم نے صرف ڈگری لی، شعور نہیں لیکن اگر ہم نے علم بانٹا، تو ہم نے نسلیں سنوار دیں۔
مہم شروع کریں
خواتین کتابیں مستحق بچوں تک پہنچانے کے لئے مہم شروع کرسکتی ہیں۔ وہاٹس ایپ کے ذریعہ اس مہم کا آغاز کیا جاسکتا ہے۔ آس پڑوس، جان پہچان والی اور رشتہ دار خواتین سے بات چیت کرکے وہاٹس ایپ گروپ بنایا جاسکتا ہے۔ جن گھروں میں کتابیں دستیاب ہیں ان سے حاصل کرکے ضرورت مند بچوں تک پہنچائی جاسکتی ہیں۔ اس مہم میں اسکول سے بھی تعاون حاصل کیا جاسکتا اور ایک بڑی تبدیلی لائی جاسکتی ہے۔