بورڈ امتحانات کو کم دباؤ والا بنایا جا رہا ہے مگر اسکول سے باہر مسابقت پہلے سے زیادہ ہو گئی ہے۔ داخلہ امتحانات، پیشہ ورانہ کورسیز اور سرکاری ملازمتوں کے امتحانات آج بھی ویسے ہی سخت اور چیلنجنگ ہیں۔ والدین، خاص طور پر ماؤں کو فکر لاحق ہے کہ ان کے بچوں کا مستقبل کیسا ہوگا؟ اس مضمون میں اسی جانب رہنمائی کی گئی ہے۔
بچوں کو سختی سے مجبور کرنے کے بجائے ان کی مثبت انداز میں رہنمائی کریں۔ تصویر: آئی این این
گزشتہ برسوں میں مہاراشٹر اسٹیٹ بورڈ نے امتحانی نظام کو طلبہ کیلئے کم دباؤ والا بنانے کیلئے کئی اصلاحات متعارف کروائی ہیں۔ نصاب کی سادگی، امتحانات کے وزن میں کمی اور تصوراتی سیکھنے پر زور جیسے اقدامات کے نتیجے میں آج کے طلبہ ایک ایسے تعلیمی ماحول میں تعلیم حاصل کر رہے ہیں جو پہلے کی نسبت کہیں کم دباؤ والا ہے۔ تاہم، ایک غیر متوقع تبدیلی یہ سامنے آئی ہے کہ جیسے جیسے طلبہ کے امتحانی دباؤ میں کمی آئی ہے، ویسے ویسے والدین اس دباؤ کا شکار ہورہے ہیں۔ یہ متضاد تبدیلی ایک نئے رجحان کو جنم دے رہی ہے، جہاں طلبہ کے بجائے والدین، خاص طور پر ماؤں کو مسلسل فکر لاحق رہنے لگی ہے۔ نتیجتاً، جس دباؤ کو ختم کیا جانا تھا، وہ نسل در نسل منتقل ہو رہا ہے مگر ایسا کیوں ہو رہا ہے؟ جب طلبہ کو کم دباؤ والے امتحانی نظام میں ڈھالا جا رہا ہے تو والدین کے ذہنوں میں یہ بے چینی کیوں پیدا ہو رہی ہے؟
اس دباؤ کی وجوہات
بہت سے والدین اُس تعلیمی نظام سے گزرے ہیں جہاں امتحانات نظم و ضبط، حافظے اور سخت محنت کا سب سے بڑا امتحان سمجھے جاتے تھے۔ ان کے دور میں کامیابی طویل امتحانی تیاریوں اور سخت مقابلے سے مشروط تھی۔ اب، جبکہ تعلیمی اصلاحات نے طلبہ پر دباؤ کم کر دیا ہے، والدین کو یہ خدشہ لاحق ہے کہ ان کے بچے حقیقی دنیا کے چیلنجز کیلئے تیار نہیں ہورہے۔ تصوراتی سیکھنے، عملی اطلاق اور تجزیاتی سوچ پر زور بعض والدین کو بیحد نرم پالیسی محسوس ہوتا ہے اور وہ یہ سمجھتے ہیں کہ اگر طلبہ پر زیادہ دباؤ نہ ڈالا جائے تو وہ کاہل اور غیر سنجیدہ ہو جائینگے۔ اس خوف کے باعث، والدین تعلیم میں ’کمی‘ کو گھر میں سختی سے پورا کرنے کی کوشش کرتے ہیں۔
اسکول سے باہر بڑھتی مسابقت
اگرچہ بورڈ امتحانات کو کم دباؤ والا بنایا جا رہا ہے مگر اسکول سے باہر مسابقت پہلے سے زیادہ ہوگئی ہے۔ داخلہ امتحانات، پیشہ ورانہ کورسیز اور سرکاری ملازمتوں کے امتحانات آج بھی ویسے ہی سخت اور چیلنجنگ ہیں۔ والدین کو یہ فکر لاحق رہتی ہے کہ اگر ان کے بچے کم دباؤ والے تعلیمی نظام میں پروان چڑھیں تو وہ مستقبل کے سخت امتحانات کا مقابلہ کرنے کے قابل نہیں رہیں گے۔ یہی خوف انہیں مجبور کرتا ہے کہ وہ اپنے بچوں کو گھر میں اضافی تعلیم دلوائیں، نجی ٹیوشنز میں داخل کریں اور حد سے زیادہ پڑھائی پر زور دیں۔
سماجی دباؤ اور موازنہ کرنے کا رجحان
ہمارے معاشرے میں تعلیمی کامیابی کا تعلق والدین کی عزت اور وقار سے جوڑا جاتا ہے۔ والدین پر ایک غیر علانیہ دباؤ ہوتا ہے کہ وہ اپنے بچوں کو اعلیٰ نمبروں اور شاندار ریکارڈز کے ساتھ نمایاں کریں۔ اگرچہ امتحانات میں نرمی آ گئی ہے مگر سماج کی توقعات کم نہیں ہوئیں۔ رشتہ دار، ہمسائے اور دوست احباب بچوں کے نمبر، گریڈ اور کارکردگی کا موازنہ کرتے رہتے ہیں جو والدین کیلئے ایک نفسیاتی جنگ بن گئی ہے اور وہ دباؤ میں آ کر اپنے بچوں پر حد سے زیادہ تعلیمی بوجھ ڈالنے لگتے ہیں۔
ہمہ جہتی ترقی کی غیر حقیقی توقعات
اب، طلبہ سے یہ توقع کی جاتی ہے کہ وہ صرف تعلیمی میدان میں ہی نہیں بلکہ کھیل، آرٹس، قیادت اور تخلیقی صلاحیتوں میں بھی مہارت حاصل کریں۔ یہ مثبت تبدیلی والدین پر ایک نئے قسم کا دباؤ ڈال رہی ہے کیونکہ انہیں صرف بچوں کی تعلیمی ترقی ہی نہیں بلکہ ان کی ہر لحاظ سے مکمل شخصیت سازی کی بھی فکر لاحق ہو گئی ہے۔
اگر والدین چاہتے ہیں کہ ان کے بچے حقیقی معنوں میں کامیاب ہوں تو انہیں، خاص طور پر ماؤں (چونکہ وہ بچوں کیساتھ زیادہ وقت گزارتی ہیں) کو اپنے رویے میں بنیادی تبدیلیاں لانا ہوں گی۔
نظام پر بھروسہ کریں: تعلیمی اصلاحات کو شک و شبہ کی نظر سے نہ دیکھیں بلکہ یہ سمجھنے کی کوشش کریں کہ یہ تبدیلیاں طلبہ کو جدید دنیا کے تقاضوں کے مطابق ڈھالنے کے لئے کی گئی ہیں۔
حوصلہ افزائی کریں: بچوں کو سختی سے مجبور کرنے کے بجائے ان کی مثبت انداز میں رہنمائی کریں۔ ان کی ترقی پر خوش ہوں، خواہ وہ تعلیمی ہو یا غیر نصابی سرگرمیوں میں۔ ان میں شوق اور لگن کو فروغ دیں۔
تعلیمی تبدیلیوں کو سمجھیں: تعلیمی ورکشاپس، سمینارز، اور تعلیمی اجلاسوں میں شرکت کریں تاکہ نئے نظام کو بہتر طریقے سے سمجھ سکیں۔
کامیابی کا نیا تصور اپنائیں: کامیابی محض نمبروں تک محدود نہیں۔ لہٰذا بچوں کو نئی مہارتیں سیکھنے، تخلیقی صلاحیتیں نکھارنے اور حقیقی دنیا میں جینے کے فن میں مہارت حاصل کرنے کی طرف راغب کریں۔
حرفِ آخر، تعلیم، نمبر سے زیادہ ایک مکمل شخصیت سازی کا عمل ہے۔
مہاراشٹر اسٹیٹ بورڈ کی تعلیمی اصلاحات طلبہ کیلئے مفید ثابت ہوسکتی ہیں لیکن اس کے فوائد تبھی حاصل ہوسکتے ہیں جب والدین، خاص طور پر مائیں خود کو ان تبدیلیوں کے مطابق ڈھالیں۔