Inquilab Logo Happiest Places to Work
Ramzan 2025 Ramzan 2025

بچوں کا دسویں کا امتحان، مائیں خاص خیال رکھیں

Updated: February 17, 2025, 2:01 PM IST | Sabiha Khan | Mumbai

۱۲؍ ویں کا امتحان جاری ہے جبکہ دسویں کے امتحانات شروع ہونے والے ہیں۔ چونکہ دسویں جماعت کے بچے پہلی بار بورڈ کا امتحان دینے والے ہیں اس لئے انہیں رہنمائی کی زیادہ ضرورت ہے۔ ایسے میں ماؤں کو ان کا خاص خیال رکھنا چاہئے۔ ان کی جسمانی صحت کے ساتھ ساتھ ذہنی صحت پر بھی توجہ دیں۔

Efforts should be made to ensure that children are not subjected to physical, emotional or psychological harm in any way. Photo: INN
کوشش یہ ہو کہ بچے کسی بھی طرح سے جسمانی، جذباتی یا نفسیاتی تکلیف کا شکار نہ ہوں۔ تصویر: آئی این این

امسال بورڈ امتحانات کو نقل سے پاک بنانے کے لئے حکومت نے کچھ راہ نما اصول بنائے ہیں۔ جیسے ڈرون کے ذریعہ نگرانی، امتحان گاہ سے قریب ۵۰۰؍ میٹر کے احاطہ میں ٹیلی فون بوتھ اور زیروکس پر پابندی اور وہاں دفعہ ۱۴۴؍ کا نفاذ تاکہ ۴؍ سے زائد افرد جمع نہ ہوسکیں۔ ان ساری احتیاط کے باوجود ۱۲؍ ویں کے پہلے پرچے میں نقل کے ۴۲؍ معاملات درج ہوئے۔ فکر کا مقام ہے۔ بچوں میں نقل کے اس رجحان کو کس طرح بدلا جائے؟ اتنی احتیاط کے باوجود نقل کے معاملے سامنے آئے۔ اب وہ طلبہ جو نقل کرتے ہوئے پکڑے گئے ہیں ان کی زندگی اس داغ کے ساتھ آسان نہیں رہے گی۔ ان کا تعلیمی سفر اور آگے کا کریئر دونوں تباہ ہیں۔ اس پر بہت زیادہ سوچنے کی ضرورت ہے کہ ہماری تربیت اور تعلیم میں کون سے عناصر کم رہ گئے!
ز بحیثیت سرپرست ہم نے اپنی تربیت میں اس کا خیال رکھا؟
ز کیا اپنی اسکول کے بہتر رزلٹ کے لئے اسکول نے کوئی حوصلہ افزائی کی؟
ز کیا ہم نے اپنے بچوں پر بہترین نتائج کا بوجھ اس قدر بڑھا دیا کہ وہ نقل کرنے پر مجبور ہیں؟
ز کیا نقل کو ہم نے ایک بے ضرر سی غلطی تسلیم کر لیا ہے اسے جرم سمجھنا چھوڑ دیا ہے؟
 وجوہات چاہے جو ہوں نقل ایک عیب ہے، جرم ہے گناہ ہے۔ حکومت کا شکریہ کہنا چاہئے کہ اس قدم سے نقل کرنے والوں پر دباؤ بنایا ہے جس سے ان طلبہ کی حق تلفی کا ازالہ ہوگا جو محنت اور ایمانداری سے پرچہ حل کرتے ہیں۔ دراصل نقل کرکے آپ ایک امتحان پاس کر لیں یا بڑے عمدہ نمبرات سے کامیاب بھی ہو جائیں آپ صلاحیت سے محروم رہیں گے۔ یہ ایسی کیفیت ہے جو آپ کو ہمیشہ احساس کمتری کا شکار رکھے گی۔ مائیں اپنے بچوں کو سمجھائیں۔ سب سے پہلے نقل کے رجحان کی مذمت ہونی چاہئے۔ نقل کرنا چوری کرنے جیسا عمل ہے۔
ز وہ سست اور لاپروا ہوکر وقت پر پڑھائی مکمل نہیں کرتے؟
ز اچھے نمبرات حاصل کرنے کا دباؤ؟
ز بغیر محنت عمدہ نمبرات پالنے کی چاہ؟
ز نقل کو برائی نہ سمجھتے ہوئے ایک ہوشیاری، مہارت اور فن سمجھنا۔
 اس کے علاوہ بھی وجوہات ہوسکتی ہیں۔ لیکن کوئی بھی جواز سے جرم کے لئے معافی کا سامان مہیا نہیں کرے گا۔ یہ غلط ہے اور ہمیشہ غلط رہے گا۔ امسال اگر یہ سختی اس قدر زیادہ ہے تو ظاہر ہے نقل کی شکایات اور معاملات بہت زیادہ سامنے آئے ہوں گے۔ طلبہ کو چاہئے کہ اپنے ذہن کو اس خیال سے پاک کر لیں کہ نقل کرنے کا موقع ملا تو ہم اس کا فائدہ اٹھا لیں گے۔ ایسا سوچیں کہ اگر ہمیں موقع میسر آیا تب بھی ہم کسی طرح کی نقل نہیں کریں گے۔ اپنی تیاری مطالعہ یادداشت پر اعتماد کرتے ہوئے امتحان گاہ جائیں۔ عنقریب دسویں کے بورڈ امتحانات شروع ہوں گے۔ طالب علم کی زندگی کا یہ سب سے اہم مرحلہ ہے۔ اس مرحلہ پر اس طالب علم کو اپنے مستقبل کا خیال کرتے ہوئے ’نقل‘ جیسی حماقت سے پر ہیز کرنا چاہئے۔ اسکول اور سرپرستوں کو اپنے بچوں کو نہ صرف یہ کہ تنبیہ کرنی چاہئے بلکہ نقل کے دوران پکڑے جانے پر ان کا کتنا نقصان ہوگا اس کا خوف بھی دلانا چاہئے۔ ان آخری لمحات کی تیاری بہت اہم ہے۔ اسلئے ماؤں سے گزارش ہے کہ اپنے دسویں بورڈ کے امتحان کی تیاری کرنے والے بچوں کا خاص خیال رکھیں۔ lماؤں سے بچوں کا لگاؤ سب سے زیادہ ہوتا ہے۔ اس وقت بچوں سے مثبت باتیں کریں۔
lمقوی غذا کھلائیں۔
lاس سال دسویں کے  بورڈ امتحان کے دوران رمضان بھی آرہا ہے جس سے ہمارے گھروں کے اوقات اور معمولات میں تبدیلی آئے گی۔ بچوں کو ان کی سہولت کے مطابق ان کا ٹائم ٹیبل سیٹ کرنے دیں۔ پڑھنے، عبادت، نمازوں، نیند وغیرہ کا معاملہ بھی طے کر لیں۔
lلڑکے ذرا لا پروا ہوتے ہیں ان پر آپ کو خاص نگرانی کرنی ہوتی ہے۔ لڑکوں کو زیادہ نرمی اور توجہ کی ضرورت ہے۔ وہ اپنی چیزیں بھی یہاں وہاں بھول جاتے ہیں اس لئے توجہ دیں۔
lلڑکیاں سنجیدہ تو ہوتی ہیں لیکن مقابلہ آرائی اور دوسروں کی جانب زیادہ توجہ دیتی ہیں۔ فلاں کیا کر رہی ہے؟ فلاں کب پڑھتی ہے؟ کب سوتی ہے؟ فلاں کا معاملہ ایسا ہے تو میں بھی ویسا کروں۔ مائیں اس پر بھی توجہ دیں کہ وہ اپنا قیمتی وقت ان سب میں برباد نہ کریں۔
lکوشش یہ ہو کہ بچے کسی بھی طرح سے جسمانی، جذباتی یا نفسیاتی تکلیف کا شکار نہ ہوں۔
 یہ بھی ہماری ذمہ داری ہے کہ بچوں پر اعلیٰ نمبرات سے کامیابی حاصل کرنے کا بوجھ نہ ڈالیں۔ ان کو حوصلہ دیں، ان کی فکر کریں اور ہر حال میں ان کو نقل سے گریز کرنے کی ہدایت دیں۔n

متعلقہ خبریں

This website uses cookie or similar technologies, to enhance your browsing experience and provide personalised recommendations. By continuing to use our website, you agree to our Privacy Policy and Cookie Policy. OK