اَب ڈائننگ ٹیبل کا کلچر عام اور دسترخوان کا استعمال کم ہورہا ہے۔ اکثر گھروں میں ’یوز اینڈ تھرو‘ والے دسترخوان استعمال ہوتے ہیں لیکن زیرنظر مضمون میں ماضی کے اُس دسترخوان کو موضوع بنایا گیا ہے جو مہمانوں کے لئے وسیع ہوجاتا تھا، جو بیٹی کو جہیز میں دیا جاتا تھا اور جو ایک اہم تہذیبی روایت تھی۔
مسلم معاشرے میں بھی اب ڈائننگ ٹیبل عام ہیں ۔ تصویر: آئی این این۔
آج میں الماری میں رکھے ویسے ان سبھی کپڑوں کا معائنہ کر رہی تھی جنہیں شاذو نادر ہی استعمال میں لانے کی نوبت آتی ہے۔ میں امی کی روایت کو قائم رکھتے ہوئے اسے دھوپ لگانے کے لئے بالکونی میں رکھنے جا رہی تھی تو اچانک میری نظر ایک چوکور سفید کپڑے پر مرکوز ہو گئی جس کے چاروں کونے پر خوبصورت باریک باریک کشیدہ کاری کی ہوئی تھی اور اس کے دونوں کونے کے بیچ میں چاروں طرف چاکلیٹی رنگ کے دھاگے سے مندرجہ ذیل شعر کڑھا ہوا تھا:
شکر کر رازق کا بد دل نہ ہو مہمان سے
رزق کھاتا ہے وہ اپنا تیرے دسترخوان سے
دراصل مندرجہ بالا خاکہ جو میں نے کھینچا ہے وہ ایک دسترخوان کا ہے۔ یہ وہ تاریخی دسترخوان ہے جو میری نانی نے میری امی کی شادی میں اُن کو دیا تھا اور پھر یہ تبرک امی نے میرے حوالے کر دیا جسے آج تک میں نے بھی سنبھال کر رکھا ہے اور حتی ا لامکان اس کی پاسداری کرنے کی کوشش کرتی رہی ہوں، اس دسترخوان کی اور خاص طور پر اس دسترخوان پر کڑھے ہوئے اس شعر کی۔ پتہ نہیں قارئین کو میری بات سمجھ میں آئی کہ نہیں ؟
دراصل دسترخوان کے چاروں کونے پر لکھا گیا یہ شعر گزرے زمانے کے ان لوگوں کے اخلاص و محبت کو سمیٹے ہوئے ہے جو ہمارا عظیم ورثہ رہے ہیں۔ جی ہاں …یہ وہی شعر ہے جو اس زمانے میں بازار میں ملنے والے تقریباً ہر ایک دسترخوان پر چھپا ہوا رہتا تھا۔ لڑکیوں کو شادیوں میں دینے کے لئے خاص طور سے ہاتھوں سے کاڑھ کر دسترخوان بنائے جاتے تھے۔ در اصل اس وقت ڈائننگ ٹیبل کا رواج عام نہیں تھا اور دسترخوان پر ہی طعام کا انتظام ہوا کرتا تھا۔ ایسا محسوس ہوتا ہے کہ وہ اشعار جہاں میزبان کے خلوص میں وسعت پیدا کرنے میں معاون ثابت ہوتے ہوں گے وہیں مہمان کو بھی دوچار دن مزید رک جانے میں بوجھل پن کے احساس سے نجات دلاتے ہوں گے۔
اب ذرا ہم دسترخوان کی تاریخ پر بھی ایک طائرانہ نظر ڈالنے کی کوشش کرتے ہیں۔ لفظ دسترخوان دراصل فارسی زبان سے نکلا ہے۔ یہ ’’دست‘‘، ’’تر‘‘ اور’’ خوان‘‘ (ہاتھ۔ بھیگا۔ کپڑا ) کا مرکب ہے۔ اس کی بنیاد اس اسلامی شعار سے بھی منسوب ہے جس میں کھانے کے پہلے ہاتھ دھونے کی تاکید کی گئی ہے۔ اس کا تعلق ان افغانی اور ایرانی روایات سے بھی ہے جس میں میزبان اپنے مہمانوں کو کھانے کے پہلے اور بعد میں لگن میں ہاتھ دھلایا کرتے تھے۔ لیکن یہ روایات اب تقریباً مفقود ہو چکی ہیں۔ رسول اکرم ﷺ دسترخوان کا استعما ل کیا کرتے تھے۔ آپؐ کا ارشاد مبارک ہے کہ دسترخوان کھانے کو برباد ہونے سے بچاتا ہے اور دسترخوان میں برکت ہے۔
ان دنوں تو بڑے بڑے دسترخوان دکھائی دیتے ہیں مثال کے طور پر دسترخوان کریم، دسترخوان اودھ وغیرہ وغیرہ۔ لیکن قارئین، یہ وہ دسترخوان نہیں ہیں جن کا ان کالموں میں تذکرہ کیا جارہا ہے بلکہ یہ مغلئی کھانوں کے ریستوراں کے نام ہیں۔ لیکن دستر خوان کے نام پر کتنے بھی ریستوراں کھل جائیں، اس رواریتی دسترخوان پر دیسی اور مغلئی لذیذ کھانے کا لطف ہی نرالا ہوا کرتا تھا۔ جتنے لوگ آجاتے اسی لحاظ سے دسترخوان کو وسیع سے وسیع ترکر دیا جاتا تھا اور سب اس میں سما جاتے تھے۔ ہاں کچھ خاص ڈش ہے جو اگر مقدار میں کچھ کم ہے تو سارے میزبان اس کوشش میں رہتے کہ مہمان زیادہ سے زیادہ اس سے فیضیاب ہو سکیں۔ بچوں کو بھی بڑے اپنی آنکھوں سے اشارہ کرتے کے یہ کم ہے اس لئے یہ مہمان ہی کھائیں گے، ۔ تم دوسری چیزوں پر اکتفا کرو۔ اس طرح اس مخصوص ڈش سے محروم رہ کر آنکھوں ہی آنکھوں میں بچوں کو ’قناعت ‘ کا سبق بھی دے دیا جاتا تھا۔
یہ ایک خوش آئند بات ہے کہ آج کے دور میں عام طور پر بچے فراوانی میں پلتے ہیں لیکن اس کا دوسرا پہلو یہ بھی ہے کہ ان کی لفظ ’قناعت ‘ سے کبھی ملاقات ہی نہیں ہوتی۔ دسترخوان کے حوالے سے ایک دلچسپ بات اور یاد آئی۔ وہ ہے مرغ کے ککڑوکوں سے دسترخوان کی زینت بننے کی کہانی۔ اُس زمانے ہیں پولٹری فارم نہیں ہوا کرتے تھے۔ اس لئے مرغے کو بہت اہمیت حاصل تھی۔ اگر کسی مہمان کی تواضع مرغے سے نہیں کی گئی تو بعض دفعہ شکایتیں ہو جایا کرتی تھیں ۔ لہٰذا لوگ اپنے گھروں میں مرغیاں پالا کرتے اور انڈوں پر مرغیاں بٹھائی جاتیں۔ تقریباً ایک مہینے بعد جب انڈوں میں سے ننھے ننھے بچے نکلتے تو ان میں کچھ مرغیاں ہوتیں اور کچھ مرغے۔ مرغیوں کی جان تو انڈے دینے کی وجہ سے بخش دی جاتی لیکن مر غے جب بڑے ہوجاتے تو مذکر ہونے کی وجہ سے برتری کا احساس ان میں بھی پیدا ہو جاتا لہٰذا اکڑ اکڑ کر شان سے چلتے۔ لیکن ان کی عقل تب ٹھکانے آجاتی جب گائوں میں کوئی مہمان، خاص طور پر داماد ٹائپ کی کوئی شخصیت قدم رنجہ فرماتی۔ اس کی سمجھ میں آجاتا کہ میرے دن اب پورے ہو گئے یعنی دسترخوان کی زینت بننے کا وقت آگیا ہے۔
کن کن یادوں کو سمیٹوں …جو ماضی کا اٹوٹ حصہ رہے ہیں اور ہماری زندگی پر ایک انمٹ چھاپ چھوڑ گئے ہیں۔ اسی لئے شاید چچا غالب نے فرمایا ہے ؎
یاد ماضی عذاب ہے یارب=چھین لے مجھ سے حافظہ میرا