• Fri, 21 February, 2025
  • EPAPER

Inquilab Logo Happiest Places to Work

بیٹی ماں کی رازدار اور بہترین دوست بھی

Updated: February 19, 2025, 3:18 PM IST | Farah Haider | Mumbai

بیٹیوں سے ایک الگ ہی رونق ہوتی ہے۔ اسکول سے آنے کے بعد اپنی دن بھر کی روداد سنانا اور گھر میں ہوتے ہوئے ہر تھوڑی دیر بعد ماں کو بار بار پکار کر اپنے گھر میں ہونے کا احساس دلانا، بار بار اپنے پاس بلا کر بٹھانا اور پوچھنے پر کہ ’’کیا کام ہے؟‘‘ تو کہنا کہ ’’کچھ نہیں بس میرے پاس بیٹھئے!‘‘ ماں کو بھی یہ انداز بہت سکون دیتا ہے۔

A calm smile from a daughter brings a lot of peace to a mother. Photo: INN
بیٹی کی ایک پرسکون مسکراہٹ ماں کے اندر ڈھیروں سکون اُتار دیتی ہے۔ تصویر: آئی این این

اللہ کی رحمت ہوتی ہیں بیٹیاں۔ قسمت والوں کو ہی یہ رحمت نصیب ہوتی ہے۔ بچے تو سبھی پیارے ہوتے ہیں چاہے بیٹا ہو یا بیٹی مگر بیٹیوں میں کچھ خاص ہی بات ہوتی ہے۔ لوگوں کا کہنا ہے کہ بیٹیاں باپ سے بہت محبت کرتی ہیں اور اُن کے قریب ہوتی ہیں، اور حقیقت بھی یہی ہے مگر ماں کی ہم راز اور اُن کے ایک آنسو پر پریشان ہو جانے والی اور آنسو کی وجہ بننے والے کے سامنے ڈٹ کر کھڑی ہو جانے والی بیٹیاں ہی ہوتی ہیں۔ مگر اُن کی والدین کے ساتھ کی مدت اتنی مختصر کیوں ہوتی ہے؟ اُن کا بچپن تو اُن کی تعلیم و تربیت اور پرورش میں گزر جاتا ہے، جب تک وہ اپنے مستقبل کی تعلیم کے بارے میں سوچتی ہیں یا اُس کو عملی جامہ پہناتی ہیں، تب تک ان کا بچپن ایک خوبصورت یاد بن جاتا ہے، جسے ماں بیٹیاں ساتھ ساتھ یاد کرکے اُن لمحوں کو بار بار جیتی ہیں۔
 ماں اُن کی تربیت کے دوران اپنے تجربے سے سیکھنے والے ہر چھوٹے بڑے پہلو سے ان کو آگاہ کرتی رہتی ہے تاکہ آنے والی زندگی میں اسے کسی قسم کی پریشانی نہ اٹھانی پڑے۔ مطمئن اور پرسکون رہنے کی دو بہت اہم چابیاں ہیں، جس سے ہر مشکل تالے کو کھولا جا سکتا ہے۔ ’’صبر اور شکر‘‘ اگر ہر بیٹی اس بات کو گرہ باندھ لے اور اس پر عمل کرے تو دنیا کی کی کوئی بھی پریشانی کا سامنا وہ بآسانی کرسکتی ہے۔ بیٹی کی ایک پرسکون مسکراہٹ ماں کے اندر ڈھیروں سکون اُتار دیتی ہے، باپ کی دن بھر کی تھکان پل بھر میں غائب کر دیتی ہے۔ والد مالی یا ذہنی کتنا بھی پریشان کیوں نہ ہو لیکن بیٹی کی ایک معمولی سی خواہش بھی چہرے پر شکن لائے بغیر اسے پوری کرنا اپنا اولین فرض سمجھتا ہے۔
 بیٹیوں سے ایک الگ ہی رونق ہوتی ہے۔ گھر میں ہر وقت بولنا، کوئی نہ کوئی قصہ بیان کرنا، اسکول سے آنے کے بعد اپنی دن بھر کی روداد سنانا اور گھر میں ہوتے ہوئے ہر تھوڑی دیر بعد ماں کو بار بار پکار کر اپنے گھر میں ہونے کا احساس دلانا، بار بار اپنے پاس بلا کر بٹھانا اور پوچھنے پر کہ ’’کیا کام ہے؟‘‘ تو کہنا کہ ’’کچھ نہیں بس میرے پاس بیٹھئے!‘‘ ماں کو بھی یہ انداز بہت سکون دیتا ہے کہ ہر بات میں وہ ماں کو شامل کرتی ہے۔
 چھٹیوں میں کچن کی شامت آنا بھی کیا خوب ہوتا ہے، ایکدم ہی کچھ پکانے کا دل چاہنے لگتا ہے اور ہر چیز مہیا کرنے میں ہی پورا دن خرچ ہو جاتاہے یا یوں کہنا زیادہ مناسب ہوگا کہ دانستہ طور پہ دیر لگائی جاتی ہے کہ جو بھی تیار ہو وہ ابّا کے سامنے تیار ہو اور منہ میں لقمہ جاتے ہی سوالیہ نظروں سے دیکھنا کہ کیسا پکا ہے اور ماں کے اُوپر بار بار احسان جتانا کہ ’’میری وجہ سے آج آپ کو کچن میں نہیں جانا پڑا۔‘‘ ماں اُن کے اس احسان کو بھی خوشی خوشی قبول کرتی ہے۔ بیٹی کے ہاتھ کا لذیذ کھانا کھا کے یقین ہی نہیں آتا کہ یہ میری بیٹی کے ننھے ہاتھوں کا کمال ہے جو ابھی کچھ وقت پہلے تک کوئی بھی گرم چیز چھو لینے پر اپنے ہاتھوں پر پھکواتی تھی، مگر جب ماں کسی دوسرے سے اپنی بیٹیوں کی تعریف سنتی ہے تو دل میں سکون ہی سکون اتر جاتا ہے۔
 بچپن سے اس میں خود اعتمادی پیدا کرنے کی کوشش اس وقت رنگ لاتی ہے جب وقت پڑنے پر وہ اعتماد سے کہتی ہے کہ ’’آپ پریشان کیوں ہوتی ہیں؟ ہم ابھی آپ کا کام کئے دے رہے ہیں، آپ رہنے دیجئے ہم ابھی آپ کا ضروری سامان لے آتے ہیں۔‘‘ اور کبھی کبھی تو وہ ماں کی بھی ماں بن جاتی ہے، اپنی صحت کا خیال نہ رکھنے پر حق سے دانٹتی بھی ہے، مگر اس ڈانٹ میں بھی اس کا ڈھیروں پیار اور خیال بول رہا ہوتا ہے۔ بیٹی ماں کی راز دار کے ساتھ ساتھ بہت اچھی دوست بھی ہوتی ہے، جس سے ماں ہر طرح کے عنوان پر بات کرتی ہے اور مشورہ بھی لیتی ہے، یہ بھی ماں کا ایک انداز ہوتا ہے بیٹی کے خیالات جاننے کا اور سمجھنے کا، کہ اُس کی بیٹی کے کس کے بارے میں کیا خیالات ہیں کیونکہ ایک بیٹی کو ماں سے بہتر کوئی نہیں سمجھ سکتا اور بیٹی بھی ماں کو اتنی ہی اچھی طرح سمجھتی ہے کہ ماں کو کس وقت کس کی بات اچھی نہیں لگی، یا یہ کام ان کو اچھا نہیں لگے گا، ماں لاکھ کوشش کرے چھپانے کی مگر بیٹیاں سب سمجھ جاتی ہیں۔ بیٹیوں کے اپنے گھر جانے کے بعد ماں کے پاس بس اُس کی یہی یادیں رہ جاتی ہیں، ماں کا دل کبھی غمزدہ بھی ہوتا ہے تو وہ یہ سوچ کر مطمئن ہو جاتی ہے کہ وہ اپنے گھر، شوہر اور اس سے جڑے ہر رشتے سے خوش ہے۔ اگر کوئی یہ کہتا ہے کہ تم بالکل اپنی ماں کے جیسی ہو یا ایسے ہی اُن کا بھی مزاج تھا تب تو دل ہواؤں میں ہی اڑنے لگتا ہے۔
 لوگوں کے کچھ ایسے جملے جو ہر ماں کے دل کو بہت تکلیف دیتے ہیں جیسے ’’اچھا بیٹی ہے بس ایک بیٹا بھی ہو جاتا‘‘ ’’ارے بیٹا ہوتا تو وہ خاندان کا نام روشن کرتا بیٹی کیا کریگی!‘‘ بھلا بیٹی کیوں نہیں کرے گی آپ اس کو محبت، توجہ، بہترین تعلیم دیں، اس پر اعتماد کریں، اُس کی حوصلہ افزائی کریں وہ بھی اپنے والدین کا اپنے خاندان کا نام روشن کرے گی۔

متعلقہ خبریں

This website uses cookie or similar technologies, to enhance your browsing experience and provide personalised recommendations. By continuing to use our website, you agree to our Privacy Policy and Cookie Policy. OK