ماہرین کا کہنا ہے کہ نوجوانوں میں ڈپریشن کی ایک وجہ نیند پوری نہ ہونا ہے۔ اس کے علاوہ بچے ناکامی سے بھی گھبرانے لگے ہیں۔ ہمیں چاہئے کہ انہیں حوصلہ دیں اور ان کی ذہن سازی کی جائے کہ ہر کسی کو مشکل حالات کا سامنا کرنا پڑتا ہے۔ ان کا مقابلہ کرنا چاہئے ہمت اور حوصلہ کے ساتھ۔
بچوں کو حالات سے مقابلے کرنا سکھانا چاہئے۔ تصویر : آئی این این
آج کے دور میں بیروزگاری اور ڈپریشن دو سنگین مسائل بن چکے ہیں جس سے نوجوان سب سے زیادہ متاثر ہو رہے ہیں۔ بیروزگاری کی وجہ سے لوگوں کی زندگی میں عدم تحفظ اور مایوسی کا احساس بڑھتا جا رہا ہے جس کی وجہ سے ذہنی صحت پر منفی اثرات مرتب ہو رہے ہیں۔ ڈپریشن ایک ایسی بیماری ہے جس کو آئے دن نوجوان نسل میں بڑھتا ہوا دیکھا جا رہا ہے۔ اس کی وجہ سے انسانی سکون تباہ و برباد ہورہا ہے۔ موجودہ دور میں ایسا کوئی بھی گھر نہیں جو اس بیماری سے بچا ہوا ہے۔ ماہرین اس بیماری کی متعدد وجوہات بتاتے ہیں۔ ایک تو آج کل کی نوجوان نسل کو دماغی سکون میسر نہیں ہوتا دوسرے نیند مکمل نہیں ہوتی ہے جبکہ کچھ لوگ زندگی میں ناکامی کی وجہ سے اس بیماری کا شکار ہو جاتے ہیں۔ ملک کے دیگر علاقوں کی طرح جموں کشمیر کے سرحدی علاقہ پونچھ کے نوجوان بھی اس کا شکار ہورہے ہیں۔
۳۲؍ سالہ وسیم اقبال نے جغرافیہ میں دہلی کی جامعہ ملیہ اسلامیہ یونیورسٹی سے ایم اے اور ساتھ میں نیٹ کی ڈگری بھی حاصل کی ہے۔ اتنے بڑے امتحانات پاس کرنے کے باوجود وہ لگاتار جموں کشمیر پبلک سروس کمیشن کے امتحانات کیلئے جدوجہد میں لگے ہوئے ہیں۔ ان کا کہنا ہے کہ ہمارے اپنے مضمون میں اگر کوئی اسامی آتی ہے تو محض دو سے چار ہی ہوتی ہیں۔ جبکہ ان اسامیوں کیلئے اپلائی کرنے والوں کی تعداد ہزاروں میں ہوتی ہے۔ ایسے میں ہم کیا کریں؟ گھر والوں کی امیدیں ہم سے وابستہ ہیں۔ آخر کب تک نوکری کے انتظار میں بیٹھیں گے؟ اتنا پڑھ لکھ کر آج ہم ڈپریشن جیسی بیماری کا شکار ہوتے جا رہے ہیں۔ ان کا مزید کہنا ہے کہ ۲۰۱۹ء سے بھی پہلے ہم نے فارم پُر کئے تھے لیکن آج تک ان کے امتحانات نہیں ہوئے۔ بس ہم امید لگائے بیٹھے ہیں۔ وہ کہتے ہیں کہ اس معاملے میں وہ اکیلے نہیں ہیں بلکہ ان کے جیسے کئی نوجوانوں کا مستقبل داؤ پر لگا ہوا ہے۔
ایک طالبہ جتنا کماری بتاتی ہیں کہ انہوں نے سینٹرل یونیورسٹی جموں سے ایم اے پبلک ایڈمنسٹریشن کے بعد نیٹ کا امتحان پاس کیا اور پھر جے این یو سے پی ایچ ڈی مکمل کی۔ اس کے بعد کافی جدوجہد کر انہیں پنجاب کے آدم پور کالج میں ایڈھاک پر دو سال کام کرنے کا موقع ملا۔ ان کا کہنا ہے کہ اتنی ڈگریاں حاصل کرکے ہمیں اپنا مستقبل کہیں نظر نہیں آتاہے۔ حال ہی میں جموں یونیورسٹی میں ہمارے مضمون سے جڑے پرماننٹ پروفیسر کیلئے صرف دو ویکنسی ہے جس کیلئے ساٹھ سے زیادہ امیدواروں نے اپلائی کیا تھا۔ اتنی محنت مشقت کے ساتھ میں نے یہ سب ڈگریاں حاصل کیں کہ آنے والی نسل اس مضمون کی اہمیت کو سمجھ سکے اور اس مضمون کا بھی ایک اپنا ڈپارٹمنٹ ہو لیکن اب مجھ جیسے کئی نوجوان اس میں ایم اے نیٹ اور پی ایچ ڈی کرکے مستقل ملازمت کے انتظار میں بیٹھے ہیں۔ ایسے میں ہم احساس کمتری کا شکار ہوکر ڈپریشن جیسی بیماری میں مبتلا ہو رہے ہیں۔ اس سے ہمارا ذہنی سکون تباہ وبرباد ہو رہا ہے۔
ماہرین بتاتے ہیں کہ ڈپریشن ایک ایسی حالت ہے جس میں انسان ہمیشہ اداس اور افسردہ رہتا ہے۔ ناکامی، بیروزگاری، خود اعتمادی کا فقدان، سماجی تنہائی اور معاشی دباؤ کا باعث بنتی ہے، جو ڈپریشن کو فروغ دیتی ہے۔ کئی بار لوگ اتنے مایوس ہو جاتے ہیں کہ وہ خودکشی جیسا سخت قدم اٹھانے پر مجبور ہو جاتے ہیں۔
اس حساس مسئلہ کا حل بھی ممکن ہے۔ حکومت کے ساتھ ساتھ معاشرے کو بیروزگاری اور ڈپریشن سے نمٹنے کے لئے مشترکہ کوششیں کرنا ہوگی۔ سب سے پہلے جہاں روزگار کے نئے مواقع پیدا کرنے کے لئے ٹھوس اقدامات کرنے ہوں گے۔ نوجوانوں کو روزگار کے لئے تربیت اور ہنرمندی کے فروغ کے پروگراموں میں حصہ لینے کی ترغیب دینی ہوگی۔ اس کے علاوہ دماغی صحت کی خدمات کو بھی قابل رسائی بنانا ہوگا تاکہ ضرورت مند لوگوں کو صحیح وقت پر مدد مل سکے۔ وہیں دوسری جانب معاشرے کو بھی نوجوانوں کی حوصلہ افزائی کی جانی چاہئے۔ ڈپریشن سے نمٹنے کے لئے خاندان اور دوستوں کا تعاون بہت ضروری ہے۔ معاشرے کو ایسے افراد کی نشاندہی کرنی چاہئے جو بے روزگاری کی وجہ سے ذہنی مسائل کا شکار ہیں اور انہیں ذہنی اور جذباتی مدد فراہم کریں۔ مزید برآں، مراقبہ، یوگا اور دیگر ذہنی صحت کے طریقے بھی ڈپریشن سے نمٹنے میں مددگار ثابت ہو سکتے ہیں۔
بیروزگاری اور ڈپریشن کا ایک دوسرے سے گہرا تعلق ہے۔ اس لئے ان دونوں مسائل کا حل معاشرے کے ہر طبقے کی شراکت ہی سے ممکن ہے۔ اگر ہم سب مل کر اس سمت میں کوششیں کریں تو ہم بیروزگاری اور ڈپریشن دونوں سے مؤثر طریقے سے نمٹ سکتے ہیں۔ اس کے علاوہ نئی نسل کو حالات سے مقابلے کرنا سیکھنا ہوگا۔
(چرخہ فیچرس)