عہد وسطیٰ سے آج تک پوری دنیا میں خواتین کا ذکر ان کی بہترین کارکردگی کے ساتھ ملتا ہے۔ جس کی وجہ سے وہ عظیم مرتبہ پر پہنچیں اور آج بھی ان کی عظمت بر قرار ہے۔ موجودہ دور کی خواتین کو ضرورت ہے اپنے آپ کو پہچاننے کی، پختہ ارادوں کی اور حوصلوں کی بلندی کی...
خواتین ابتدائی زمانے ہی سے اپنے اندر بہت سے ہنر اور قابلیت رکھتی ہیں۔ تصویر: آئی این این
فردوس انجم (بلڈانہ، مہاراشٹر)
inquilab@mid-day.com
تاریخ کے مطالعے سے معلوم ہوتا ہے کہ خواتین ابتدائی زمانے ہی سے اپنے اندر بہت سے ہنر اور قابلیت رکھتی ہیں۔ مختلف شعبہ جات ہو، ادب ہو یا راج پاٹ انہوں نے زمانے کے ساتھ چلنا سیکھا۔ عہد وسطیٰ سے آج تک پوری دنیا میں خواتین کا ذکر ان کی بہترین کارکردگی کے ساتھ ملتا ہے۔ جس کی وجہ سے وہ عظیم مرتبہ پر پہنچیں اور آج بھی ان کی عظمت بر قرار ہے۔ موجودہ دور کی خواتین اپنے آپ کو مستحکم بنانے کا سوچیں، ان خواتین سے اپنا موازنہ کریں کہ آج کس قدر وسائل اور سہولیات موجود ہیں، آج خواتین کیلئے راہیں کھلی ہوئی ہیں، بس انہیں ضرورت ہے اپنے آپ کو پہچاننے کی، پختہ ارادوں کی، حوصلوں کی بلندی کی کہ اس وقت اتنی کم سہولیات کے باوجود یہ خواتین آج بھی بطور مثالی شخصیات متعارف ہیں تو ہم بھی اس راہ کی مسافر بن سکتی ہیں۔ پُر عزم زندگی گزارنے کیلئے ہم ان خواتین کی مثالوں کو سامنے رکھ کر اپنے مقاصد متعین کرسکتے ہیں۔
تاریخ بتاتی ہے کہ کئی خواتین قائدانہ کردار ادا کرچکی ہیں جن میں صف اول پر رضیہ سلطان ہے جو دہلی سلطنت کی پہلی حاکم رہ چکی ہیں۔ اسی طرح چاند بی بی، رانی لکشمی بائی، بی بی حضرت محل، اندرا گاندھی وغیرہ قابل ذکر ہیں۔ وہیں عالمی منظر نامہ کے اوراق پلٹیں تو ملکہ وکٹوریہ، ملکہ ایلزبیتھ اوّل اور ملکہ ایلزبیتھ دوم کےنام سامنے آتے ہیں۔ اس کے علاوہ کچھ خواتین اگرچہ خود فیصلے نہیں کرتی تھیں مگر ان کے مشورے اہمیت کے حامل ہوا کرتے تھے جس کی عمدہ مثال رانی جودھا بائی ہے۔ دوسری طرف علم، طب اور سائنس میں خواتین کا ذکر قرون وسطیٰ سے ملتا ہے۔ حالانکہ اس دور میں بھی خواتین کی تعلیم عام نہیں تھی۔ لیکن اٹلی کے طبی شعبوں میں خواتین کو تعلیم حاصل کرنے کا موقع دیگر مقامات کے مقابلے زیادہ آزاد اور منظم نظرآتا ہے۔ اٹلی کے شعبۂ سائنس میں یونیورسٹی سے نشست حاصل کرنے والی پہلی خاتون ۱۸؍ ویں صدی کی معروف شخصیت (سائنسداں) ’لارا بسی‘ ہے۔ اس دور کا جائزہ لیا جائے تو معلوم ہوتا ہے کہ ۱۸؍ ویں صدی میں مختلف شعبہ ہائے زندگی میں خواتین اپنا کردار متعین کرچکی تھیں۔ اسکے باوجود سائنس اور طب میں خواتین کی پیش رفت مدھم تھی۔ ۱۹؍ ویں صدی میں بھی خواتین رسمی سائنسی تعلیم سے دور تھیں۔ ۱۹؍ ویں صدی کے اواخر میں خواتین کا کالج میں تعلیم حاصل کرنے کے رجحان میں اضافہ ہوا اور یوں خواتین سائنسی تعلیم سے آراستہ ہونے لگیں۔ ہندوستان کی پہلی ڈاکٹر آنندی بائی جوشی ان ہی راستوں سے گزر کر اس مقام پر پہنچی تھیں۔
تاریخ شاہد ہے کہ ادب میں بھی خواتین نے شروع سے دلچسپی رکھی ہے۔ اس کی پہلی مثال ہمیں میرا بائی، جو کرشن بھکت تھیں۔ انہوں نے سولہویں صدی کے اوائل میں اپنی شاعری شروع کی، ان کی شاعری ہمیں دوہو کے روپ میں ملتی ہے۔ ان کے مشہور دوہے: میرا کو کیا ملا کہئے، ملے پریم پریتم پیارے/ جوگی تھا جوگن ہوئی، رام نام سے پریت! اسی طرح اردو زبان و ادب میں ’ماہ لقا چندہ‘ جو دکن کے اردو زبان کے اولین شعراء میں شمار ہوتی ہیں۔ ۱۸؍ ویں صدی میں انہیں پہلی صاحب دیوان شاعرہ کا خطاب حاصل ہوا۔ دنیا کے ادب کا مطالعہ کریں تو وہاں بھی شروع سے ہی ادب داں خواتین ہمیں نظر آتی ہیں۔ جن میں صرف جے کے رولنگ جو مشہور کردار ہیری پوٹرکی تخلیق کار ہیں کا نام لینا چاہوں گی، انہوں نے اپنی ازدواجی زندگی میں ناکام ہونے کے بعد ادبی سفر کی شروعات کی اور محض چار برسوں میں ایک شاہکار کردار کی تخلیق کی۔
اسی طرح سروجنی نائیڈو، اینی بیسنٹ، امن کی دیوی مدر ٹریسا وغیرہ نے اپنی قابلیت کا ثبوت دیا ہے۔ سماجیات میں اپنا کردار ادا کرنے والی ایمائیل درکھیم کسی تعارف کی محتاج نہیں۔ دنیا میں کئی خواتین نے مختلف علوم و فنون میں اپنی کارکردگی بہترین انداز میں پیش کی ہے جس کی وجہ سے وہ آج بھی دنیا میں مثالی خواتین کے روپ میں زندہ و تابندہ ہیں۔ دور وسطیٰ کے یہ وہ روشن چراغ ہیں جنہوں نے اس وقت کی سماجی حیثیت کو قبول کیا اور اپنے ارادوں پر جمی رہیں۔ بے شک ان کی تعداد سماج اور معاشرے کی پابندیوں کی وجہ سے کہیں زیادہ اور کہیں کم ہے لیکن تب بھی ہمیں یہ خواتین بلند حوصلے کا درس دیتی ہیں۔
موجودہ دور ڈجیٹل دور ہے۔ آج ہمیں دنیا بھر کی معلومات گھر بیٹھے دستیاب ہیں۔ سہولیات کی فراوانی ہے، پھر بھی وہ کون سی باتیں ہیں جو ہمیں ایک مثال بننے سے روکے ہوئے ہیں؟ خود کو جانیں، اپنے اندر چھپی ہوئی صلاحیتوں کو پہچانیں، اور انہیں بروئے کار لا کر، ان خواتین کی مثال کو سامنے رکھیں، طے کریں کہ تاریخ کے اوراق میں اس دیے کی مانند ہو جائیں جو ہمیشہ جلتا رہتا ہے جس کی روشنی مستقبل کو روشن کرتی ہے۔ جو اوروں کو راستہ دکھاتا ہے۔ یقین جانیں آپ کرسکتی ہیں۔ خواب دیکھیں بھی اور اس کی تعبیر بھی خود بنیں۔ آخر میں بس یہ کہ ارادے جن کے پختہ ہوں وہ طلاطم خیز موجوں سے گھبرایا نہیں کرتے۔n