• Thu, 06 February, 2025
  • EPAPER

Inquilab Logo Happiest Places to Work

جنریشن بیٹا اور معاشرہ کی ماؤں کی ذمہ داریاں

Updated: February 06, 2025, 2:16 PM IST | Ansari Ayesha Aqsadar Ahmad | Mumbai

نئی نسل ایسی دنیا میں ہوش سنبھالے گی جو ماضی قدیم اور ماضی بعید کی دنیا سے غیر معمولی طور پر مختلف ہے۔ یہ نسل پیش رو نسلوں کی سرپرستی میں دنیا کو جتنی اچھی طرح سمجھے گی اتنا اس کے حق میں مفید ہوگا۔ ماؤں کی ذمہ داری ہوگی کہ وہ اس نسل کی ذہن سازی کریں۔ انہیں وہ مہارتیں سکھائیں جو قدرتی طور پر اے آئی والے ماحول میں تیار نہیں ہوسکتیں۔

In today`s era of artificial intelligence (AI), training the new generation of mothers will be no less than a challenge. Photo: INN
آج کا دور مصنوعی ذہانت (اے آئی) کا ہے، ایسے میں ماؤں کیلئے نئی نسل کی تربیت کرنا کسی چیلنج سے کم نہیں ہوگا۔ تصویر: آئی این این

عصر جدید میں جب نوجوانوں سے پوچھا جاتا ہے کہ زندگی کا مقصد کیا ہے تو تعلیم یافتہ نوجوان بھی مقصد ِ زندگی کے تعلق سے عام طور پر یہی کہتے ہیں ’’اِیٹ، ڈرنک اینڈ بی ہیپی!‘‘ خوب عیش کر لو کیونکہ عالم دوبارہ نہیں ہے۔ حقیقت یہ ہے کہ اے آئی، روبوٹک اور مشینوں کے اس دور میں نوجوان اپنے آپ کو زمانے کے بدلتے ہوئے حالات کے موافق نہیں ڈھالتے اور ان کے سرپرست خصوصاً مائیں ان کی رہنمائی نہیں کرتیں تو وہ دنیا کی ترقی یافتہ قوموں سے بہت پیچھے رہ جائینگے بلکہ اپنا وجود شناخت ہی کھو دیں گے۔
 اے آئی ٹیکنالوجی کے عہد کی پہلی نسل جن کا ۲۰۳۵ء تک عالمی آبادی میں ۱۶؍ فیصد حصہ ہوگا۔ یہ بچے ٹیکنالوجی کو روزمرہ کی زندگی میں مکمل طور پر شامل کر لیں گے۔ یہ نسل نئی ٹیکنالوجیز، سماجی اقدار، ماحولیاتی تبدیلیوں، شہروں کا پھیلاؤ کے درمیان پروان چڑھے گی۔ آئیے اس نسل کی ممکنہ خصوصیات، چیلنج اور ان کی تربیت اور رہنمائی پر روشنی ڈالیں تاکہ وہ اپنا کردار بخوبی ادا کرسکیں۔
ٹیکنالوجی کا عروج اور جنریشن بیٹا: یہ نسل ایسی دنیا میں پیدا ہوگی جہاں ٹیکنالوجی اپنی انتہا پر ہوگی۔ یہ بچے اے آئی ٹیوٹر، ربوٹک دوستوں اور خود کار گھریلو نظام کے ساتھ پرورش پائیں گے۔ یہ نسل ورچوئل رئیلٹی اور ورچوئل دنیا میں کام کرنا اور سیکھنا جانتی ہوگی جہاں اسکول، دفاتر اور یہاں تک کہ سماجی ملاقاتیں بھی دجیٹل ہوسکتی ہیں۔ اب ضرورت اس بات کی ہے کہ مائیں بچوں کی ذہنی صحت اور جذباتی ذہانت (ای کیو) پر زیادہ توجہ دیں کیونکہ سوشل میڈیا اور ڈجیٹل زندگی کے دباؤ سے ان کی جسمانی و ذہنی صحت متاثر ہوسکتی ہے۔ دنیا کی تیز رفتار تبدیلیوں کے ساتھ ان کو ہم آہنگ کرانا بھی ضروری ہوگا۔ روایتی ملازمتیں کم ہوں گی تو انہیں نئی قسم کی ملازمتوں کی تیاری کرانی ہوگی۔ والدین، خاص طور سے ماؤں کیلئے ضروری ہوگا کہ وہ روایتی تعلیم کے بجائے عملی ہنر پر توجہ دیں، ان کو وہ مہارت سکھائیں کہ وہ کم وقت میں، غیر معمولی رفتار سے، مستعدی سے مستقبل کی دنیا کی تیاری کریں۔ جدید تر اسلوب اختیار کیا جائے تاکہ وہ ایک نئی توانائی محسوس کریں۔ بچوں کی منطقی سوچ، عقلی استدلال، تجرباتی فکر، زباندانی اور باہمی تعلق کو فروغ دیں، کمپیوٹر سائنس، حساب اور سائنس ٹیکنالوجی جیسے مضامین کو مضبوط کریں۔ ان کی ترقی و ترویج کے لئے سافٹ اسکل کو بڑھاوا دیں۔
سائبر سیکوریٹی کی اہمیت: ماؤں کو تربیت سازی کے ساتھ یہ بھی یقینی بنانا ہوگا کہ اے آئی کا استعمال انسانی حقوق اور روایات کے مطابق ہو۔ یہ ایک روشن مستقبل ہے اس کی بہترین خدمات اور سہولیات کے ساتھ ہمیں احتیاط برتنے کی ضرورت ہوگی تاکہ ہم اس کے ممکنہ نقصانات سے بچ سکیں۔ اس نسل کو بھی اپنی ڈجیٹل حفاظت پر خصوصی توجہ دینی ہوگی تاکہ وہ سائبر خطرات سے محفوظ رہیں۔
ماحولیاتی تبدیلی اور ان کا اثر: ماحولیاتی مسائل اس نسل کی پرورش میں بڑا کردار ادا کریں گے۔ بہت سے خاندان موسمیاتی تبدیلیوں کی وجہ سے ایک جگہ سے دوسری جگہ ہجرت کریں گے جس سے بچوں کی زندگی متاثر ہوگی۔ اے آئی نظام بڑی مقدار میں بجلی استعمال کریں گے جس سے ماحول پر اثر تو ہوگا ہی عالمی سطح پر توانائی کا بحران بھی ہوگا۔ یہ نسل کو ماحول کے تحفظ کیلئے عملی اقدامات کرنے ہوں گے اس لئے انہیں گرین (سبز توانائی)، ماحول دوست ٹیکنالوجی اور قابل تجدید توانائی کے استعمال کی ترغیب دینی ہوگی ان کو وہ صلاحیت پیدا کرنی ہوگی جس سے دنیا ایک بہتر جگہ بنے۔ اللہ کے خلیفہ اور نائب بننے کا رول ادا کرنا ہوگا۔ انہیں فطرت سے ہم آہنگی اور اصول پسندی سکھانی ہوگی۔
سماجی اقدار اور جنریشن بیٹا: یہ نسل ایک زیادہ متنوع اور عالمی معاشرے میں پروان چڑھے گی۔ یہ بچے دنیا کو ایک عالمی گاؤں کی طرح دیکھیں گے جہاں ثقافتیں اور نظریات آسانی سے بانٹے جاسکیں گے۔ یہ نسل جنس، مذہب اور ثقافت کے فرق سے بالاتر ہوکر ایک دوسرے کو قبول کرنے کا رجحان رکھے گی اور زیادہ انصاف پسند اور برابری پر یقین رکھے گی۔ یہ ایسی ایجادات کرے گی جو انسانیت کے لئے فائدہ مند ہوگی۔ ایسے میں ماؤں کی ذمہ داری ہوگی کہ بچے کو جدید تعلیم کے ساتھ دینی تعلیم پختگی کے ساتھ دیں۔ انہیں اقدار، تہذیب، تاریخ اور اخلاقیات کی تعلیم بھی دیں۔ ایسا نہ ہو کہ مشینوں کے ساتھ رہ رہ کر صرف مشینی ہی ہوجائیں۔ خود غرض، خود پسند، بدمزاج، تنہائی پسند اور مفاد پرست ہو کہ اپنی جسمانی، ذہنی اور سماجی صحت کھو دیں۔ جان لیں کہ ہر قوم و ملت کی تعمیر و ترقی بامعنی اور اقدار پر مبنی نظام تعلیم پر منحصر ہے اس لئے تعلیم بہترین دیں۔ اسلامی تعلیم دیں جس میں فرد کی تعمی و تطہیر کے لئے جامع ہدایات موجود ہیں۔ یہ فرد کی شخصیت کو منور کرتا ہے۔ ہمیں چاہئے کہ بچہ قرآن اور سائنس دونوں کا مطالعہ کرے اسی میں اس کی دنیا و آخرت کی بھلائی ہے۔

متعلقہ خبریں

This website uses cookie or similar technologies, to enhance your browsing experience and provide personalised recommendations. By continuing to use our website, you agree to our Privacy Policy and Cookie Policy. OK