یہ نسل کم عمری ہی سے اس درجہ ڈپریشن کا شکار ہے کہ اس طرح کے ڈپریشن پچھلی دہائیوں کے لوگوں میں ایک عمر گزار لینے کے بعد نظر آتے تھے۔ جو بیزاری معمر افراد محسوس کرتے تھے وہی بیزاری، اکتاہٹ ہم دیکھتے ہیں کہ اب بچے بچے میں ہے۔ سوال وہیں کا وہیں رہتا ہے کہ ہم خوش کیوں نہیں رہ سکتے؟ اس پر غور کیجئے۔
سوشل میڈیا نے ہماری زندگی سے حقیقی خوشی کو چھین لیا ہے۔ تصویر: آئی این این
آج کی نسل کا مشاہدہ اور حالاتِ حاضرہ کا جائزہ لیں تو سب سے بڑا المیہ یہی دکھائی دیتا ہے کہ یہ نسل مایوسی کا شکار ہوتی جا رہی ہے۔ یہ نسل کم عمری ہی سے اس درجہ ڈپریشن کا شکار ہے کہ اس طرح کے ڈپریشن پچھلی دہائیوں کے لوگوں میں ایک عمر گزار لینے کے بعد نظر آتے تھے۔ جو بیزاری معمر افراد محسوس کرتے تھے وہی بیزاری، اکتاہٹ ہم دیکھتے ہیں کہ اب بچے بچے میں ہے۔ سوال وہیں کا وہیں رہتا ہے کہ ہم خوش کیوں نہیں رہ سکتے؟ ہماری خوشیوں کی میعاد اتنی محدود کیوں ہوتی جارہی ہے۔
اس کا جواب آپ شاید یہ دیں کہ بڑھتی مہنگائی اور بے روزگاری سے نئی نسل مایوس ہو رہی ہے مگر ذرا تاریخ کے اوراق پلٹیں کیا بے روزگاری نیا مسئلہ ہے؟ یا وسائل کی قلت اچانک در آئی ہے۔ نہیں ایسا نہیں ہے پہلے بھی مسائل تھے آج بھی مسائل ہیں مگر پہلے کے لوگ خوشیاں تلاش کرلیتے تھے سنیما کی ایک ڈیڑھ روپے کی ٹکٹ سے، کسی کتاب کے اوراق سے، دوستوں کی ملاقات سے یا پھر دادی نانی کی ان کے زمانے کی باتوں سے....
ہمارے لئے کئی مواقع خوشیاں کا سبب بنتے تھے وہ بھی مسئلہ بن گئے ہیں۔ شادی ہو تو لاکھوں کے جہیز کا مسئلہ، جہیز کا حل ہو تو لہنگے کی قیمت کا مسئلہ، سب ٹھیک ہو تو تصاویر صحیح آنے کی فکر، ہم افکار خریدے ہیں بہت سستے میں۔ تہوار جو ایک اجتماعی خوشیوں کے پیامبر بن کر آتے تھے آج وہ بھی پھیکے پھیکے ہیں۔ ہم نے معیار بنائے وہ معیار جو خود کسی معیار پر اترنے سے قاصر ہیں اور ہم انتھک محنت کرتے ہیں ان پر اترنے کی، خوبصورتی کا معیار، تعلیم کا معیار، زبان کا معیار، ہم نے چاہی دسترس ان سارے اُمور پر جو ہمارے ہاتھ میں تھے ہی نہیں۔ ہم نے یہ بھی سمجھ لیا کہ سوشل میڈیا پر ایکٹیو ہونا سماجی ہونا ہے۔ ارے جناب! انسان تو اپنی ابتدا سے ہی سماج سے وابستہ رہا ہے یہ میڈیا وغیرہ تو بعد کی باتیں ہیں۔ ہم وہ بننے میں ہلکان ہیں جو ہم ہیں، ہم وہ کیسے بنیں گے پھر جو بننا چاہئے!
ہم نے عکس کو حقیقت مان لیا ہے وجود کو کھو دیا ہے، ہم تصاویر میں جیتے ہیں، ہم یادیں جمع کرنے نکلتے ہیں، ہم آج نہیں آنے والے کل میں جینا چاہتے ہیں۔ ہم آج کھو رہے ہیں اب تو ہم مقدس مقامات کا لحاظ بھی نہیں کرتے۔ ہم خود کو کہاں وقت دیتے ہیں.... دراصل ہم شو پیس بننا چاہتے ہیں۔
جس ڈپریشن، مصنوعیت کا شکار کبھی شوبز کے افراد تھے آج ہر شخص ہے۔ ہمیں پہلے تماشہ دیکھنے میں مزہ آیا اب دکھانے میں آنے لگا، رشتوں کا لحاظ، موقع کا لطف، لہجوں کا حسن، سب ہم نے کیپشن کے لئے محدود کیا اور خود کو پورا نچوڑ کر چیزوں میں قطرہ قطرہ بھرا۔ ہم اب خالی ہیں۔ مواصلاتی جال مکڑی کے جالے کی طرح ہم خود پھیلائے اور اس میں الجھتے جا رہے ہیں پھنستے جا رہے ہیں۔ ہماری تفریحات اب تفریح سے عاری ہیں، جہاں پہلے تفریح ذہن کو دن بھر کی تھکن سے آزاد کرتی تھی اب پراگندہ کرنے کا باعث بن بیٹھی۔ ذرا غور کریں اول تو ہم نے تفریح کو کھلی فضا میں محسوس کرنے کے بجائے ایک اسکرین تک محدود کیا اور محدود بھی ایسا کیا کہ ذہن ہی مقید ہوگیا۔ ہماری صبحیں پرندوں کی چہچہاہٹ، سورج کی ٹھنڈی کرنوں کے لمس کو محسوس کرنے سے عاری ہیں۔ ہم ہر کام سوشل میڈیا کے لئے کرنا چاہتے ہیں۔ کوئی اچھا کام کرتے ہیں تو اسے بھی سوشل میڈیا پر پوسٹ کر دیتے ہیں۔
ایک دوسرے طبقے کا خیال ہے دنیا وہ جگہ ہی نہیں جہاں خوش رہا جائے، وہ اس کا جواز عجیب و غریب دیتے پائے جاتے ہیں۔ دنیا دل لگانے کی جگہ بلاشبہ نہیں مگر یہ اداسی مایوسی تو کفر ہے کہ اہل ِ ایمان تو شکر ادا کرتے ہیں صبر کی میعاد کو خوشدلی سے پورا کرتے ہیں۔ رب تعالیٰ بھی کمزور مومن سے زیادہ پسند فرماتا ہے طاقتور مومن کو.... اور ذہنی کمزوری سے بڑی کمزوری کیا ہوگی کہ آپ ہر مصیبت پر تدبیر کے بجائے موت کی دعا کرنے بیٹھ جائیں۔ مایوسی کفر ہے۔ طاقت کی نمائش، دھن دولت حسن و رتبےکی نمائش سے بچیں۔ ’’برکت اٹھ جائے تو رغبت ختم ہو جاتی ہے‘‘ برکت کے محافظ بنیں دکھاوا برکت کو اٹھا دیتا ہے۔
اسی مایوسی سے نکلنے کیلئے ان باتوں پر عمل کریں۔ وقت کو ضائع نہ کریں۔ رشتوں کو نظر انداز نہ کریں۔ خود کی عزت کریں۔ خود پرست نہ بنیں مگر خود سے محبت کریں۔ اپنے وجود کا احترام کریں کہ اس کا تال میل آپ کو سرگرم رکھتا ہے۔ باتوں کو، حالات و واقعات کو مثبت رخ سے دیکھیں۔ جلد بازی سے بچیں ہمیں مشینوں کے اس دور نے بڑا جلد باز بنایا ہے زندگی انسٹال اور ڈیلیٹ کے اصول پر نہیں بلکہ دھیرے دھیرے ہوتی نشوونما کے اصول پر کار فرما ہے۔ حقائق سے نظر نہ چرائیں۔ حقیقت کا سامنا کریں۔ خوش رہیں اس لئے نہیں کہ لوگ آپ پر رشک کریں اس لئے کہ آپ انسان ہیں، آپ کو یہ مسکراہٹ کا تحفہ خداوند نے دیا ہے۔ میں نے نہیں دیکھا کسی جانور کو قہقہہ لگاتے۔