• Thu, 26 December, 2024
  • EPAPER

Inquilab Logo

خانہ بدوش خواتین مجسم جذبۂ ایثار ہوتی ہیں

Updated: December 25, 2024, 1:31 PM IST | Firdous Anjum | Mumbai

اِن خواتین کے متعلق کبھی سنجیدگی سے نہیں سوچا جاتا۔ ان کی ۹۸؍ فیصد خواتین ناخواندہ ہونے کے باوجود یہ محنتی، مذہبی اور اپنی مخصوص روایات کو عزیز رکھنے والی غیرتمند خواتین ہیں۔ یہ جہاں کہیں بھی جاتی ہیں اپنی مخصوص روایات کی چھاپ چھوڑ جاتی ہیں۔ یہ وہ خواتین ہیں جو موجودہ دور کی چکا چوند سے دور، اپنی زندگی میں خوش ہیں۔

Apparently they are living a good life but they have to face many problems. Photo: INN
بظاہر یہ ایک اچھی زندگی گزار رہے ہوتے ہیں لیکن انہیں کئی مسائل کا سامنا کرنا پڑتا ہے۔ تصویر: آئی این این

ہندوستانی سماج میں خانہ بدوش، قبائلی سماج بھی شامل ہے۔ خانہ بدوش کسی ایک جگہ قیام نہیں کرتے بلکہ جا بجا گھومتے رہتے ہیں۔ دیہی ہندوستان میں مویشیوں کو چرانے والی متعدد قبائلی برادریاں رہتی ہیں۔ جن کی عام طور مستقل رہائش نہیں ہوتی، اور یہ لوگ صدیوں سے نقل مکانی کرتے رہے ہیں۔ یہی ان کا طریقۂ زندگی و طرز زندگی ہے۔ کرناٹک کے کروبا، راجستھان کے رائیکا، لداخ کے چنگپا، اروناچل پردیش کے بروکپا، تلنگانہ کے یادو سوراشٹر اور کچھ کے رباری اور بھارواڑ، مہاراشٹر کے دھنگر اور نند گاؤلی، یہ اور اس قسم کی دیگر بہت سی قبائلی برادریاں اپنی بھیڑ، بکریوں، اونٹوں اور دیگر مویشیوں کے ساتھ پورے دیہی ہندوستان میں خانہ بدوشی کے طویل راستے طے کرتی ہیں۔ ان کے ساتھ ان کا پورا خاندان، بیل گاڑی، گھوڑا گاڑی میں سوار رہتا ہے۔ یہ لوگ جنگل بیابان سے گزرتے ہوئے مناسب جگہ دیکھ کر سورج ڈھلتے ہی خیمہ لگا دیتے ہیں۔
 بظاہر یہ ایک اچھی زندگی گزار رہے ہوتے ہیں لیکن انہیں کئی مسائل کا سامنا کرنا پڑتا ہے۔ خاص طور سے خانہ بدوش خواتین اپنی زندگی کو مسلسل سفر میں گزارتی ہیں۔ وہ ہرشام نئی جگہ نئے راستے پراپنا سنسار سجاتی ہیں اور صبح ہوتے ہی اس سنسارکو دوسری جگہ منتقل کرنے کیلئے کمر بستہ ہوجاتی ہیں۔ دیکھا جائے تو یہ خواتین معاشرے کے لئے مثال ہیں۔ جن کے اندر ہمت، خود اعتمادی، بے خوفی، مصائب کو برداشت کرنے کی قوت، مرد کےشانہ بشانہ چلنے کی لگن، ایثار و قربانی کا جذبہ پایا جاتا ہے۔ یہ خوبیوں انہیں دوسروں خواتین سے مختلف بناتی ہیں۔
 اس بات سے انکار نہیں کیا جاسکتا کہ یہ خواتین بیمار نہیں پڑتی ہوگی، انہیں صحت اور دیگر مسائل سے دوچار ہونا نہیں پڑتا ہوگا۔ لیکن تب بھی ان خواتین کی زندگی کو دیکھیں تو یہی محسوس ہوتا ہے کہ وہ مجسم جذبۂ ایثار ہوتی ہیں۔ وسائل کی کمی، محدود کمائی، کھانےکے لئے دو وقت کیلئے روٹی نہیں، پہننے کے لئے ڈھنگ کے کپڑے نہیں، رہائش کا انتظام نہیں اس پر مسلسل سفر، ان‌خواتین کو اعلیٰ بناتا ہے۔ سفر میں درپیش مشکلات کا سامنا کرنا، موسمی تبدیلیوں اور چیلنجز سے گزرنا، اپنے خاندان اور مویشیوں کی دیکھ بھال کرنا، رات بے رات اٹھ کر جنگلی جانوروں سے اپنے بچوں کی حفاظت کرنا جیسے کام یہ خواتین انجام دیتی ہیں۔ یہ وہ خواتین ہیں جو موجودہ دور کی چکا چوند سے دور، اپنی زندگی میں خوش ہیں۔ نہ ان کے خواب ہیں نہ ہی انہیں پورا کرنے کے وسائل، ان کے پاس سجنے سنورنے کا بھی وقت نہیں۔
 خانہ بدوش خواتین جہاں ریوڑ رکے وہاں خیمہ لگاتی ہیں۔ اپنے کنبے کیلئے کھان پان کا انتظام کرتی ہیں۔ اور صبح ہوتے ہی یہ سارا سامان گھوڑا گاڑی اور بیل گاڑی میں لادتی بھی ہیں۔ اپنے بچوں کو ساتھ لئے ان گاڑیوں کو ہانکنے کا ہنر بھی انہیں خوب آتا ہے۔ تب بھی ان کے چہرہ پر کوئی شکن نہیں ہوتی۔ یہ خواتین اپنے کام میں مگن چہرے پر مسکراہٹ سجائے گاڑیوں کو اس طرح ہانکتی ہیں جیسی کوئی جنگ جیت لی ہو۔ پر خطر راستوں سے گزرنے کی وجہ سے ان خواتین میں بھی خطروں سے نمٹنے کی صلاحیت بدرجہ اتم موجود ہیں۔ شہروں اور دیہاتوں میں زندگی گزارنے والی خواتین بھی اپنی تمام تر ذمہ داریاں بحسن وخوبی انجام دیتی ہیں۔ وہ بھی خطروں سے نمٹنا جانتی ہیں لیکن خانہ بدوش خواتین ان کے مقابلے میں زیادہ سخت ہوتی ہیں۔ 
 خانہ بدوش خواتین کے متعلق کبھی سنجیدگی سے نہیں سوچاجاتا۔ ان کی ۹۸؍ فیصد خواتین ناخواندہ ہونے کے باوجود یہ محنتی، مذہبی اور اپنی مخصوص روایات کو عزیز رکھنے والی غیرتمند خواتین ہیں۔ یہ جہاں کہیں بھی جاتی ہیں اپنی مخصوص روایات کی چھاپ چھوڑ جاتی ہیں جیسے مٹی کے گھروندے جو خیمہ کے اطراف بنائے جاتے ہیں۔ یہ خواتین پہاڑی جھرنوں سے اپنی اور اپنے اہل خانہ کی پیاس بجھاتی ہیں، سفر میں بچوں کو جنم دیتی ہیں۔ حالانکہ دیسی خوراک پر انحصار ان کی تندرستی کا راز ہے لیکن تب بھی صحت کے مسائل سے دو چار ہوتی ہیں۔ کبھی اپنے منہ پر حرف شکوہ نہیں لاتیں اور اپنا کام خاموشی سے بخوشی کرتی جاتی ہیں۔
  ایک دھنگر خانہ بدوش خاتون سے بات چیت کے دوران اس نے مجھے بتا یا کہ، ’’وہ اپنی روایات کی پاسداری کر رہی ہے۔ کھلے آسمان اور کھلی فضا کی زندگی انہیں اچھی لگتی ہے ان کے بچے بھی اسی زندگی کے عادی ہوچکے ہیں۔ اس لئے وہ اسکول بھی نہیں جاتے۔ ہاں! اس طرح زندگی گزارتے ہوئے تکلیف ضرور ہوتی ہے لیکن اب موبائل فون کی وجہ سے کچھ ضروریات فوری طور پر پوری ہوجاتی ہے۔ بیماری میں ڈاکٹر بھی جلدی آ جاتے ہیں۔ مشکلیں اب کم ہوگئی ہیں۔ اس لئے بھگوان کا شکر ادا کرتے ہیں۔‘‘ یہ کہتے ہوئے اس کے چہرے پر لجا تھی اور ماتھے پر سکون۔ ان خواتین کی زندگی، ہمیں بہت کچھ سکھاتی ہے۔ سلام ہے ان خواتین کو جو مشکل حالات میں بھی مسکراتی ہیں۔ 

متعلقہ خبریں

This website uses cookie or similar technologies, to enhance your browsing experience and provide personalised recommendations. By continuing to use our website, you agree to our Privacy Policy and Cookie Policy. OK