• Sat, 28 December, 2024
  • EPAPER

Inquilab Logo

پلاسٹک کے استعمال کے مضر اثرات اور ہماری ذمہ داری

Updated: June 25, 2024, 12:01 PM IST | Sheikh Saeeda Unsari | Mumbai

پلاسٹک کی تھیلیوں کے ساتھ ساتھ پلاسٹک سے بنی اشیاء کا استعمال تشویشناک حد تک بڑھ گیا ہے۔ یہ موجودہ دور کا ایک سنگین المیہ ہے۔ اس کے تدارک میں خاتون خانہ اہم ذمہ داری ادا کرسکتی ہے۔ پلاسٹک کی وجہ سے ماحول کو جو نقصان پہنچ رہا ہے اسکے تعلق سے بیداری پیدا کرنا وقت کی اہم ترین ضرورت ہے

Glass boxes or steel canisters can be used instead of plastic containers. Photo: INN
پلاسٹک کنٹینر کے بجائے کانچ کے ڈبے یا اسٹیل کے کنستر استعمال کئے جاسکتے ہیں۔ تصویر : آئی این این

پلاسٹک کی تھیلیاں اور پلاسٹک سے بنی اشیاء کا استعمال ایک ایسا مرض ہے جس میں ہر کوئی مبتلا ہے۔ ان کے استعمال کے مضر اثرات سے ہم سبھی واقف ہیں اس کے باوجود ہر کوئی اسے استعمال کرتا ہے۔ ہم اپنا جائزہ لیں تو اندازہ ہوگا کہ ہم معمولی سی معمولی کام کیلئے بھی پلاسٹک پر منحصر ہے۔ یہاں تک کہ خریداری کا تصور بھی ان کے بغیر ناممکن ہے۔ کیونکہ خریداری اور پلاسٹک کی تھیلیاں ایک دوسرے کے لازم و ملزم ہیں۔ پلاسٹک کی تھیلیوں کے ساتھ ساتھ پلاسٹک سے بنی اشیاء کا استعمال تشویشناک حد تک بڑھ گیا ہے۔ یہ موجودہ دور کا ایک سنگین المیہ ہے۔ اس کے تدارک میں خاتون خانہ اہم ذمہ داری ادا کرسکتی ہے۔ پلاسٹک کی وجہ سے ماحول کو جو نقصان پہنچ رہا ہے اسکے تعلق سے بیداری پیدا کرنا وقت کی اہم ترین ضرورت ہے۔
 بیداری پیدا کرنے کے نام پر ایک بھونڈا مذاق ہوتا ہے۔ جب حالات زیادہ سنگین ہوجاتے ہیں تو انتظامیہ کی جانب سے ان پر پابندی عائد کر دی جاتی ہے۔ استعمال پر دکانداروں پر جرمانہ عائد کیا جاتا ہے۔ یہ تعمیر کے بجائے تخریب کا سبب بنتا ہے۔ دکاندار بھی تھیلیاں چھپا کر رکھتے ہیں۔ خریدار بھی جہاں چوری چھپے تھیلیوں میں سامان ملتا ہے وہیں سے خریدنا پسند کرتے ہیں۔ کچھ وقت کیلئے محتاط ضرور ہوجاتے ہیں۔ پھر لوگ گھروں سے کپڑے کی تھیلیاں لے کر جاتے ہیں۔ دکاندار بھی چیزیں کاغذ کی تھیلیوں میں دیتے ہیں۔ یہ سلسلہ قلیل مدت تک جاری رہتا ہے۔

یہ بھی پڑھئے: انتخابات اور خواتین: ہر رَنگ ہمارا ہے ہر رَنگ میں ہم ہیں

اس مسئلہ کا حل زور زبردستی سے نہیں بلکہ لوگوں کو ذہنی طور پر راضی کرانے ان کی رضا مندی میں ہے۔ اس کے بغیر کوئی بھی قانون کوئی بھی جرمانہ کارگر ثابت نہیں ہوسکتا۔ پلاسٹک کے نقصانات کے بارے میں بتا کر اور لوگوں کی ذہن سازی کے ذریعے اس مسئلے کو حل کیا جاسکتا ہے۔ ان کے نقصانات کو اشتہارات کے ذریعے عوام تک پہنچائے جاسکتے ہیں۔ ان کی تباکاریوں کے پوسٹرس عوامی جگہوں پر چسپاں کیا جاسکتا ہے۔ یہ طریقے عوام کو شعوری طور پر بیدار کرنے میں کارگر ثابت ہوسکتے ہیں۔
 پلاسٹک کا سب سے بڑا مسئلہ یہ ہے کہ یہ سالہا سال زمین میں رہنے کے باوجودڈی کمپوز یعنی سڑتے گلتے نہیں ہیں۔ افسوسناک بات یہ ہے اس کے ذرات زمین کو آلودہ کرنے کے ساتھ ساتھ زمین کی زرخیزی کو کم کردیتے ہیں۔
 دوسرے یہ کہ یہ کم قیمت میں تیار ہوتے ہیں لیکن ان کی ری سائیکلنگ مہنگی ہوتی ہے۔ اس لئے پلاسٹک کی تھیلیوں کو اور اس کی بنی اشیاء کو پھینک دیا جاتا ہے جو انتہائی نقصاندہ ہوتا ہے۔
 ایک سروے کے مطابق، دریاؤں اور سمندروں میں ہر سال ۸؍ ملین ٹن کا پلاسٹک کا ملبہ پھینک دیا جاتا ہے۔ یہ سمندری جانداروں کیلئے خطرناک ہوتا ہے۔ سمندری جاندار اس پلاسٹک کے ملبے کو غذا کے طور پر استعمال کرتے ہیں جس سے ان کی موت ہوجاتی ہے۔
 اکثر و بیشتر پلاسٹک کی تھیلیاں، بوتلیں نالوں اور گٹروں میں پھنس جاتی ہیں جس کی وجہ سے پانی کا نکاس نہیں ہوپاتا اور بارش کے اوقات میں سیلابی کیفیت پیدا ہوجاتی ہے۔ پلاسٹک کا کم سے کم استعمال کریں۔ خواتین کو چاہئے کہ وہ اس کی شروعات اپنے گھر سے کریں اور پلاسٹک کے محدود استعمال کو یقینی بنائیں۔
 سب سے پہلے خریداری کیلئے کپڑوں کی یا ٹاٹ سے بنی تھیلیوں کو فروغ دیں اور دوسروں کو بھی اس کو ترغیب دیں۔ یہ ایک بہترین اور کارآمد متبادل ثابت ہوسکتا ہے۔
ایسی اشیاء جن کو دھو کر صاف کرکے بار بار استعمال کیا جاسکے، کو ترجیح دیں۔ اس سے بچت کرنا آسان ہوتا ہے۔
 پلاسٹک کنٹینر کے بجائے کانچ کے ڈبے یا اسٹیل کے کنستر استعمال کئے جاسکتے ہیں۔
الماری میں پلاسٹک کے ہینگرز کی جگہ لکڑی کے ہینگرز کا استعمال کریں۔
 پلاسٹک کی کنگھی، کلپس، پنس وغیرہ کے بجائے لکڑی کے ساز و سامان استعمال کریں۔
سبزیاں اور ترکاریوں کو پلاسٹک کے ڈبوں میں رکھنے  کے بجائے کانچ یا اسٹیل کے ڈبوں میں رکھ کر فریج میں رکھیں۔
 گھر کی چھوٹی بڑی سبھی پلاسٹک کی چیزوں کا جائزہ لیں۔ ان میں جن چیزوں کو فوراً بدلا جاسکتا ہے، بدل لیں۔ البتہ کچھ چیزوں کا متبادل تلاش کرنا ناممکن ہے، ان معاملوں میں صبر سے کام لیں۔ جیسے دودھ پلاسٹک کی تھیلی میں آتا ہے۔ ایسی صورت میںدودھ کو فوراً پتیلی میں نکال کر دودھ گرم کرلیں۔ اگر دودھ کو فریج میں محفوظ رکھنا ہے تو کانچ کی بوتل استعمال کی جاسکتی ہے۔ یقینا ً آپ اپنے گھر کو مکمل طور پر پلاسٹک فری نہیں کرسکتیں مگر چھوٹے چھوٹے قدم ضرور اٹھا سکتی ہیں۔

متعلقہ خبریں

This website uses cookie or similar technologies, to enhance your browsing experience and provide personalised recommendations. By continuing to use our website, you agree to our Privacy Policy and Cookie Policy. OK