• Tue, 22 October, 2024
  • EPAPER

Inquilab Logo

سوشل میڈیا کتنا مفید اور کتنا مضر؟ جانئے

Updated: October 21, 2024, 2:46 PM IST | Sara Faisal | Mumbai

کوئی بھی آلہ بذات خود اچھا یا برا نہیں ہوتا، اس کا استعمال اسے اچھا یا برا بناتا ہے۔ یہی بات سوشل میڈیا پر صادق آتی ہے۔ اس کا استعمال کرتے وقت محتاط رہیں۔ اس کا سب سے بڑا نقصان یہ ہے کہ یہ ہمارا وقت برباد کر رہا ہے۔ اس نےخاص طور پر نئی نسل کو اپنے سحر میں گرفتار کر لیا ہے۔ ان کی ذہن سازی کی ضرورت ہے۔

Children are more interested in watching stories on mobile phones than reading magazines and stories. Photo: INN.
رسالے اور کہانیاں پڑھنے سے زیادہ موبائل فون پر کہانیاں دیکھنے میں بچوں کی دلچسپی زیادہ ہوتی ہے۔تصویر: آئی این این۔

سوشل میڈیا کے بے شمار فوائد کے ساتھ ساتھ نقصانات بھی ہیں۔ کوئی بھی آلہ بذات خود اچھا یا برا نہیں ہوتا، اس کا استعمال اسے اچھا یا برا بناتا ہے۔ البتہ کسی بھی شے کا فائدہ اٹھانے کے لئے انسان کا باشعور اور پڑھا لکھا ہونا بہت ضروری ہے۔
سوشل میڈیا کے فوائد
سوشل میڈیا تربیت گاہ: یوں تو بچے کی پہلی تربیت گاہ ماں کی گود ہوتی ہے، اور سوشل میڈیا کے فوائد میں سے ایک فائدہ یہ بھی ہے کہ آپ اسے تربیت گاہ میں بدل سکتے ہیں۔ اس بارے میں کسی کا قول تھا کہ کمپیوٹر آنے والی نسلوں کو تربیت دے گا۔ اس بات سے کوئی باشعور انسان انکار نہیں کرسکتا۔ موبائل فون کے مختلف ایپس کے ذریعے بچوں کو فائدہ حاصل ہوتا ہے۔ 
کمائی کا بہترین ذریعہ: اس حقیقت سے کوئی بھی انکار نہیں کرسکتا کہ سوشل میڈیا کمائی کا ایک بہترین ذریعہ بھی ہے۔ یوٹیوب پر کافی عرصہ سے لوگ اپنے چینلز کے ذریعہ آمدنی حاصل کر رہے ہیں۔ خرید و فروخت کے بہت سارے مسائل بھی اس کے ذریعہ آسان ہوچکے ہیں۔
معلومات کا اشتراک: سوشل میڈیا کسی بھی موضوع پر بر وقت معلومات جیسے، صحت، اسپورٹس اور دیگر موضوعات کی اپڈیٹس فراہم کرتا ہے۔
ذریعہ حصول تعلیم و تعلم: نوجوان سوشل میڈیا کو تعلیم حاصل کرنے کا ذریعہ بنا کر اس سے تعلیم حاصل کرسکتے ہیں۔ سیکھنے اور معلومات حاصل کرنے والوں کیلئے بہترین پلیٹ فارم ہے، یہاں سے آپ اپنی معلومات میں اضافہ کرسکتے ہیں نیز دنیا کے موجودہ حالات سے بھی با خبر ہوسکتے ہیں۔
سوشل میڈیا کے نقصانات
خودنمائی: جب سے اسمارٹ فون میں فرنٹ کیمرہ کا آپشن آیا ہے سیلفی لینے کا رجحان ایک مرض کی طرح نوجوانوں میں پھیل گیا ہے۔ موقع بہ موقع تصویریں لی جاتی ہیں اور انہیں سوشل میڈیا سائٹس پر پوسٹ کیا جاتا ہے۔ سیلفی لینے کے دوران بہت سے نوجوان خطرات سے دوچار ہو کر موت کے منہ میں جا چکے ہیں۔ خطرناک مقامات پر تصویر لینے کا مقصد اپنی خودنمائی کے علاوہ کچھ بھی نہیں ہے۔ اسی طرح اسٹیٹس اَپ ڈیٹ کے ذریعے ہر اہم جگہ پر اپنی موجودگی کو ظاہر کرنا بھی بہت مقبول ہے۔ آپ کسی اچھے ریسٹورنٹ میں کھانا کھا رہے ہیں تو فوراً اپنے دوستوں کو یہ بتانا ضروری ہے۔ آپ بیرون ملک سفر کیلئے روانہ ہورہے ہیں تو اس کی اطلاع سب کو ہونی چاہئے۔ ان تمام کا مقصد اپنی ذات کو نمایاں کرنا اور دوسروں کے ذہنوں میں اپنی شخصیت کا خاص تاثر پیدا کرنا ہوتا ہے جس کے نتیجہ میں معاشرے میں غیر محسوس انداز میں مسابقت کی غیر صحتمند دوڑ شروع ہوگئی ہے۔ جس سے ایک دوسرے کو نیچا دکھانے کا رجحان پرورش پا رہا ہے۔
مطالعے سے دوری: اس ڈجیٹل دور میں ہمیں جتنی آسانیاں فراہم ہو رہی ہیں ہم اتنے ہی کاہل، سست اور ناکارہ ہوتے جا رہے ہیں۔ دراصل ہم اپنے مواد کو آسانی کے ساتھ ڈھونڈ کر اسی پر منحصر ہو جاتے ہیں اور اس سے آگے نہیں سوچتے جس سے ہماری صلاحیتیں محدود ہوتی جارہی ہیں۔ اتنی آسانیاں فراہم ہونے کے باوجود بھی اب ہمارا دھیان مطالعے کی طرف سے ہٹتا جا رہا ہے۔ معلومات میں اضافہ کرنے والی کتابوں کو سرچ کرنے کے بجائے ہمارا زیادہ تر وقت وہاٹس ایپ، انسٹاگرام اور فیس بک کی نذر ہو رہا ہے۔ بچے اردو کے رسالے اور کہانیاں پڑھنے سے زیادہ موبائل فون پرکہانیاں دیکھنے میںبچوں کی دلچسپی زیادہ ہوتی ہے۔
جھوٹ کا بازار: سوشل میڈیا نے جھوٹی اور من گھڑت اطلاعات کا ایک سمندر تخلیق کر دیا ہے جو کہ کسی حکومتی کنٹرول سے ماورا ہونے کے سبب نہایت تیزی سے پھیل رہا ہے۔
وقت کا ضیاع: سوشل میڈیا نے ہماری نوجوانوں نسل کو اپنے سحر میں ایسا گرفتار کیا ہے کہ ہر وقت اسمارٹ فون کے ذریعے وہ کسی نہ کسی سرگرمی میں مصروف نظر آتے ہیں، وقت گزرنے کا احساس نہیں ہوتا اور انسان ضروری کاموں کی انجام دہی سے محروم رہ جاتا ہے۔ نوجوانوں کی زندگی اسی طرح گزر رہی ہے۔
سوشل میڈیا اور برقی آلات کا استعمال جتنا مفید اور وقت کو بچانے والا ہے اس سے کہیں زیادہ وقت کو ضائع کرنے والا اور نہایت ہی مضر ہے۔ اس لئے سوشل میڈیا کا ضرورت کے مطابق ہی استعمال کریں اور اس کے غلط استعمال سے بھی بچیں ورنہ یہ آپ کا وقت ضائع کرنے کے ساتھ ساتھ آپ کی زندگی بھی برباد کرسکتا ہے۔ غرض اپنے اوپر قابو رکھتے ہوئے اس کا صحیح استعمال کیا جائے۔ ظاہر سی بات ہے کہ وقت کا ضیاع ہمارا مقصد نہیں ہے، اپنے اندر احساس ذمہ داری پیدا کریں اور خود احتسابی کا جذبہ پیدا کریں کہ ۲۴؍ گھنٹے میں میرا کتنا وقت یوں ہی ضائع ہو رہا ہے اور کوشش کریں کہ اپنوں کے درمیان وقت گزاریں، تنہا نہ رہیں، دینی تعلیم حاصل کرنے اور اپنے بچوں کی اسلامی تربیت کرنے کے لئے کوشاں رہیں۔ ان تمام اقدامات سے معاشرہ تباہی سے بچ سکتا ہے۔

متعلقہ خبریں

This website uses cookie or similar technologies, to enhance your browsing experience and provide personalised recommendations. By continuing to use our website, you agree to our Privacy Policy and Cookie Policy. OK