Inquilab Logo Happiest Places to Work

نئی نسل میں یہ چند خوبیاں دیکھنا چاہتی ہوں

Updated: October 19, 2023, 2:16 PM IST | Saaima Shaikh | Mumbai

گزشتہ ہفتے مذکورہ بالا عنوان دیتے ہوئے ہم نے ’’اوڑھنی‘‘ کی قارئین سے گزارش کی تھی کہ اِس موضوع پر اظہارِ خیال فرمائیں۔ باعث مسرت ہے کہ ہمیں کئی خواتین کی تحریریں موصول ہوئیں۔ ان میں سے چند حاضر خدمت ہیں۔

Photo: INN
تصویر: آئی این این

نئی نسل رشتوں کو اہمیت دے


جو موضوع دیا گیا ہے وہ یاد دلاتا ہے علامہ اقبال کا شعر: آتا ہے یاد مجھ کو گزرا ہوا زمانہ۔ خیر اس وقت نیا دور اور نیا زمانہ ہے۔ اب موضوع پر آتی ہوں کہ آنے والی نسل میں کیا خوبیاں دیکھنا چاہتی ہوں تو اس کا ایک آسان سا جواب یہی ہوگا کہ جو ہم نے اپنے بچپن میں اور اپنے دور میں دیکھا تھا، مَیں اُمید کرتی ہوں کہ آنے والی نسل میں بھی وہ خوشیاں نظر آئیں ۔ پتہ ہے کہ موبائل فون، انٹرنیٹ اور ٹیکنالوجی کے دور میں یہ امید کرنا کہ پہلے کا وقت پھر سے پلٹ کر آئے اور اسی طرح کام کریں جیسے ہمارے وقت میں تھا تو بہت ہی مشکل ہے۔ لیکن کہتے ہیں کہ امید پر دنیا قائم ہے تو یہ امید کی جاسکتی ہے کہ نئی نسل ان تمام اخلاقیات کی پاسداری کرے اور اس پر عمل پیرا ہو جس پر کبھی ہم تھے۔ جیسے اپنے گھر، دوستوں اور رشتہ داروں کے ساتھ زیادہ سے زیادہ وقت گزارے۔ نئی نسل کے لئے موبائل فون اور انٹرنیٹ کی موجودگی میں تو یہ کافی مشکل ترین مرحلہ ہے لیکن نئی نسل سے یہ امید وابستہ کی جاسکتی ہے کہ وہ آنے والے وقت میں اپنے گھر، دوستوں اور رشتے داروں کو زیادہ سے زیادہ وقت دے گی اور ان کی باتوں کی قدر اور اسے نظرانداز نہیں کرے گی۔ آنے والی نسل سے یہ امید کی جاسکتی ہے کہ وہ کم از کم اس وقت تو موبائل فون اور انٹرنیٹ کو بند کر دے جب وہ اپنے گھر والوں کے ساتھ ہو۔ اس نسل کی یہ خوبی شاید بعد والی نسلوں کے لئے زیادہ فائدہ مند ثابت ہوگی۔ 
قریشی عربینہ محمد اسلام (بھیونڈی، تھانے)
نئی نسل میں ہمدردی کا جذبہ دیکھنا چاہتی ہوں 


آج کل جس طرح کا ماحول چل رہا ہے اس سے ہماری نئی نسل میں بہت سی برائیاں ہوگئی ہیں۔ آج کل کی نسل پڑھ لکھ تو بہت رہی ہے مگر انسانوں اور معاشرے سے دور ہوتی جا رہی ہے۔ نئی نسل ہر وقت موبائل فون، ٹی وی، لیپ ٹاپ اور انٹرنیٹ پر لگی رہتی ہے جس سے وہ خاندان، رشتے داروں اور دوستوں اور معاشرے سے دور ہوتی جا رہی ہے۔ مَیں چاہوں گی کہ نئی نسل اپنے آس پاس اپنے بزرگوں ، رشتے داروں اور اپنے والدین کی قدر کرتے ہوئے ان کا خیال رکھے اور ان کو اپنا وقت دے اور ان کی دعائیں لیں جو اس نسل کے لئے بہت ضروری ہے۔ میں نئی نسل میں حب الوطنی، فرمانبرداری، دیانتداری، ایمانداری، دینداری، کفایت شعاری وغیرہ دیکھنا چاہوں گی۔ ہماری نئی نسل میں شرم و حیا، صفت پاکدامنی بھی ہو۔ اس کے ساتھ ہی عورتوں کی عزت کرے۔ بچوں سے محبت، بے بسوں ، غریبوں سے محبت اور ہمدردی کا جذبہ بھی ہو۔ 
 اس کے ساتھ ہی اس نسل میں صحت کے اچھے اصول بھی ہونا چاہئے جس میں رات میں جلدی سونا، صبح جلدی اٹھ کر نماز پڑھنا، ورزش کرنا، مناسب اور اچھی غذا لینا اور اچھی نیند شامل ہے جو آگے چل کر اس نسل کی زندگی سنوار سکے جو اس کی صحت اور زندگی کے لئے بہت ضروری ہے۔ اگر نئی نسل میں یہ خوبیاں پیدا ہوگئیں تو اس کی زندگی تو کامیاب ہوگی ہی اور وہ دوسروں کے لئے بھی مشعل راہ اور روشنی کا مینار ثابت ہوگی۔ میری خدا سے دعا ہے کہ نئی نسل کو بہترین خوبیاں اپنانے کی توفیق دے (آمین)۔ 
گل شہانہ صدیقی (امین آباد، لکھنؤ)
اپنے ماں باپ کی عزت کرے اور فرمانبردار بنے


مَیں ہماری نئی نسل میں یہ خوبیاں دیکھنا چاہتی ہوں کہ وہ ایک دوسرے کی مدد کرے۔ کسی کو پیچھے نہیں کرے بلکہ اپنے ساتھ دوسروں کو بھی آگے بڑھنے کیلئے حوصلہ دے۔ اور ان کی مدد کرے اور میں یہ بھی چاہتی ہوں ہماری نئی نسل بھی ہماری طرح اپنے ماں باپ کی عزت کرے اور فرمانبردار بنے۔ اور پڑھائی کے ساتھ ساتھ دین اور دنیا، دونوں میں ہماری نسلوں کو عزت ملے، ہم ان کے نام سے جانے جائیں اور وہ ہر جگہ کامیابی حاصل کرے۔
صدف الیاس شیخ (تلوجہ)
والدین اور بزرگوں کا احترام کرے


نسلِ نو کو تعلیم کے ساتھ معقول طرزِ فکر کا حامی ہونا ضروری ہے۔ تہذیب و تمدن سے آشنائی ہو۔ بڑوں سے احترام اور چھوٹوں سے شفقت کا رویہ اختیار کرے۔ علم، معاشرہ میں انسان کی شناخت اور بہتری کا ہی سبب نہیں ہے بلکہ اس سے بڑھ کر علم کے ذریعے انسان کی فکری تربیت اور ذہنی پرورش لازمی ہے۔ جس کے عمدہ نتائج وہ اپنی انفرادی اور اجتماعی زندگی میں بھی دیکھتے ہیں اور اپنے شب و روز کے اعمال میں بھی دکھائی دیتے ہیں ۔ ایسی تعلیم جو بہترین تربیت کے ساتھ حاصل کی جائے جو نہ انسان کے دل کو پر نور کرتی ہے بلکہ انسانی شخصیت میں بھی نکھار پیدا کرتی ہے۔ نسل ِ نو میں بعض گھروں میں والدین اور بزرگوں کے ساتھ فرمانبرداری کا فقدان دیکھا جا رہا ہے۔ تو بڑے اگر خود اعلیٰ تہذیب و تمدن کا نمونہ پیش کریں تو تو ظاہر سی بات ہے بچّے اہل ِ خانہ کے نقش و قدم پر چلیں گے۔ اس لئے ان تمام باتوں کا خصوصاً ادب و آداب اور دوسروں کے ساتھ نیک برتاؤ کا خاص خیال رکھیں اور بچّوں کو بھی اس راہ پر چلنے کی تلقین کریں ۔ بچّوں میں سوچنے سمجھنے کی صلاحیت کو پروین چڑھائیں اور منفی خیالات سے اُنہیں بچائیں ۔ مثبت سوچ بچوں کی شخصیت کو نکھارنے میں مدد گار ثابت ہوتی ہے۔
سیدہ نوشاد بیگم (کلوا، تھانے)
ایک بامقصد زندگی گزارنے والی نسل بنے


ہماری ترقی کا اہم اور واحد ذریعہ تعلیم ہے۔ لیکن بغیر تربیت کے محض تعلیم کے ذریعے نئی نسل کی کردار سازی ممکن نہیں ہے۔ آج کل ہر شخص یہی رونا رو رہا ہے کہ معاشرہ اور ماحول بڑا خراب ہے۔ معاشرے کے ماحول کو درست کرنے کے لئے معاشرے کے ہر فرد کو محنت کرنی ہوگی۔ نئی نسل میں خوبیوں کے طور پر مَیں چاہوں گی کہ وہ موبائل فون کا استعمال کم سے کم کرے۔ اپنی زبان پر گالی آنے نہ دے۔ نشہ سے دور رہے۔ ساتھ ہی والدین کی اطاعت گزار، عبادت گزار اور ایک بامقصد زندگی گزارنے والی نسل بنے۔ ایک بامقصد زندگی گزارے اور بامقصد زندگی گزارنے کے لئے ہمیشہ متحرک اور باعمل رہنا ضروری ہے۔ گزرا ہوا وقت لوٹ کر نہیں آتا اسلئے اپنا زیادہ تر وقت اچھے اعمال کرنے میں گزارے کیونکہ کامیاب وہی ہوتا ہے جو اچھے اعمال کرتا ہے کیونکہ آج ہم ایسے دور میں جی رہے ہیں جہاں اچھے عمل کو کرنے سے زیادہ پیغام کی مدد سے فارورڈ کرنے کو ثواب سمجھا جاتا ہے۔
انصاری عالیہ ترنم محمد انیس (کرلا، ممبئی)
دل متمنی ہے کہ دن کا آغاز نمازفجر سے کرے
دورِ حاضر کی نسل کو دیکھ کر دل ایک کرب میں مبتلا ہو جاتا ہے کہ جو تہذیب و تمدن اسلام کی گراں قدر محنت کا نتیجہ ہے اس قوم کے نوجوان اپنی بدتمیزیوں اور غلط روش سے فراموش کرتے جا رہے ہیں ۔ میری دلی خواہش ہے کے نوجوان دن کا آغاز اللہ رب العزت کے نام سے کرے۔ خدا ان کے دلوں کو نور سے منور کر دے۔ ان کی آنکھوں میں نمی ہو قرآن کی تلاوت کے دوران اور وہی نمی ان کی بخشش اور کامیابی کی ضامن ہو۔ ان کا دل جو کہ برائیوں سے بنجر ہو چکا ہے خدا اس میں ایمان کی زرخیزی ڈال دے۔ ان کے دلوں میں محبّت، شفقت اور رحم کا مادّہ اتنا ڈال دے کہ وہ ایک بہترین انسان بن کر زندگی گزار سکے۔ بچوں سے محبّت اور بڑوں سے عزت سے گفتگو کرے۔ آج کے نوجوان والدین کو فراموش کرتے جا رہے ہیں ۔ میری خواہش ہے کہ ان کے دلوں میں خدا والدین کی اطاعت کی لو کو روشن کر دے۔
 خدا انہیں ایمان کی دولت سے سرفراز کرے۔ ان کا دل ہمیشہ کھوئے ہوئے اقدار میں سر گرداں رہے (آمین)۔
ڈاکٹر ایس ایس خان (شہر کا نام نہیں لکھا)
زندگی میں توازن پیدا کرے


نئی نسل جس طرح بے راہ روی کا شکار ہے یہ دیکھ کر میری طبیعت کڑھتی ہے۔ نہ بزرگوں کا احترام کرتی ہے نہ تعلیم پر توجہ دیتی ہے اور نہ اس میں مذہب سے لگاؤ رہا ہے۔ میرے ذہن میں نئی نسل کے لئے چند تجاویز ہیں جن پر عمل پیرا ہوکر ایک اچھے معاشرے کی بنیاد ڈالی جا سکتی ہے:
(۱) بزرگوں کا احترام اور ان کی دل جوئی کے لئے نوجوان نسل کو وقت دینا چاہئے اور ان کے تجربات سے فائدہ اٹھانا چاہئے۔ (۲) تعلیم کی نسبت سے گرم جوشی پیدا کرنا۔
(۳) آبا و اجدادکے گاؤں سے تعلق بنائے رکھنا۔
(۴) زندگی میں ہر چیز میں توازن و اعتدال قائم کرنا۔
 اللہ سے دعاگو ہوں نئی نسل ان نصیحت پر عمل پیرا ہونے کی کوشش کرے (آمین)۔
شگفتہ راغب شیخ (شہر کا نام نہیں لکھا)
نئی نسل بڑوں کو سمجھنے کی کوشش کرے
موبائل فون نے ہماری نسلوں کو برباد کرنے میں اہم کردار ادا کیا ہے۔ مَیں نئی نسل میں یہ خوبیاں دیکھنا چاہتی ہوں کہ وہ اپنا وقت موبائل فون پر کم سے کم صرف کرے۔ دن بھر کا ایک حصہ گھر والوں کے ساتھ باتیں گزرتے ہوئے گزارے۔ وہ اپنی دل کی بات اپنے بڑوں سے کہے۔ اسے کیا بات بری لگتی ہے، اس کا اظہار کرے۔ میری دلی تمنا ہے کہ نئی نسل بڑوں کو سمجھے اور اپنے بارے میں بڑوں کو سمجھائے۔ دراصل گزرتے وقت کے ساتھ پرانی اور نئی نسل کے درمیان ایک خلا پیدا ہوگیاہے۔ مَیں چاہتی ہوں کہ یہ خلا مٹ جائے اور دونوں نسلیں ایک دوسرے کو سمجھنے کی کوشش کریں ۔ ایک دوسرے سے محبت کا اظہار کریں ۔ دونوں ساتھ مل کر معاشرے کی بہتری کے لئے کوشش کریں۔
بنت شکیل احمد (شہر کا نام نہیں لکھا)
اپنی سوچ میں جدت پیدا کرے


موجودہ نسل بے حد ذہین ہے اور ہر وقت سرگرم عمل رہنے والی نسل ہے۔ مگر اس نسل میں صحیح فیصلہ کرنے کی خوبی بے حد کم ہے۔ ہر کام جلد بازی میں کرتی ہے۔ مناسب ہے کہ اپنے مزاج میں ٹھہراؤ لائے اور سوچنے سمجھنے کے بعد ہی کسی فیصلے پر پہنچے۔ ساتھ ہی یہ نسل پرجوش ہے۔ اس میں سیکھنے کی صلاحیت موجود ہے اسی خوبی کو مزید فروغ دیتے ہوئے نئی نئی چیزیں سیکھے کیونکہ زمانہ تیزی سے آگے بڑھ رہا ہے اور اپنی قوم و ملت کے فروغ کے لئے کوشاں رہے۔ موجودہ حالات سے سبھی واقف ہیں اور یہ وہی نسل ہے جو اپنی نئی سوچ اور اقدار کے ذریعے آنے والی نسلوں کے راستے ہموار کر سکتی ہے۔ ساتھ ہی ضروری ہے کہ اس کی تکنیکی صلاحیتوں میں جدت پیدا ہو۔ سماج اور ماحول کے متعلق سوچ میں شعور پیدا ہو۔ قدرتی وسائل کا پائیدارانہ اور ذمہ دارانہ استعمال کرے۔ اپنی فنکارانہ اور ثقافتی صلاحیتوں کے ذریعے سماج کو فائدہ پہنچائے۔ ذاتی ترقی کی تکمیل کے مواقع تلاش کرے تاکہ ملک کو ایک بار وقار تعلیم یافتہ شہری دستیاب ہو جس سے عالمی تعاون باہم رہے اور امن و امان کے لئے کوشاں رہے۔
مومن رضوانہ محمد شاہد (ممبرا، تھانے)
نئی نسل میں بھائی چارگی پیدا کرے


بچے ملک کا سرمایہ ہیں ۔ ان کی تعلیم و تربیت پر حتی الامکان توجہ دینے کی ضرورت ہوتی ہے۔ آج کی نوجوان نسل شدت پسند، جلد باز اور جارحانہ مزاج کی حامل ہے۔ اِس کی وجہ بچوں کو دیا جانے والا ماحول ہے۔ اِس ماحول میں منفی اثرات زیادہ ہیں ۔ نتیجتاً بچے خلافِ مرضی بات ہونے پر بہت جلد اپنا آپا کھو بیٹھتے ہیں ۔ پھر وہ یہ نہیں دیکھتے کہ سامنے کون ہے اور وہ کس سے بات کر رہے ہیں ۔ وہ ادب و لحاظ کو بالائے طاق رکھ کر لڑنے مرنے پر آمادہ ہو جاتے ہیں۔
 اگر شروع ہی سے بچوں کو اچھی تعلیم کے ساتھ اچھی تربیت دی جائے تو اُن کی عملی زندگی کی بنیاد مستحکم ہوتی ہے اور وہ ایک ذمے دار شہری بن کر اُبھرتے ہیں ۔ ایسے شہری جو جواں مرد ہوتے ہیں۔ وہ ظلم نہیں کرتے۔ کسی کا حق نہیں مارتے، اچھائی پر برائی کو فوقیت نہیں دیتے۔ اُن میں ہمدردی، نرمی، بھائی چارگی اور اُخوت کے جذبات موجود ہوتے ہیں۔ وہ کسی کو کمتر نہیں سمجھتے اور نہ ہی اُن میں انا کا غبار ہوتا ہے۔ ایسے بچے مہذب ہونے کے ساتھ ساتھ ہماری تہذیب و ثقافت کے محافظ اور ملک کا بیش قیمتی اثاثہ ہوتے ہیں۔ اُنہیں اچھا، نیک اور ایک ذمے دار شہری بنانے کی ذمے داری گھر کے ہرفرد پر ہوتی ہے۔ بچہ سب سے پہلے گھر کی دنیا دیکھتا ہے۔ ہر اچھی بری بات وہ گھر سے سیکھتا ہے۔ اُس کے بعد وہ باہری دنیا کے مشاہدے کی بنیاد پر اپنا وجود مکمل کرتا ہے۔ اِن باہری عوامل میں مثبت اور منفی دونوں باتیں ہوتی ہیں ۔ لیکن اگر بچوں کی نشوونما صحیح ڈھنگ سے ہوں تو وہ صرف اور صرف مثبت اثرات ہی قبول کرتے چلے جاتے ہیں ۔ بچوں کے اعمال میں بڑوں کی تربیت نظر آتی ہے کیوں نہ ہم بچوں کو اچھی تربیت دیں تاکہ آنے والے دنوں میں ہم ملک کو ایک سلجھا ہوا با وقار شہری دیں اور اُنہیں ملک کی ترقی کا ضامن بنائیں۔
عارفہ خالد شیخ (ناگپاڑہ، ممبئی)
صبر کا جذبہ پیدا کرے
موجودہ دور تیز رفتاری کا دور ہے۔ آج ہر شخص کم وقت میں سب کچھ حاصل کر لینا چاہتا ہے۔ یہی جذبہ ہماری نئی نسل میں دیکھنے کو مل رہا ہے۔ مَیں نئی نسل میں یہ خوبی دیکھنا چاہتی ہوں کہ وہ صبر کرنا سیکھے۔ وہ اس بات کو سمجھے کہ جلدبازی میں اکثر نقصان اٹھانا پڑسکتا ہے، اس کے علاوہ یہ عادت انسان کو ذہنی کوفت میں مبتلا کر دیتی ہے۔ اس لئے ہر کام صبر کے ساتھ اپنا کام انجام دے۔ اس کے علاوہ، وہ محنت کی عظمت کو اچھی طرح سمجھے۔نئی نسل اکثر محنت سے جی چرانے لگی ہے۔ بزرگ اور والدین آئندہ نسل کو محنت کی اہمیت سے واقف کروائیں۔
مومن روزمین (کوٹر گیٹ، بھیونڈی)
چیلنجز سے نمٹنے کیلئے تیار رہے


زمانۂ قدیم‌ ہی سے انسان نے تبدیلی کو ترجیح دی ہے۔ وقت اور حالات کے مطابق اس نے اپنے آپ کو ڈھالا ہے اور یہ عمل ہنوز جاری ہے۔ آج ہم نے چاند پر کمندیں ڈال دی ہیں اور سورج کے گرد کمندیں ڈالنے کو کوشاں ہیں ۔ وہیں نسل نو میں اخلاقی و روحانی ترقی ماند پڑتی نظر آرہی ہے۔ اس میں صبر، برداشت، کسی بات کو قبول کرنے، اپنی غلطی کا اعتراف کرنے جیسی صلاحیتیوں کے فقدان کو محسوس کیا جاسکتا ہے۔
 یہ میرا ذاتی مشاہدہ ہے ہو سکتا ہے غلط ہو لیکن جب ہم کسی بچے کو کسی بات سے روکتے یا منع کرتے ہیں تو ان کے چہرے کے تاثرات بدل جاتے ہیں ۔ غصہ اور خوف کی ملی جلی کیفیت ان میں در آتی ہے۔ وہ چاہتے ہیں کہ بس جو ہم نے چاہا وہ مل جائے۔ جیسا سوچا ہے ویسا ہو جائے۔ لیکن‌ عملی زندگی میں یہ ممکن نہیں ہوتا ہے۔ اسی لئے نئی نسل میں ، صبر، برداشت، عزائم کی تکمیل کا حوصلہ، اخلاقی و معاشرتی ترقی کے لئے سعی اور نیک نیتی، وقت کے چیلنجز سے نمٹنے کا جذبہ جیسی خوبیوں کو دیکھنا چاہتی ہوں ، تاکہ وہ خود کی ترقی کے ساتھ ساتھ قوم و ملت کی ترقی میں نمایاں کارنامے انجام دے سکے۔
فردوس انجم (بلڈانہ، مہاراشٹر)
جھوٹ سے دوری ضروری
نئی نسل سچائی کی اہمیت کو سمجھے۔ آج کل کے بچے اکثر جھوٹ بولنے لگے ہیں ۔ والدین اور استاد کو چاہئے کہ وہ بچوں کو جھوٹ کے نقصانات بتائیں۔
کلثوم انصاری، ممبئی

امن سلامتی، برداشت، سخاوت، محبت جیسی خوبیاں موجود ہوں


علامہ اقبال نے اپنی اُردو شاعری میں نوجوانوں کو مخاطب کرتے ہوئے فرمایا کہ: کبھی اے نوجواں مسلم! تدبر بھی کیا تو نے/ وہ کيا گردوں تھا تو جس کا ہے اک ٹوٹا ہوا تارا!پھر وہ اپنے رب سے دعا کرتے ہیں کہ: جوانوں کو مری آہ سحر دے / پھر ان شاہیں بچوں کو بال و پر دے۔ مَیں بھی اپنے پسندیدہ شاعر کی طرح چاہتی ہوں کہ وہ خود شناسی سے خدا شناسی کا سفر طے کریں۔ اپنے اندر خود اعتمادی پیدا کریں۔ اپنے سماج سے ہر قسم کی برائی کو ختم کرکے ایک مثالی معاشرہ قائم کرنے کی کوشش کریں جس میں امن سلامتی، برداشت، رواداری، اخوت، سخاوت، محبت جیسی خوبیاں موجود ہوں۔ نوجوانوں میں شاہین پرندے کی طرح بلند پروازی کی صفت ہو، مقاصد بلند ہوں، ان کی سوچ میں پستی نہ ہو۔ وہ دور اندیش ہوں۔ خوددار ہوں۔ ان کی زندگی حرکت و عمال، جاوداں پیہم دواں کی یقیں محکم کی عملی تصویر ہو۔ نئی نسل میں قائد کی صلاحیت ہو۔ وہ اعلیٰ تعلیم یافتہ ہو۔ اس میں علمی و عقلی استعداد کے ساتھ جذباتی ذہانت بھی ہو۔ اس کی قوت ارادی اور قوت فیصلہ مضبوط ہو۔ وہ حالات کو سازگار بنانا جانتی ہو۔ مسئلے کا حل نکالنا جانتی ہو۔ کھوجی، اختراعی سوچ رکھتی ہو۔ ماحول کے تئیں بیدار ہو۔ وہ اپنے آپ کو عالمی شہری سمجھے وہ جہاں کہیں موجود ہو اپنے آپ کو دین کا داعی سمجھے۔ اپنے آپ کو رول ماڈل بناتے ہوئے دین اسلام کی حقیقی تصویر لوگوں کے سامنے پیش کرے۔ انسان کامل اور مرد مومن بننے کی خواہش اس کے دل کے اندر موجود ہو؎
محبت مجھے ان جوانوں سے ہے  =  ستاروں پہ جو ڈالتے ہیں کمند!
انصاری عائشہ آبشار احمد (گرانٹ روڈ، ممبئی)
خلوص اور انکساری سے اپنی شخصیت اور وقار کو بلند کرے


آج کل معاشرتی برائیوں نے معاشرے کے تمام افرا کو اپنی لپیٹ میں لے رکھا ہے اور نئی نسل بھی کافی اثر انداز ہو رہی ہے۔ سونے پہ سہاگہ موبائل فون کے بے استعمال اور اس کے مضر اثرات نے رہی سہی کسر پوری کر دی ہے۔ نئی نسل میں چند خوبیاں دیکھنا چاہتی ہوں تاکہ وہ ان خوبیوں پر عمل پیرا ہو کر اپنی خامیوں پر پوری طرح قابو پاسکے۔ سب سے پہلے نئی نسل وقت کی باقاعدہ پابند ہو تاکہ وہ اپنے روزمرہ کے کام وقت کے مطابق مکمل کرسکے اور اپنی زندگی کو کامیاب بنا سکے۔ دینی و دنیا تعلیم سے خود کو آراستہ کرے، علم کی اہمیت کو سمجھے تاکہ دنیا میں ترقی اور کامیابی حاصل کرسکے۔ والدین، اساتذہ اور بزرگوں کی اہمیت، قدر و قیمت کو سمجھتے ہوئے ان کی عزت اور احترام کرے۔ ان کا کہنا مانے ان کی بتائی ہوئی راہ پر چلے۔ غریبوں سے ہمدردی کرے، پڑوسیوں اور دوست احباب سے مخلص رہے۔ رشتے کی نزاکت و اہمیت کو سمجھے اور رشتے داروں کی عزت کرے ان سے ملتے جلتے رہے۔ ان سے رابطے قائم رکھے۔ سچائی، خود اعتمادی، پیار، خلوص اور انکساری سے اپنی شخصیت اور وقار کو بلند کرے۔ جھوٹ، غیبت، خود غرضی، جہالت، چغل خوری سے کوسوں دور رہے تاکہ اپنی زندگی کو کامیاب و کامران و خوشگوار بنا سکے۔
 اللہ تعالیٰ نئی نسل کو مندرجہ بالا خوبیوں پر عمل پیرا ہونے کی تلقین عطا فرمائے اور اسے صحیح اور غلط کا فرق کرنا سکھائے(آمین)۔
ریحانہ قادری (جوہو اسکیم، ممبئی)
اسلامی تعلیمات سب سے بڑی خوبی
میرا خیال تو یہ ہے کہ نسل کو از سر نو اپڈیٹ کیا جائے، لیکن پھر بھی چند خوبیاں ایسی ہیں جو نسل نو کے لئے ناگزیر ہیں: (۱)تعلیم: بحیثیت مسلمان تعلیم سے ہمارا رشتہ کتنا مضبوط ہونا چاہئے اس کے لئے ہم حضرت آدمؑ سے لے کر نزول سورہ اقراء تک بخوبی سمجھ سکتے ہیں۔ (۲) موبائل کا بقدر ضرورت استعمال: یہ سچ ہے کہ آج نسل نو کی تباہی کا ایک بڑا ذریعہ موبائل ہی ہے۔ بچے اتنے ایڈوانس پیدا ہو رہے ہیں کہ پیروں پہ چلنا نہیں آتا مگر موبائل چلانا آجاتا ہے، اور یہ سب ماؤں کی پرورش کا نتیجہ ہے۔ آج بچے کو غلط سوسائٹی سے زیادہ موبائل کے غلط استعمال سے بچانا فرض عین ہے۔ (۳) مثبت سوچ: ہم نے دیکھا ہے کہ اپنے ہی گھر کے لوگوں میں بد گمانی ہے۔ طرح طرح کے خیالات پنپتے رہتے ہیں۔ جس کا لازمی نتیجہ ڈپریشن ہے۔ بیس سال کے بچوں میں اس قدر ذہنی تناؤ ہے کہ خود کشی جیسے حرام فعل کا ارتکاب کر رہے ہیں۔ ہر سال ہزاروں کی تعداد میں خود کشی کے کیس ریکارڈ کئے جا رہے ہیں اور یہ تعداد بہت تیزی سے بڑھ رہی ہے۔ خدارا! اپنے بچوں کو ذہنی دباؤ سے دور رکھیں، اسی میں عافیت ہے۔ (۴) مذہب اسلام سے دوری: اس وقت قرآن و سنت سے نسل نو بہت دور جا پڑی ہے جو کہ اس کی تباہی کا سب سے بڑا سبب ہے۔ اپنے بچوں کو اسلام پر عمل کرنے والا بنائیں، شروع ہی سے اس کی اسلامی تربیت کریں، ورنہ سنگین نتائج آپ کے سامنے ہیں بلکہ مستقبل میں مزید بھیانک طوفان دیکھنے کو مل سکتا ہے۔
زیبا فاطمہ عطاریہ (امروہہ ،یوپی)
وہ اپنے حقوق اور فرائض سے بخوبی واقف ہو
شعبۂ درس و تدریس سے تعلق ہونے کی وجہ سے روزانہ نئی نسل سے سامنا ہوتا ہے۔ کبھی خوشی کبھی غم کی کیفیت سے دو چار ہوتی ہوں۔ کچھ بچوں کو دیکھ کر یہ خواہش ہوتی ہے کہ اللہ تمام بچوں کو ایسا ہی نیک اور فرمانبردار بنا دے اور کبھی زبان پر بے ساختہ یہ الفاظ ہوتے ہیں کہ الٰہی کسی کی اولاد کو ایسا مت بنانا۔ نسل ِ نو کو عصری تعلیم کے ساتھ ساتھ دینی تعلیم دینا بہت ضروری ہے تاکہ وہ اپنے حقوق اور فرائض سے بخوبی واقف ہو۔ اس میں حرام و حلال کی تمیز ہو۔ ہر قسم کے نشہ کی عادت سے دور ہو۔ اللہ تعالیٰ اور اس کے رسول کے فرمانبردار ہونے کے ساتھ ہی والدین کے اطاعت گزار ہو۔ اس کے دل میں بزرگوں کی اور اپنے اساتذہ کی عزت و اکرام کا جذبہ ہو۔ ہمارے بچے ہی ہماری قوم کا مستقبل ہیں اس لئے والدین اور اساتذہ کو چاہئے کہ صرف ان کی تعلیم پر توجہ نہ دیں بلکہ تربیت پر بھی بھرپور توجہ دیں۔
افراد کے ہاتھوں میں ہے اقوام کی تقدیر
ہر فرد ہے ملت کے مقدر کا ستارہ!
فرزانہ بانو نذیر احمد (مالیگاؤں، مہاراشٹر)
دلیری، جرأت اور جذبۂ ایمانی پیدا ہو جائے


دور حاضر میں سائنس اور ٹیکنالوجی نے جتنی ترقی کی ہے اخلاقی اقدار میں زمانہ اتنا پیچھے چلا گیا ہے۔ میرے نزدیک نسل نو میں سب سے ضروری خوبی اخلاق کا بہترین ہونا ہے۔ اسی طرح مذہبی بیداری ہو اور خدمت خلق کا جذبہ ہو۔ موجودہ حالات میں نسل نو کیلئے جن خوبیوں کے لئے اللہ تعالیٰ سے دعاگو ہوں وہ ہیں دلیری، جرأت اور جذبۂ ایمانی۔ میری قوم کے نونہالوں میں وہ خوبی پیدا ہوجائے کہ وہ خالد بن ولید ہوجائیں۔
نکہت انجم ناظم الدین (جلگاؤں، مہاراشٹر)
صبر اور ہمت دیکھنا چاہتی ہوں
اگر ہم اپنے بزرگوں کو دیکھتے ہیں تو ہم پاتے ہیں کہ ان کے اندر صبر، دانشوری اور عقلمندی کوٹ کوٹ کر بھری ہوئی ہے۔ لیکن اسی کے ساتھ ساتھ نئی نسل کے اندر یہ تمام چیزیں ختم ہوتی جا رہی ہیں۔ یہ اچھی بات ہے کہ نئی نسل تعلیم کے میدان میں تیزی کے ساتھ ترقی کر رہی ہے لیکن اس کے ساتھ اس کے اندر سوچنے اور سمجھنے کی صلاحیت ختم ہوتی جا رہی ہے جو پہلے کے لوگوں میں ہوا کرتی تھی۔ اس کے طرزِ فکر میں وہ پختگی نہیں رہی اور نہ ہی حالات کو صحیح طریقے سے سمجھنے کی صلاحیت ہے۔ سب سے پہلے تو میں نئی نسل کے اندر صبر، ہمت اور برداشت کرنے کی قوت دیکھنا چاہتی ہوں۔ ایک ایسا دل جس کے اندر ہمدردی کا جذبہ ہو، جو ہر طرح کی ریاکاری سے پاک ہو۔ جو اپنے بڑوں اور بزرگوں کی عزت کرنا جانتے ہو۔ جو اپنی ہر کمی کا ذمہ دار اپنے ماں باپ کو ٹھہرانے کے بجائے خود اپنے حالات سے لڑنا جانتے ہو۔ یہ وہ چند خوبیاں ہیں جو میں نئی نسل کے اندر دیکھنا چاہتی ہوں۔ ہندوستان دنیا کا واحد ملک ہے جس کی آبادی کا کم از کم ساٹھ فیصد حصہ نوجوانوں پر مشتمل ہےاور انہیں اپنی قوم کیلئے بیدار ہونے کی اور ان تمام تر خوبیوں کو اپنے اندر پیدا کرنے کی سخت ضرورت ہے ورنہ آنے والے وقت میں یہ نسل خسارے میں رہے گی۔
 سارہ فیصل (مئو ناتھ بھنجن، یوپی)
منصوبہ بندی کیساتھ اپنی زندگی گزارے
اس دور پرفتن میں جائزہ لیا جائے تو ہماری نئی نسلیں جس تیزی کے ساتھ موبائل اور انٹرنیٹ میں اپنی دلچسپی کا مظاہرہ کر رہی ہیں کہیں یہ دلچسپی ان کے لئے وبال جان نہ بن جائے۔ اس لئے اولاً میں یہ چاہوں گی کہ وہ اپنی زندگی میں نظم و ضبط پیدا کرے تاکہ تمام تر توازن برقرار رہے اگر وہ ایسا کرنے میں ناکام رہتی ہے تو کئی سارے مسائل کا سامنا کرنا پڑسکتا ہے۔ منصوبہ بندی کے ساتھ اپنی زندگی گزارے تاکہ ناکامی ہاتھ نہ آئے۔ اپنے اخلاق اور رویے کا خاص خیال رکھے کیونکہ یہی وہ کنجی ہے جو اس کی شخصیت میں نکھار کا سبب بنتی ہے اور کامیابی کی راہ پر گامزن کرتی ہے۔ سب سے اہم بات جو توجہ مرکوز کرنے والی ہے کہ اس خالق کائنات کی بندگی کرے اس کی اطاعت کرے، اس کی تابع داری ہی دنیا و آخرت میں سرخرو کرے گی۔ سنت نبویؐ پر عمل پیرا ہو۔ اسلاف کی تاریخ سے واقف ہو تاکہ اپنی زندگی میں انہیں بطور مثالی نمونہ شامل کرسکے۔
خان تسنیم کوثر (وانگنی، تھانے)
نئی نسل کا کتابوں سے تعلق جڑ جائے
گھر سے چند قدم کے فاصلے پر ایک کتب خانہ ہے رضوی کتاب گھر۔ بچپن میں یہیں سے امنگ، ہلال، پیام تعلیم و دیگر رسالے ماہنامے بڑے ذوق و شوق سے خریدتے تھے۔ دو چار دن قبل جانا ہوا تو درمیان گفتگو ماہنامہ کے متعلق سوال کرنے پر انکل نے وہ درد بیان کیا کہ دل تاسف سے بھر گیا۔ نئی نسل کی کتابوں سے بےالتفاتی جگ ظاہر ہے۔ موبائل کے بطن وسیع نے جن چیزوں کو نگل لیا ہے اس میں کتابیں سر فہرست ہیں۔
جو چند چیزیں نئی نسل میں دیکھنے کی خواہاں ہوں اس میں یہ بھی شامل کہ اے کاش اس کا کتابوں سے تعلق جڑ جائےکیونکہ فکر و فن کی آگہی ہو یاشعور کی بیداری، ہر ایک منحصر ہے کتابوں سے ربط پر۔
بس دعا ہے کہ یہ مصرعہ کبھی بھی شرمندۂ تعبیر نہ ہو؎
یہ آخری صدی ہے کتابوں سے عشق کی!
عنبر برکاتی (بھیونڈی، تھانے)
دینی و اسلامی تاریخ کی کتابوں کا مطالعہ


آج کل یہ دیکھنے میں آتا ہے کہ نئی نسل کا رجحان منشیات اور موبائل فون کے استعمال کی طرف بڑھتا جا رہا ہے، جو دین سے دوری اور خرابیٔ صحت کا سبب بنتا جارہا ہے۔ لہٰذا میں چاہتی ہوں کہ نئی نسل میں دینی و اسلامی تاریخ کی کتب کے مطالعے کی رغبت پیدا کی جائے، جس میں خالد ابن ولید اور عبیدہ ابن ابی جراح کے فاتحانہ واقعات شامل ہوں۔ ساتھ ہی منشیات کے مضر اثرات سے واقفیت کروائی جائے۔ وقت کے تقاضے کے مطابق میں یہ بھی چاہتی ہوں کہ نئی نسل قانون کی اعلیٰ تعلیم (ڈگری ، ماسٹر ڈگری اور پی ایچ ڈی) حاصل کرنے کے بعد ملک کے نامور ماہرین قانون، ممتاز وکلاء اور مثالی جج بن کر ملک و ملت کی نمایاں خدمات انجام دے۔
ڈاکٹر شیبا الف انصاری (سمرو باغ ، بھیونڈی)
اصول و ضوابط کی پابند ہو


مَیں چاہوں گی کہ نئی نسل میں وہ تمام خوبیاں موجود ہوں جن کی وجہ سے ہماری قوم ترقی کی طرف مائل ہو۔ تعلیم کی اہمیت و افادیت، وقت کی پابندی، اصول و ضوابط کی پابند، حسن اخلاق وغیرہ قیمتی اقداروں سے لبریز اسے دیکھنا چاہتی ہوں۔ اور چاہوں گی کہ ہماری نئی نسل صرف ایک شخص نہیں بلکہ ایک شخصیت بن کر جئے کیونکہ شخص تو خاک ہو جاتے ہیں لیکن شخصیت زندہ رہتی ہے۔ اس کے علاوہ ہماری نسل مفاد پرست نہ ہو بلکہ اپنی زندگی میں وہ کچھ ایسے نمایاں کارنامے انجام دیں جن سے ہماری پوری قوم فیضیاب ہو۔
شیخ تحسین حبیب (گھنسولی، نوی ممبئی)
اعلیٰ اخلاق و کردار


مَیں چاہتی ہوں کہ آج کی نئی نسل خواہ لڑکے ہوں یا لڑکیاں مندرجہ ذیل خوبیوں سے خود کو آراستہ کریں تاکہ وہ خود، ان کا گھر اور ان کا معاشرہ پر سکون اور خوبصورت ہو۔ اللہ کے ان قوانین کو حضرت محمدؐ نے نافذ فرمایا تاکہ نسل انسانی عافیت حاصل کرسکے۔ اعلیٰ اخلاق و کردار، اخلاص و تقویٰ، شرم و حیا، شرافت و سخاوت، ایمانداری و دیانتداری، عفت و پاکدامنی، ایفائے عہد اور وفاداری، تواضع اور انکساری، ایثار اور قربانی، خوش کلام اور خوش الحان اور نرم دل و رحم و کرم کا پیکر ہوں اور ان برائیوں سے جن سے اخلاقیات کا فقدان ہوتا ہو، اجتناب کریں جیسے کہ جھوٹ، چوری، وعدہ خلافی، بے وفائی، بدگمانی، بدگوئی، حرص، حسد، غیبت، بغض، کینه، غرور، عدم تحمل، ریاکاری، بدکاری، غداری اور اللہ، اس کے پاک رسول اور والدین کی نافرمانی۔
ناز یاسمین سمن (پٹنه)
بزرگوں کی عزت کرے


دور حاضر میں مشکلیں بہت ہیں بچّوں کو صبح سے شام تک کالج ہو یا جاب ہو یا کاروبار ۸؍ گھنٹے سبھی وقف کر رہے ہیں۔ ہمارے زمانے میں پڑھائی کے لئے اتنی پریشانی نہیں اٹھانی پڑتی تھی۔ شاید اسی وجہ سے آج کے بچّے ہر چیز جلدی اور بہت کچھ حاصل کر لینا چاہتے ہیں۔
مَیں چاہتی ہوں کہ نئی نسل میں تحمل ہو۔ وہ بڑوں اور بزرگوں کی عزت کرے۔ عبادت کا پابند بنے۔ والدین کی اطاعت کرے۔ مجبوروں کی مالی مدد کرے، بلاوجہ سیر سپاٹے سے گریز کرے اور فضول خرچی سے بچے۔ سب سے اہم خواتین کا احترام کرے۔ یہ ساری خوبیاں میں نئی نسل میں دیکھنا چاہتی ہوں۔
شاہدہ وارثیہ (وسئی، پال گھر)
وقت کی پابندی کی اہمیت سمجھے
کہا جاتا ہے کہ نوجوان نسل کسی بھی قوم کا اصل سرمایہ ہوتی ہے لیکن وہ چند خوبیاں جو آج کی نسل میں کم کم نظر آتی ہیں میری شدید خواہش ہے کہ میں اسے ان میں پروان چڑھتادیکھوں، وہ ہیں:
 راست بازی، دیانتداری، بڑوں کا ادب، اپنے سے چھوٹوں پر شفقت، وقت کی پابندی۔ اسی طرح موجودہ نسل میں دباؤ کو برداشت کرنے کی صلاحیت بھی کافی کم ہے۔ ساتھ ہی اس میں ارتکاز کی بھی شدید قلت ہے اس کے علاوہ رات دیر تک جاگنا اور صبح تاخیر سے اٹھنا اور چستی پھرتی سے دوری اس کو اپنے مقاصد میں کامیاب ہونے سے روکتی ہے۔ دردمندی اور خلوص جیسی خوبیوں سے بھی نئی نسل عاری نظر آتی ہے۔
 کاش کہ نئی نسل ان خوبیوں سے آراستہ ہو جائے تو یہ شاہین صفت نوجوان ستاروں پر کمندیں ڈالے!
حنا فرحین مومن (بھیونڈی، تھانے)
اس میں لحاظ و مروت کا مادہ پیدا ہو


وقت کا کام ہے آگے کی طرف بڑھنا اور جب یہ آگے بڑھتا ہے تو کافی نئی تبدیلیاں ساتھ لاتا ہے مگر کچھ قدیم چیزوں کو پیچھے چھوڑ بھی دیتا ہے۔ ہر نسل اپنی پچھلی نسل سے مختلف ہوتی ہے۔ نئی نسل بے شک بہت زیادہ ذہین ہے، یہ چیزوں کو بہت جلد اپنی گرفت میں لے لیتی ہے۔ ٹیکنالوجی کے معاملات میں یہ بہت زیادہ تیز ہے دنیا کو دیکھنے کا اس کا نظریہ کافی مختلف ہے مگر مَیں چاہتی ہوں کہ اس میں لحاظ و مروت کا مادہ پیدا ہو۔ یہ ٹیکنالوجی کی دنیا میں اتنی زیادہ منہمک ہوگئی ہے کہ اسے اپنے آس پاس کی دنیا سے کوئی واسطہ رکھنے میں دلچسپی نہیں ہے۔ مَیں چاہتی ہوں یہ اپنے عزیز رشتہ داروں اور پڑوسیوں سے مل جول رکھے۔ ایک دوسرے کے کام آئے۔ ایک اور بات جو مَیں نے محسوس کی ہے وہ یہ کہ یہ جسمانی سرگرمیوں سے دور ہو رہی ہے یہ نہیں ہونا چاہئے اسے زیادہ سے زیادہ سرگرمیوں میں شامل ہونا چاہئے جو کہ اس کی صحت کیلئے بہت ضروری ہے۔ سب سے اہم خوبی یہ ہو کہ وہ مطالعہ میں دلچسپی لے۔
رضوی نگار (اندھیری، ممبئی)
نئی نسل ادب کا دامن ہاتھ سے نہ جانے دے
جنریشن گیپ جسے نسلی فاصلہ بھی کہا جا سکتا ہے ہمیشہ سے رہا ہے۔ اب یہ فرق کچھ زیادہ ہی نمایاں ہو گیا ہے۔ پہلے کے مقابلے میں بچے اب زیادہ ذہین ثابت ہو رہے ہیں اس میں کوئی شک نہیں ہے۔ ان کی لرننگ کیپیسٹی بھی پہلے کے مقابلے میں زیادہ تیز ہے۔ مگر وہ بڑوں کا ادب لحاظ جتنا کرنا چاہئے اتنا نہیں کر رہے ہیں۔ حکم ادولی کرتے ہیں۔ بس میں یہی چاہتی ہوں کہ وہ بڑوں کے ساتھ ادب سے پیش آئیں، بڑوں کی خدمت کریں، اچھے لوگوں کی صحبت میں رہیں اور اپنی کردار سازی کرتے رہیں۔ بے شک علم حاصل کریں، آگے بڑھیں اور تیزی کے ساتھ نئی نئی چیزیں سیکھیں۔ یہ آرٹی فیشل انٹیلی جنس کا زمانہ ہے اور نئی نئی قسم کی ایجادات ہو رہی ہیں ان سے بھرپور فائدہ اٹھائیں لیکن ادب سے خالی نہ رہیں۔
نجمہ طلعت، جمال پور، علی گڑھ
نئی نسل میں آپسی محبّت، اتحاد اور اتفاق دیکھنا چاہتی ہوں
نئی نسل اپنے قریبی رشتوں سے بہت تیزی سے دور ہوتی جا رہی ہے۔ آپسی تعلقات، محبّت، اتفاق اور اتحاد سب ختم ہوتا جا رہا ہے۔ یہاں تک کہ والدین کو بھی وہ محبّت اور اہمیت نہیں دی جا رہی ہے جس کے وہ حقدار ہیں۔ بہن بھائیوں میں بھی اتفاق نہیں رہتا ہے۔ جو نسل اپنے گھر میں محبّت اتحاد سے نہیں رہے گی اور نہ اپنے رشتوں کو عزت اور اہمیت دے گی تو پھر وہ نسل کسی دوسرے تک کیسے محبّت اور اتحاد کا پیغام پہنچا سکتی ہے ۔
 ہمارا دین محبّت، اتحاد اور اتفاق پر قائم ہے۔ اس لئے ضروری ہے کہ ہم قریبی رشتوں کو وہ عزت اور اہمیت دے جو ان کو دی جانی چاہئے اور اپنے گھر میں اتفاق اور اتحاد کے ساتھ رہے تاکہ نئی نسل کو بھی ان باتوں کی عادت پڑ جائے اور جب اسے ان باتوں کی عادت ہو جائے گی تو وہ ہر ایک کے ساتھ اچھا سلوک کرے گی اور سب سے محبّت اور خلوص کے ساتھ پیش آئے گی۔ اس طرح نئی نسل کی دنیا و آخرت، دونوں سنور جائے گی۔
شازیہ رحمٰن (غازی آباد، یوپی)
دین کی طرف رجوع ہو


نئی نسل موبائل لیپ ٹاپ پر زیادہ وقت بتانے لگی ہے یا پھر پڑھائی اور دوستوں میں مصروف رہتی ہے جس کی وجہ سے رشتوں میں دوریاں بڑھ رہی ہیں۔ میں چاہتی ہوں نئی نسل رشتوں کی اہمیت کو پہچانے۔ ہر رشتے کی عزت اور قدر کرے۔ آپس میں ملتے جلتے رہے اور ایک دوسرے کی ضرورت پر کام آئے جس سے خاندان مضبوط بنیں گے اور بکھرنے نہ پائیں گے۔
 میں چاہتی ہوں نئی نسل دین کی طرف رجوع ہو تو تمام گناہوں سے خود پرہیز کرے گی ۔ پڑھائی صرف کمائی کا ذریعہ بنانے کے لئے نہ کرے بلکہ دوسروں کو فیض پہنچانے کا ارادہ قائم کرے۔ ارادہ نیک ہوگا تو کامیابی حاصل ہوگی اور ثواب کے حقدار بھی بنے گی۔ خود کی خامیوں کو خوبیوں میں تبدیل کرنے کی کوشش کرے۔
ہما انصاری (مولوی گنج لکھنؤ)


اگلے ہفتے کا عنوان: آپ دوسروں کو کون سی کتاب پڑھنے کی ترغیب دیں گی؟ اظہار خیال کی خواہشمند خواتین اس موضوع پر دو پیراگراف پر مشتمل اپنی تحریر مع تصویر ارسال کریں۔ وہاٹس ایپ نمبر: 8850489134

Odhani Tags

متعلقہ خبریں

This website uses cookie or similar technologies, to enhance your browsing experience and provide personalised recommendations. By continuing to use our website, you agree to our Privacy Policy and Cookie Policy. OK