• Fri, 18 October, 2024
  • EPAPER

Inquilab Logo

اوڑھنی اسپیشل: مَیں ڈائری لکھتی تو اس کا ایک صفحہ ایسا ہوتا!

Updated: July 18, 2024, 12:22 PM IST | Saaima Shaikh | Mumbai

گزشتہ ہفتے مذکورہ بالا عنوان دیتے ہوئے ہم نے ’’اوڑھنی‘‘ کی قارئین سے گزارش کی تھی کہ اِس موضوع پر اظہارِ خیال فرمائیں۔ باعث مسرت ہے کہ ہمیں کئی خواتین کی تحریریں موصول ہوئیں۔ ان میں سے چند حاضر خدمت ہیں۔

A Woman Writing a diary. Photo: INN
انسان ڈائری میں اپنے معمولاتِ زندگی کے علاوہ وہ باتیں بھی لکھتا ہے جس کا وہ اظہار سب کے سامنے نہیں کرپاتا۔ تصویر: آئی این این

غم اور خوشی کے لمحات
مَیں روزانہ رات کو سوتے وقت ڈائری لکھتی ہوں اور اس میں اپنے روزمرہ کے کام اور ضروری باتیں لکھتی ہوں۔ اپنی ڈائری کو دو حصوں میں تقسیم کرتی ہوں۔ ایک میں، اپنے ضرورت کے کام جو مجھے کرنے ہیں اور دوسرے میں غم اور خوشی کے لمحات۔ میری ڈائری کا صفحہ یوں ہوتا ہے کہ گھر میں کوئی خوشی کا موقع ہوتا ہے تو اسے قلمبند کر لیتی ہوں تاکہ دوبارہ پڑھوں تو ساری یادیں تازہ ہوجائیں۔ اسی طرح غمگین لمحات بھی لکھتی ہوں۔ اس کے ساتھ یہ بھی لکھتی ہوں کہ اس سے کیسے نکلا جائے۔ خود کو حوصلہ بھی دیتی ہوں۔
امامہ عظمت (علی گڑھ، یوپی)
انسانیت کا درس دیتی


لوگوں کو اسلامی تعلیمات سے روشناس کرواتی اور انہیں انسانیت کا درس دیتی۔ خواتین کو ان کے حقوق سے آگاہ کرواتی اور انہیں آگے بڑھنے کا حوصلہ دیتی۔ اپنے زندگی کے تجربات بیان کرتی۔ مشکل حالات سے نمٹنے کے طریقے بتاتی۔
شمع پروین فرید (کوچہ پنڈت، دہلی)
وہ صفحہ میری اکلوتی بیٹی کے نام ہوتا


میری لخت جگر! زندگی میں بہت سے لمحے ایسے ہوتے ہیں جب ہم زندگی سے مایوس ہوجاتے ہیں۔ ہر طرف مایوسی، غم و یاس، اپنوں کا اصلی چہرہ، خود غرضی وغیرہ ہمیں ہر طرف سے گھیر لیتی ہے۔ ایسے حالات میں پُرعزم رہنا، حالات کا بہادری کے ساتھ مقابلہ کرنا۔ یاد رکھنا اللہ ہماری نیت کے ساتھ ہے۔ کبھی اپنے ساتھ غلط مت کرنا۔ کبھی کبھی جذبات کے سیلاب میں ہم اپنے آپ کو ہی نقصان پہنچاتے ہیں۔ زندگی کی بہار خزاں میں تبدیل ہوجاتی ہے۔ ایسا کرکے ہم اپنی آخرت بھی خراب کر لیتے ہیں۔ انگریزی شاعر پی بی شیلی کی یہ لائن یاد رکھنا: If winter comes, can spring be far behind? 
ڈاکٹر ایس بانو (فیروز آبادیوپی)

ہر وہ بات جو اہمیت رکھتی ہے


ڈائری لکھنے والا زندگی کے ہر اہم لمحے کو اتنے خوبصورت ڈھنگ سے لکھتاہے کہ وہ یاد گار بن جاتا ہے۔ ڈائری میں زندگی کی ہر وہ بات لکھ کر رکھتی ہوں جو میرے نزدیک اہمیت کی حامل ہوتی ہے تاکہ وہ لمحہ وہ پل ہمیشہ محفوظ رہے۔ ڈائری لکھنے کا مطلب ہی یہ ہے کہ ہماری زندگی کے وہ یادگار لمحے جن میں طرح طرح کی باتیں ہوتی ہیں دکھ، درد اور تکلیف کے ساتھ مسرت اور خوشی کے بہت سارے واقعات ہوتے ہیں جنہیں ہم چاہ کر بھی بھلا نہیں سکتے۔ اس لئے یاد وں کو سنجوئے رکھنے کے لئے ڈائری لکھنا بہت ضروری ہے۔ ساتھ ہی ساتھ میری یہ بھی خواہش ہے کہ جب کوئی میری ڈائری پڑھے تو وہ بھی زندگی کے کھٹے میٹھے تجربات سے آشنا ہوسکے۔
نشاط پروین (مونگیر، بہار)
ایک خاموش صبح کی تحریر ہوتی
مَیں جب ڈائری لکھتی ہوں تو اپنے اندر اپنے آس پاس کے ماحول کو جذب کرلیتی ہوں۔ میری ڈائری کا وہ صفحہ میری ایک خاموش صبح کی تحریر ہوتی جو صبح صادق سے شروع ہوتی ہے۔ جب کوئی رب کے آگے سجدے میں ہوتا ہے تو کوئی وضو کر رہا ہوتا ہے۔ چڑیوں کی ہلکی ہلکی چہچہاہٹ سنائی دیتی ہے، ایسا لگتا ہے جیسے گاتی ہوئی صبح کو خوشنما بنا رہی ہے، جیسے وقت کی رفتار بڑھتی ہے تو سورج کی کرنیں بھی اپنا وجود دکھاتی ہیں جو اندھیروں کو چیرتی ہوئی ہرے بھرے کھیتوں کو جہاں سرسوں کے پیلے پھول پر مدھو مکھیاں، تتلیاں اڑتی ہوئی پیاری لگتی ہیں، ٹھنڈی ہوائیں چلتی ہیں جسے میں محسوس کرتی ہوں تو اندر سے خوشی ملتی ہے۔
 میرا دل چاہتا ہے کہ میں سب کچھ اپنے اندر سمیٹ لوں اور اس طرح سے خوبصورت صبح طلوع ہوتی ہے جسے دیکھ کر اور محسوس کرکے مَیں تازہ دم ہوجاتی ہوں۔
کلثوم سراج اشرف (یوپی)
استاد کی تحریر 


بقول غالب: ہوئے تم دوست جس کے دشمن اس کا آسماں کیوں ہو۔  ڈائری کا وہ صفحہ میرے لئے بہت اہمیت کا حامل ہے۔ میرے اس ورق میں استاد اور اے ای کی نصیحت، شاعری اور ان کی لکھی ہوئی تحریر کو قلم بند کی ہوں۔ میری ڈائری لکھنے کا مقصد میرے لئے اندھیری غار میں روشنی کے ہالے کی طرح ہے۔ جب بھی میں غمگین ہوتی تو ان کے مقاصد کو دیکھ کر اداسی بھول کر دوسرے ہی لمحے سنبھل جاتی ہوں۔ میری اس عادت کی وجہ سے میری زندگی پُرسکون گزر رہی ہے۔ ڈائری میں میرے اس استاد کی حوصلہ افزائی والی نظمیں اور ان کے مضامین شامل ہیں جن کے الفاظ کچھ اس طرح ہے کہ اب تمہاری حیات مستعار، آپ کی لکھی ہوئی کتاب کے مانند ہیں، تمہاری ہر ادا رفتار و گفتار عادات و اطوار کتاب سنت کی آئینۂ دار ہے، عمل صالحہ ہی سے مسرت و کردار پر نکھار آتی ہے۔ لہٰذا تمہیں عمل زندگی میں کوتاہی نہیں کرنی ہے۔ یاد رکھو عمل ہی وہ جوہر ہے جو انسان کو انسان بناتا اور دوسروں سے ممتاز کرتا ہے۔ صلوٰۃ خمسہ کی پابندی، تلاوت قرآن پر مداومت ضرور کرنا۔ ان کی تحریر نے میرے حوصلے کو بڑھایا ہے، میرے اندر جنون پیدا کیا ہے، مجھے اس بات کا یقین دلایا ہے کہ مَیں بہتر سے بہتر کرسکتی ہوں۔ وہ صفحہ میری زندگی کی عمارت کا ستون ہے۔ ڈائری کے اس صفحات کو پڑھ کر مجھے مسلسل جدوجہد کرنے کا حوصلہ ملتا ہے۔ میرے حوصلے کو عزم ملتا ہے کہ کچھ بھی ناممکن نہیں ہے۔
فرحیں انجم (امراوتی، مہاراشٹر)
اپنے کاموں کی منصوبہ بندی قلمبندکرتی ہوں
ڈائری لکھنا ہماری زندگی کیلئے بہت مفید کام ہے۔ ڈائری کے ذریعہ ہم ہماری زندگی کو بہتر سے بہترین بنا سکتے ہیں۔ بہت سے لوگ ڈائری کا استعمال کرتے ہیں اور سب اپنی اپنی ضرورت کے مطابق استعمال کرتے ہیں، بعض لوگ صرف اپنے کچھ اہم کام کو اس میں لکھتے ہیں تاکہ وہ اسے بھول نہ جائیں، بعض حساب کتاب کے لئے اسے استعمال کرتے ہیں، بعض لوگ اس میں اپنی زندگی کی اچھی یادیں لکھتے ہیں، بہرحال جو بھی جیسے بھی اسے استعمال کرے ہر طرح سے ڈائری ہمارے کام ہی آرہی ہے۔ اب میں بھی اس کو اپنے طریقے سے استعمال کرتی ہوں۔ جیسے میں رات کو ڈائری لکھتی ہوں، اس میں ہر وہ کام لکھتی ہوں جو مجھے اگلے دن کرنا ہوتا ہے۔ اس کے علاوہ، میں یہ بھی لکھتی ہوں کہ کتنی اچھی چیزیں ہوئی ہیں اور کتنی بری۔ اس میں سے کیاہونا چاہئے تھا کیا نہیں۔ اس کے بعد کون کون سے مزید کام مجھے کرنے ہیں کون سے نہیں کرنے ہیں۔ اس طرح مجھے اگلے دن کی شروعات کرنے میں بہت مدد ملتی ہے۔ اور بہت سی عادتوں میں فرق محسوس ہوتا ہے۔ ڈائری کے ذریعہ ہم ہماری زندگی بھر کا شیڈول خود اپنی مرضی کے مطابق سیٹ کر سکتے ہیں۔ ڈائری ہمارے ماضی کی جھلک اور مستقبل کی بنیاد بھی بن جاتی ہے۔ مجھے خوشی ہے کہ ڈائری کی مدد سے میرے کام طے شدہ وقت پر انجام پاتے ہیں۔
فائقہ حماد خان (بنکٹوا، بلرامپور، یوپی) 

سیر و تفریح کی یادیں


کچھ پل ہماری زندگی میں اس لئے آتے ہیں کہ وہ ہمارے ذہن میں رچ بس جائیں اور اُن لمحوں کو قید کرنے کے لئے اُنہیں خاص جگہ دینا ہوتا ہے تو میں ان خوشگوار لمحوں کو اپنی ڈائری میں لکھتی ہوں۔ ایک بار ہم منّار (کیرالہ) یہ ایک ہل اسٹیشن ہے، کی سیر کو گئے تھے۔ ۵؍ دنوں کے لئے اور جو زندگی کے لطف اٹھائے واہ مزا آگیا۔ پوری فیملی کے ساتھ خوبصورت وادیوں، پہاڑوں، ندیوں، بہاروں کا وہ دلکش نظارہ اور ہوٹل کے ذائقہ دار یاد کرتے ہی دل باغ باغ ہوجاتا ہے۔ ان لمحات کو مَیں نے اپنی ڈائری میں قلمبند کیا ہے۔
شاہدہ وارثیہ (وسئی، پال گھر)
اپنے والدین کیلئے
اگر میں ڈائری لکھتی توایک صفحہ اس میں ایسا ہوتا جو اپنے والدین کی محبتوں کے نام کرتی اور لفظوں کے پھول سے سجاتی۔ اپنی امی کیلئے جو کچھ کرنے کی چاہ تھی وہ نہ کر سکی اس کا ذکر کرتی۔ اس کے ازالہ کی کوشش لفظوں کے ذریعے کرتی۔ اپنی کوتاہیوں کی معافی مانگتی اور ان کی مغفرت کیلئے اللہ تعالیٰ سے دعا کرتی اور اپنے آنسوؤں سے لکھتی ’’میری امی‘‘
ایس خان (اعظم گڑھ، یوپی)
عزیزوں کی خصوصیات


ہر شخص میں کچھ اچھائیاں ہو تی ہیں اور کچھ برائیاں۔ ہر شخص کی زندگی انہی دونوں چیزوں کا مرکب ہوتی ہیں۔ انہی دونوں مرکبوں کو مدنظر رکھتے ہوئے اپنی ڈائری کا صفحہ لکھتی۔ جس میں اپنے قریب کے تمام رشتے دار جس میں تمام لوگ آئے۔ یعنی چاہے میرا اُن سے کوئی بھی رشتہ ہوچاہے بڑا ہو، چاہے چھوٹا ہو۔ اُن کی خصوصیات کا باریک بینی سے مشاہدہ کرکے کون سا رشتے دار کس خصوصیت کا حامل ہے، اُس کی تمام خصوصیات وقتاً فوقتاً تحریر کرتی۔ کن حالات میں کن مسائل سے بنردآزما ہوتے وقت اُن کی کون سی خصوصیت نمایاں ہو تی ہے، اس کو اپنی ڈائری میں قلم بند کرتی۔ میرے اچھے اور برے حالات میں کون سے رشتے دار کا میرے ساتھ کیا رد عمل رہا، اس کو ضرور تحریر کرتی۔ میرے مشکل حالات میں میرے ساتھ کون سا رویہ اختیار کیا ہے، اُس کو نوٹ کرکے رکھتی۔ اگر ہمت وحوصلے سے بھرپور جملے اور الفاظ کہے تھے، تو اُنہیں تحریر کرلیتی۔ جس رشتے دار نے اپنی اپنی استطاعت کے مطابق مدد کی اُسے بھی لکھتی۔ اس کے بعد جس نے مشکل حالات میں اور دکھ میں ہماری فیملی کو نظر انداز کیا تھا۔ میں اُن کے ساتھ اچھا سلوک کروں گی، اپنے دل میں رائی کے دانے کے برابر بھی کینہ نہیں رکھوں گی اور نہ ہی اُن سے نفرت کروں گی۔ یہ عمل مَیں اللہ تعالیٰ کو خوش کرنے کے لئے کروں گی۔ جن لوگوں نے جس قدر مدد کی میں اُن سے زیادہ اُن کی مدد کرنے کی کوشش کروں گی۔
 ڈائری کا وہ صفحہ ان سبھی باتوں کا مجموعہ ہوتا اور مَیں اپنے ارادہ کو پورا بھی کرنے کی کوشش کرتی۔ رشتے داروں کی خصوصیات سے بھی سیکھنے کی کوشش کرتی۔ رشتے داروں کی اہمیت کو سمجھتی اور ان کا احترام کرتی۔ 
جبیرہ عمران پیر زادے (پونے، مہاراشٹر)
اپنے احساسات لکھتی


میں ڈائری لکھتی تو اُس کا ایک صفحہ ایسا لکھتی، جس میں ایک فرضی سہیلی دوسری فر ضی سہیلی کی خامیاں بیان کر رہی ہے۔ اس انداز میں ڈائری تحریر کرتی۔ یعنی دوسری سہیلی میں بذات خود ہوں گی، اور اس طرح میں اپنی شخصیت کی تمام خامیاں کو بڑی ایمانداری سے تحریر کر دیتی۔ کس کے ساتھ میں بُرا سلوک کی، اُس کے بعد میرے دل کی کیفیت کیا ہوئی، میں کس قدر غمگین ہوگئی۔ اپنی بد سلوکی پر اپنے آپ سے دل ہی دل میں کس قدر نادم اور شرم سار ہو گئی اس کو تحریر کرتی۔ میرے بُرے سلوک کے باوجود اگر کسی نے میرے ساتھ حُسن سلوک کیا ہے۔ کس انداز میں کیا ہے اس کو تحریر کردیتی۔ اس کے بعد اُس کے حُسن سلوک سے متاثر ہو کر میرے دل پر کیا گزری میرے دل کی کیا کیفیت ہوئی اور اُس کیفیت میں خدا کے حضور سجدہ ریز ہو کر اُس کے لئے کیا کیا دعائیں دیں اور اُس کے لئے کیا کیا دعائیں مانگیں اس کو تحریر کر دیتی۔ کب کب کس وقت میرے دل میں بُرے خیالات آئے تھے،کیوں آئے تھے۔ اس جذبے کو میں پوری ایمانداری سے تحریر کر دیتی۔ اس کے علاوہ کسی پر نظر پڑتے ہی اُس کے متعلق کون سے بُرے خیالات نے سر اُبھارا اس کو تحریر کرتی۔ سماج اور معاشرے میں رہنے والے لوگ کن کن بُری اخلاقی روش کو اختیار کیا ہے اس کو تحریر کرتی۔ اگر کسی کو مارنے پیٹنے کا خیال دل میں آیا ہو گا اُس کو تحریر کر دیتی۔ ساتھ ہی کیوں اور کس لئے ایسا بُرا خیال آیا، اس کی وجہ بیان کر دیتی۔ یعنی میں اپنی تمام اُن خامیاں اور بُرے عادات و اطوار کو تحریر کر دیتی جو میری شخصیت کا حصہ ہیں۔ جس کی وجہ سے میں اپنے آپ کو گناہ گار سمجھتی ہوں اُن تمام کیفیتوں کو اپنی ڈائری میں بڑے خلوص اور ایمانداری سے تحریر کرکے خود کو ہلکا پھلکا محسوس کرتی۔ اس طرح مَیں اپنی شخصیت کو نکھارنے میں کامیاب ہوسکتی ہوں۔ دھیرے دھیرے اپنی خامیوں کو دور کرنے کی کوشش کرسکتی ہوں۔ انسان کو اپنی خامیوں کے بارے میں معلوم ہونا چاہئے۔ انسان اپنی خامیوں کو جان کر انہیں دور کرسکتا ہے۔ 
عظمیٰ مزمل انعامدار (شولاپور، مہاراشٹر)

اس صفحہ پر ماں باپ کا ذکر ہوتا


اگر میں ڈائری لکھتی تو اس کا ایک صفحہ نہیں بلکہ کئی صفحے پر صرف ماں باپ کا ذکر ہوتا۔ ان کی بے پناہ محبتوں کا تذکرہ کرتی۔ وہ پیار، وہ شفقت، وہ دعائیں، وہ اپنا پن کا احساس، جو ماں باپ کے ہونے سے ہوتا ہے، وہ دنیا میں کہیں اور مل نہیں سکتا۔ میری ڈائری کا صفحہ در صفحہ ان کے احسان کے بوجھ تلے دبا ہوتا۔ ڈائری کے ہر صفحہ پر ان احسانوں کا ان قربانیوں کا ذکر ہوتا جو انہوں نے دی ہیں۔ ہر چھوٹی بڑی بات اور وقت جو ان کے ساتھ گزرا اس کا ذکر کرنے میں نہ جانے کتنے ہی صفحے کم پڑ جاتے ہیں۔ اس کے ساتھ ہی کچھ کھٹی میٹھی یادیں اور تلخ تجربے بھی زیر قلم ہوتے۔ اور ڈائری کا ایک صفحہ ہوتا جو میں اپنے نام کرتی اور اس میں صرف اپنی اداسیوں کا ذکر کرتی اور دل کا بوجھ کم کرنے کی کوشش کرتی.... اور ڈائری کے آگے کے صفحات میرے شوہر اور بچوں کے نام ہوتے اور ان پر میں اپنے شوہر کے مجھ سے توقعات اور تعلقات کا ذکر کرتی اور باقی سارے صفحوں پر اپنے بچوں کے خواب لکھتی۔
جویریہ طارق (سنبھل، یوپی)
ایک دلچسپ قصہ


آج کرلا کی اسکول میں ٹریننگ کا پہلا دن، ایک تو آفس کے اوقات میں امبرنا تھ سے ٹرین پکڑنا سوچ کر ہی دل دہلنے لگا، مرتا کیا نہ کرتا، پلیٹ فارم پر سروں کی تعداد ہمت توڑنے کے لئے کافی تھی۔ ٹرین کی اناؤنس منٹ سن کر آگے بڑھی لیکن وہ منہ چڑھاتی چلی گئی۔ کافی ہمت جٹا کر دوسری بار مجمع میں گھس کر کسی نہ کسی طرح چڑھ گئی یا چڑھا دی گئی۔ مگر یہ کیا، ہائے میری نئی چپل پیچھے چھوٹ گئی، سوچا کرلا اتر کر نئی خرید لوں گی مگروقت کم تھا۔ رکشا پکڑا اور اسکول پہنچ گئی۔ کسی کو سمجھ میں نہ آیا کہ ایک ہی پیر میں چپل ہے، اس لئے دوسری جوڑی بھی اتار کر پلاسٹک کی تھیلی میں ڈال دی۔ پورا دن گزار کر، بنا چپل کرلا سے واپس امبرناتھ کا سفر کیا اور کسی نے اس بات پر توجہ بھی نہیں دی۔ ان کو فون کیا کہ ایک جوڑی چپل اسٹیشن پر لے آنا۔ مزہ کی بات بتاؤں، شام کو ٹرین سے اتر کر پٹری پر نظر ڈالی تو کمبخت وہیں پڑی ہماری بے بسی پر مسکرا رہی تھی (ویسے بھی ایک پیر کی چپل کسی کے کیا کام کی)، آس پاس دیکھا، ایک کچرا چننے والے پر نظر پڑی، چپل اٹھا کر دینے پر اس کو دس کا نوٹ پکڑایا اور اپنی پیٹھ تھپتھپا کر دوسری جوڑی نکال کر پہن لی۔ بائیک پر چپل کی تھیلی جو میاں جی لائے تھے ہاتھ میں پکڑے مسکراتے گھر کی راہ لی۔
رضوانہ رشید انصاری (بلجیم)
میرا صفحہ چند عزیز اور اساتذہ کی خوبیوں کے نام ہوتا
مَیں ڈائری لکھتی تو اس کا ایک صفحہ میرے چند عزیز اور اساتذہ کی کچھ خوبیوں کے نام ہوتا۔ میری زندگی جن کی محبت، شفقت اور احسانات کے مرہون ہیں۔ جن کی طرز حیات کی روشنی میں آج اپنے بہت سارے مسائل کو حل کرنے کی کوشش کرتی ہوں۔ صفحہ پر سب سے پہلے والد محترم اور والدہ محترمہ کا نام ہوتا۔ والد محترم مشکل ترین حالات میں بھی پُرسکون رہتے، اللہ پر یقین رکھتے ہوئے مشکلات کا مقابلہ کرتے۔ صبر و شکر کے الفاظ ان کی زبان پر ہمیشہ رہتا۔ والدہ محترمہ ہماری پرورش کم وسائل میں بھی بہترین طریقے سے کیا۔ نانا جان صلح جو اور صابر انسان تھے۔ نانی جان سادگی کا مظہر تھیں۔ شکوے شکایت سے دور رہتی تھیں۔ دادا جان نہایت حوصلہ مند اور بہادر انسان تھے اور دادی جان نظم و ضبط کی پابند تھیں۔ استاد محترم مولانا ارشد، جو ہمیں اپنی سائیکل پر روزانہ چھٹی کے بعد اسکول سے گھر پہنچاتے تھے۔ ماسٹر شہباز صاحب جو ہمیں نہایت پابندی سے ٹیوشن پڑھانے آتے تھے اور کتاب کاپی کو ڈھنگ سے رکھنے اور کھولنے کا طریقہ بتایا۔ اللہ ان حضرات کو اجر عظیم عطا فرمائے۔
بنت شبیر احمد (ارریہ، بہار)
وہ صفحہ والد صاحب کے نام ہوتا


میری ڈائری کا ایک صفحہ ابّا جان کی شفقت، ان کی محبّت کے بارے میں ہوتا۔ مَیں اپنے ابّا جان کی سب سے لاڈلی بیٹی تھی وہ مجھ پر جان چھڑکتے تھے۔ مَیں گریجویشن میں پہنچ چکی تھی تب بھی وہ میرے ناز نخرے ایسے اٹھاتے تھے جیسے مَیں کوئی چھوٹی سی بچی ہوں۔ رات کا کھانا مجھے اپنے ساتھ بٹھا کر کھلاتے۔ میرے لئے اپنی پسند سے کپڑے، جوتے لاتے۔ امّاں کوئی کام کہتی تو کہتے، ’’ارے ابھی بچّی ہے رہنے دو، بڑی ہوگی تو خود کر لے گی۔‘‘ ایسا نہیں ہے کہ ابّا جان نے صرف لاڈ پیار کیا، انہوں نے میری تربیت بھی خوب اچھی طرح کی۔ نماز کی پابندی کرنا، پردہ کرنا، بزرگوں کی خدمت کرنا، سب ابّا جان نے سکھایا۔ ابّا جان ہمیشہ سب سے کہا کرتے تھے کہ یہ دنیا فانی ہے اس لئے دنیا سے دل مت لگاؤ، آخرت کی فکر کرو۔ اللہ نے جو کچھ دیا ہے اس کا شکر ادا کرتے رہا کرو اور مَیں ان کی بات پر عمل کرنے کی کوشش کرتی ہوں۔ ایک منظر ہمیشہ یاد آتا ہے۔ میری نئی نئی شادی ہوئی تھی۔ مَیں اپنے شوہر کے ساتھ دوسرے شہر جا رہی تھی تب ابّا جان نے میرے شوہر کو ایک طرف بلا کر ان کا ہاتھ اپنے دل پر رکھا اور کہا، ’’آپ میرے جگر کے ٹکڑے کو لے جا رہے ہیں ا س کا بہت خیال رکھئے گا۔ اگر اسے کچھ ہوا تو میرے دل کو بہت ٹھیس پہنچے گی۔‘‘
 آج میرے پیارے ابّا جان اس دنیا میں نہیں ہے۔ ان کی صرف یادیں ہیں میرے پاس۔ اے اللہ میرے ابّا جان کے درجات کو بلند کرنا، انہیں کروٹ کروٹ جنت نصیب کرنا (آمین)۔
تسنیم کوثر نوید (ارریہ، بہار)
ماں کی بے شمار نصیحتیں
میری ماں میری بہترین دوست ہے۔ انہوں نے ہماری بہترین انداز میں تربیت کی ہے۔ انہوں نے ہمیں کبھی لفظی نصیحت نہیں کی بلکہ اپنے عمل سے ہمیں سکھایا ہے۔ وہ انتہائی صفائی پسند خاتون ہے۔ انہوں نے ہمیں کبھی صفائی کی تلقین نہیں کی بلکہ ہر وقت پورا گھر صاف رکھتی۔ جس کا نتیجہ یہ ہوا کہ دھیرے دھیرے ہم سب صفائی پسند ہوگئے۔ مجھے اپنی ماں کا تربیت کا یہ انداز بے حد پسند ہے۔ میں اپنی ماں کی اس خوبی کو ڈائری میں لکھنا چاہوں گی۔ اس کے علاوہ، ان کی کئی باتیں اور نصیحتیں میرے ذہن میں محفوظ ہیں جنہیں میں ڈائری کا حصہ بنانا چاہوں گی۔
الف ص (ممبئی)
خوبیوں اور خامیوں پر غور کرتی


وہ صفحہ مَیں اپنے بارے میں لکھتی۔ پورے دن میرا لوگوں کے ساتھ رویہ کیسا تھا؟ مَیں نے آج کسی کا دل تو نہیں دکھایا۔ آج مجھ سے کوئی ناراض تو نہیں ہوا۔ آج کون کون سے اچھے کام انجام دیئے اور کیا غلطیاں کیں؟ ساری باتوں کو درج کرتی اور اپنا جائزہ لیتی۔ اپنی خوبیوں اور خامیوں پر غور کرتی اور خود کو بہتر انسان بنانے کی کوشش کرتی۔ مَیں ایسا کرکے اللہ رب العزت کی نظر میں ایک اچھا اور نیک انسان بننا چاہتی ہوں۔
سیّد شمشاد بی احمد علی (کرلا، ممبئی)
وہ صفحہ میری کامیابی اور ناکامی پر مبنی ہوتا
انسان اپنی زندگی میں بے شمار کامیابیاں اور ناکامیوں کا سامنا کرتا ہے۔ مَیں نے بھی کئی کامیابیاں حاصل کی ہیں اور ناکامیوں کا بھی سامنا کیا ہے۔ اگر مَیں ڈائری لکھتی تو اس میں میری کامیابیاں اور ناکامیاں، دونوں درج ہوتیں۔ اس سے مجھے احساس ہوتا ہے کہ مَیں نے زندگی میں کیا کچھ پایا ہے اور کیا کچھ کھویا ہے۔
مومن روزمین (کوٹر گیٹ، بھیونڈی)

مجھے مزید محنت کرنی ہے
میری ڈائری کا ایک صفحہ: تاریخ، ۴؍ جولائی ۲۰۲۴ء، آج کا دن بہت خوشگوار گزرا۔ صبح اُٹھنے کے بعد میں نے اپنی پسندیدہ چائے کے ساتھ ناشتہ کیا۔ میری سہیلی ملنے کیلئے آئیں اور ہم نے مل کر کافی دیر تک گپ شپ کی۔ انہوں نے بہت ساری خوشیاں اور تجربات بیان کئے، جس سے میرا دل بہت خوش ہوا۔ شام کو میں نے اپنے خوابوں اور مقاصد پر غور کیا۔ میں نے اپنی زندگی میں کئی مقابلے جیتے ہیں اور خود کو ایک قابل انسان مانتی ہوں۔ مجھے مزید محنت کرنی ہے اور اپنے خوابوں کو پورا کرنا ہے۔ مجھے یقین ہے مَیں ضرور کامیاب ہوجاؤں گی۔
آرزو خانم (شاہین باغ، دہلی)
حسد جلن کینہ سے دور رشتے


نرم و صاف دل، جس میں خلوص اور محبت/ کچے مکان لیکن پکے رشتے/ حسد جلن کینہ سے دور رشتے/ خلوص سے پر انسان/ انسان کو انسانیت کا درجہ دینے والے/ بھولے بھالے لوگ/ مٹی کے برتن اور مٹی کے چولہوں پر بنے پکوان/ ہر کسی کا درد سمجھنے والے، سچے رشتے نبھانے والے/چھوٹے بڑوں کا ادب کرنے والے/ بنا گھڑی کے زندگی کے آنے والے وقت کا پتہ دینے والے/ لمبی عمریں، جھریوں سے پُر روشن چہرے/ شفقت سے پُر نرم ہاتھ/ دعاؤں سے بھری میٹھی زبان/ نہ جانے وہ زمانے اور وہ زمانے کے لوگ کب کہاں کس وقت اس دنیا سے چلے گئے، ساتھ اپنے خلوص، محبت و شفقت اور نہ بھلانے والی یادیں دے گئے/ میری زندگی کا دارو مدار میرے ساتھ رہنے والی دعاؤں کی وجہ سے ہے/ جو اس دنیا سے تو چلے گئے لیکن اپنے ہونے کا ثبوت مجھے ہر پل دیتے ہیں۔ جن کی آنکھیں آج بھی خوش ہوتی ہوں گی دیکھ کر مجھے/ جو خواب اُن کے تھے ان کو پورا ہوتا دیکھ.....
 میری ڈائری کا ایک صفحہ ایسا ہوتا!
آفرین عبدالمنان شیخ (شولاپور، مہاراشٹر)
مجھے میرا خواب ٹوٹتا دکھائی دینے لگا....


میری ڈائری کا ایک صفحہ اس واقعہ کو ضرور قلم بند کرتا جو اس کامیاب زندگی کے نام ہے۔
تاریخ ۲۰؍ جولائی، میری ملازمت کا پہلا دن! اپنے ہاتھوں میں ضروری کاغذات کی فائل تھامے اسٹیشن کے باہر بارش کے کم ہونے کا انتظار کرتے اپنے بابا کے ساتھ کھڑی تھی۔ ممبئی میرے لئے نیا شہر۔ اتنی تیز رفتار بارش، لوگوں کا ہجوم یہ سب میرے حوصلے کو کہیں نہ کہیں پست کر رہا تھا۔ دل کہہ رہا تھا واپس چلی جا مگر اپنے ہاتھ میں اس کامیابی کی سیڑھی کو دیکھ کر ہمت بندھ رہی تھی۔ جیسے تیسے اسٹیشن سے باہر آگئے۔ لیکن اس تیز بارش میں ایک بھی رکشا نہیں مل رہا تھا۔ اب تو میں اور میرے بابا دونوں پریشان ہونے لگے۔ رکشا مل نہیں رہا اور بارش رکنے کا نام نہیں لے رہی۔
 بابا نے کہا، ’’چل بیٹا! واپس چلتے ہیں۔‘‘ یہ سن کر میرے آنسو نکل آئے۔ مجھے میرا خواب ٹوٹتا ہوا دکھائی دینے لگا۔ بس اللہ سے مدد کی امید تھی۔ اور اللہ نے سن لی۔ ایک نیک بندہ فرشتے کی طرح آیا۔ وہ بہت دیر سے ہمیں پریشان دیکھ رہا تھا۔ ہم سے پتہ دریافت کیا اور ہمیں ہماری منزل تک پہنچا دیا۔
 آج بھی موسلادھار بارش وہ دن یاد دلاتی ہے۔
تسنیم کوثر انصار پٹھان (کلیان، تھانے)
وہ صفحہ خواتین کے خلاف ہورہے ظلم کو بیان کرتا


ڈائری لکھنا ایک اچھا شغل ہے۔ اس سے انسان کے اپنے اچھے اور برے احوال ضبط تحریر میں آجاتے ہیں لیکن وقت کی قلت اور مصروفیت کی وجہ سے ایسا سب کے لئے ممکن نہیں۔ لیکن میں اگر ڈائری لکھتی تو اس کا ایک صفحہ ایسا ضرور لکھتی کہ جس میں خواتین پر ہونے والے ظلم کے بیشتر واقعات میں سے ایک واقعہ ایسا ضرور تحریر میں لاتی کہ آج کے ترقی یافتہ اور تعلیم یافتہ دور میں بھی جہالت کی تاریکیاں اب بھی بدستور قائم ہیں۔ اس کی ایک مثال اس طرح ہے کہ آج بھی بیٹوں کی چاہت میں بیٹیوں کو رحم مادر میں ہی مار دیا جاتا ہے جبکہ آج سے ساڑھے ۱۴؍ سو سال پہلے کے زمانۂ جاہلیت میں بھی کم از کم ان کو دنیا میں آنے کا موقع دیا جاتا تھا لیکن آج کے دور میں ماں حوا کی بیٹی کو دنیا میں آنے سے پہلے ہی ان سے زندگی جینے کا حق چھین لیا جاتا ہے۔ یہ ایک افسوس ناک اور بدترین عمل ہے۔
ترنم صابری (سنبھل، یوپی)
ذہن میں آنے والے خیالات درج کر لیتی
مَیں ڈائری لکھتی تو اس کا ایک صفحہ ایسا ہوتا جس میں نماز کا ذکر ہوتا، والدین کے ساتھ حسن سلوک کا ذکر ہوتا، جس میں میری تعلیم کے بارے میں ذکر ہوتا، جس میں مجھے روزانہ ایک نئی چیز سیکھنے کو ملتی اور تجربہ ہوتا اور اس سے میرے اندر کچھ نیا سیکھنے کا جذبہ پیدا ہوتا۔ ہر ہفتے میری ڈائری میں کچھ نئی چیز کا اضافہ ہو جاتا ہے۔ میری ڈائری کا ایک صفحہ ایسا ہوتا، مَیں آنے والے مختلف خیالات کو درج کر لیتی۔ زندگی کے مختلف تجربات ہمیں مختلف احساسات سے گزارتے ہیں کئی بار ذہن مختلف قسم کے خیالات میں اُلجھ جاتا ہے لیکن ان خیالات اور احساسات کو بعد میں یاد رکھنا مشکل ہو جاتا ہے اس لئے ڈائری میں میرا صفحہ ایسا ہوتا جس میں مَیں سب کچھ درج کر لیتی۔
ہاجرہ نور محمد (چکیا، حسین آباد، اعظم گڑھ)
فیض احمد فیض کی منظوم دعا


۲۰۲۴ء کی ڈائری کے کچھ صفحات فلسطین، اہل ِ فلسطین اور عالم اسلام کی اُن تمام سر زمینوں کیلئے دعاؤں اور نیک خواہشات کے نام ہیں جو اپنی عزت و بقا کیلئے سر گرداں ہیں۔ اس دردِ مشترک کے تناظر میں فیض احمد فیض کی یہ خوبصورت منظوم دعا میری ڈائری کے پہلے صفحہ کی زینت ہے:
آئیے عرض گزاریں کہ نگار ہستی/ زہرِ امروز میں شیرینی فردا بھر دے/ وہ جنہیں تابِ گراں باری ایام نہیں/ اُن کی پلکوں پہ شب و روز کو ہلکا کردے!/ جن کی آنکھوں کو رخ صبح کا یارا بھی نہیں/ اُن کی راتوں میں کوئی شمع منورکردے/ جن کے قدموں کو کسی رہ کا سہارا بھی نہیں/ اُن کی نظروں پہ کوئی راہ اُجاگر کردے!/ آئیے ہاتھ اُٹھائیں ہم بھی/ ہم جنہیں رسم ِ دُعا یاد نہیں/ ہم جنہیں سوزِ محبت کے سوا/ کوئی بُت کوئی خدا یاد نہیں!
خالدہ فوڈکر (ممبئی)
وہ صفحہ میری کوششوں و جہد مسلسل کا شاہد ہوتا
مَیں ڈائری لکھتی تو اس کا ایک صفحہ ایسا ہوتا جسے میں ’’زندگی‘‘ نام دیتی۔ میرے خوابوں کو وہاں سجا دیتی۔ ہر وہ چیز لکھ دیتی جسے میں نے چاہا اور اس کو پانے کی جستجو کی۔ انہیں بھی لکھتی جسے چاہ کر بھی مَیں پا نہ سکی۔ اس صفحہ کو میں اپنے احساس سے سینچتی اور جذبوں کے قطروں سے اس کی آبیاری کرتی۔ وہ صفحہ میری زندگی کا حاصل بھی ہوتا اور لاحاصل بھی۔ اس میں مَیں اپنے سپنوں کو سنجوتی اور اسے پورا ہوتا ہوا دیکھتی۔ وہ صفحہ صرف میرا ہوتا جس کے لفظ لفظ اور حرف حرف میں صرف مَیں ہی سمائی ہوتی، وہ صفحہ میرے ہونے کی گواہی دیتا، میری کوششوں و جہد مسلسل کا شاہد ہوتا۔ وہ صفحہ میری زندگی کا سب سے خوبصورت اور دلکش صفحہ ہوتا جسے میں آب زر سے لکھتی اور طاق میں سجا کر رکھ دیتی۔
فردوس انجم ( بلڈانہ، مہاراشٹر)
کاش ایسا ہوتا!


میرے والد صاحب نے میری شروع ہی سے یہ عادت میں شمار کیا تھا کہ میں روزمرہ کی باتوں کو اپنی ڈائری میں نوٹ کروں اور دھیرے دھیرے میری یہ عادت بن گئی اور ابھی بھی میں ڈائری لکھنے کا شوق رکھتی ہوں۔ مگر آج مجھے اس بات کی کمی محسوس ہوتی ہے اور میں سوچتی ہوں کہ اگر میں اپنے والدین کی ہر چھوٹی بڑی باتوں اور نصیحتوں، اُن سے کی گئی ساری باتوں کو ایک ڈائری میں سمیٹ لیتی تو بہت مفید ہوتا کیونکہ آج اُن کی کمی بہت محسوس ہوتی ہے۔ لگتا ہے اُن سے بیٹھ کر لمبی گفتگو کروں۔ اب صرف اُن کی باتیں دل و دماغ میں ہے۔ میری امی کے ہاتھ کے لذیذ بہترین پکوان، اُن کی نصیحت، گھر سنبھالنے کی ترکیبیں وغیرہ۔ سب کچھ نوٹ کرنا چاہتی ہوں۔ ابو کی بتائی ہوئی باتیں، دنیا میں شہرت، عزت اور فخر سے جینے کے طریقے، یہ سب بیش قیمتی ہیں، سب کچھ ڈائری میں لکھنا چاہتی ہوں۔ اخبار کے ذریعے اپنے بچوں کو یہ نصیحت کرتی ہوں کہ اس کمی کو وہ نہ دہرائیں۔
بی بشریٰ خاتون (جامعہ نگر، نئی دہلی)
گھریلو عورتوں کو تجویز کرتی


جب تک بچے چھوٹے تھے تو مَیں روزانہ ڈائری لکھتی تھی۔ جب سے بچوں کی ذمہ داری اور کام بڑھے تو ڈائری لکھنے کے لئے وقت ہی نہیں بچا۔ اگر اب میں ڈائری لکھتی تو میری ڈائری میں ایک صفحہ ایسا ہوتا جو گھریلو عورتوں کو ضروری مشوروں سے پُر ہوتا۔ مَیں اپنے تجربوں سے ان کو واقف کرواتی اور یہ احساس دلاتی کہ ہم گھریلو عورتیں گھر میں رہتے ہوئے بھی بہت کچھ کرسکتی ہیں۔ اپنے خوابوں کو حقیقت میں تبدیل کرسکتی ہیں۔ ضرورت ہے ہمیں خود پر اعتماد کرنے کی اور کوشش کرنے کی۔ دعا اور صبر کریں گے تو سب کچھ ممکن ہے۔ گھر کے کام کرنے کے بعد جب فرصت ملتی ہے تو اس میں ہم اپنے شوق کو پورا کرسکتے ہیں۔ سیکھنے اور سکھانے کی کوئی عمر نہیں ہوتی!
ہما انصاری ( مولوی گنج، لکھنؤ)
۲۰۰۵ء کا وہ حادثہ لکھتی


میری ڈائری کا صفحہ ہوتا وہ حادثہ جو ۲۷؍ جولائی ۲۰۰۵ء کو پیش آیا تھا۔ اس دن کسی نے خواب میں بھی نہیں سوچا ہوگا کہ ہم جو صبح کو اپنی اپنی ڈیوٹی پر نکلے ہیں رات کو بھی گھر نہیں پہنچ سکیں گے بلکہ کئی تو نہ جانے کہاں اور کس حالت کو پہنچیں گے۔ مَیں بھی معمول کے مطابق گوونڈی اپنی اسکول پہنچی تھی۔ بارش کا موسم تو تھا ہی دھیرے دھیرے اس کا زور بڑھنے لگا۔ پھر یہ معلوم ہوا کہ کئی علاقوں میں پانی بھرنے لگا ہے۔ رکشا ڈرائیور اپنا رکشا گھروں کی طرف لگانے لگے۔ ہم لوگوں کو ہماری، ہیڈ مسٹریس ہاجرہ آپا نے کہا کہ آپ لوگ بھی نکل جاؤ۔ ہم کرلا والے ایک ساتھ نکلے۔ اسٹیشن پر پتہ چلا کہ تمام ٹرینیں رد ہوچکی ہیں۔ بس بھی جہاں تھی وہیں رکی ہوئی تھی۔ آخرکار پیدل ہی چل پڑے۔ پانی مستقل طور پر بڑھتے جا رہا تھا۔ برسات کی بوندیں یوں محسوس ہورہی تھیں جیسے سر پر پتھر برس رہے ہوں۔ خیر کسی طرح کرلا پہنچے مگر وہاں کا عالم ہی کچھ اور تھا۔ سب چیزیں بہہ رہی تھیں۔ جھوپڑے اور کچے مکان ڈوب چکے تھے۔ برہمن واڑی میں ایک منزلہ تک ڈوب گیا تھا۔ مجھے ایک پہچان کے بچے نے کسی طرح اس کے گھر تک پہنچایا۔ پوری رات آنکھوں میں گزار دی۔ نیٹ ورک سسٹم بند تھا گھر پر اطلاع بھی نہیں دے سکتے تھے۔ میری کئی سہیلیاں اور ٹیچرز بسوں اور ٹرینوں میں پھنسی ہوئی تھیں۔ اللہ نے کرم کیا کہ ہم اگلے دن کسی نہ کسی طرح اپنے گھروں کو پہنچے تھے۔ سب گھروں میں پانی بھرا ہوا تھا۔ سب کچھ تباہ و برباد ہوچکا تھا۔ خیر جان ہے تو جہان ہے۔ یہ حادثہ مَیں زندگی بھر نہیں بھول سکتی۔
نسیم رضوان شیخ ( کرلا، ممبئی)
میری زندگی کی کہانی کا ایک حصہ ہے


مَیں ایک ماں، ایک بیوی، ایک معلمہ، ایک ریسرچ اسکالر اور ایک قلمکار ہوں۔ اپنے تمام کردار کامیابی کے ساتھ نبھانا میری ترجیح ہے۔ ہر دن کی طرح یہ دن بھی نئے چیلنجز اور نئے مواقع ساتھ لایا۔ صبح بچوں کو تیار کرکے اسکول بھیجا۔ ساڑھے ۱۰؍ بجے تک میں خاتون خانہ کی ذمہ داریاں ادا کرتی ہوں۔ اور اس کے بعد ایک معلمہ کی۔ بطور معلمہ، ہر دن ایک نیا سبق ہوتا ہے۔ آج کی کلاس میں بچوں نے خوب دلچسپی دکھائی اور ان کی چمکتی آنکھیں دیکھ کر دل خوش ہوگیا۔ درس و تدریس کا یہ سفر مسلسل سیکھنے اور سکھانے کا ہے۔ آج میں نے اپنی پی ایچ ڈی تھیسس کے نئے مراحل پر کام کیا۔ ایک محقق کے طور پر، ہمیشہ کچھ نیا جاننے کی جستجو رہتی ہے۔ آج کے تحقیقی مواد نے کئی نئے پہلوؤں کو اجاگر کیا جو میرے مقالے کے لئے نہایت اہم ہیں۔ کچھ وقت شوہر اور بچوں کے ساتھ گزارا۔ میرے شوہر کی محبت اور بچوں کی معصوم باتیں اور ہنسی میری زندگی کا سرمایہ ہیں۔ سب کے سونے کے بعد میں لکھنے کی میز پر آبیٹھی۔ ایک قلمکار کے طور پر اپنے خیالات کو لفظوں کا روپ دینا میرا جنون ہے۔ آج کے موضوع پر لکھتے ہوئے دل کو بہت سکون ملا۔ یہ ڈائری کا ایک صفحہ نہیں، بلکہ میری زندگی کی کہانی کا ایک حصہ ہے۔ ہر دن کی مصروفیات اور تجربات میری شخصیت کو نکھارتے ہیں اور ان صفحات میں قید ہوجاتے ہیں۔ یہ یادداشتیں میری زندگی کے مختلف کرداروں کی عکاسی کرتی ہیں اور وقت گزرنے کے ساتھ ان میں مزید گہرائی اور معنویت آتی جاتی ہے۔
نکہت انجم ناظم الدین (مانا، مہاراشٹر)
میرے جذبات و احساسات اور خیالات ہوتے
مَیں ڈائری لکھتی تو اس کا ایک صفحہ ایسا ہوتا جس پر میری زندگی کی خوشگوار یادیں محفوظ ہوتیں جو میرے لبوں پر مسکراہٹیں بکھیرتیں۔ مستقبل کے خوابوں کی تعبیر ہوتی جو مجھے آگے بڑھنے کیلئے ہمیشہ پُرعزم رکھتی۔ میرے جذبات و احساسات اور خیالات اس صفحے پر تحریر ہوتے۔ روز مرہ کے واقعات، خوبصورت لمحات اور کچھ پیاری پیاری باتیں جو میں نے کہیں پڑھی تھی، سب کچھ اس صفحہ پر درج ہوتا۔ میری ڈائری کا وہ ایک مختصر سا صفحہ جس پر زندگی کی ساری خوشیاں محفوظ ہوتیں۔
خان نرگس سجاد (جلگاؤں، مہاراشٹر)
ہمارے حقیقی مسائل پر مبنی ہوتا


میری ڈائری میں ایک صفحہ ملک کی سب سے بڑی اقلیت کی زبوں حالی اور اس کے دور کرنے کے لائحہ عمل سے متعلق ہوتا۔ مرکز اور مختلف صوبائی حکومتوں کے نزدیک مسلم اقلیت محض ایک سیاسی چارے کے سوا کوئی حیثیت نہیں رکھتی ہے اور میرا ایسا ماننا ہے کہ یہ سیاسی جماعتیں اپنے مفاد کو اولین ترجیح دیتی ہیں۔ ملک و قوم کا مفاد بھی ان کے نزدیک پارٹی سے زیادہ اہم نہیں ہے لہٰذا مختلف مسائل سے دوچار مسلم اقلیت کی ان پارٹیوں اور حکومتوں سے توقعات فضول ہی ہیں۔ میری رائے میں مہاتما گاندھی کا وہ نظریاتی فلسفہ جس میں انہوں نے خود کفالت اور سادگی پر زور دیا تھا مسلم اقلیت کے لئے بے حد اہم ہے۔ اس کے علاوہ جدید علوم کی تعلیم و تربیت اور زکوٰۃ کے نظام کو بہتر بنانے کے طریقوں پر غور و خوض کی ضرورت ہے۔ چھوٹی اور گھریلو صنعتیں اور ہینڈلوم جیسے شعبوں کو مضبوط کرکے ہم خود کفیل نظام کی طرف پیش قدمی کرسکتے ہیں۔ روزمرہ کی ضروریات کی بہت سی اشیاء مسلم دستکار، بنکر وغیرہ آج بھی تیار کرکے اپنے لئے مارکیٹ میں مقام بنا سکتے ہیں، ان اشیاء کے استعمال کو فروغ ملنا چاہئے۔ جنوبی ہندوستان میں کیرالہ اورکرناٹک جیسے صوبوں میں مسلم اقلیت نے ہر شعبہ میں اچھی کارکردگی کا مظاہرہ کیا ہے۔ شمالی ہند میں ہمیں صرف اور صرف سیاسی جماعتوں کے پیچھے دیوانہ وار بھاگنے کے بجائے ایسے طریقوں پر غور کرنا چاہئے جن سے ہم اشتراکیت کے راستے سے اپنے علم و فن اور صنعتوں کو نہ صرف زندہ رکھ سکیں بلکہ جدید تعلیم کے میدان میں بھی ہم وطنوں کی برابری کا مقام حاصل کرسکیں۔ اس کے طریقۂ کار پر بڑا مضمون لکھا جاسکتا ہے۔ یہاں اس کے لئے جگہ کم ہے۔ شمالی ہند میں مسلم اقلیت کی سیاسی اہمیت کی بحالی کا راستہ ان کی ہر شعبے میں خود کفالت اور خوشحالی ہی سے بن سکے گا۔ میری ڈائری کا ایک اہم صفحہ کچھ ایسے ہی تاثرات پر مبنی ہوتا۔
سلطانہ صدیقی (جامعہ نگر، نئی دہلی)
ڈائری کی مجھ سے شکایت
رات کے تقریباً ۱۱؍ بج رہے ہیں، محترمہ ڈائری صاحبہ! ہم آپ سے باتیں کئے بغیر بھلا کیسے رہ سکتے ہیں۔ ایک بے چینی سی رہتی ہے تو لیجئے سنئے ہماری پورے دن کی رو داد۔ ہاں، ہاں بتاتے ہیں اطمینان تو رکھئے۔
 عمار اور عماد کی وجہ سے مصروفیت ختم ہونے کا نام ہی نہیں لیتی۔ کیا کہہ رہی ہیں آپ ساریہ! ذرا پھر سے کہئے، ارے آپ اکلوتی ماں تھوڑے ہی بنی ہیں۔ دنیا جہاں کی ماؤں کو دیکھئے کہ کیسے وہ مصروفیت کے باوجود اپنی پسندیدہ چیزوں کے لئے وقت نکال لیتی ہیں۔ واہ کیا کہنے آپ کے بہت خوب! یہ جو دن میں روشنی والا ڈبہ ارے ہاں! آپ تو اسے موبائل فون کے نام سے جانتی ہیں۔ سارا وقت وہاں صرف ہوگا تو ہمارے لئے کیا ہی بچے گا۔ اس دوستی کے رشتے میں کڑواہٹ آنی شروع ہو گئی ہے اور وجہ جانتی ہیں آپ۔ خوب سمجھ لیجئے سکون تو آپ کو ہماری آغوش میں ہی ملے گا۔ کچھ ہم بھی عرض کریں ڈائری صاحبہ! کہئے۔ ان شاء اللہ اب آپ کو شکایت کا موقع نہیں ملے گا۔ میری عزیز دوست مان بھی جایئے۔ اتنا ناراض نہیں ہوتے.... ٹھیک ہے۔ وعدہ؟ ہاں! وعدہ۔ پھر ملاقات ہوتی ہے عماد بھی رو رہا ہے۔ اللہ حافظ!
ساریہ ابوالقیس (جونپور، یوپی)
وہ ایک صفحہ اردو شاعری کا مجموعہ ہوتا


ڈائری کی اہمیت وہی جانتا ہے جو ڈائری لکھتا ہے۔ ڈائری ہماری سہیلی، راز دار ہوتی ہے۔ میری ڈائری میں میرے شوق کے مطابق ایک صفحہ اردو شاعری کا مجموعہ ہوتا۔ جو مختلف قسم کے اشعار اور غزلوں پر مشتمل ہوتا۔ اس کے ذریعہ مجھے اردو زبان کے نئے اور مشکل الفاظ سیکھنے اور سمجھنے کا موقع فراہم ہوتا۔ اردو زبان پر فروغ حاصل کرنے کی کوشش ہوتی۔ اپنے تخلیق کردہ اشعار کی اصلاح میں بھی مدد ملتی۔ غرضیکہ اردو زبان پر کسی حد تک بنیادی طور پر عبور حاصل کرنے کی کوشش ہوتی۔ اردو سیکھنے کا جذبہ مزید پروان چڑھتا اور اردو سے محبت دل کے ہر خانے کو، روشن رکھتی۔
مومن رضوانہ محمد شاہد (ممبرا، تھانے)
زندگی کی حقیقت کو بیان کرتی ایک نظم


میری ڈائری کا ایک صفحہ ایک نظم پر مبنی ہے:
مجھے خبر تھی/ کہ باد صبا کے جھونکے کو/ مَیں اپنی سانسوں میں کچھ دیر روک سکتا ہوں/ گلوں کی خوشبو بھی کچھ پل ہی ساتھ دے گی میرا/ وہ نغمہ جو کہ سماعت میں رس بکھیرتا ہے/ رہے گا اس کا بھی آہنگ/ بس گھڑی کی گھڑی/ رہ حیات میں اس روشنی کا رنگیں خمار/ بس اگلے موڑ پہ مجھ سے بچھڑنے والا ہے/ مری تمام مسافت رہے گی لاحاصل/ مَیں جانتا تھا/ مَیں جانتا تھا مگر کیا کسی کو بتلاتا/ اس عارضی سے تعلق میں کتنا جیون تھا/ اور اس فریب میں کتنا سکون پنہاں تھا!
رضوی نگار اشفاق (اندھیری، ممبئی)

اگلے ہفتے کا عنوان: کوئی ایسا واقعہ جہاں آپ کا صبر کام آگیا
اظہار خیال کی خواہشمند خواتین اس موضوع پر دو پیراگراف پر مشتمل اپنی تحریر مع تصویر ارسال کریں۔ وہاٹس ایپ نمبر: 8850489134
’’مَیں ڈائری لکھتی تو اس کا ایک صفحہ ایسا ہوتا!‘‘ اس موضوع پر ہمیں کئی تحریریں موصول ہوئی ہیں۔ جن خواتین کی تحریریں شائع نہیں ہوئی ہیں وہ پیر (۱۵؍ جولائی ۲۰۲۴ء) کا شمارہ ملاحظہ فرمائیں۔ ادارہ

Odhani women Tags

متعلقہ خبریں

This website uses cookie or similar technologies, to enhance your browsing experience and provide personalised recommendations. By continuing to use our website, you agree to our Privacy Policy and Cookie Policy. OK