دنیا بھر میں ہر سال ۸؍مارچ کو یوم ِ خواتین منایا جاتا ہے۔ اسی مناسبت سے گزشتہ دنوں دفتر انقلاب میں مختلف شعبوں سے تعلق رکھنے والی چند خواتین کو مدعو کیا گیا تھا۔ ان خواتین نے اپنی تعلیم، کریئر کی دشواریاں اور کسی مقام پر پہنچنے تک کے سفر کو تفصیل کے ساتھ بیان کیا۔ ذیل میں ملاحظہ کیجئے ان سے ہونے والی گفتگو کے چند اقتباسات:
(دائیں سے بائیں) ڈاکٹر ناظمہ خطیب اور اُن کی بیٹی تزئین، شبنم خان، عائشہ شفیع الرحمٰن، منصوری ثمینہ، اراکین ِ انقلاب صائمہ شیخ اور رئیسہ منور۔ تصویر: آئی این این
منصوری ثمینہ نظام الدین
(پروفیسر اور شیف ’ثمینہ فوڈی لیشیس‘ کی مالک)
’’مَیں نے بچپن ہی سے اپنے گھر میں دیکھا ہے کہ گھر کا کھانا ہی بہت اچھا بنایا جاتا ہے۔ اس جانب خاص توجہ دی جاتی تھی کہ گھر کے کھانے ہی کو بہت زیادہ ذائقہ دار بنایا جائے۔ اس سے مجھ میں بھی کھانے کو بہت اچھا بنانے کا شوق پیدا ہونے لگا۔ اس کے علاوہ فوڈ بزنس منافع بخش ہے کیونکہ لوگ کھانا پینا کبھی نہیں چھوڑیں گے۔ ہم لوگ کہیں بھی جاتے ہیں سب سے پہلے کھانا تلاش کرتے ہیں۔ اس لئے یہ کاروبار منتخب کیا۔ یہ کاروبار شروع کرنا بے حد آسان ہے۔ خواتین گھر بیٹھے اس کاروبار کو شروع کرسکتی ہیں۔ کووڈ ۱۹؍ کے دوران کلاؤڈ کچن کے رجحان میں اضافہ ہوا ہے۔ چونکہ اس وقت ہوٹل بند تھے اور باہر کھانے پینے کی اشیاء مل نہیں رہی تھیں تو اس وقت لوگوں نے گھر سے فوڈ بزنس شروع کیا۔ مَیں ایک خاتون کو جانتی ہوں، وہ چائے کا کاروبار کرکے لاکھوں کما رہی ہے جبکہ دوسری خاتون صرف پراٹھے فروخت کرکے اچھی آمدنی حاصل کر رہی ہے۔ جو خواتین اچھا کھانا بناتی ہیں، اس میں مہارت پیدا کرکے بزنس ویمن بن سکتی ہیں۔ مَیں نے اپنے مشغلے کو کاروبار میں تبدیل کیا۔ اس کی شروعات کچھ اس طرح ہوئی کہ ۳؍ سال پہلے ایک این جی او کیلئے کام کر رہی تھی۔ وہاں جھوپڑپٹی میں رہنے والی غیر تعلیم یافتہ لڑکیوں کو مفت میں بیکنگ سکھایا جا رہا تھا۔ انہیں سکھانے کی ذمہ داری مجھے دی گئی تھی۔ بچیوں کو بیکنگ سکھا رہی تھی اس وقت آئی ایچ ایم کے پرنسپل وہاں موجود تھے۔ انہوں نے میرا بنایا ہوا پکوان چکھا اور انہیں بے حد پسند آیا۔ اس کے بعد انہوں نے مجھے بحیثیت شیف اپنے کالج میں جاب کی پیشکش کی جسے مَیں نے قبول کر لیا۔ قلیل مدتی کئی کورس کرکے اس کاروبار کو شروع کیا جاسکتا ہے۔ گورنمنٹ کے مفت یا کم فیس کے کئی سرٹیفکیٹ کورسیز ہوتے ہیں۔ ان کورسیز کے ذریعہ گھر بیٹھے خواتین چھوٹا موٹا فوڈ بزنس شروع کرسکتی ہیں۔ اس کے لئے انہیں مہیلا بچت گٹ سے لون بھی مل سکتا ہے۔‘‘

ڈاکٹر شمع ملک، ڈاکٹر طوبیٰ، مرضیہ پٹھان، ایڈوکیٹ طیبہ، ڈاکٹر مسرت اور رکن ِ انقلاب شیریں عثمانی (پچھلی صف میں)۔
عائشہ شفیع الرحمٰن
(روبوٹک انسٹرکٹر اور انڈین روبوٹکس اولمپیاڈ کی روبوٹکس کوچ)
’’ہمارے یہاں یہ سمجھا جاتا ہے کہ ڈریلنگ اور میکانیکل کام لڑکے کریں گے لڑکیاں نہیں۔ ہمیں ان سب کاموں سے دور رکھا جاتا ہے۔ لیکن ان چیزوں سے مجھے بچپن سے ہی دلچسپی تھی۔ آس پاس کوئی یہ سب کام کرتا تھا یا ابّا کوئی کام کرتے تھے تو مَیں غور سے دیکھتی تھی۔ مَیں نے پہلے ہی سوچا تھا کہ کچھ ایسا کام ہونا چاہئے جہاں پر میری کمپیوٹر اسکلز بھی کام آجائیں اور مجھے تعمیراتی کام بھی پسند ہے وہ بھی کام آجائیں۔ مَیں نے گریجویشن کمپیوٹر سائنس میں کیا اس کے بعد مجھے معلوم ہوا کہ روبوٹک ایک ایسا شعبہ ہے جہاں مَیں میکانیک اور پروگرامنگ کام کرسکتی ہوں۔ مائنڈ فیکٹری نامی کمپنی سے انٹرن شپ کیا۔ وہ لوگ مجھے بحیثیت کوچ آئی آر او (انڈین روبوٹکس اولمپیاڈ) اور ڈبلیو آر او (ورلڈ روبوٹک المپیاڈ انڈیا) لے جاتے تھے۔ شروع میں گھر والے آمدورفت کے تعلق سے فکرمند تھے مگر میری صلاحیتوں کو دیکھتے ہوئے انہوں نے مجھے اجازت دے دی تھی۔ اس شعبے میں لڑکیوں کی تعداد بہت کم ہے۔ دراصل لڑکیاں اس شعبے میں دلچسپی نہیں لیتیں۔ مَیں خواتین سے کہنا چاہوں گی کہ روبوٹک کے شعبے میں آپ پروگرامنگ اور کوڈنگ بآسانی سیکھ سکتی ہیں۔ یہاں تک کہ آپ گھر بیٹھے بیٹھے بھی بہت کچھ سیکھ سکتی ہیں۔ خواتین اس شعبے میں بہت کچھ منفرد کرسکتی ہیں۔ مثال کے طور پر ویمن سیفٹی کا معاملہ لے لیجئے۔ اگر کوئی ایسا ایپ بنا رہے ہیں اور وہ ایپ کوئی مرد تیار کرے گا تو اس کا نظریہ مختلف ہوگا جبکہ ایک خاتون کا اس قسم کا ایپ بناتے وقت نظریہ مختلف ہوگا۔ وہ ویمن سیفٹی ایپ بناتے وقت کئی حساس معاملے پر بھی توجہ دے گی۔‘‘
شبنم افضل خان
(سول انجینئر۔سائٹ/ بیلنگ انجینئر)
’’تعلیم لڑکی اور لڑکا، دونوں کو ایک جیسی دی جاتی ہے۔ مواقع بھی دونوں کے ایک جیسے ہی ملتے ہیں۔ یہ بات سچ ہے کہ میرے شعبے میں لڑکیوں کو ملازمت کم ملتی ہیں۔ کیونکہ اُن کا کہنا ہوتا ہے کہ سائٹس پر زیادہ تر مرد کام کرتے ہیں جو تعلیم یافتہ نہیں ہوتے اس لئے انہیں ہینڈل کرنا خواتین کے لئے ایک چیلنج ثابت ہوسکتا ہے۔ دوسرا مسئلہ ویمن سیفٹی کا ہوتا ہے۔ جب میں نے یہ شعبہ منتخب کیا تو مجھے معلوم تھا کہ سائٹ پر کام کرنا ہوگا اس لئے مَیں نے خود کو اس حساب سے ڈھالنے کی پوری کوشش کی۔ جو لوگ مجھے اپوائنٹ کرتے ہیں مَیں انہیں اس بات کی ضمانت دیتی ہوں کہ مجھ میں اتنی قابلیت ہے کہ مَیں اس ذمہ داری کو بخوبی نبھا سکتی ہوں۔ ایسے چیلنجنگ شعبوں کے لئے سب سے اہم فیملی سپورٹ ہوتا ہے۔ بالخصوص مائیں اپنی بیٹیوں کے تحفظ کے تئیں خوفزدہ ہوتی ہیں اس لئے چاہتے ہوئے بھی وہ انہیں آگے بڑھنے سے روکتی ہیں مگر اس کا حل نکالا جاسکتا ہے۔ مائیں بچیوں کی ایسی تربیت کریں کہ وہ مشکل سے مشکل حالات کا سامنا کرسکیں۔ اس شعبے میں خواتین کے لئے بھی مواقع ہیں۔ مَیں نے حال ہی میں جاب کے سلسلے میں انٹرویو دیا تھا۔ اس کمپنی کا کہنا تھا کہ انہیں خاتون انجینئرز کی ضرورت ہے کیونکہ وہ ایماندار اور محنتی ہوتی ہیں۔‘‘
تزئین خطیب گھی والا
(ایمبرائیڈری آرٹسٹ، ’کریسٹازائن‘ اسٹوڈیو کی مالک)
’’دادی کے خاندان میں زیادہ تر ڈاکٹرز ہیں مگر مجھے ہمیشہ سے ایمبرائیڈری میں دلچسپی تھی۔ جب میں پہلی جماعت میں تھی تب مَیں اپنی گڑیا کے کپڑے سلواتی تھی۔ دادی اور ممی نے مجھے سلائی سکھائی ہے۔ مجھے ہمیشہ ہی سے سلائی کے کاموں میں دلچسپی رہی۔ بارہویں سائنس سے کیا اور فیشن ڈیزائننگ میں گریجویشن مکمل کیا۔ اس کے بعد مَیں نے چند کورسیز جیسے کہ ایکسس سریز اینڈ افیلی ایٹ اسپیشل اِن فیشن کیا ہے۔ گریجویشن کے فوراً بعد ہی مجھے مونیشا جیسنگ میں جاب مل گئی تھی۔ اس دوران بہت سیکھنے کو ملا اور ایمبرائیڈری کے کام میں بہتری آتی چلی گئی۔ حالانکہ یہ شعبہ خواتین کے لئے مختص ہے مگر زیادہ تر کاریگر مرد ہوتے ہیں۔ دراصل اس شعبے میں سخت محنت کی جاتی ہے ایک جگہ پر گھنٹوں بیٹھ کر کام کیا جاتا ہے اسلئے شاید خواتین کی تعداد کم ہے۔ لیکن خواتین گھر بیٹھے اس کام کو انجام دے سکتی ہیں۔ چھوٹے پیمانے پر کاروبار بھی کرسکتی ہیں۔ ایمبرائیڈری کے شعبے میں الگ الگ ویرائٹی دیکھنے کو مل رہی ہے۔ مثال کے طور دلہن کے کئی لوازمات، ویڈنگ کی دن تاریخ وغیرہ کو رومال پر ایمبرائیڈری کے ذریعہ منفرد بنوانا وغیرہ کا بزنس اپنایا جاسکتا ہے۔ دوپٹے کی کنارے پر کروشیے کی مدد سے خوبصورت ڈیزائن بنوانا بھی ایک اچھا بزنس ثابت ہوسکتا ہے۔ پرانے زمانے کی خواتین اس قسم کا کام بہت کرتی تھیں مگر یہ روایت ختم ہورہی ہے۔ لیکن یہ کام اتنا مشکل نہیں ہے۔ دن میں ۵؍ گھنٹے کام کرکے بھی اس ہنر کو کاروبار کی شکل دی جاسکتی ہے۔ فی الحال میرا اپنا اسٹوڈیو ہے۔ ۱۲؍ افراد پر مشتمل میرا عملہ ہے۔ اس اسٹوڈیو کو ۵؍ سال مکمل ہوچکے ہیں اور اب بھی مَیں کارچوب پر ایمبرائیڈری کرتی ہوں۔ میری کوشش ہے کہ مَیں کوچنگ کلاسیز بھی شروع کروں تاکہ ضرورت مند خواتین کو بااختیار بنا سکوں۔‘‘
ڈاکٹر مسرت صاحب علی
(پرنسپل، حمیرا خان بی ایڈ کالج، جوگیشوری)

’’خواتین کو بااختیار بنانے کیلئے ابھی مزاج بدلنے کی ضرورت ہے۔ کچھ عرصہ قبل ہم نے اپنے اسکول کے آٹھویں، نویں اور دسویں جماعت کے لڑکوں سے سروے کی شکل میں کچھ سوالات پوچھے تھے۔ چونکہ یہ بچے بالغ ہورہے ہیں اسلئے ان کے خیالات معلوم کرنے کی کوشش کی گئی تھی۔ لیکن یہ جان کر آپ کو بھی حیرت ہوگی کہ سروے کے نتیجے کے مطابق وہ تمام لڑکے خواتین کیخلاف تھے مثلاً انہوں نے خواتین کے نوکری کرنے یا گھر سے باہر جانے کی مخالفت کی۔ پھر ہم نے یہ جاننے کی کوشش کی کہ یہ خیالات ان کے ذہن میں کیسے پیدا ہوئے تو معلوم ہوا کہ میڈیا کا ان کے ذہن پر زبردست اثر ہے۔ میڈیا نے ان کو بتایا ہے کہ عورت کے ذمے گھر کا کام ہے اور طاقت کا کام صرف مرد ہی کرسکتا ہے۔ دراصل ہمیں یہ مزاج بدلنے کی ضرورت ہے۔ خواتین کو بااختیار بنانے کیلئے سب سے پہلے بچوں سے بڑوں تک کے مزاج کو بدلنا ہوگا۔ لڑکیوں کو مختلف شعبوں میں نمایاں کام انجام دیتے دیکھ کر بڑی خوشی ہورہی ہے۔ یقیناً ان پر منفی خیالات کا کوئی اثر نہیں ہوا ہے۔ جن شعبوں میں مرد حضرات کی بالادستی تھی ان میں خواتین میں پیش پیش ہیں اور بھلا وہ کیوں کسی کے کہنے پر روکیں گی۔ وہ آگے ہی بڑھتی جائینگی۔ مَیں سمجھتی ہوں کہ ہمیں اونچے خواب دیکھنے ہوں گے۔‘‘
مرضیہ شانو پٹھان
(سیاستداں،سماجی کارکن اور ایم ایس پی کیئر فاؤنڈیشن کی پریسڈنٹ)
’’یو پی ایس سی کی تیاری کررہی تھی اس وقت کووڈ کے سبب حالات مختلف ہوگئے۔ مجھے پونے سے ممبرا لوٹنا پڑا۔ لاک ڈاؤن کے دوران والد صاحب کے ساتھ سیاسی کاموں میں مصروف رہی تو اس وقت احساس ہوا کہ مَیں اسی کام کے لئے بنی ہوں۔ مجھے ایسا لگتا ہے کہ سیاستداں عوام کے زیادہ قریب ہوتے ہیں اور مَیں بحیثیت سیاستداں عوام کے لئے کام کرنا چاہتی ہوں۔ اس شعبے میں خواتین کو بڑی تعداد میں شامل ہونا چاہئے خاص طور پر نوجوان مسلم خواتین کو سیاسی میدان میں آگے آنا چاہئے۔ اس لئے مَیں ان بچیوں کی حوصلہ افزائی کرنا چاہوں گی جو سیاست سے جڑنا چاہتی ہیں۔ آئین ہند نے خواتین کو سیاست میں ریزرویشن دیا ہے جس کا فائدہ اٹھاتے ہوئے خواتین کو سیاست میں شمولیت اختیار کرنی چاہئے۔ مَیں سمجھتی ہوں کہ ایک عورت جب گھر اتنا اچھا چلا سکتی ہے تو ملک بھی چلا ہی سکتی ہے۔ لیکن ابھی ہمیں کافی طویل سفر طے کرنا ہے۔ خواتین کو بااختیار بنانے سے قبل انہیں سب سے پہلے برابری کا درجہ دینا ہوگا۔ جب تک انہیں برابری کا درجہ نہیں ملے گا تب تک کامیابی نہیں ملے گی۔ نئی نسل میں صلاحیت ہے اس لئے کہا جاتا ہے کہ مستقبل میں خواتین کی صورتحال میں تبدیلی آئے گی۔ صورتحال مکمل تبدیل نہیں ہوگی لیکن بہتری امید ضرور کی جاسکتی ہے۔ موجودہ منظرنامہ بتا رہا ہے کہ لڑکیاں پڑھ رہی ہیں، اپنے کریئر کے لئے سنجیدہ ہیں اس لئے مجھے اُمید ہے کہ پچھلی جنریشن کے ساتھ جو مسائل تھے وہ یہ نسل حل کر لے گی، ان شاء اللہ۔‘‘
طیبہ طاہر قاضی (وکالت)
’’مَیں نے بارہویں کے بعد بی ایم ایم مکمل کیا۔ اس کے بعد لاء کی پڑھائی کی۔ ابتداء میں میرے گھر والے فکرمند تھے کیونکہ ان کے مطابق وکالت کا پیشہ خواتین کے لئے ٹھیک نہیںہے مگر بعد میں وہ لوگ راضی ہوگئے تھے۔ خاص طور پر والد کا بہت زیادہ سپورٹ تھا۔ فی الحال مَیں لاء میں ماسٹرز کر رہی ہوں۔ مجھے بچپن ہی سے سیاست اور جرائم پر مبنی فلموں میں بڑی دلچسپی تھی۔ مَیں گیارہویں جماعت ہی سے کریمنل تھیریز پڑھا کرتی تھی اور تفتیش کس طرح ہوتی تھی ان کی تفصیلات کا جائزہ لیتی تھی۔ مجھے تجسس تھا کہ آخر مجرم کس طرح پکڑے جاتے ہیں؟ اور جرم کیسے ثابت ہوتا ہے؟ میری دلچسپی نے مجھے وکالت کرنے پر مجبور کیا۔ ایک بات کہنا چاہوں گی کہ کتابوں کے ذریعے آپ کو قانون کی محدود معلومات حاصل ہوتی ہے جبکہ پریکٹس کے دوران آپ کو پوری تفصیلات کا اندازہ ہوتا ہے۔میرے سامنے جو کیسز آتے ہیں ان کے پیش نظر میں کہنا چاہتی ہوں کہ مرد حضرات کو یہ بات سمجھنی ہوگی کہ عورت ’کوئین آف اسلام‘ ہے۔ عورت کو اللہ تعالیٰ بت بہت اونچا منصب عطا کیا ہے۔ وہ اللہ کی خوبصورت مخلوق ہے۔ آپؐ کی زندگی کا مطالعہ کیجئے۔ ہمارے نبیؐ اپنی ازواج مطہرات کے ساتھ کس طرح پیش آتے تھے، اس کا جائزہ لیں۔ خانگی معاملات اپنے آپ حل ہوجائیں گے۔‘‘
عائشہ احمد خان (میک اپ آرٹسٹ افزا ایلائٹ اکیڈمی اور اسٹوڈیو کی مالک)
’’نوٹ بندی پھر اس کے بعد لاک ڈاؤن، کے سبب ہمارے حالات بدل گئے تھے۔ مالی حالت کو بہتر بنانے کے لئے مَیں اور میرے شوہر نے ایک نئی شروعات کرنے کے بارے میں سوچا۔ افزا ایلائٹ اکیڈمی اور اسٹوڈیو اسی سوچ کا نتیجہ ہے۔ اکیڈمی چلاتے وقت بھی کئی دقتوں کا سامنا کرنا پڑا مگر ہم نے ہمت نہیں ہاری اور افزا ایلائٹ کامیابی کے ساتھ جاری ہے۔ اس میں ضرورتمند خواتین اور بچیوں کو کم فیس میں کورس میں میک اَپ کا بنیادی ہنر، مہندی ڈیزائن، ہیئر اسٹائل وغیرہ کے کورس سکھائے جاتے ہیں۔ پسماندہ خواتین کو چند کورسیز مفت میں سکھائے جاتے ہیں تاکہ ان کورسیز کے ذریعہ وہ بااختیار بن سکیں۔ ایسی خواتین جو گھر رہ کر کام کرنا چاہتی ہیں، میک اَپ کورسیز کے ذریعہ وہ گھر بیٹھے اچھی آمدنی کرسکتی ہیں۔ ہماری اکیڈمی سے اب تک ۱۵۰۰؍ لڑکیاں تربیت حاصل کرچکی ہیں۔ اِن میں سے تقریباً ۴۰۰؍ روزگار سے منسلک ہیں۔‘‘
ڈاکٹر طوبیٰ مومن (فیزیوتھیراپسٹ)

’’میرے خاندان میں سبھی پڑھے لکھے ہیں۔ کوئی ڈاکٹر کوئی انجینئر تو کوئی آرکیٹیکٹ ہے۔ مجھے ڈاکٹر بننا تھا مگر مَیں ایم بی بی ایس نہیں کرنا چاہتی تھی۔ پھر بہت غور و فکر کرنے کے بعد مَیں نے فیزیو تھیراپسٹ کا انتخاب کیا۔ گزشتہ ۲؍ سال سے پریکٹس کر رہی ہوں۔ اس درمیان مَیں نے اسپتال میں بھی کام کیا، فری لانسنگ بھی کی اور اب پارٹنرشپ میں کلینک میں پریکٹس کر رہی ہوں۔ اس شعبے میں خواتین کی تعداد بہت زیادہ ہے۔ یہ چونکہ بہت وسیع شعبہ ہے اسلئے اکثر لوگ اس سے ناواقف ہوتے ہیں اور یہی سمجھا جاتا ہے کہ فیزیو تھیراپسٹ باڈی ایکسر سائز کرواتے ہیں جبکہ ایسا نہیں ہے۔ اس کام میں بہت باریکیاں ہیں۔ اگر فریکچر ہوا ہے تو وہ کون سے اینگل کا ہے اور اس دوران کون سی مومینٹ کرنا چاہئے اور کون سی نہیں؟ جیسی کئی باریکیاں فیزیو تھیراپسٹ جانتا ہے۔ اس کے ساتھ ہی گھٹنے کے آپریشن کے معاملات میں بھی فیزیو تھیراپسٹ کا اہم کردار ہوتا ہے۔ مَیں مستقبل میں نیورو فیزیو تھیراپسٹ کے شعبے کو منتخب کرنا چاہتی ہوں۔ اس جانب کوشش جاری ہے۔‘‘
ڈاکٹر شمع ملک
(ہومیوپیتھی پریکٹیشنر اور جماعت ِ اسلامی ہند کی رکن)
’’میرےگھر کا ماحول جیسا عام طور پر ہوتا ہے ویسا ہی تھا۔ پڑھا لکھا خاندان ہے۔ مجھے بچپن ہی سے ہر کام کے لئے گھر والوں کا بھرپور تعاون ملا۔ سسرال بھی ایسا ہی ہے۔ میرے نانا کی شخصیت کا مجھ پر گہرا اثر ہے۔ وہ جماعت ِ اسلامی کے رکن تھے۔ ہمارا آبائی وطن یوپی ہے۔ میرے نانا اپنے علاقے کے امیر جماعت تھے۔ وہ جب بھی یوپی سے ہمارے گھر (ممبئی) آتے تھے تو مجھے دینی کتاب پڑھنے کے لئے دیتے تھے۔ میرے نانا کی خاص بات یہ تھی کہ وہ بچوں کو ان کی عمر کے مطابق دینی کتابیں پڑھنے کے لئے دیتے تھے تاکہ ان کی بہتر ذہن سازی ہوسکے۔ جب مَیں نویں جماعت میں تھی تب نانا نے مجھے ’پردہ‘ نامی کتاب پڑھنے کے لئے دی تھی اور جب دسویں جماعت میں گئی تب مجھے ’تفہیم‘ پڑھنے کے لئے دیا۔ یوں میری شخصیت نکھرتی گئی۔ میری شادی جس گھرانے میں ہوئی وہاں کے لوگ جماعت اسلامی سے جڑے ہوئے تھے۔ میرے سسر اے ایس آئی میں صدر تھے۔ شادی کے کچھ عرصے بعد میں جماعت ِ اسلامی کا حصہ بنی۔ اس دوران دین کے متعلق بہت کچھ جاننے کو ملا۔ چونکہ عصری تعلیم میں کافی مصروف تھی اس لئے قرآن کو تفصیل سے پڑھ نہیں پائی اور دین کے متعلق بہت کچھ جان نہیں پائی مگر اب موقع ملنے پر ساری تفصیلات حاصل کر رہی ہوں۔ جہاں تک مسائل کی بات ہے، جو مسائل پہلے تھے آج بھی وہی ہیں۔ بہت سی جگہوں پر خواتین کو اپنی مرضی کے فیصلے نہیں کرنے دیئے جاتے اور نہ گھر سے باہر نکلنے کی اجازت دی جاتی ہے۔ اس صورتحال میں ہم ان کو سمجھانے کی کوشش کرتے ہیں۔ لیکن سب سے اہم یہ ہے کہ لوگوں کی ذہن سازی ہونی چاہئے۔ خانگی مسائل میں بھی ایسا ہی ہوتا ہے کہ بعض عورت سمجھ جاتی ہے لیکن مرد سمجھ نہیں پاتے جس کی وجہ سے گھر ٹوٹ جاتا ہے۔ ہم اپنے طور پر لوگوں کی ذہن سازی کر رہے ہیں۔ ہم بچوں کی بھی ذہن سازی کر رہے ہیں خاص طور پر بچیوں کی، تاکہ انہیں معلوم ہو کہ ان کے حقوق کیا ہے۔ ہم دینی حقوق کے ساتھ ساتھ آئینی حقوق کے بارے میں بھی بیداری لانے کی کوشش کر رہے ہیں۔ ‘‘
شبانہ اسرار بیگ (خاتون ِ خانہ)
’’ہمارے معاشرے میں گھریلو خواتین کو کمتر سمجھا جاتا ہے جبکہ اللہ تعالیٰ نے عورتوں کو بڑی نعمتوں سے نوازا ہے۔ خواتین ان نعمتوں کا فیض اٹھائیں۔ خانگی مسائل پیش آنے پر صبر سے کام لیں۔ دین کے مطابق چلیں سارے مسئلے بآسانی حل ہوجائیں گے۔ سب سے اہم بات، ایک عورت دوسری عورت کی قدر کرے۔ مَیں یہی مشورہ دوں گی کہ دین کو سمجھیں، دین کے بارے میں پڑھیں، اس سے خواتین کو خود اپنا حقیقی مقام اپنے آپ سمجھ میں آجائے گا۔‘‘
واقعی آپ سبھی شاندار ہیں!

خواتین کے اس پروگرام میں مڈ ڈے کی سینئر ایڈیٹر سینڈرا تھیور نے خصوصی شرکت کی اور اس سے بہت متاثر ہوئیں۔ انہوں نے اپنے تاثرات کا اظہار کرتے ہوئے کہا:
’’آپ سبھی شاندار ہیں۔ وسائل کم ہونے کے باوجود آپ نے یہاں تک کا سفر طے کیا وہ قابل ِ ستائش ہے۔ اکثر مسلم خواتین کے تعلق سے منفی باتیں عام کی جاتی ہیں جبکہ حقیقت مَیں یہاں دیکھ رہی ہوں۔ اس میں ہماری غلطی ہے کہ ہم دیگر مذاہب کی خواتین کے بارے میں جاننے کی کوشش نہیں کرتے۔ حالانکہ ہمیں ان کے حالات سے بھی باخبر رہنا چاہئے۔ آپ سب کو سن کر مَیں بے حد متاثر ہوئی ہوں۔ واقعی آپ سبھی شاندار ہیں۔‘‘
’’مَیں ماؤں سے کہنا چاہوں گی کہ وہ اپنے بچیوں کی تربیت کے دوران انہیں یہ ضرور بتائیں کہ وہ ہمیشہ اپنے گھر والوں پر بھروسہ کریں۔ چونکہ کچھ لوگ بہکانے کا کام کرتے ہیں اس لئے نوعمر لڑکیوں کو اپنے والدین پر اعتماد کرنا چاہئے۔‘‘
منصوری ثمینہ نظام الدین
’’خواتین کو ٹیکنالوجی کے میدان میں آگے بڑھنا چاہئے کیونکہ اس شعبے میں خواتین گھر بیٹھے بھی کام کرسکتی ہیں اور گھر والوں کی ذہن سازی کرنی چاہئے کہ خواتین کو آگے بڑھانے سے وہ آئندہ نسلوں کے مستقبل کو روشن کرسکتی ہیں۔‘‘
عائشہ شفیع الرحمٰن
’’سوشل میڈیا پر اکثر مسلم خواتین کے بارے میں منفی باتوں کی تشہیر کی جاتی ہے۔ مَیں چاہتی ہوں کہ ہم سب مل کر انہیں اپنے عمل کے ذریعہ اس کا جواب دیں۔ سوشل میڈیا پر بتائیں کہ ہمارا مذہب خواتین کو اعلیٰ مقام دیتا ہے۔‘‘
شبنم افضل خان
’’اکثر ایسا ہوتا ہے کہ کوئی خاتون کامیاب ہوجاتی ہے تو وہ اپنے تک محدود ہوکر رہ جاتی ہے۔ ایسا نہیں ہونا چاہئے۔ ہم سب کو ایکدوسرے کے بارے میں سوچنا چاہئے اور ایکدوسرے کیلئے کوشش کرنی چاہئے تاکہ معاشرہ میں بہتری آسکے۔ ‘‘
تزئین خطیب گھی والا
’’ہر دن ویمن ڈے ہونا چاہئے کیونکہ اللہ تعالیٰ خواتین کو بہت اونچا مقام عطا کیا ہے۔ جن خواتین کو گھر سے سپورٹ نہیں ملتا، ان کو آگے برھنے میں مدد کریں۔ اگر ہم ایک دوسرے کا ہاتھ پکڑ کر چلیں گے تو یہ دنیا بہترین ہوجائے گی۔ ‘‘
مرضیہ شانو پٹھان
’’مَیں اپنی بات شعر کے ذریعہ کہنا چاہوں گی: ترے ماتھے پہ یہ آنچل بہت ہی خوب ہے لیکن/ تو اس آنچل سے اک پرچم بنا لیتی تو اچھا تھا! اور یہ کہنا چاہوں گی کہ بیٹا اور بیٹی میں ہرگز فرق نہ کریں۔ اپنی سوچ کو مثبت بنائیں۔‘‘
ڈاکٹر مسرت صاحب علی
’’ایک عورت دوسری عورت کو سپورٹ کرے۔ اگر کوئی خاتون آگے بڑھ رہی ہے تو اس کی حوصلہ افزائی کرے۔ اگر اس سے کوئی غلطی ہو جائے تو اس پر تنقید کرنے کے بجائے غیر محسوس طریقے سے اس کی اصلاح کرے۔ ‘‘
ڈاکٹر طوبیٰ مومن
’’مَیں چاہتی ہوں کہ چودہ سو سال پرانا زمانہ لوٹ آئے۔ اس زمانے میں خواتین بااختیار تھیں اور جرأت کیساتھ اپنی بات کہتی تھیں۔ اپنے فیصلے خود کرتی تھیں۔ وہ گھر تک محدود رہنا چاہتی ہیں یا باہر کام کرنا چاہتی ہیں، اس کا انہیں اختیار حاصل تھا۔‘‘
ڈاکٹر شمع ملک
’’مَیں چاہتی ہوں کہ مسلم خواتین وکالت کے شعبہ میں آئیں۔ اپنا منصب پہچانیں۔ قانون نے آپ کو کیا حقوق دیئے ہیں اس بارے میں جانیں۔ اگر خواتین کو قانون کی معلومات ہوگی تو وہ جرأت کے ساتھ حق کیلئے آواز اٹھا سکتی ہیں۔‘‘
طیبہ طاہر قاضی
’’بچیوں کی تعلیم پر توجہ دینے کی ضرورت ہے۔ تعلیم کے ساتھ ساتھ انہیں ہنرمند بنانے کی بھی فکر کیجئے۔ یہی بچیاں مستقبل میں اپنے لئے بہترین مواقع پیدا کرسکتی ہیں۔ ہنرمند بچیاں و خواتین گھر بیٹھے بھی روزگار حاصل کرسکتی ہیں۔‘‘
عائشہ احمد خان
’’لڑکیوں کو دین و دنیا دونوں کی تعلیم حاصل کرنی چاہئے۔ کیونکہ تعلیم کے ذریعہ ہی وہ صحیح اور غلط کی پہچان کر پائیں گی اور اس کا اظہار بھی کر پائیں گی۔ میری دعا ہے کہ اللہ ہماری قوم کی بچیوں کو کامیاب کرے اور وہ خوب ترقی کریں۔ آمین!‘‘
شبانہ اسرار بیگ