• Wed, 15 January, 2025
  • EPAPER

Inquilab Logo

کھلاؤ سونے کا نوالہ، دیکھو شیر کی نگاہ سے

Updated: September 11, 2024, 3:52 PM IST | Maryam Shahzad | Mumbai

آج مائیں اپنے بچوں کو سونے کا نوالہ تو کھلانا چاہتی ہیں، مگر اِس خوف سے شیر کی نظر سے دیکھنے سےگھبراتی ہیں کہ کہیں بچے اُن سے دُور نہ ہو جائیں، لیکن ایسا کرنے سے بچے خود سر ہوجاتے ہیں اور بے جا فرمائشیں کرتے ہیں۔ یقیناً زمانہ بدل گیا ہے لیکن تربیت کا پرانا طریقہ اب بھی کارگر ہے۔

Children should be trained in the light of contemporary requirements as well as the experiences of elders. Photo: INN
عصر حاضر کے تقاضوں کے ساتھ ساتھ بزرگوں کے تجربات کی روشنی میں بچوں کی تربیت کی جانی چاہئے۔ تصویر : آئی این این

”عاجز آگئی ہوں مَیں تمہاری فرمائشوں سے.... ہاف فرائی بناؤ، تو کبھی اُبلا ہوا انڈا چاہئے۔ مینگو شیک بناؤں، تو لسی کی فرمائش کر دیتے ہو۔ یہ تو ہو ہی نہیں سکتا کہ مَیں جو بناؤں، تم وہی چپ چاپ کھا لو۔“ اپنے چار سالہ بیٹے کے نت نئے مطالبات سے جھنجھلا کر ثناء نے اُسے ڈانٹا، تو رخسانہ بیگم کا دل چاہا کہ وہ اپنی بہو کی اِن باتوں پر خوب قہقہے لگائیں مگر وہ چاہتے ہوئے بھی ایسا نہ کرسکیں۔ جب سے اُن کے پوتے، ابراہیم نے بولنا شروع کیا تھا، اُن کی بہو روزانہ ناشتہ بناتے وقت اُس سے پوچھتی تھی کہ ’’بیٹا! کیا کھاؤ گے؟‘‘ تب ابراہیم کی عمر ایک برس تھی اور انہوں نے ایک دو بار ثناء کو سمجھانے کی کوشش بھی کی کہ ’’یہ ابھی بچہ ہے، جو بھی کھلاؤ گی، ہنستے کھیلتے کھا لے گا، لیکن اگر ابھی سے اس سے پوچھنے کی عادت ڈالو گی، تو یہ آگے چل کر تمہیں پریشان کرے گا۔‘‘ مگر ثنا نے اُن کی بات یکسر نظرانداز کردی تھی اور صرف بہو ہی نہیں، اُن کی بیٹی بھی یہ بات سمجھنے پر آمادہ نہ تھی۔
 وہ بھی نہ صرف اپنے بچے سے اُس کی ’’چوائس‘‘ پوچھتی تھی بلکہ جب کبھی اُسے کسی غلط بات پر ڈانٹتی ڈپٹتی یا اُس کی پٹائی کرتی تو اُس کے بعد اُس سے سوری بھی کہتی تھی اور رخسانہ بیگم جب اُسے ایسا کرنے سے منع کرتیں تو اُنہیں ہمیشہ یہی جواب ملتا کہ ”امّی! آپ کو نہیں معلوم.... ہمارا ماؤں کا ایک وہاٹس ایپ گروپ بنا ہوا ہے۔ وہاں سب مائیں اپنے اپنے مسائل شیئر کرتی ہیں اور یوں ہمیں بچوں کی تربیت میں آسانی ہو جاتی ہے۔“ اور رخسانہ بیگم یہ سن کر خاموش ہوجاتیں۔ بے جا لاڈ پیار کے عادی یہی بچے اب بڑے ہو رہے ہیں تو مائیں اُن کے کھانے پینے سمیت دیگر بگڑی ہوئی عادتوں سے پریشان ہیں اور اُنہیں سمجھ نہیں آتا کہ وہ اپنی غلطیوں کا ازالہ کیسے کریں۔ اُن کا دل چاہتا ہے کہ سب کے لئے ایک ہی جیسا ناشتہ بنایا جائے مگر کسی کو کچھ چاہئے تو کسی کو کچھ، جبکہ یہی حال کھانے کا بھی ہے۔
 دُنیا جہاں کی نعمتیں کیوں نہ اُن کے سامنے رکھ دی جائیں لیکن اگر فرائز کھانے کا دل چاہ رہا ہے تو ماں کو فرائز بنا کر ہی دینا ہوں گے۔ نتیجتاً سارا دن ہی کچن کی نذر ہوجاتا ہے۔ اس موقع پر ساس یا ماں، بچوں کو سب کیلئے تیار کیا گیا کھانا دینے کا مشورہ دے، تو پھر وہ اسے نئے زمانے کی تربیت کا طریقہ بتانے لگتی ہیں۔ اسی طرح اگر بچے کو کسی کے سامنے ڈانٹ دیں تو وہ فوراً چلاتے ہوئے ماں سے ’’سوری‘‘ کا مطالبہ شروع کردیتا ہے اور نتیجتاً مزید شرمندگی سے بچنے کے لئے ماں کو سوری کہنا ہی پڑتا ہے۔ پھر مائیں یہ شکایت بھی کرتی ہیں کہ ’’پتہ نہیں، بچے میری بات کیوں نہیں سمجھ رہے۔‘‘ جبکہ درحقیقت ماں بات نہیں سمجھ رہی۔ مائیں یہ خیال کرتی ہیں کہ اگر وہ بچوں کو دوست بن کر پالیں گی تو وہ ان کی قدر کریں گے، ورنہ ہم تو آج تک اپنے ماں باپ سے بات کرتے ڈرتے ہیں، حالانکہ ایسا ماں اور باپ، دونوں کی عزت اور اُن کے مقام واحترام کے سبب ہوتا ہے۔
 اُس دَور کے بچے یہ بات اچھی طرح جانتے اور سمجھتے تھے کہ اگر ماں باپ سونے کا نوالہ کھلاتے ہیں تو دیکھتے شیر کی نگاہ سے ہیں، جبکہ آج مائیں اپنے بچوں کو سونے کا نوالہ تو کھلانا چاہتی ہیں، مگر اِس خوف سے شیر کی نظر سے دیکھنے سےگھبراتی ہیں کہ کہیں بچے اُن سے دُور نہ ہو جائیں، حالانکہ آج تک کبھی کسی نے ایک دوست کو دوسرے دوست سے ڈرتے ہوئے نہیں دیکھا۔ ذرا غور کیجئے، پہلے کے ماں کسی غلط بات پر اپنے بچوں کی پٹائی بھی کردیتی تھی تو بچے آگے سے بالکل خاموش رہتے تھے بلکہ جس بات سے منع کر دیا جائے، دوبارہ اُسے دہرانے کا تصور بھی نہیں کرتے تھے، جبکہ آج اگر بچوں کو ذرا سا ڈانٹ بھی دیں تو وہ رو رو کر آسمان سَر پہ اُٹھا لیتے ہیں اور مجبوراً ماؤں کو اُن کے سامنے ہتھیارڈالنے پڑتے ہیں۔ یاد رہے کہ والدین، والدین ہوتے ہیں اور اُن کی جگہ کوئی دوسرا نہیں لے سکتا تو پھر وہ اپنا درجہ بدل کر اپنی اولاد کے دوست کیوں بننا چاہتے ہیں؟
 انسان اپنی زندگی میں کئی لوگوں سے دوستی کرتا ہے اور وقت گزرنے کے ساتھ ہر دوست کی اہمیت کم، زیادہ ہوتی رہتی ہے مگر ماں اور باپ ایسی دو ہستیاں ہیں کہ جن کا کوئی نعم البدل نہیں ہوسکتا۔ اگر والدین اپنے مقام پر فائز رہیں تو اِسی میں ان کی عزت و وقار ہے، ورنہ دوستی میں تو سب چلتا ہے اور ایسی صورت میں بچوں کو ماں کی ممتا اور باپ کی قربانیاں بھی کبھی دکھائی نہیں دیں گی۔
 بیشک، آج کل کے ماں باپ کو کئی مشکلات کا سامنا ہے اور وہ اپنے طور پر اپنی اولاد کی بہترین پرورش کرنے کی کوشش کر رہے ہیں۔ وہ اپنے بچوں کی تعلیم و تدریس ہی نہیں بلکہ تربیت بھی عصر حاضر کےتقاضوں کے مطابق کرنا چاہتے ہیں لیکن آج کے تیز رفتار دَور میں جدید ٹیکنالوجی اور اُس کے نتیجے میں پیدا ہونیوالے فتنے سے بچوں کو بچانا یقیناً ایک مشکل کام ہے، لیکن ابھی بھی وقت ہےکہ والدین اپنے ہم عصر افراد کے علاوہ اپنے بزرگوں کے تجربات سے بھی فائدہ اُٹھائیں تاکہ اُن کے بچے اُن ہی کی طرح لائق اور فرمانبردار اولاد بن سکیں۔

متعلقہ خبریں

This website uses cookie or similar technologies, to enhance your browsing experience and provide personalised recommendations. By continuing to use our website, you agree to our Privacy Policy and Cookie Policy. OK