• Tue, 17 September, 2024
  • EPAPER

Inquilab Logo

اوڑھنی اسپیشل: ساس بہو کا رشتہ

Updated: September 12, 2024, 12:39 PM IST | Saaima Shaikh | Mumbai

گزشتہ ہفتے مذکورہ بالا عنوان دیتے ہوئے ہم نے ’’اوڑھنی‘‘ کی قارئین سے گزارش کی تھی کہ اِس موضوع پر اظہارِ خیال فرمائیں۔ باعث مسرت ہے کہ ہمیں کئی خواتین کی تحریریں موصول ہوئیں۔ ان میں سے چند حاضر خدمت ہیں۔

Mother-in-law relationship is very special. Both can manage this relationship with mutual understanding. Photo: INN.
ساس بہو کا رشتہ بہت خاص ہوتا ہے۔ دونوں آپسی سمجھداری سے اس رشتہ کو بخوبی نبھا سکتی ہیں۔تصویر: آئی این این۔

رشتے کی اہمیت کو سمجھیں
ساس اور بہو، دونوں کے رشتے خوشگوار رہیں اس کیلئے ساس کو بہو کو بیٹی اور بہو کو ساس کو ماں سمجھنا ہوگا۔ ساس کو سمجھنا چاہئے کہ جو بچی ابھی پڑھائی سے فارغ ہوکر آپ کے گھر آئی ہے وہ آپ کی طرح گھر کیسے سنبھال سکتی ہے! بہو کو بھی اپنی ساس کی قربانیوں کی قدر کرنی چاہئے اور صبر کے ساتھ رشتہ نبھانے کی کوشش کرنی چاہئے۔ اس طرح زندگی گزارنے میں آسانی ہوگی۔
ڈاکٹر شمشاد بانو (فیروزآباد، یوپی)
باہمی اتفاق


ساس بہو کا رشتہ کافی پیچیدہ ہوتا ہے۔ ساس چاہے کتنا ہی نرم دلی اختیار کرلے کہیں نہ کہیں مسئلہ ابھر ہی آتا ہے۔ ساس اور بہو کے درمیان کشیدگی کبھی کبھی اتنی بڑھ جاتی ہے کہ محبت نفرت میں بدل جاتی ہے۔ اور دونوں ایکدوسرے کو سب سے بڑا حریف سمجھنے لگتی ہیں۔ حالانکہ مسئلہ باہمی اتفاقات سے سلجھایا جاسکتا ہے۔ اگر سوچ کا زاویہ بدلا جائے اور مصلحت سے کام لیا جائے تو یہ رشتہ معتبر ہوسکتا ہے۔
انصاری یاسمین محمد ایوب (بھیونڈی، تھانے)
آپسی سمجھ بوجھ


یہ رشتہ خاندان کے تانے بانے کو مضبوط کرتا ہے۔ البتہ اس میں نہ اتفاقی ہو تو پورے خاندان کی زندگی کو متاثر کرتا ہے۔ ساس اور بہو کے رشتے میں محبت، عزت، برداشت اور سمجھ بوجھ کی ضرورت ہوتی ہے۔ اگر دونوں فریقین ایک دوسرے کے جذبات کا احترام کریں اور آپس میں بات چیت کو بہتر بنائیں تو اس رشتے کو کامیاب اور خوشگوار بنایا جاسکتا ہے۔ اور خاندان میں پُر امن رہتا ہے۔
سمیرا اظہر سرگروہ (نوی ممبئی)
دونوں کا ظرف آزمانے والا رشتہ
ساس اور بہو، دونوں کے ظرف کو آزمانے والا رشتہ ہے۔ اس رشتے کو بہتر ڈھنگ سے نبھانے کیلئے ساس کو اپنا دل بڑا کرنا چاہئے۔ تحمل اور بردباری کا مظاہرہ کرنا چاہئے۔ ساس کی تنگ نظری کی وجہ سے گھر کا ماحول مکدر ہوتا ہے۔ بہو کو بھی چاہئے کہ وہ اپنی ساس کو ماں کا درجہ دے۔ اپنے شوہر کے گھر کو اپنا گھر سمجھے اور اپنے حسن اخلاق سے سسرال کے سبھی افراد کو اپنا گرویدہ بنائے۔ اپنے شوہر کو اس کے خونی رشتوں (والدین، بہن بھائی وغیرہ) سے دور کرنے کی کبھی کوشش نہ کرے ورنہ وہ سسرال میں اپنی اہمیت کھو دے گی۔
فرزانہ بانو نذیر احمد (مالیگاؤں، ناسک)
احترام ضروری


آج جو بہو ہے اسے کل ساس بننا ہے۔ اس حقیقت کو اگر سمجھ لیا جائے تو اس رشتے میں ہمیشہ مٹھاس قائم رہے گی۔ اس رشتے میں اخلاص کا ہونا بہت ضروری ہے۔ اخلاص کے ذریعے اس رشتے کو بخوبی نبھایا جاسکتا ہے۔ ساس اور بہو، دونوں کو ایک دوسرے کا احترام کرنا چاہئے۔
منصوری رومانہ تبسّم (شہادہ، نندوربار)
ماں بیٹی کی طرح رشتہ نبھانا چاہئے


چونکہ مَیں غیر شادی شدہ اس لئے اس رشتے کے متعلق زیادہ نہیں جانتی۔ البتہ دوسروں کو یہ رشتہ نبھاتے دیکھتی ہوں۔ اس رشتے کے اکثر منفی پہلو نظر آتے ہیں۔ مَیں یہی مشورہ دینا چاہونگی کہ ساس اور بہو، دونوں کو ایک دوسرے کی غلطی کو نظر انداز کرنا چاہئے۔ ایک دوسرے کی فکر کرنی چاہئے۔ کام میں ایک دوسرے کا ہاتھ بٹانا چاہئے۔ بالکل ماں بیٹی کی طرح رشتہ نبھانا چاہئے۔ اس طرح یقیناً مثبت تبدیلی آئے گی۔
سیّد شمشاد بی احمد علی (کرلا، ممبئی)
ماں بیٹی کی طرح
ساس بہو کا رشتہ ماں بیٹی کی طرح ہونا چاہئے۔ بیٹی جس انداز میں اپنی ماں کی دیکھ بھال کرتی ہے اور عزت دیتی ہے اسی طرح اپنی ساس کا بھی دل جیت لے۔ اس طرح گھر جنت کا نشان ہوگا۔
شمع پروین فرید احمد (کوچہ پنڈت، دہلی)
اللہ کی رضا کے مطابق
ساس اور بہو کا رشتہ اگر خلوص و محبت پر مبنی ہو تو دنیا کا سب سے خوبصورت رشتہ ہے۔ اگر اس رشتے میں خود غرضی، سیاست اور ذاتی مفاد شامل ہوجائے تو بدصورت ترین رشتہ ہے۔ حالانکہ ایک بیوی پر سب سے زیادہ حق اس کے شوہر کا ہوتا ہے اور ایک بیٹے پر سب سے زیادہ حق اس کی والدہ کا ہوتا ہے۔ اگر اللہ اور اس کے رسولؐ کی رضا کے ساتھ ساس اپنے بیٹے اور بیوی اپنے شوہر کی بھلائی کا خیال رکھے تو ہر گھر جنّت بن جائے گا۔
شیخ رابعہ عبدالغفور (ممبئی)
محبت دیجئے اور خوشیاں بانٹئے
ساس بہو کا رشتہ دنیا کا سب سے بدنام رشتہ ہوتا ہے۔ کبھی ساس کو بہو سے شکایت ہوتی ہے تو کبھی بہو کو ساس سے۔ غرض دونوں کبھی ایک دوسرے سے خوش نہیں ہوتیں۔ لیکن اگر ہم کچھ باتوں پر عمل کرلیں تو یہ رشتہ بہت خوبصورت ہوسکتا ہے۔ ایک بات جان لیں کہ ساس کبھی ماں نہیں بن سکتی اور بہو کبھی بیٹی نہیں بن سکتی۔ یہ حقیقت ہے۔ اسے قبول کرنے کی ضرورت ہے۔ دین میں بیٹوں کو ماں باپ کی خدمت کرنے کیلئے کہا گیا ہے۔ اگر بہو بخوشی سسرال والوں کی خدمت کر رہی ہے تو اسے کھلے دل سے قبول کرنا چاہئے۔ ساس کو بہو سے کم امیدیں وابستہ کرنی چاہئے۔ اپنی بیٹیوں سے موازنہ نہیں کرنا چاہئے۔ محبت دیجئے اور خوشیاں بانٹئے۔ زندگی خوبصورت ہوجائے گی۔
عریشہ کوکب (مظفرپور، بہار)

رشتے میں توازن ضروری ہے
گھر میں معمولی باتوں پر لڑائی جھگڑے انسان کی زندگی کو برباد کردیتے ہیں۔ ماں اپنی اولاد سے محبت کرتی ہے مگر بیٹے کی شادی کرنے کے بعد بحیثیت ساس ان کا رویہ بدل جاتا ہے۔ دوسری جانب بہو باتوں کو بڑھا چڑھا کر پیش کرکے گھر کا ماحول خراب کرتی ہے۔ ایسی صورت میں بیٹے کی ذمہ داری ہے کہ وہ اس رشتے میں توازن پیدا کرے۔ وہ ماں باپ کی خدمت بھی کرے اور بیوی کے فرائض بھی پورے کرے۔ اس طرح گھر جنّت کا نشان ہوگا۔ ساتھ ہی آنے والی نسلوں کی بھی بہتر تربیت ہوگی۔ اللہ تعالیٰ ہماری بہتر اصلاح فرمائے (آمین)۔
طلعت شفیق (دہلی گیٹ، علی گڑھ، یوپی)
عمر اور رتبے کا خیال رکھنا چاہئے
ساس بہو کا رشتہ ایک دوسرے کیلئے ہمدردانہ، مشفقانہ اور دوستانہ ہونا چاہئے۔ ایک عورت ہی دوسری عورت کے مسائل بہتر طور پر سمجھ سکتی ہے۔ مستقبل میں بہو ساس بن سکتی ہے۔ اس لئے ایک اچھی بہو بننے کے لئے اپنے طور پر بھرپور کوشش کرنا چاہئے۔ زندگی کو مختصر خیال کرکے شیریں زبان اور خوش اخلاقی کا ماحول بنانا چاہئے۔
 دونوں کو ایک دوسرے کے قدیم اور جدید تجربات سے استفادہ کرتے ہوئے زندگی کا لطف اٹھانا چاہئے۔ عمر اور رتبے کا خیال رکھنا چاہئے۔ دیانت داری سے رشتوں کو نبھانے والا ذہنی طور پر پُرسکون رہتا ہے۔ 
ریحانہ خاتون (نالا سو پارہ، پال گھر)
پہل ساس کی طرف سے
ساس بہو کا رشتہ بہت ہی اہمیت کا حامل ہے۔ اس رشتے میں ہم آہنگی ہونا بہت ضروری ہے۔ یہ نازک بھی ہے اور مضبوط بھی۔ اس رشتے کو نبھانے کیلئے پہل ساس کی طرف سے ہونی چاہئے۔ بہو اور بیٹی میں کیا فرق ہے؟ صرف خون کا۔ وہ آپ کی حقیقی بیٹی نہیں ہے لیکن ہے تو بیٹی ہی جیسی۔ جس طرح آپ بیٹی کی غلطی کو نظر انداز کرتی ہیں، بہو بھی اس کی مستحق ہے۔ اول تو وہ اپنا گھر چھوڑ کر آپ کے گھرآئی ہے۔ یہاں لوگوں کو سمجھنے اور گھر میں ایڈجسٹ کرنے میں وقت لگتا ہے۔ اگر آپ اپنی بہو کو محبت اور اہمیت دیں گی اور ہر کام میں اس کی رائے لیں گی تو گھر یقیناً جنت کا نمونہ ہوگا۔
سلمہ صلاح الدین (دربھنگہ، بہار)
نہ بے حد نرم ہو اور نہ درشت


ایک عجیب سوچ ہے جو میرے اندر بھی موجود رہی۔ میری بھی ساس تھیں اور میں بھی دو دو بہوؤں کی ساس ہوں۔ میں یہ سمجھتی ہوں کہ یہ خاص برصغیر کا مسئلہ ہے۔ ساس بہو کا رشتہ نہ بے حد نرم ہو اور نہ درشت۔ بس درمیانہ ہو۔ آگ کا مقابلہ آگ سے کرنے سے آگ کے مزید پھیلنے کا اندیشہ رہتا ہے اور اس آگ میں خوبصورت رشتوں کا وجود بھسم ہوسکتا ہے جو دلوں میں سکون اور طمانیت نہ دے پائے گی۔
ناز یاسمین سمن (پٹنہ، بہار)
صبر، تحمل اور برداشت
مَیں ابھی تک اس رشتے سے منسلک نہیں ہوں لیکن مَیں نے اپنے ارد گرد بہت ساری ساس اور بہو کو دیکھا ہے۔ یہ رشتہ بھی باقی رشتوں کی طرح خوبصورت بن سکتا ہے اگر صبر، تحمل اور برداشت سے کام لیا جائے۔ اگر بہو اپنی ساس سے عزت اور احترام سے پیش آے اور اس سے محبّت کرے، اس کی بات مانے۔ اور ساس بھی بہو کی معمولی غلطیوں کو نظر انداز کر دے اور اسے محبّت دے اور بہو کو گھر کا ماحول سمجھنے کے لئے وقت دے تو یہ رشتہ بھی بوجھ نہیں لگے گا۔ اور اس رشتے میں ایک توازن قائم ہو سکے گا اور یہ رشتہ بھی باقی رشتوں کی طرح خوبصورت بن جائے گا۔ 
شازیہ رحمٰن (ہاپوڑ، یو پی)
اپنی بہو کو اپنی بیٹی سمجھیں
شادی کے بعد ساس بہو کا دن کا بیشتر حصہ گھر میں گزرتا ہے۔ اس دوران ساس بہو کو بار بار کسی نہ کسی کام کیلئے ٹوکتی رہتی ہے۔ اس عادت کی وجہ سے بہو ساس سے دلبرداشتہ ہوجاتی ہے۔ اس کے علاوہ ساس اکثر اپنی بہو سے بہت سی امیدیں وابستہ کرلیتی ہیں اور کام کی زیادتی کے سبب بہو کے دل میں نفرت پیدا ہونے لگتی ہے۔ دونوں کو چاہئے کہ رشتے میں توازن پیدا کریں۔ ساس بے جا روک ٹوک نہ کرے۔ گھر کے کام مل جل کر انجام دیں۔ بہو اپنی ساس کی عزت کرے اور ساس بہو کے ساتھ شفقت سے پیش آئے۔ اس طرح گھر میں خوشیوں کو بسیرا ہوگا۔
ہاجرہ نورمحمد (چکیا، حسین آباد، اعظم گڑھ)
گھر محبت سے آباد ہوتے ہیں
ساس اور بہو کا رشتہ در اصل ایک ماں اور بیٹی کا رشتہ ہے۔ لیکن معاشرے میں اور ہمارے گھروں میں اس رشتہ کی اتنی خراب شبیہ پیش کی گئی ہے کہ اس کی اصل خوبصورتی اور محبت ہی کہیں معدوم ہوگئی ہے۔ ذہن میں اس رشتے کا خیال آتے ہی صرف لڑائی اور جھگڑے کا ہی تصور آتا ہے۔ ایک ساس کو چاہئے کہ جب وہ بیاہ کر بہو لائے تو اسے بیٹی ہی سمجھے بلا وجہ بغض و عناد نہ پالے۔ بہو کو بھی چاہئے کہ محبت اور احترام سے سسرالی رشتوں کا خیال رکھے۔ ساس کو ماں سمجھے اور بیٹی بن کر دکھائے۔ رشتے اور گھر صرف محبتوں سے آباد ہوتے ہیں نفرتوں سے نہیں۔
ایس خان (اعظم گڑھ، یوپی)

اپنائیت اور ہمدردی کا جذبہ


ساس بہو میں اگر سمجھداری، صبر و قناعت، خلوص، اپنائیت اور ہمدردی کا جذبہ اتم موجود ہو تو گھر جنت کا نمونہ بن سکتا ہے۔ ساس بہو اگر اپنے فرائض و حقوق کی برابری سے ادائیگی کریں تو یہ رشتے کو مضبوط بنانے کے ساتھ ساتھ تعلقات کو بہتر بناتا ہے۔ ساس بہو کا رشتہ کچھ کھٹا کچھ میٹھا سا ہوتا ہے۔ اس رشتے میں عزت و احترام لازمی ہے جو رشتے کو جوڑے رکھنے میں مددگار ہوتا ہے۔
خان نرگس سجاد (جلگاؤں، مہاراشٹر)
ایک سکّے کے دو رخ 


ساس اور بہو کے درمیان میں مضبوط رشتہ قائم ہوتا ہے تو گھر خوشیوں سے بھرا ہوتا ہے۔ ساس اور بہو، دونوں اپنے گھر کے ماحول کو بہتر بنا سکتی ہیں۔ ایک دوسرے کے تعاون سے گھر کا نظام بہتر انداز میں چلا سکتی ہیں۔ اس کے علاوہ، دونوں ایک دوسرے سے محبت سے پیش آئیں۔ ہمیشہ ایک دوسرے کی رائے کو اہمیت دیں۔ اس طرح دونوں کا رشتہ مضبوط ہوگا اور گھر کا ماحول بھی خوشگوار ہوگا۔
خان نائلہ ذاکر حسین (ساکی ناکہ، ممبئی)
اچھی ساس کو اچھی بہو ملتی ہے


ہر عورت اپنی بیٹی کیلئے یہی چاہتی ہے کہ سسرال میں اس کی قدر و منزلت ہو مگر جب اس کے گھر میں کسی اور کی بیٹی بہو بن کر آتی ہے تو اس کی وہی سوچ قائم نہیں رہتی۔ کوشش کرنی چاہئے کہ رشتے میٹھے بنے رہیں۔ اگر ساس نے بہو کے طور پر اپنی ساس کی خدمت کی ہوگی اور اچھے تعلقات ہوں گے تو یقیناً اس کی بہو بھی اس کے ساتھ ایسا ہی پیش آئے گی، ایسی ہی خدمت گزار رہے گی۔ یہ قدرت کا قانون ہے۔
نجمہ طلعت (جمال پور، علی گڑھ، یوپی)
بہو کو ساس کا احترام کرنا چاہئے
یہ رشتہ ساس اور بہو، دونوں کو مل کر نبھانا ہوتا ہے۔ ساس کو چاہئے کہ اپنی بہو کو ایک بیٹی کی طرح محبت اور عزت دے۔ اس کی غلطیوں اور کوتاہیوں کو نظر انداز کرے۔ بہو کو سسرال میں اس احساس کے ساتھ قدم رکھنا چاہئے کہ وہ ایک ایسے گھر میں جا رہی ہے جو اس کی زندگی کے شریک و رفیق کے والدین کا گھر ہے۔ اپنی ساس کو ماں کی طرح عزت اور محبت دے۔ ان کو خوش رکھنے کی کوشش کرے۔ ان کی مرضی اور مزاج کیخلاف کوئی ایسی بات نہ کہے جو ان کو ناگوار ہو۔ کوئی بھی بات یا فیصلہ ان سے مشورہ لے۔ اس رشتے میں پیار، محبت، خلوص اور اپنائیت ہونا بہت ضروری ہے۔
کلثوم سراج اشرف (جونپور، یوپی)
باہمی تعاون کیلئے کوشاں رہیں


اگر دونوں خواتین ایک دوسرے کے مزاج کو سمجھیں، چھوٹی چھوٹی خامیوں کو درگزر کرنے اور خوبیوں کو زیادہ سے زیادہ استوار کرنے اور باہمی تعاون کیلئے کوشاں رہیں تو اس رشتے کو نہایت پر کیف، خوبصورت اور بیحد کامیاب رشتہ بنایا جاسکتا ہے۔ اگر دونوں خواتین میں ایک دوسرے کیلئے محبت اور احترام کا جذبہ ہو اور ایک دوسرے کے دکھ تکلیف میں کام آنے کہ تصور مضبوط ہو تو یہ رشتہ نہایت پر اعتماد رشتہ ہوگا۔
سلطانہ صدیقی (جامعہ نگر، نئی دہلی)
یہ رشتہ کافی پیچیدہ ہے


آج کل ساس بہو کا رشتہ پیچیدہ ہوتا جا رہا ہے۔ کئی سنگین مسائل پیدا ہورہے ہیں۔ فلموں میں ساس بہو کے کردار کو منفی پیش کرکے اس رشتے کو بدنام کیا ہے۔ مَیں سمجھتی ہوں کہ ساس کو ماں کا درجہ دینا چاہئے۔ اس طرح بہو، ساس کے قریب آسکتی ہے۔ بہو اپنے میٹھے بول سے سسرال والوں کا دل جیت سکتی ہے۔ اسی طرح ساس بھی بہو کی تعریف کرکے وہ اس رشتے میں مٹھاس پیدا کرسکتی ہے۔
قاضی شازیہ رفیع الدین (دھولیہ، مہاراشٹر)
ایک دوسرے کا برتاؤ اہمیت کا حامل


ہر رشتہ محبت، اخلاق، سامنے والے کا خیال رکھنے سے مضبوط ہوتا ہے اور ساس بہو کا رِشتہ جس میں پہل بہو کی جانب سے ہونا زیادہ مؤثر ہے کیونکہ وہ سسرال میں باہر سے آتی ہے اور اپنے حسن سلوک اور بلند اخلاق سے اپنی جگہ بناتی ہے۔ اس کے بر خلاف یہ بھی کہا جاسکتا ہے کہ محبت نچھاور کرنے کی شروعات ساس کی جانب سے ہونی چاہئے۔ ساس بہو کے رشتے اور تعلقات کا انحصار ایک دوسرے کے برتاؤ پر منحصر ہے۔
بی بشریٰ خاتون (جامعہ نگر، نئی دہلی)

باہمی تعاون


اس رشتے میں تلخی کا ہونا عام بات ہے کیونکہ دونوں معزز خواتین ایک مرد سے وابستہ ہوتی ہیں اور اپنی دانست میں دونوں کا یہ خیال ہوتا ہے کہ اس مرد پر ان کا زیادہ حق ہے۔ اس رشتے میں توازن برقرار رکھنے میں سب سے اہم رول مرد ادا کرتا ہے۔ ساتھ ساتھ اسے اپنی بیوی اور والدہ دونوں کے باہمی تعاون کی ضرورت ہوتی ہے۔ تینوں افراد اگر تھوڑی سمجھداری، ذمہ داری، درگزر اور ایثار سے کام لیں تو گھر امن کا گہوارہ بن سکتا ہے۔
رضوی نگار اشفاق (اندھیری، ممبئی)
میری ساس میری ماں
ساس بہو کا رشتہ بہت پیارا ہے مگر اسکے تقاضوں کو پامال کرکے ہم نے دنیا کا سب سے ناگوار رشتہ بنا دیا ہے۔ میری ساس میرے اُسی شوہر کی ماں ہے جس سے میں بے انتہا محبت کرتی ہوں جس کے بغیر رہنے کا تصور بھی نہیں کرسکتی۔ میرا سسرال ہی میرا گھر ہے۔ اپنے شوہر کی ماں کو اپنی ماں سمجھوں گی تو وہ بھی مجھے اپنی بیٹی ہی سمجھیں گی۔ دیکھا جائے تو مَیں دو ماؤں کی بیٹی ہوں۔ اب میری چاہت اور بڑھ گئی ہے۔ مجھے ایک اور ماں مل گئی۔ اگر ساس چاہے تو وہ مثالی ساس بن سکتی ہے اور بہو چاہے تو وہ بھی مثالی بن سکتی ہے۔ محبت سے اس رشتے کو مضبوط بنایا جاسکتا ہے۔
فرزانہ ہاشمی (دہلی)
اس رشتے کی اہمیت سمجھیں


ایک عورت، ماں کی جگہ ہوتی ہے تو بچے پر محبت نچھاور کرتی رہتی ہے لیکن جب یہی ماں ساس بنتی ہے تو رویہ الگ ہوجاتا ہے۔ یہی سچائی ہے۔ بے شک ساس، ساس ہی بنے رہے اور بہو، بہو۔ لیکن دونوں اس رشتے کی اہمیت کو سمجھیں۔ یقیناً غلطی کرنے پر ماں باپ بھی ڈانٹتے ہیں۔ لہٰذا بہو، ساس کی ڈانٹ کو برداشت کرلے تو جھگڑا ہی ختم۔ اسی طرح ساس بہو کو ہر وقت ٹوکنا بند کردے تو گھر میں امن ہوگا۔
شاہدہ وارثیہ (وسئی، پال گھر)
ساس ماں اوربہو بیٹی 
ساس بہو کا رشتہ عموماً ایک پیچیدہ اور حساس مسئلہ ہے۔ رشتے میں دونوں طرف سے سمجھ، بوجھ، احترام، محبت، ہمدردی، وفاداری اور تعاون کی ضرورت ہوتی ہے۔ اگر ساس اور بہو دونوں ایک دوسرے کے نظریات، خیالات اور جذبات کو سمجھ لیں تو یہ رشتہ بے حد مضبوط ہوجاتا ہے۔ اور اگر اس کے برعکس معاملہ ہوا تو لڑائی جھگڑا اور مسائل پیدا ہوجاتا ہے۔ اور گھر خاندان میں بگاڑ پیدا ہو جاتا ہے۔ یہ رشتہ بہت نازک ہوتا ہے۔ اگر دونوں میں محبت ہو تو پھر ساس ماں بن جاتی ہے اور بہو بیٹی بن کر ساس اور گھر خاندان کی ذمہ داری بخوبی انداز میں نبھاتی ہے۔
گلنازمطیع الرحمٰن قاسمی (مدھوبنی، بہار)
سوچ میں تضاد


ساس بہو کا رشتہ ماں بیٹی جیسا جذباتی رشتہ ہوتا ہے جس سے دونوں کے ایک دوسرے سے توقعات وابستہ ہوتی ہیں۔ امیدیں اور ارمان جڑے ہوتے ہیں۔ بہو ڈھیر سارے ارمانوں کیساتھ سسرال میں قدم رکھتی ہے، دوسری طرف ساس اپنی نئی بہو سے کئی امیدیں وابستہ کرتی ہیں۔ جب دونوں کی سوچ میں تضاد ہوتا ہے تو یہ رشتہ زیادہ دنوں تک قائم نہیں رہ پاتا اور اس خاندان کے ٹوٹنے کا بھی سبب بن جاتا ہے۔
ترنم صابری (سنبھل، یوپی)
حسن اخلاق اور ایثار
اکثر گھروں میں شادی کے بعد ساس اور بہو کے درمیان تلخیاں پیدا ہوجاتی ہیں۔ اگر بہو اپنی ساس کو ماں کا درجہ دے اور احترام کے ساتھ پیش آئے تو گھر کا ماحول پُرسکون ہوسکتا ہے۔ یہ یاد رکھنا ضروری ہے کہ ماں اپنی خواہشات اور خوشیوں کی قربانی دے کر گھر اور رشتوں کو پروان چڑھاتی ہے۔ وہ ماں جو اپنے بیٹے کیلئے بہو کو چنتی ہے، لاکھوں ارمان دل میں لئے اسے گھر لاتی ہے۔ بہو کا فرض ہے کہ وہ مشرقی تہذیب کے تحت، ہر رشتے کو نبھانے کی بھرپور کوشش کرے، چاہے وہ بیوی، بہو یا بھابھی کا ہو۔ حسن اخلاق اور ایثار کے ذریعے ہی یہ رشتے مضبوط ہوسکتے ہیں۔
آفرین اسلام (اعظم گڑھ، یوپی)
عزت و احترام


ساس اور بہو کے بیچ ایک مضبوط رشتہ ہونا بے حد ضروری ہے۔ ساس کو چاہئے کہ جس لڑکی کو وہ بے حد چاؤ سے بیاہ کر اپنے بیٹے کی بیوی بنا کر لائی ہے، اس کی ضرورتوں کو سمجھے اسے اپنے گھر میں ایڈجسٹ ہونے کیلئے کچھ وقت دیں۔ وہیں ہر بہو کی یہ ذمہ داری ہے کہ ساس کی عزت کرے۔ اگر بہو اپنے ماں باپ کو چھوڑ کر سسرال آئی ہے تو ساس نے بھی اپنا بیٹا بہو کے حوالے کیا ہوتا ہے۔ قربانی دونوں نے دی ہے۔ لہٰذا ضرورت اس بات کی ہے کہ دونوں ایکدوسرے کو سمجھیں۔
ناہید رضوی (جوگیشوری، ممبئی)

ایک دوسرے کے جذبات کو سمجھنا
ساس بہو کا رشتہ بہت حساس ہوتا ہے۔ اس میں ایک دوسرے کے جذبات اور احساسات کو سمجھنے کی سخت ضرورت ہوتی ہے۔ اگر بڑوں کا ادب اور چھوٹوں پر شفقت کا رویہ اپنایا جائے تو اس رشتے میں مزید نکھار لایا جاسکتا ہے۔ ویسے میرا ماننا ہے کہ شوہر کی ماں کی قدر اپنی ماں جیسی کرنی چاہئے اور ساس کو بھی بے جا روک ٹوک اور مداخلت سے گریز کرنا چاہئے تبھی اس رشتے میں مٹھاس آئیگی اور یہ رشتہ مستحكم ہوگا۔
لبنىٰ (، ردولی، ایودھیا)

احترام اور عزت کی نگاہ سے دیکھیں


اگر ہم اسلام اور سیرت نبیؐ کی زندگی پر غور کریں تو کہیں بھی ساس بہو کے رشتے کو واضح نہیں کیا گیا ہے لیکن اسلام چونکہ سیرت اور نیک خیالات اور اخلاق کی تعلیم دیتا ہے اس لئے اس کے مطابق اپنی زندگی گزارنی چاہئے۔ ساس پہلے ایک ماں ہوتی ہے لیکن اصل میں جب دنیا کی ہر عورت ساس بنتی ہے تو اس کا رویہ ہی اس کی اصل پہچان ہوتا ہے۔ یہی بات بہو کیلئے بھی ہے کہ وہ کس طرح اپنی پہچان بناتی ہے۔ بیٹی تو نیک ہر ماں باپ کی ہوتی ہے۔ ہمیں چاہئے کہ اس رشتے کو ہمیشہ احترام اور عزت کی نگاہ سے دیکھیں۔ پیار، محبت، درگزر اور خدمت یہ کچھ ایسے راستے ہیں جن پر چل کر ایک عورت سب کا دل جیت سکتی ہے۔ خوش اخلاقی کے ذریعے اس رشتے کو بخوبی نبھایا جاسکتا ہے۔
آفرین عبدالمنان شیخ (شولاپور، مہاراشٹر)

صبر و تحمل ضروری ہے
ساس بہو کا رشتہ بہت اہم رشتہ ہے۔ دونوں میں اگر پیار و محبت اور سمجھداری کا معاملہ ہو تو گھر امن سکون کا گہوارہ بن جاتا ہے ورنہ گھر کا امن و سکون تہ و بالا ہو جاتا ہے، برباد ہو جاتا ہے۔ ساس میں صبر و تحمل کا جذبہ ہونا چاہئے جبکہ بہو میں صبر و تحمل کے ساتھ ساتھ قوت برداشت ہونا چاہئے۔ بہو سے کوئی غلطی ہوجائے تو چیخنے چلّانے کے بجائے درگزر کا راستہ اپنانا چاہئے۔ جبکہ ساس ناراضگی میں کچھ کہہ دے تو بہو کو چاہئے کہ وہ صبر سے کام لے۔ صبر و تحمل، غصہ سے پرہیز، قوت برداشت کا رویہ اپنایا جائے تو ساس بہو میں پیار و محبت کا رشتہ قائم رہے گا۔ گھر کا کام ماحول خوشگوار ہوگا اور ساس بہو امن و چھین کی زندگی گزار سکیں گے۔
ام اسامہ (پونے، مہاراشٹر)

چھوٹی چھوٹی غلطیوں کو نظر انداز کرنا


اکثر ساس بہو میں نا اتفاقی دیکھنے کو ملتی ہے۔ اس کی خاص وجہ ہے اپنائیت نہ ہونا ہے۔ اگر ہر ساس پرائی بیٹی کو خود کی بیٹی کا درجہ دے، اس کی خوبیوں کو سراہے، خامیوں پر مشفقانہ اصلاح کرے اور حتی الامكان چھوٹی چھوٹی غلطیوں کو نظر انداز کرے اور بہو بھی اپنی ساس کو ماں کا مرتبہ دے، اس کی تعظیم میں کسر نہ چھوڑے، ناراضگی کے مواقع فراہم نہ کرے اور اگر ساس کبھی کسی غلطی پر سرزنش کرے تو خندہ پیشانی سے قبول کرے تو یہ رشتہ مثالی بن سکتا ہے۔
شبینہ احمد (لال باغ، برہانپور)

ایکدوسرے کے نقطۂ نظر کو سمجھیں
ساس اور بہو کا رشتہ عام طور پر ہمارے معاشرتی نظام کا ایک اہم حصہ ہوتا ہے۔ یہ رشتہ ایک طرف محبت، اعتماد اور عزت پر مبنی ہوتا ہے، تو دوسری طرف یہ بہت سی سماجی اور ثقافتی پیچیدگیوں کا شکار بھی ہوتا ہے۔ ساس اور بہو کے درمیان تعلقات کی بنیاد اکثر اس بات پر ہوتی ہے کہ دونوں ایک دوسرے کو کس حد تک سمجھتے ہیں اور کس طرح ایکدوسرے کی ضروریات اور خواہشات کا احترام کرتے ہیں۔ اگر دونوں کے درمیان احترام، اعتماد، اور محبت ہو تو یہ رشتہ مضبوط اور خوشگوار ہوسکتا ہے، ورنہ یہ اکثر کشیدگی اور تنازعات کا سبب بن جاتا ہے۔ اگر دونوں فریقین ایکدوسرے کے نقطۂ نظر کو سمجھیں تو یہ رشتہ مثالی ہوسکتا ہے۔ 
بنت مولانا محمد اسرارالحق یوسفی الیاسی ( بہار)

تربیت کا انداز


جب میری بات پکی ہوئی تو دادی اماں ہنسنے ہوئے بولی، ’’ارے اس کو تو سچ میں ساس نہیں ہے۔‘‘ ہوا کچھ یوں کہ جب سے ہوش سنبھالا اپنے آپ کو ایسے ماحول میں پایا جہاں ہمارے منہ میں سونے کا نوالہ تھا اور شیر کی نگاہ تھی۔ ذرا بھی چون و چرا کرے تو یہ جملہ سننے ملتا: ’’آج ہماری نہیں سن رہے، کل کلاں کو ساس کی کیا سنو گی۔ آج ہم برے لگ رہے لیکن یہ سختی ساس کرے گی تو خود بخود ساس کو ماں سمجھنے لگو گی۔‘‘ آج مجھے میری ساس کی کمی شدت سے محسوس ہوتی ہے۔
عظمیٰ تجمل بیگ (مہاراشٹر)

احترام، صبر اور محبت


ساس کو چاہئے کہ وہ بہو کو اپنی بیٹی کی طرح سمجھے، اسکے احساسات کا احترام کرے اور اسے اپنے خاندان میں ایک مقام دے۔ بہو کو بھی ساس کی عمر، تجربے اور خاندانی روایات کا احترام کرنا چاہئے۔ باہمی احترام، صبر اور محبت سے اس رشتے کو مضبوط بنایا جاسکتا ہے۔ وقت کے ساتھ، اگر دونوں فریق ایک دوسرے کے ساتھ تعاون اور سمجھ بوجھ کے ساتھ چلیں، تو یہ رشتہ بہت خوبصورت اور محبت بھرا بن سکتا ہے۔ 
مومن رضوانہ محمد شاہد (ممبرا، تھانہ)

میری پیاری ساس
میری ساس بہت اچھی ہے۔ انہوں نے مجھے کبھی ڈانٹا نہیں۔ ہر معاملے میں میری حمایت کرتی ہیں۔ وہ تعلیم یافتہ نہیں ہیں لیکن مجھے تعلیم دلوا رہی ہیں۔ میں رب کریم کی شکر گزار ہوں۔ لیکن ان کو مجھ سے ایک شکایت رہتی ہے کہ میں ہاتھوں میں چوڑیاں نہیں پہنتی۔ اس معاملے میں وہ ایک روایتی ساس بن جاتی ہے۔ لیکن ایسے ہی تو رشتے مضبوط ہوتے ہیں۔ کبھی کچھ سن لینے سے ہم چھوٹے نہیں ہوجاتے، بڑوں کا مان رکھنا بھی تو محبت کا اظہار ہے۔ وہ اکثر میری غلطیوں کو نظرانداز کردیتی ہیں۔ یقیناً محبت کے ذریعے اس رشتے کو خوبصورت بنایا جاسکتا ہے۔
فردوس انجم (بلڈانہ، مہاراشٹر)

صبر وشکر کا رویہ
اکثر گھرانوں میں شادی کے کچھ ہی دنوں کے بعد ساس بہو کے جھگڑے شروع ہو جاتے ہیں۔ اس رشتے میں اعتدال کی سخت ضرورت ہے۔ یعنی ساس کو چاہئے کہ وہ اپنی بہو کو اپنی بیٹی کی طرح سمجھے اور اس کے دکھ درد میں شریک ہو، اور بہو کو چاہئے کہ وہ ساس کو اپنی ماں کی طرح سمجھے اور اس کی خدمت کو اپنے لئے دنیا و آخرت کی سعادت سمجھے۔ اس طرح زندگی خوشگوار ہوگی۔ ہمارے معاشرے میں ساس بہو کے رشتے کو برا ثابت کرنے میں ٹیلی ویژن کے سیریلز کا بھی اہم کردار ہے۔ ہر رشتہ کی طرح ساس بہو کا رشتہ بھی صبر، شکر، محبت اور اچھے اخلاق پر مبنی ہوتا ہے۔
فائقہ حماد خان (ممبرا، تھانے)

نظریات میں فرق اہم وجہ


یہ رشتہ کبھی کبھار پیچیدہ ہوسکتا ہے، خاص طور پر جب ساس اور بہو کے خیالات یا رویے میں اختلاف ہوتا ہے۔ ساس اور بہو کے رشتے میں نسلوں کا فرق بھی اہم کردار ادا کرتا ہے۔ پرانی نسل کی ساس اور نئی نسل کی بہو کے خیالات، ترجیحات، اور زندگی کے نظریات میں فرق ہوسکتا ہے جو اس رشتے کو متاثر کرتا ہے۔ بہتر رابطہ، محبت، اور برداشت اس رشتے کو مضبوط بنانے میں مددگار ثابت ہوتے ہیں۔
تسنیم کوثر انصار پٹھان (کلیان، تھانے)

اپنے مقام کو پہچانیں


ہمیشہ سے اس رشتے میں مثبت رویوں اور محبت کا فقدان نظر آتا ہے۔ یہ رویہ صرف اسی رشتے میں کیوں جبکہ ان ہی دو خواتین کے کندھوں پر گھر کی سالمیت منحصر ہوتی ہے۔ اور یہی رشتہ سازشوں کا شکار ہے۔ اس رشتے کو بہترین بنانے کیلئےضرورت ہے باہمی افہام و تفہیم کی۔ ساس اور بہو دونوں اپنے مقام کو پہچانیں، بھروسہ کریں، اور ایکدوسرے کی غلطیوں کو درگزر کرنا سیکھیں تو یقیناً یہ رشتہ بھی کامیاب ہوگا۔
انصاری آصفہ بدرالزماں (بھیونڈی، تھانے)

اس رشتے میں تبدیلیاں آئی ہیں


ساس اور بہو کا رشتہ جب احترام، محبت اور صبر سے نبھایا جائے تو یہ خاندان کیلئے برکت اور اتحاد کا ذریعہ بن جاتا ہے۔ آج کے جدید دور میں، ساس اور بہو کے رشتے میں تبدیلیاں آئی ہیں، جہاں اب زیادہ زور باہمی احترام، سمجھ بوجھ، اور دو طرفہ تعاون پر ہے۔ آج کل کی بہوئیں اپنے حقوق اور خودمختاری کے حوالے سے زیادہ باخبر ہوتی ہیں اور ساس بھی زیادہ کھلے دل اور سمجھداری کے ساتھ اس رشتے کو نبھاتی ہیں۔
شبنم سلمان پٹھان (پونے، مہاراشٹر)

ساس کو ماں اور بہو کو بیٹی کا درجہ


ساس بہو کے رشتے کو مضبوط کرنے کیلئے یہ بات اہمیت کی حامل ہے کہ ساس وقتاً فوقتاً بہو کے میکے والوں کی تعریف کرتی رہیں اور بہو کو چاہئے کہ وہ سسرال کو ہی اپنا گھر سمجھتے ہوئے سسرالی رشتوں کو باندھ کر رکھنے کی بھرپور کوشش کرے۔ ساس بہو کے رشتے کے سلسلے میں سب سے مضبوط ربط یہ ہے کہ بہو کو ساس اپنی بیٹی بنا لے اور ساس کو بہو اپنی ماں۔ نتیجہ یہ ہوگا کہ تمام تلخیاں، حلاوت میں بدل جائینگی۔ 
ڈاکٹر شیبا افتخار انصاری (بھیونڈی، تھانے)

خیالات میں تضاد اختلاف کا سبب


ساس اور بہو کے رشتے میں اکثر اختلافات کی جڑیں نئی اور پرانی روایات کے درمیان تضاد میں ہوتی ہیں۔ جہاں ساس روایات اور خاندانی اصولوں پر زور دیتی ہیں، وہیں بہو اپنی آزادی اور نئے خیالات کو اہمیت دیتی ہے۔ تاہم، اس رشتے کی خوبصورتی تب نظر آتی ہے جب دونوں ایک دوسرے کو سمجھنے کی کوشش کرتی ہیں۔ اگر دونوں طرف سے محبت، تحمل، اور بردباری کا مظاہرہ کیا جائے تو یہ رشتہ مضبوط ہوسکتا ہے۔
نکہت انجم ناظم الدین (مانا، مہاراشٹر)

خوش دامن اپنا دامن وسیع کرلے
ساس کیلئے اردو میں جس لفظ استعمال کیا جاتا ہے وہ خوش دامن ہے۔اگر ہر ساس اپنا دامن اپنی بہو کیلئے وسیع کر لے اور اسی دامن میں آنے والی نئی نویلی دلہن کی غلطیوں کو چھپا لے تو یقیناً وہ بہو بھی اپنی ساس کو ’ماں‘ کی مانند سمجھےگی۔ اسی طرح بہو کو بھی یہ بات سمجھنے کی ضرورت ہے کہ جس گھر میں وہ بیاہ کر جارہی ہے وہاں کے لوگوں کیلئے اس کا رویہ باعث مسرت ہوں۔ اس کی ذات سے اس گھر میں موجود لوگوں کو اپنائت کا احساس ہو۔ ساس اور بہو، دونوں پر بھی یہ لازم ہے کہ ایک دوسرے کے ساتھ خوشگوار تعلقات کو قائم کریں تبھی اس رشتہ میں مٹھاس آئے گی۔
بنت سیّد (جلگاؤں، مہاراشٹر)

اسلامی شریعت کے مطابق تربیت
ساس بہو کا رشتہ صحیح معنی میں بہت ہی خوبصورت رشتہ ہوتا ہے۔ اس رشتے کو خوبصورت بنائے رکھنے کی ذمہ داری دونوں کی ہوتی ہے۔ سمجھداری کا عمل دخل ہوتا ہے۔ عزت اور فرمانبرداری کا رویہ اختیار کرنا بہو کے کردار سے ظاہر ہو وہیں شفقت اور اپنائیت کا رویہ اختیار کرنا ساس کے کردار سے ظاہر ہونا بہت ضروری ہوتا ہے۔ ایک دوسرے کا اعتماد حاصل کرنا اہمیت کا حامل ہے۔ خاندانی نظام کو بچانےکا بہترین طریقہ یہ ہے کہ لڑکی اور ساس کی نکاح سے پہلے اسلامی شریعت کے مطابق تربیت کی جائے۔ تب ہی بہترین نتائج حاصل ہو سکتے ہیں۔
وجاہت وقیع سید شہاب (بھیونڈی، تھانے)

مشرقی اقدار کی پاسداری
ہم سب اس بات سے واقف ہیں کہ اگر ساس بہو کو اپنی بیٹی اور بہو اپنی ساس کو اپنی ماں کی طرح دیکھے تو ساس اور بہو کے درمیان کبھی کوئی مسائل پیدا ہی نہ ہوں۔ لیکن اس آسانی کو اختیار کرنے کیلئے نہ کوئی ساس راضی ہے نہ ہی بہو۔ نہ ساس خود کو بہو کی جگہ رکھ کر سوچتی ہے نہ ہی بہو ساس کے جذبات کو سمجھنے کی کوشش کرتی ہے جس سے رشتوں میں غلط فہمیاں پیدا ہوجاتی ہیں۔ سیریلز نے ساس بہو کے رشتے کو کافی بدنام کیا ہے۔ یہ رشتہ عزت و احترام کا ہوتا ہے جس کو مشرقی اقدار کی پاسداری کے ذریعہ بہتر بنایا جاسکتا ہے جس کی وجہ سے ہر گھر سکون کی ایک آماجگاہ بن سکتا ہے۔
مریم بنت مجاہد ندوی (اورنگ آباد، مہاراشٹر)

میری ساس سادہ خاتون تھیں


میری ساس سے میں کبھی ملی نہیں۔ البتہ اپنے شوہر سے ان کے بارے میں سنا ہے۔ بڑی سادہ خاتون تھیں۔ اسی سال حج پر میں نے ان کے حق میں عمرہ بھی کیا۔ الحمدللہ دلی مسرت ہوئی۔ وہ ایک بہترین ماں تھیں۔ جنہوں نے نہ صرف مجھے بلکہ انسانیت کو ایک بہترین فرد تیار کرکے دیا۔
اللہ رب العزت ان کے درجات بلند فرمائے (آمین)۔
ارجینا روش دھورو (بھیونڈی، تھانے)

کھٹا میٹھا رشتہ


ساس بہو کا رشتہ کھٹا میٹھا ہوتا ہے۔ ساس کو لگتا ہے کہ ہمیشہ وہ صحیح ہوتی ہے اور بہو کو لگتا ساس پرانے خیالات اور وہ آج کے زمانے کی ہے۔ ساس اگر بہو سے نرمی سے پیش آئے، اسے حکم نہ دے کر پیار سے سمجھائے اور بہو ساس کی کچھ باتوں کو نظر انداز کر زبان درازی نہ کرے تو دونوں کے رشتے میں کبھی کھٹاس پیدا نہ ہو۔ جس گھر میں ساس اور بہو مل کر رہتی ہیں وہ گھر خوشیوں سے بھرا رہتا ہے۔
ہما انصاری ( مولوی گنج، لکھنؤ)

’’ساس بہو کا رشتہ‘‘ اس موضوع پر ہمیں کئی تحریریں موصول ہوئی ہیں۔ جن خواتین کی تحریریں شائع نہیں ہوئی ہیں وہ پیر (۹؍ ستمبر ۲۰۲۴ء) کا شمارہ ملاحظہ فرمائیں۔

اگلے ہفتے کا عنوان: وہ وقت جب جذبات کے اظہار میں دشواری ہوئی۔
اظہار خیال کی خواہشمند خواتین اس موضوع پر دو پیراگراف پر مشتمل اپنی تحریر مع تصویر ارسال کریں۔ وہاٹس ایپ نمبر: 8850489134

متعلقہ خبریں

This website uses cookie or similar technologies, to enhance your browsing experience and provide personalised recommendations. By continuing to use our website, you agree to our Privacy Policy and Cookie Policy. OK