ایک سے ۵؍ سال تک، بچے کی عمر کا یہ وہ وقت ہوتا ہے جب اس کی دماغی نشوونما انتہائی تیزی سے ہو رہی ہوتی ہے۔ اس دورانیے میں ماں کا رویہ، بات چیت کا انداز اور معمولات بچے کی زندگی پر گہرا اثر ڈالتے ہیں۔ اس لئے ماں کو چاہئے کہ وہ بچوں کے ساتھ محبت اور شفقت کا برتاؤ کرے۔
بچوں کی بہتر تربیت کیلئے ماں کو وقت نکالنا چاہئے جو بہتر تنظیم الاوقات کے ذریعہ ممکن ہے۔ تصویر: آئی این این۔
عورت معاشرے کی بنیادی اکائی ہے اور اس کا کردار ہر انسان کی زندگی میں نہایت اہمیت کا حامل ہوتا ہے۔ عورت نہ صرف ایک بیٹی، بیوی اور بہن کے کردار میں اپنی ذمہ داریاں نبھاتی ہے بلکہ ماں کے کردار میں اس کی حیثیت اور بھی زیادہ بڑھ جاتی ہے۔ ماں کی گود کو بچے کی پہلی درسگاہ کہا جاتا ہے کیونکہ بچے کی ابتدائی تربیت اور شخصیت سازی میں ماں کا کردار سب سے زیادہ اہم ہوتا ہے۔ اسلامی تعلیمات اور معاشرتی اصولوں کے مطابق عورت کی ذمہ داری ہے کہ وہ اپنے بچوں کی بہترین تربیت کرے تاکہ وہ معاشرے میں اچھے انسان بن کر اپنا کردار ادا کر سکیں۔
ماں کی ذمہ داری اور کردار
ماں کے کردار کو بہت زیادہ اہمیت دی گئی ہے کیونکہ بچے کی تربیت کا بنیادی دارومدار اسی پر ہوتا ہے۔ بچے کی شخصیت، اخلاق اور دین کی بنیادی تعلیمات کا سیکھنا ماں کی گود میں ہی ہوتا ہے۔ ماں کی ذمہ داری ہے کہ وہ بچے کو دنیاوی تعلیم کے ساتھ ساتھ دینی تعلیمات بھی سکھائے تاکہ بچے کی زندگی میں توازن پیدا ہو۔
بچے کی ابتدائی تربیت
بچے کی ابتدائی عمر (یعنی ایک سے ۵؍ سال تک) وہ وقت ہوتا ہے جب بچے کی دماغی نشوونما انتہائی تیزی سے ہو رہی ہوتی ہے۔ اس دورانیے میں ماں کا رویہ، بات چیت کا انداز اور معمولات بچے کی زندگی پر گہرا اثر ڈالتے ہیں۔ اس لئے ماں کو چاہئے کہ وہ بچوں کے ساتھ محبت اور شفقت کا برتاؤ کرے، تاکہ بچے میں خود اعتمادی پیدا ہو اور وہ ایک پرسکون ماحول میں نشوونما پا سکے۔
اخلاقی تعلیم
اخلاقیات کا درس دینا ایک ماں کی اہم ذمہ داری ہے۔ بچے کو سچ بولنے، ایمانداری، عدل و انصاف اور ہمدردی جیسی صفات سکھانا ضروری ہے۔ ماں کو خود بھی ان اصولوں پر عمل کرنا چاہئے تاکہ بچہ عملی طور پر بھی انہیں اپنانے کی کوشش کرے۔ بچے اپنے بڑوں کی نقل کرتے ہیں، اسلئے ماں کو اپنے کردار اور عمل کا بھی خیال رکھنا چاہئے۔
دین کی تعلیم
اسلامی معاشرت میں دینی تعلیم کی بہت زیادہ اہمیت ہے۔ ماں کو چاہئے کہ وہ بچے کو نماز، روزہ، صدقہ و خیرات اور قرآن پاک کی تعلیم دے۔ بچے کے دل میں اللہ کی محبت اور آخرت کا شعور پیدا کرنے کے لئے ضروری ہے کہ ماں خود بھی دین کی پیروی کرے اور بچے کو بھی اس کی تعلیم دے۔
جدید تعلیم کی اہمیت
دینی تعلیم کے ساتھ ساتھ جدید دنیاوی تعلیم بھی بچوں کی تربیت کا اہم حصہ ہے۔ ماں کو چاہئے کہ وہ اپنے بچے کی دلچسپی اور صلاحیتوں کے مطابق اسے تعلیم کے مواقع فراہم کرے۔ ایک پڑھا لکھا اور باشعور انسان ہی معاشرے میں ترقی کر سکتا ہے، اور اس کے لئے ضروری ہے کہ ماں بچے کو جدید علوم میں بھی مہارت حاصل کرنے کی ترغیب دے۔
بچوں کی سماجی تربیت
بچوں کو معاشرتی اصول و ضوابط کی تعلیم دینا بھی ماں کی ذمہ داری ہے۔ ماں کو بچوں کو سکھانا چاہئے کہ وہ اپنے بڑوں کا احترام کریں، ہم عمروں کیساتھ محبت سے پیش آئیں اور کمزوروں کی مدد کریں۔ بچوں کو یہ بھی سکھانا چاہئے کہ وہ اپنے حقوق و فرائض کو پہچانیں اور دوسروں کے حقوق کا احترام کریں۔
بچوں کے جذباتی پہلوؤں کا خیال رکھنا
بچوں کے جذباتی مسائل پر توجہ دینا بھی ماں کی تربیت کا حصہ ہے۔ بچوں کو زندگی میں مختلف مشکلات کا سامنا کرنا پڑتا ہے اور ماں کا فرض ہے کہ وہ بچوں کو ان مشکلات کا سامنا کرنے کے لئے تیار کرے۔ بچے کو جذباتی استحکام دینے کے لئے ماں کا شفقت بھرا رویہ بہت ضروری ہے۔
مثبت سوچ اور خود اعتمادی کی ترقی
ماں کو اپنے بچوں میں مثبت سوچ اور خود اعتمادی پیدا کرنے کے لئے انہیں حوصلہ افزائی کرنی چاہئے۔ ماں کو بچوں کو بتانا چاہئے کہ ناکامی سے گھبرانے کے بجائے اس سے سیکھنا چاہئے اور ہمیشہ اپنے مقاصد کے حصول کے لئے کوشش کرنی چاہئے۔ ایک مضبوط اور بااعتماد بچہ ہی مستقبل میں کامیاب ہوسکتا ہے۔
وقت کی اہمیت اور تربیت کا توازن
آج کے مصروف دور میں عورت کو اپنے بچوں کیساتھ وقت گزارنا ایک چیلنج بن گیا ہے، لیکن بچوں کی بہتر تربیت کیلئے ماں کو اپنے وقت کا بہتر انتظام کرنا ضروری ہے۔ ماں کو چاہئے کہ وہ بچوں کے ساتھ معیاری وقت گزارے، ان کی باتیں سنے، ان کے مسائل کو سمجھے اور انہیں اچھے مشورے دے۔
ماں کی تربیت کا نتیجہ بچے کی شخصیت اور اخلاق میں نظر آتا ہے۔ ایک اچھے تربیت یافتہ بچہ نہ صرف اپنے خاندان بلکہ پورے معاشرے کے لئے ایک قیمتی اثاثہ ہوتا ہے۔ اس لئے ماں کو اپنی ذمہ داریوں کا احساس کرتے ہوئے بچوں کی تربیت میں بھرپور کردار ادا کرنا چاہئے۔