• Sat, 22 February, 2025
  • EPAPER

Inquilab Logo Happiest Places to Work

اوڑھنی اسپیشل: گھر کا نظم چلانے کے اصول

Updated: December 21, 2023, 6:02 PM IST | Saaima Shaikh | Mumbai

گزشتہ ہفتے مذکورہ بالا عنوان دیتے ہوئے ہم نے ’’اوڑھنی‘‘ کی قارئین سے گزارش کی تھی کہ اِس موضوع پر اظہارِ خیال فرمائیں۔ باعث مسرت ہے کہ ہمیں کئی خواتین کی تحریریں موصول ہوئیں۔ ان میں سے چند حاضر خدمت ہیں۔

Photo: INN
گھر کا نظم چلانے کے لئے ہر کام وقت پر انجام دینا ضروری ہے۔ تصویر: آئی این این

بزرگوں کی خدمت میں پیش پیش رہنا


فرض کریں ہمارا گھر پارلیمنٹ ہاؤس ہےتو اس کے اصولوں کی بات زیادہ واضح طور پر سمجھ آتی ہے اور اس پر عمل کرنا آسان بھی ہوتا ہے۔ ویسے تو سبھی جانتے ہیں کہ ہوم منسٹر والدہ ہوتی ہیں۔ ایک ذمہ دار والدہ گھر کے ہر ذرّے پر ان کی نظر ہوتی ہے کہ کس سے کب، کیا، اور کون سا، کام کروانا ہے تاکہ گھر کا نظم و ضبط برقرار رہ سکے اس ضمن میں چند اصول حسب ذیل ہیں:
(۱) دن بھر کی ذمہ داریاں ایک پلاننگ کے تحت مکمل کرنا۔ (۲) اپنے آپ کو ایک ٹائم ٹیبل میں باندھنا۔ ٹال مٹول سے پرہیز کرنا۔ (۳)وقت کی پابندی کرنا صفت و صلوٰۃ پر کاربند رہنا۔ (۴) کسی بھی معاملے کو انتہائی خوش اسلوبی سے حل کرنا۔ (۵) حکمت عملی اختیار کرنا۔ (۶) نہ صرف بولنا بلکہ پریکٹیکل کر کے دکھانا کیونکہ بچے دیکھی ہوئی باتوں پر یقین کرتے ہیں۔ (۷) بزرگوں کی خدمت میں پیش پیش رہنا ان کی باتوں کو فوقیت دینا۔ (۸) سب سے بڑھ کر یہ کہ جس کے بغیر ہم کچھ نہیں کرسکتے وہ ہے ہر کام میں خدا کی بڑائی کا تذکرہ کرتے رہنا کہ جو ہوتا ہے وہ خدا کی مرضی ہی سے ہوتا ہے۔ ایک پتہ بھی اس کی مرضی کے بغیر نہیں ہل سکتا۔
قریشی فردوس (کلبرگہ، کرناٹک)
با صلاحیت اور با اصول عورت ہی گھر کا نظم بہترین چلا سکتی ہے
معاشرے کی اہم اکائی گھر ہوتا ہے اور گھر کو چلانے کے لئے بہترین نظم کی اشد ضرورت ہوتی ہے۔ بہترین گھر وہی ہوگا جس کا نظم بہترین ہوگا۔ گھر کے لئے سب سے پہلی ضرورت ہے آمدنی اور آمدنی کے حساب سے گھر کا بجٹ بنانا۔ راشن، بچوں کی دینی و دنیاوی تعلیم و تربیت، صحت کے مسائل اور باہمی رشتوں کو استوار رکھنا اور کچھ رقم پس انداز کرنا، عمدہ بجٹ کے اہم عناصر ہیں۔ جس گھر کا روٹین بہترین ہو اور اس پر چلا جائے وہی گھر کا نظم عمدہ مانا جائے گا۔ گھر کو ترتیب دینا اس کو سجانا سنوارنا عورت کی اپنی صلاحیتوں پر منحصر ہوتا ہے۔ باشعور عورت ہی گھر کا نظم بہترین چلا سکتی ہے۔ بے اصولی عورت گھر کو برباد کر دیتی ہے۔ بہت سی عورتیں باتیں بناتی رہتی ہیں جس سے گھر میں بگاڑ پیدا ہوتا ہے۔ بچوں کا اور شوہر کا بھرپور خیال رکھنا بہت ضروری ہے۔ گھر ہو یا زندگی نظم و ضبط کے ساتھ چلنی چاہئے، یہ بہت اہم بات ہے۔ گھر کو چلانے کے لئے گھر کا ماحول اچھا ہونا بہت ضروری ہے۔ بے جا اخراجات اور بےجا ضرورتوں کو درگزر کرتے رہنا چاہئے۔ فضول خرچی گناہ ہے، اس سے بچنا چاہئے۔ دکھاوے سے بچنا چاہئے۔ یہ باصلاحیت عورت کے لئے بہت ضروری ہے کہ گھر کو سلیقہ اور صلاحیت کے ساتھ چلائے۔ اپنے گھر کا کام اپنے ہاتھ سے کرنا چاہئے۔ جب تک اشد ضرورت نہ ہو نوکرانی نہیں رکھنی چاہئے۔
نجمہ طلعت (جمال پور، علی گڑھ)
جب سب مل بیٹھے ہوں تو موبائل فون استعمال نہ کریں


کہتے ہیں کہ گھروں کیلئے بھی ویسا ہی دستور یا قانون ہو جیسا کہ کسی ریاست یا ملک کیلئے ہوتا ہے۔ ویسے ہی گھر کا نظم چلانے کیلئے بھی والدین کچھ اصول اور ہلکے پھلکے قانون بنائیں جس پر عمل کرکے نئی نسل معزز شہری بن سکے: (۱) گھر کا ہر فرد وقت پر نماز کی ادائیگی کا اہتمام کرے۔ (۲) سبھی لوگ سلام کو معمول بنائیں گھر سے باہر جانے پر اور گھر میں داخل ہونے پر۔ (۳) گھر کا ہر فرد شکریہ، مہربانی اور پلیز کہنے کی عادت ڈالیں۔ (۴) گھر کا کوئی بھی فرد برے الفاظ اور لعن طعن سے پرہیز کریں۔ (۵) گھر کا کوئی فرد اپنےکمرے میں الگ کھانا نہیں کھائے گا۔ (۶) رات کے طے شدہ وقت کے بعد کوئی نہیں جاگے گا۔ (۷) گھر کا کوئی فرد طے شدہ وقت کے بعد انٹرنیٹ ڈیوائس کا استعمال نہیں کرے گا۔ (۸) گھر کی بنیادی ضروتیں جیسے بجلی و پانی کا فضول استعمال نہیں کرے گا۔ (۹) گھر کے ہر فرد کیلئے لازمی ہو کہ کھانے کے وقت ہر فرد کی شمولیت ضروری ہو۔ (۱۰) گھر کے سبھی افراد کے مل بیٹھنے کے درمیان میں کوئی فرد موبائل فون کا استعمال نہیں کرے گا۔
 جس گھر میں ان تمام اصولوں کی پابندی کی جائے گی وہ گھر ایک مثالی گھر ہوگا۔
ترنم صابری (سنبھل، یوپی)

لعن طعن والی باتوں سے پرہیز کریں


لفظ گھر سکون، محبّت، الفت اور اپنے پن کا احساس ہے۔ کہتے ہیں کہ ایک خوبصورت اور مثالی گھر بنانے کیلئے کچھ قائدے قانون اور دستور کا ہونا ضروری ہے جس طرح کسی ریاست، ملک، اسکول اور آرگنائزیشن کو چلانے کیلئے ہوتا ہے۔ والدین ہرگز ہرگز اس بات کے انتظار میں نہ رہے کہ صرف تعلیم حاصل کرکے ان کی اولاد ایک اچھا انسان اور اچھا شہری بن جائے گی۔ انہیں خود اس ذمہ داری کو پورا کرنا ہوگا۔ گھر میں والدین کا ایک اہم رول ہوتا ہے۔ والدین کو چاہئے کہ وہ بچوں کو چند اصولوں کا پابند بنائیں، جیسے بچوں کو پانچ وقت کی نماز کا پابند بنائیں، بڑوں کی عزت اور چھوٹوں سے محبت اور شفقت سے پیش آنے کی تلقین کریں، ایک دوسرے کے جذبات اور احساسات کی قدر کریں، لعن طعن والی باتوں سے پرہیز کریں، گھر کے افراد کو گھر کے کاموں کو اپنی ذمہ داری سے کریں، گھر کے ہر فرد کی بات کو اہمیت دیں، گھر کے ہر فرد کو روزانہ حدیث اور قرآن مجید کا ایک رکوع ہی سہی تلاوت کرنے کی تلقین کریں، رات کو سونے اور برقی آلات کا استعمال کا ٹائم مقرر کریں، دسترخوان پر کھانا سب کے ساتھ کھائیں، گھر میں داخل ہوتے اور نکلتے وقت سلام ضرور کریں، بغیر اجازت ایک دوسرے کے کمرے میں داخل ہونے سے گریز کریں، اپنا کام خود کریں اور ماں باپ کے کاموں کا بھی خیال رکھیں، ان کی خدمت کریں، کسی کو بلا وجہ حکم نہ دیں اور والدین سے اظہار محبت کا ایک طریقہ یہ بھی ہوسکتا ہے کہ ان کے سر پر بوسہ دیں۔ ان اصولوں کو اپنا کر ہم اپنے گھر کو خوبصورت طریقے سے چلا سکتے ہیں اور گھر کا ہر فرد باشعور، باادب اور ذمہ دار فرد بن سکتا ہے۔
انصاری رفعنا حفیظ الرحمٰن (نائیگاؤں، بھیونڈی)
خاندان کا کوئی شخص سربراہ ہو
گھر کا نظام چلانے کے لئے خاندان کا کوئی باصلاحیت شخص سربراہ ہونا چاہئے۔ جیسا کہ ہمارا دین کہتا ہے کہ جہاں دو سے زیادہ لوگ ہوں ایک کو امام بنالیں۔ اسی طرح خاندان میں بھی کوئی ایک سربراہ ہو۔ اس کے مشورے اور اجازت سے سارے کام انجام دیئے جائیں تاکہ ہر کام اچھے ڈھنگ سے اختتام پذیر ہو اور کسی قسم کی بدنظمی نہ ہونے پائے۔ ہر فرد کے ساتھ انصاف ہو۔ کسی پر ظلم و زیادتی نہ ہو۔ ہر کام وقت پر انجام دیا جائے۔ ہر کوئی نماز کی پابندی کر لے تو وقت کی پابندی بھی ہوسکے گی۔
شمائلہ عابد حسین (مالیگاؤں، ناسک)
گھر کے بڑوں کو رول ماڈل بننا چاہئے


روزمرہ کے معمولات کو آسانی سے چلانے کے لئے گھر پر قواعد قائم کرنا ضروری ہے۔ بچوں کو لازمی طور پر قواعد رکھنے کی عادت ڈالنی چاہئے۔ گھر کا ہر فرد اپنی ذمہ داری بخوبی نبھائے تو ہی گھر میں سکون قائم رہے گا۔ گھر کے بڑوں کو رول ماڈل بننا چاہئے۔ جیسی توقع وہ اپنے بچوں سے کرتے ہیں وہ خوبیاں اپنے اندر پیدا کریں۔ مطلب عملی طور سے ویسا کرنا چاہئے کیونکہ بچے وہ نہیں کرتے جو ہم کہتے ہیں بلکہ بچے وہ کرتے ہیں جو ہم کرتے ہیں۔ گھر کا نظم پیار و محبت سے چلایا جائے تو گھر کا ماحول خوشگوار رہتا ہے۔
ثمینہ علی رضا خان (کوسہ، ممبرا)
باہمی اعتماد اور سمجھداری کی ضرورت


گھر سکون اور آرام کا مرکز ہوتا ہے۔ گھر کا نظم و ضبط قائم رکھنے کے لئے افراد کے درمیان باہمی اعتماد اور سمجھداری کی ضرورت ہوتی ہے۔ اگر افراد ایک دوسرے کی رائے سے اتفاق نہیں کرتے تو اختلاف کا بھی ایک طریقہ ہے۔ اختلاف رائے ہو جانے کی صورت میں آپسی انتشار اور دل میں کدورت آجانا ایک عام بات ہے۔ اس کے لئے یہ کوشش کی جانی چاہئے کہ ان نقاط کو نظرانداز کر دیں جو دِل میں اور رشتوں میں شگاف ڈالتے ہیں جو کہ عموماً ایسا ہوتا نہیں ہے۔ گھر کے سربراہ یا بزرگ اس میں اہم کردار ادا کرتے ہیں۔ ایک بہترین نظم و نسق والا گھر یا معاشرہ بغیر کسی قربانی، صبر، ایثار اور خلوص کے تشکیل نہیں پاتا۔ اس لئے گھر کے ہر فرد کو اس بات کا احساس ہونا چاہئے کہ جس طرح تالی ایک ہاتھ سے نہیں بجتی اسی طرح ایک گھر کا نظام چلانا فرد واحد کی ذمہ داری نہیں ہے۔ اس کے لئے گھر کے افراد کے تعاون کی ضرورت ہوتی ہے۔ ہمارے معاشرہ میں گھر کے بڑے بیٹے یا کسی بھی ایک فرد پر ساری ذمہ داریاں سونپ دینے کا چلن عام ہے۔ اس فرد کے لئے یہ لازم ہے کہ وہ اپنی تمام ذمہ داریوں کو پورا کرے، کسی کو انکار نہ کرے، کسی سے تعاون کی اُمید نہ کرے، جو کچھ کرنا ہے وہ تنہا کرے جو ناممکن ہے۔ تنہا فرد ہر کسی کو خوش نہیں کرسکتا ہے۔ اس کے لئے گھر کے بزرگوں کی ذمہ داری ہے کہ وہ بلا کسی تفریق گھر کے افراد میں ذمہ داریوں کو اس طرح تقسیم کریں کہ انہیں احساس بھی نہ ہو اور گھر کا نظام بھی بخوبی چلتا رہے۔ سمجھانے کا انداز اتنا دل پذیر ہونا چاہئے کہ بری بات بھی بری نہ لگے۔ گھر کا انتظام و انصرام چلانے کے لئے بہت سے رہنما اصول ہوتے ہیں لیکن اگر باتوں کو نظرانداز کرنے کا فن آپ جانتے ہیں تو گھر بھی بہتر طریقے سے چلے گا اور آپ کی زندگی بھی بہترین راہوں پر گامزن رہے گی۔
انصاری لمیس (بھیونڈی، تھانے)
وقت کا پابند بنیں


گھر کا نظم بہتر انداز میں چلانے کیلئے نظم و ضبط کا پابند ہونا ضروری ہوتا ہے۔ سب سے اہم بات گھر میں ہر چیز جگہ پر رکھنی چاہئے، اس سے گھر کے کام کرنے میں آسانی ہوتی ہے اور گھر خوبصورت بھی نظر آتا ہے۔ دوسری، وقت کا پابند بنیں، ہر کام طے شدہ وقت پر انجام دیں۔ اس کے علاوہ گھر کا ہر شخص اپنی ذمہ داری کو سمجھے۔ ساتھ ہی گھر والوں کی صحت کو بھی اہمیت دیں۔ روزانہ ایک دوسرے سے بات چیت کریں۔ علاوہ ازیں، گھر کی صفائی ستھرائی کا خیال رکھیں۔
زینب ساجد پٹیل (جلگاؤں، مہاراشٹر)

بچت کی عادت


گھر کا نظم چلانا آسان نہیں ہے مگر اتنا مشکل بھی نہیں ہے بشرطیکہ ہم روزمرہ کی زندگی میں اپنی سوجھ بوجھ اور سہولت کے حساب سے کچھ اصول بنالیں اور ان پر سختی سے عمل کریں۔ ذیل میں اپنے کچھ اصول بتا رہی ہوں جس پر عمل کرکے میری زندگی آسان ہوگئی:
(۱) گھر کا سودا سلف اور راشن وغیرہ کی خریداری کرتے وقت دھیان رکھیں کہ ضرورت کی چیزیں ہی خریدیں سیل اور ایک پر ایک فری کے چکر میں پڑ کے فضول خرچی نہ کریں۔ (۲) گھریلو امور میں ملازمہ سے مدد لیجئے مگر مکمل طور پر منحصر مت ہو جایئے خود بھی کام کرتی رہا کریں اور اپنی نگرانی میں ہی کام کروائیں۔ اپنے ذاتی مسائل ملازمہ کے سامنے زیر بحث نہ لائیں لیکن ضرورت پڑنے پر اُن کی مدد ضرور کریں۔ (۳) گھر میں اگر بزرگ ہیں تو انہیں صرف اپنے کمرے تک محدود نہ کر دیں۔ ان سے بھی صلاح مشورہ لیں۔ گھریلو امور جیسے سودا لانا، سبزی صاف کرنا، چھوٹے بچوں کو اسکول سے لانا لے جانا، ان کاموں میں اُن سے مدد لیں۔ اس سے وہ بھی خود کو اہم سمجھیں گے اور خوشی محسوس کریں گے۔ (۴) بچوں کی پڑھائی پر خود دھیان دیں بھلے ہی وہ ٹیوشن کلاس جاتے ہوں۔ (۵) بچوں کو موبائل فون اور ٹی وی ایک حد تک استعمال کرنے دیں۔ (۶) بچوں سے دوستی کا برتاؤ رکھیں۔ پڑھائی کے ساتھ ساتھ انہیں کبھی کبھی تفریح کے لئے بھی لے جائیں۔ (۷) گھر آئے مہمانوں کا خندہ پیشانی سے استقبال کریں گھر پر جو بھی مسیر ہو اس سے اُن کی تواضع کریں۔ (۸) خاتون خانہ نوکری پیشہ ہی کیوں نہ ہو انہیں بچت کی عادت ہونی چاہئے۔
یاسمین محمد اقبال (میرا روڈ، تھانے)
باہمی تعلقات مضبوط ہوں


ایک اچھے گھر یا خاندان کی سب سے اہم خصوصیت گھر کے افراد کے درمیان ہم آہنگی کا ہونا ہے۔ عورت اور مرد کے باہمی تعلقات مضبوط ہونے چاہئے۔ گھر میں اولاد کو اہمیت دیں جو بزرگوں کا احترام کریں اس سے گھر کا نظم چلانے میں آسانی ہوتی ہے۔ ماں باپ کا اولین فرض یہ کہ بچوں کی صحیح تربیت کے لئے انہیں دینی تعلیم سے مزین کریں۔ اس سے بچوں میں پختہ اخلاقیات پیدا ہوں گے کیونکہ اخلاقیات کے بغیر عصری تعلیم بھی صفر رہ جاتی ہے۔ دنیا کا ہر کام کسی نہ کسی ضابطے یا اصول کے تحت ہی چلتا ہے، اس طرح گھر کا ماحول خوشگوار بنانے کے لئے اصول و قواعد کا استعمال ضروری ہو جاتا ہے۔ اگر اس نظم میں بے ترتیبی پیدا ہو تو انسان کے معمولات کا نظام درہم برہم ہو جاتا ہے۔ گھر کا ماحول بے نظمی کا شکار ہوجاتا ہے اور بچے اکثر بے راہ روی کا شکار ہوجاتے ہیں۔ گھر کے ذمے داران خود اچھے عمل کریں اور بچوں کے سامنے ایک مثالی ماں باپ بن کر دکھائیں۔ ضرورت پڑنے پر بچوں پر معمولی سختی کریں۔ محبت اور شفقت کے ذریعے بچوں میں مثبت سوچ پیدا کریں۔ بے جا لاڈ و پیار سے بچیں۔
 گھر کو جنّت کا باغ بنائے رکھنے کے لئے مذہب اسلام کی تعلیمات کا جائزہ لیں۔ ہمارا اٹھنا، بیٹھنا، کھانا، پینا، دیکھنا، چلنا مطلب یہ کہ ہر کام، ہر معاملہ اسلامی طرز پر ہو تو یہ عبادت کے ساتھ نظم وضبط کی پابندی کے ساتھ گھر، گھر ہی رہے گا اور ہماری دنیا و آخرت سنور جائے گی۔ گھر کے تمام افراد زندہ دلی کے ساتھ زندگی گزاریں کیونکہ؎
زندگی زندہ دلی کا ہے نام
مردہ دل خاک جیا کرتے ہیں!
آفرین عبدالمنان شیخ (شہر کا نام نہیں لکھا)
فضول خرچی سے پرہیز
ہمارے دین نے ہمیں کفایت شعاری کی تلقین دی ہے۔ انسان کے دل میں خواہشیں پل پل میں پیدا ہوتی ہیں مگر ان خواہشوں کو دبانا ضروری ہے۔ صحابۂ کرام کی زندگی اٹھا کر دیکھیں تو انہوں نے خواہشوں کو ہمیشہ دبایا ہے اور اپنی زندگی کو سادگی میں ڈھالا۔ اُن کی زندگی ہمارے لئے مشعلِ راہ ہے۔ حضور پاکﷺ کی حدیث بھی ہے کہ میرے صحابہ ستاروں کے مانند ہیں کسی ایک کی اتبار کر لو گے تو کامیاب ہو جاؤ گے۔ بس یہی بات میں اپنے گھر چلانے کے نظام میں عمل میں لاتی ہوں۔ فضول خرچی سے پرہیز کرتی ہوں۔ آمدنی کے مطابق خرچ کرتی ہوں۔ اس بات کو دھیان میں رکھ کر میں اپنے گھر کا نظم چلاتی ہوں۔ بس، یہی عمل ہے کہ دِل پُرسکون رہتا ہے۔
منصوری رومانہ تبسم (شہادہ، نندوربار)
ہر کسی کی بات اور مشورے کو اہمیت دیں
موجودہ دور میں معاشرہ بہت تیزی سے بگاڑ کی طرف بڑھ رہا ہے۔ معاشرے کے بگاڑ کی بنیادی وجہ گھر ہے۔ گھر کے افراد کی اصلاح ہو جائے تو معاشرہ خودبخود ٹھیک ہو جائے گا۔ اور ایک مسلمان کے لئے مشعلِ راہ صرف اور صرف قرآن و حدیث ہی ہے۔ گھر سے خاص طور پر گھر کے سرپرست کو سب سے پہلے اصلاح کی تلقین کی ہے۔ اللہ نے گھر کے سرپرست کو مخاطب کرکے کہا کہ وہ سب سے پہلے اپنی اصلاح کرے اپنے آپ کو جہنم کی آگ سے بچائیں پھر اپنے گھر والوں کی اصلاح کرے اگر وہ ٹھیک ہو جاتا ہے تو پورا گھر ٹھیک ہو جائے گا۔ اللہ تعالیٰ نے انسان کے لئے اس کے گھر کو بڑی نعمت بنایا ہے کیونکہ اس میں انسان اپنی زندگی کو محفوظ رکھتا ہے۔ گھر اپنے خاندان کے ساتھ وقت گزاری کا اعلیٰ مقام ہے۔ گھر بیوی بیٹیوں کے لئے پردہ کی ضمانت ہے۔ اللہ تعالیٰ کا فرمان ہے، ’’اپنے گھروں میں رہا کرو دورِ جاہلیت کی عورتوں کی طرح اپنی زیب و زینت ظاہر مت کرو۔‘‘ لہٰذا اپنے گھروں میں نماز اور تلاوت کے ساتھ ساتھ پردے کا بھی خاص خیال رکھا جائے۔ اس کے علاوہ بڑے چھوٹے کی عزتِ نفس کا بھی خیال کیا جائے۔ بے شک ماں باپ کا حق زیادہ ہے بڑے بھائی کے لئے۔ آپﷺ نے فرمایا، ’’بڑے بھائی کا حق چھوٹے بھائی پر ویسا ہی ہے جیسے باپ کا حق بیٹے پر۔‘‘ اس کا ہرگز یہ مطلب نہیں ہوا کہ چھوٹے کی عزت و اہمیت میں کمی واقع ہو۔ اس کے علاوہ گھر میں بیٹیوں کی خاص اہمیت ہونی چاہئے جیسا کہ ہمارے نبیﷺ نے فرمایا، ’’جس شخص کی بیٹیاں ہو اس کو برا مت سمجھو۔‘‘ بیٹی وہ نعمت ہے کہ جب فاطمہؓ تشریف لاتی تو اللہ کے رسولﷺ بھی استقبال کیلئے کھڑے ہوجاتے۔ جس گھر میں بیٹیوںکے لئے عزت اور محبت ہوگی اس گھر میں غیروں کی بیٹیوں کے لئے بھی احترام ہوگا۔ گھر میں ہر کسی کی بات اور مشورے کو اہمیت دیں۔ باہمی مشورے سے کئے گئے کام میں برکت ہوتی ہے۔ گھر کے ہر فرد کو اپنی ذمہ داری کا احساس ہو۔
مرزا تقدیس جاوید بیگ (غیبی نگر، تھانے)
ایک وقت کا کھانا اکٹھے کھائیں


جس طرح کسی ملک، ریاست، اسکول یا ادارہ چلانے کے کچھ اصول ہوتے ہیں۔ اسی طرح گھر کا نظام بہتر طریقے سے چلانے کیلئے بھی اصول ہونے چاہئے جن پر عمل کرکے ہمارے بچے معاشرے کے ذمہ دار انسان بنیں۔ یہ چھوٹے چھوٹے اصول والدین خود بنائیں۔ والدین ہرگز اس بات کے انتظار میں نہ رہیں کہ اسکول، مکاتب وغیرہ اپنے فرائض کو پورا کرکے ان کی اولاد کو اچھا شہری بنائیں گے بلکہ خود والدین کو ہی یہ ذمہ داری پوری کرنا ہوتی ہے۔ جس کی بنا پر اُن کے بچوں کے کردار میں پختگی آئے۔ میرے مطابق کچھ اصول اس طرح ہیں جیسے کہ:
(۱) گھر کا ہر فرد گھر میں داخل ہوتے یا گھر سے باہر جاتے وقت سلام کرے۔ (۲) ہر فرد پانچ وقتوں کی نماز کی پابندی کرے۔ (۳) کوئی مار پیٹ اور گالی گلوج نہ ہو۔ لعن طعن والی کوئی بات نہ ہو۔ (۴) ہر ایک کی عزت ہو چاہے چھوٹا ہو بڑا۔ (۵) اپنے توقعات کو ادب اور احترام کے ساتھ بتائیں۔ (۶) گھر کا ہر فرد روزانہ بلاناغہ قرآن کی تلاوت کرے گا۔ (۷) ہر بچہ اپنا کام خود کرے جیسے اپنے کمرے، اپنے بیڈ یا الماری کی صفائی وغیرہ۔ (۸) ہر ایک بات کو بغیر ٹوکے سنیں۔ (۹) جہاں تک ممکن ہو گھر کے تمام افراد کم از کم ایک وقت کا کھانا اکٹھے کھائیں۔ (۱۰) رات سونے کے بھی اوقات مقرر ہو بے کار میں کوئی نہیں جاگے گا۔ (۱۱) اسمارٹ فون وغیرہ دیکھنے کا وقت مقرر ہونا چاہئے۔ (۱۲) مہمان نوازی کا سلیقہ ہر ایک کو آنا چاہئے۔ (۱۳) پڑوسیوں کے حقوق بھی معلوم ہو۔ مجھے اچھی طرح یاد ہے میرے والد جب بازار جاتے تو پڑوسیوں سے ضرور پوچھ تاچھ کرتے کہ اُن کی کوئی چیز لانی ہے اور بازار سے واپس آنے پر اُن کے گھر تک اُن کے مال کو پہنچاتے۔ جب کبھی ہمیں ان کی اِس بات پر اعتراض ہوتا تو وہ ہمیں پڑوسیوں کے حقوق کے بارے میں بتاتے اور اس تعلق سے حضورﷺ کا  ایک واقعہ بھی سنایا تھا۔ اللہ تعالیٰ سے دعا گو ہوں کہ اللہ ہمیں زندگی میں آپؐ کے سنتوں پر عمل کرنے کی توفیق عطا کرے۔
چاند سلطانہ دفعدار (شولاپور، مہاراشٹر)

مستقل مزاجی ضروری ہے
 ایک خاتون اپنی صلاحیتوں، حسنِ اخلاق اور صبرو ضبط کی بنیاد پر گھر کو جنّت بنا سکتی ہے۔ گھر کا سکون اور رونق عورت کی ہی مرہون منت ہے۔ میں نے گھریلو کاموں کی روٹین بنالی ہے۔ کھانا بنانا، کپڑے دھونا، گھر کی صفائی، بچوں کی مصروفیات غرض تمام کاموں کے لئے وقت مقرر کرلیا ہے۔ اور مقررہ وقت پر اس کام کو پابندی سے کرنے کی ممکنہ کوشش کرتی ہوں۔ بے شک اس کیلئے بہت سی قربانیاں دینا ہوتی ہیں۔ بسا اوقات اپنی خواہشات کا گلا بھی گھونٹنا پڑتا ہے۔ لیکن گھر میں سکون اور خوشیوں کا بسیرا ہوتا ہے۔ علاوہ ازیں، مَیں نے زندگی کا یہ اصول بھی بنایا ہے کہ مسائل کا سامنا مستقل مزاجی کے ساتھ کرنا ہے۔ بے پناہ مصروفیات کو دماغ پر حاوی کرکے چڑچڑے پن اور تلخی کا مظاہرہ نہیں کرنا ہے بلکہ خوش اسلوبی کے ساتھ مسائل کا حل تلاش کرنا ہے۔
مومن ناہید کوثر جاوید احمد (مالیگاؤں، ناسک)
اصولوں کی پابندی کی اہمیت


انسان کی زندگی میں نظم و ضبط کی بہت اہمیت ہوتی ہے۔ زندگی کو بہترین، خوشگوار اور الجھنوں سے بچاتے ہوئے چلانے کے لئے گھر میں کچھ اصولوں کا ہونا بے حد ضروری ہے۔ اگر ہم اپنی زندگی میں کچھ اصول بنا لیں تو ہر چیز صحیح وقت پر اور صحیح طریقے سے ہوسکے گی۔ آپ کو کتنا خرچ کرنا ہے؟ کیا خریدنا ہے؟ کس وقت اٹھنا ہے؟ کب سونا ہے؟ کہاں کتنی دیر رہنا ہے؟ اس بات کا بھی اگر اصول بنا لیں تو زندگی آسان ہوتی چلی جائے گی۔ ضرورت سے زیادہ خرچ، بے وقت سونا، گھومنا، سیر و تفریح، ہر چیز کے لئے ایک اصول بنانا بے حد ضروری ہے۔ اس کے ساتھ ہی زندگی کو آسان اور خوشگوار بنانے کے لئے گھر میں دینی تعلیم کا بھی ماحول اور اصول بنایا جانا چاہئے۔ گھر کے نظام میں اصولوں کو اگر اپنایا جائے گا تو بچوں کی تعلیم و تربیت پر بھی اس کا اثر دیکھنے کو ملے گا۔ شروع میں اصول کو نبھانا یا ان کے پابند ہونا بھلے ہی سخت معلوم دے لیکن جیسے وقت گزرے گا یہ اصول زندگی میں کام آنے کے لئے ضروری محسوس ہونے لگیں گے۔ ایک طے شدہ اصول کے تحت کام کرنے کے بعد بچے بھی پابند ہو کر کام کرنے کے لئے شروع سے ہی کوشاں رہیں گے لیکن اس بات کا خیال رکھا جائے کہ اصول گھر کے ہر شخص کے لئے برابر ہوں اور اس میں یکسانیت بھی ہو۔ ہم اپنے آس پاس بھی بہت سے گھر اور خاندان میں ایسا دیکھا ہے کہ بہت ہی بہترین عورتیں جو اصول کی پابند ہیں۔ وہ کم آمدنی میں بھی بہترین گھر کو چلا کر ایک نمایاں مثال پیش کرتی ہیں۔ وہیں دوسری جانب ایسے بھی لوگ ہیں جو بغیر اصولوں کی زندگی گزار کر بہت سا پیسہ ہونے کے باوجود بھی خرچ پورے نہیں کر پاتے ہیں۔ اس لئے زندگی میں اصول ہونا چاہئے جو آپ کیلئے آسانیاں پیدا کریں اور ایک کامیاب اور خوشگوار زندگی کی راہ کو ہموار کریں۔
جویریہ طارق (سنبھل، یوپی)
ایک دوسرے کا احترام
گھر کا نظم چلانے کے لئے سب سے ضروری ہے کہ ہر شخص ایک دوسرے کا احترام کریں۔ ایک دوسرے کی رائے قبول کریں۔ اگر نااتفاقی ہے تو اس بارے میں سبھی سے بات کریں۔ یہ طریقہ اپنانے سے اختلاف سے بچا جاسکتا ہے۔
بنت احمد (ممبئی)
ذمہ داریوں کا احساس


گھر کا نظم چلانا ایک اہم ذمہ داری ہے۔ اسے چلانے کیلئے منضبط دستور العمل کا ہونا از حد ضروری ہے۔ اگر منظم دستور العمل ہوگا تو امیر خانہ گھر کے نظام کو بہت اچھے طریقے سے چلا سکتے ہیں۔ گھر کے نظم کو چلانے کیلئے یہ نکات مؤثر ثابت ہوسکتے ہیں۔ دینی امور کی وقت پر ادائیگی: گھر میں خوشحالی اور برکت کیلئے ہماری ترجیحات دینی امور کی اول وقت میں ادائیگی ہونی چاہئے۔ جس میں نماز اور تلاوتِ قرآن شامل ہیں۔ خیر سگالی کے کلمات: ایک دوسرے کے ساتھ بات چیت کے دوران خیر سگالی کے کلمات ادا کرنا چاہئے۔ مثال کے طور پر شکریہ، برائے مہربانی، معذرت وغیرہ۔ ایک دوسرے کا خیال رکھنا: امیر/ ذمہ دار خاندان اور افراد خانہ کو چاہئے کہ وہ ایک دوسرے کے جذبات، احساسات اور خواہشات کا خیال رکھیں۔ ذمہ داریوں کا احساس: گھر کے ہر فرد کو اپنی ذمہ داریوں کا احساس ہونا ازحد ضروری ہے۔ ذمہ داریوں کا احساس ہوگا تو کسی کو کسی سے شکایت نہیں ہوگی۔ مثبت نقطۂ نظر: ہر حالت میں مثبت نقطۂ نظر کے اصول پر عمل کرنا چاہئے اس سے پریشانیاں کم ہوگی، ایک دوسرے کو سمجھنے میں آسانی ہوگی اور مسائل کا حل بھی نکل آئے گا۔ فضول خرچی سے احتراز: امیر خانہ اور افراد خانہ کیلئے ضروری ہے کہ وہ فضول خرچی سے احتراز کریں اور کفایت شعاری کو اپنائیں۔ باہمی تعاون کا جذبہ: باہمی تعاون کا جذبہ ہوگا تو باہمی ربط بڑھے گا اور غلط فہمی کے مواقع بہت ہی کم ہوں گے۔ حلال کمائی: اگر رزق حلال کمایا جائیگا تو گھر میں برکت ہی برکت ہوگی۔ ہم سمجھداری، سلیقہ شعاری اور نظم وضبط سے اپنے گھر کو رہنے کی سب سے بہترین جگہ بناسکتے ہیں۔ اپنی فہم وفراست اور تدبر سے کم وسائل کے ساتھ بھی خوشحال زندگی گزار سکتے ہیں۔
نکہت انجم ناظم الدین (جلگاؤں، مہاراشٹر)
بہتر نظم و ضبط
مکان کو گھر بنانے کا کام ہم صنف نازک کی ذمہ داری سمجھی جاتی ہے کیونکہ امور خانہ داری اور عورتوں کا چولی دامن کا ساتھ ہے۔ گھر کے نظم کو بہتر طریقے سے چلانے کے لئے سب سے پہلے منصوبہ بندی ضروری ہے۔ کچن سے لے کر دہلیز تک مختلف کام ہوتے ہیں جنہیں صحیح طور سے کرنے کے لئے گھر کے ہر افراد کا منفرد رول ہونا چاہئے۔ گھر میں بڑوں سے لے کر بچوں کے آنے جانے کے اوقات، گھر کے سودا سلف، کپڑے، جوتے چپل، بچوں کی پڑھائی وغیرہ ہر چھوٹی بڑی چیزوں میں مطابقت ضروری ہے۔ شادی بیاہ، بیماری بچوں کی تعطیلات، مہمانوں کی آمد پر کام میں زیادتی ہو جاتی ہے اس لحاظ سے گھر کے نظم میں تبدیلی ممکن ہے۔ ہفتے کے پکوان کی لسٹ بناتے وقت گھر کے بچوں اور بزرگوں کی پسند کا خاص خیال رکھنا چاہئے۔ کچن کے چھوٹے کاموں میں بچوں سے مدد لینا چاہئے اس سے ان میں کام کے تحت دلچسپی پیدا ہوتی ہے اور ان میں ذمہ داری کا احساس ہوتا ہے۔ اس لئے کہتے ہیں بہتر نظم و ضبط سے گھر جنت کا گہوارہ بن جاتا ہے۔
شیخ صافیہ ریاض احمد (بھیونڈی، تھانے)
مساوات


ذمہ داری حق تعالیٰ کی عطا کردہ نعمت ہے۔ اس کو حقیقی محل میں استعمال کرنے کا نام شکر ہے اور بے محل استعمال کرنے کا نام کفرانِ نعمت ہے۔ گھر کے نظام کو احسن طریقے سے چلانے کیلئے ضروری چیز مساوات ہے۔ حضورؐ نے فرمایا: ’’تحائف اور ہدایہ کی تقسیم میں اپنی اولاد میں برابری رکھو۔‘‘ گھر کے منتظم کیلئے ضروری ہے کہ گھر کے نظام کو ایک جامع اصول کے تحت چلائے اور ان کی دین و دنیا کی فلاح کیلئے مساوی حقوق، ماحول اور مواقع فراہم ہوں۔
رخسانہ (علی گڑھ، یوپی)
اخلاقی تربیت


یہ حقیقت ہے کہ بغیر نظم و ضبط کے ایک چھوٹا سا ادارہ بھی کامیابی سے نہیں چلایا جا سکتا، گھر تو اس کارخانۂ ہستی میں اہم اورکلیدی حیثیت رکھنے والا جز ہے لہٰذا اس کا نظم چلانے کے کچھ اخلاقی، معاشی اور انتظامی قاعدے ہونے ضروری ہیں۔ اخلاقیات کی تعمیر و ترقی کے نقطۂ نظر سے گھر کے سربراہوں کی اولین ذمہ داری ہے کہ ہر حال میں گھر کے ماحول کو پُرامن اور دوستانہ بنائے رکھیں۔ تہذیب اور تمیز و ادب کے قوانین کی خود پاسداری کریں تو ہی اپنے ماتحت افراد خانہ سے اس کی اُمید رکھی جا سکتی ہے۔ گھر کے تمام افراد محنت، سچائی، ایمانداری، غم خواری، ایثار و محبت جیسے زرین اطوار و عادات کے خوگر ہوں، اس کی کوشش ضرور کریں۔ گھر کا نظم بہتر چلانے میں مالی وسائل، آمدنی و خرچ میں توازن اور کفایت شعاری جیسے عناصر کا بڑا حصہ ہوتا ہے۔ گھریلو مالیات کا یہ شعبہ عموماً خاتونِ خانہ کے سپرد ہوتا ہے، اسے خوش اسلوبی سے چلانے کا ایک کارگر نسخہ یہی ہے کہ اخراجات ہمیشہ ضروریات کی حد میں رہیں اور کسی بھی حال میں آمدنی سے تجاوز نہ ہونے پائیں، متوازن بجٹ کی پاسداری اور کفایت شعاری کے تحت نہ صرف غیر ضروری اخراجات کو قابو کیا جاسکتا ہے بلکہ بلاوجہ قرضوں کے بوجھ سے بھی بچا جا سکتا ہے۔ گھروں میں باہمی احترام اور خیر خواہی کا ماحول ہو۔ سر پرست اور بزرگ غیر ضروری روک ٹوک، نکتہ چینی اور بے جا توقعات سے پرہیز کریں کہ حاکمانہ رویے گھر کا ماحول مکدر کر دیتے ہیں اور دلوں کی تلخی رشتوں کی خرابی کا سبب بن کر ایک فرد کو دوسرے فرد سے متنفر کر دیتی ہے۔ سب سے اہم اور ضروری امر بچوں کی دینی تعلیمی اور اخلاقی تربیت ہے، اس میں بھی کوئی کوتاہی اور خامی نہ رہنے پائے۔ گھر میں رہنے والے تمام افراد اور رشتوں کو اُن کی عمر اور مرتبے کے مطابق عزت اور اہمیت دی جانی ضروری ہے تاکہ ہم ایک مہذب خاندان اور پرسکون گھر میں زندگی بسر کر سکیں۔
خالدہ فوڈکر (ممبئی)
ایک وقت کا کھانا ساتھ کھائیں


کسی بھی کام کو منظم اور مستحکم طریقے سے کرنے کے لئے نظم و ضبط اور اصول و ضوابط بڑے ہی کارآمد و کارگر ثابت ہوتے ہیں۔ وقت کی پابندی: وقت پر اٹھنا، وقت پر سونا، وقت پر کھانا اور وقت پر پڑھائی کرنا، جیسی عادتوں کو اپنی زندگی میں شامل کرنے سے کافی وقت برباد ہونے سے بچ جاتا ہے۔ وقت کے غیر ضروری استعمال سے بچا جا سکتا ہے۔ منصوبہ بندی: کس کام کے لئے کتنا وقت درکار ہوگا؟ کون سا کام کب کرنا ہے؟ ان اصولوں کو ذاتی زندگی میں شامل کرکے اپنے گھر کو بہترین طریقے سے چلایا جا سکتا ہے۔ منصوبہ بندی کے ذریعے کام کر نے کی عادت سے زندگی میں ٹھہراؤ آتا ہے اور شخصیت میں نکھار پیدا ہوتا ہے۔ بچوں کے ساتھ رویہ: بچوں کے ساتھ خوش مزاج رویہ اپنانا۔ اس بات کو دھیان میں رکھنا کہ کب سخت مزاجی سے کام لینا ہے۔ اس کے علاوہ مناسب ہے کہ کوشش کی جائے کہ نارمل برتاؤ کیا جائے جس سے بچوں کی زندگی میں ہونے والے رد عمل سے ہم واقف ہوں۔ ایسا کرنے سے والدین اور بچوں کے درمیان تعلقات استوار رہتے ہیں اور بچے اپنی باتیں ہچکچائے بغیر والدین سے کہہ پاتے ہیں۔ اس کے علاوہ دن بھر میں کم سے کم ایک مرتبہ سب ساتھ میں کھانا کھائیں جس سے اپنائیت اور محبت کا جذبہ پروان چڑھے۔ ایک مثالی خاندان بنے اور گھر کے ماحول پرسکون و خوشگوار رہے۔ یہ کچھ اصول ہیں جن کو میں نے اپنی زندگی میں شامل کیا ہے جس سے میں اپنے گھر کو منظم طریقے سے چلانے میں کامیاب رہی ہوں، الحمدللہ!
مومن رضوانہ محمد شاہد (ممبرا، تھانے)
وقت کی مناسب تقسیم 
بہتر اور منظم معاشرے کی تشکیل میں گھر ایک اہم ادارہ ہے۔ گھر مرد اور عورت مل کر چلاتے ہیں، اس لئے دونوں کی ذمہ داریاں بھی مختلف ہوتی ہے۔ دونوں کے برتاؤ، مزاج اور سوچ کا اثر گھریلو زندگی پر ہوتا ہے۔ عام طور پر مرد حاکمیت پسند ہوتے ہیں۔ وہیں عورت حساسیت کا نازک آئینہ، ایسے میں دونوں فریقین کو چاہئے کہ وہ نرم مزاجی، فراخ دلی، اپنائیت اور چھوٹی چھوٹی باتوں کو نظر انداز کرتے ہوئےگھر کی بھاگ دوڑ سنبھالیں۔ گھر کا نظم چلاتے ہوئے ہمیں وقت کی مناسب تقسیم کرنا چاہئے۔ گھر زیادہ توجہ کا مرکز ہونا چاہئے۔ گھر اور ملازمت میں توازن برقرار نہ رکھنے کی صورت میں گھریلو زندگی براه راست متاثر ہوتی ہے۔ رشتے محبت، ربط باہمی اور احترام کے احساس تلے پھلتے پھولتے ہیں۔ سماجی ماہرین کے مطابق ایک دوسرے کے ساتھ زیادہ وقت گزارنے سے سمجھوتے کی صلاحیت میں اضافہ ہوتا ہے۔ تفریحی مقامات پر جانا، خاندان والوں کے ساتھ وقت گزارنا، یہ ایسے لمحے ہیں جو خاندان کو ذہنی و جذباتی طور پر ایک دوسرے کے قریب لے کر آتے ہیں۔ یہ حقیقت ہے کہ رشتوں و رابطوں کو فعال کرنے میں گفتگو کا عمل دخل اہم ہوتا ہے۔ گفتگو میں سمجھ، برداشت اور تحمل تعلق کو جوڑے رکھنے میں معاون ہو تے ہیں۔ بے جا نکتہ چینی، غیر منطقی سوچ اور غیر حقیقت پسندانہ رویے بات کی اہمیت کو غیر مؤثر بنا دیتے ہیں۔ اچھی اور مثبت گفتگو بہترین زندگی کا عکس کہلاتی ہے۔ زندگی کا بہتر معیار بھی لفظوں کے بہترین چناؤ پر انحصار کرتا ہے۔ ساتھ ہی اظہارِ رائے کی آزادی بھی رشتوں کو اعتماد بخشتی ہے۔ اس طرح چند باتوں پر عمل کرکے ایک بہتر گھریلو زندگی گزاری جا سکتی ہے۔
فردوس انجم ( بلڈانہ، مہاراشٹر)
اتحاد کی قوت
اتحاد ایک ایسی قوت ہے جو انسان کیا جانوروں میں بھی پائی جاتی ہے۔ ہاتھی اپنے غول کے ساتھ، ہرن اپنےغول کے ساتھ، حتیٰ کہ سبھی جانور اپنے اپنے غول کے ساتھ چلتے ہیں تاکہ انہیں کسی دشمن کا سامنا پڑے توسب مل کر اس ٘پر حملہ آور ہوں اور اپنا بچاؤ کر سکیں۔ یہ ایک اتحاد کی قوت ہوتی ہے جو ان کی حفاظت کا ذریعہ بنتی ہے۔ اللہ تعالیٰ نے ہر ذی روح کو یہ صفت عطا کی ہے لیکن ایک انسان ہے جو اس صفت سے دور ہوتا جارہا ہے۔ پہلے ایک خاندان متحد ہوکر رہتا تھا۔ ایک دوسرے کے ساتھ رہتے تھے۔ ایک دوسرے کا خیال رکھتے تھے مگر جوں جوں زمانہ ترقی کرتا گیا اور معاشی ضرورتوں کے خاطر لوگ اپنےوطن سے دوسری جگہ جاتے رہے اور نیوکلیئر فیملی کا رجحان بڑھتا گیا۔ اب صرف رسم و رواج کی وجہ سے رابطہ بنا رہتا ہے۔ ان کے ذریعہ ہی ہم فیملی کو جوڑے رہتے ہیں۔ البتہ قوت برداشت ختم ہوتی جا رہی ہے۔ لوگ دل میں خلش بٹھا لیتے ہیں جس کی وجہ شیطانیاں کو متحد رکھنا بڑا ہی مشکل ہوگیا ہے بلکہ ناممکن ہوتا جا رہا ہے پھر بھی نفرت کو مٹانے کیلئے محبت ضروری ہے۔ محبت ایسا تریاق ہے جو نفرتوں کے زہر کو مٹا کر اتحاد قائم کرسکتا ہے اس کیلئے ہمیں ایثار اور قربانی کا جذبہ اور معاف کرنے کا جذبہ پیدا کرنا ہوگا۔ معافی ایک صفت ہے۔ اگر ہم معاف کرنے کا شعار بنا لیں اور ہر کسی کو معاف کرتے جائیں تو خاندان کو جوڑنا اور اتحاد پیدا کرنا ممکن اور آسان ہو جائے گا۔
مومنہ خاتون (علی گڑھ، یوپی)
وقت کی پابندی


کوئی بھی کام وقت کی پابندی سے ہو تو وہ بہتر سے بہتر کیا جاسکتا ہے اور یہ اصول گھر کے بڑوں کی وجہ سے مکمل ہو پاتے ہیں۔ گھروں میں زیادہ تر خواتین کے اصول ہی چلتے ہیں اس لئے خواتین کی ذمےداری بھی زیادہ ہوتی ہے کہ وہ گھر کے ہر فرد کا خیال رکھیں اور ہر کام وقت پر کریں۔ صبح فجر سے رات کے سونے تک کے کاموں کی فہرست بنائیں۔ ایسا کرنے سے وقت بچتا ہے اور دوسرے كام بھی کرسکتے ہیں۔ مختصراً یہ کہ وقت کی کمی محسوس نہیں ہوگی۔ کم وقت میں بہتر کام انجام دینے سے کئی کام ممکن ہوجاتے ہیں۔
شاہدہ وارثیہ (وسئی، پال گھر)
اسراف سے بچیں


گھر کے مکینوں سے گھر کی رونق اور چند اصولوں پر کاربند رہنے سے گھر جنت کا گہوارہ بن سکتا ہے۔ مہینہ کے اوائل میں ہی بجٹ بنا لیں۔ ضروری اشیاء اور اہم بل کی ادائیگی کا حساب رکھیں تاکہ ماہ کے آخری ایام کی پریشانی سے بچا جاسکے۔ مہمانوں کے آنے پر کبھی منہ نہ بنے، وہ برکت کا انبار لے کر آتے ہیں اور ہمارے مصائب رخصت کر جاتے ہیں (حدیث)۔ مہمانوں کی خاطر مدارت کے لئے گھر میں ہی اشیاء خورد و نوش بنا کر فریز کردیں، اس سے کم خرچ میں ذائقہ دار چیزیں بن سکتی ہیں اور تعریف سمیٹنے کا موقع میسر ہو گا۔ فجر کی نماز گھر کے ہر فرد پر لازم کر لیں تا کہ برکتوں کا نزول ہوں۔ ہفتے میں صرف ایک ہی بار باہر سے کھانا آرڈر کیا جائے، اسراف سے بچیں۔ گھریلو نسخے جیسے کاڑھا، چورن اور دیگر جڑی بوٹی سے ادویات بنا کر رکھیں تاکہ ڈاکٹر کے پاس جانا نہ پڑے۔ کوئی ایک وقت کاکھانا تمام اہل خانہ ساتھ بیٹھ کر ہی کھائیں، اس سے برکت اور آپسی محبت بڑھتی ہے۔ گھر کے نظام کی سب سے اہم کڑی ہے اہل خانہ کی آپسی محبت اور رواداری کا مظاہرہ، ہم خود ان اوصاف کو اپنائیں اور عملی نمونہ پیش کریں تاکہ دوسرے اس کی تقلید کرسکیں۔
رضوانہ رشید انصاری (امبرناتھ، تھانے)
زندگی میں سلیقہ بہت معنی رکھتا ہے 
گھر کی دیکھ بھال ایک مشکل امر ہے لیکن گھر کو جاذب نظر بنائے رکھنے کے لئے یہ ضروری ہے کہ اس کی مناسب دیکھ بھال اور کچھ اصول اپنائے جائیں تاکہ ہم اپنے ساتھ ساتھ اپنے بچوں کو بھی معاشرے کا ذمہ دار فرد بناسکیں۔ (۱) گھر کا ہر فرد نماز کو اس کے وقت پر ادا کرے۔ (۲) گھر کا ہر فرد روزانہ قرآن مجید سے ایک حزب کی تلاوت کرے۔ (۳) گھر میں داخل اور خارج ہوتے ہوئے سلام کریں۔ (۴) مل کر بیٹھتے وقت کسی قسم کی مواصلاتی ڈیوائس ( فون/پیڈ) کا استعمال نہ کریں۔ (۵) جو کوئی بات کرے اسے ٹوکے بغیر سنی جائے اور بات کو درمیان میں سے کوئی نہ کاٹے۔ (۶) اپنے محسوسات اور خیالات کو ادب و احترام اور وضاحت کے ساتھ بتا دیں۔ (۷) والدین اور اپنے سے بڑے کے لئے احتراماً کھڑا ہونا ایک بہترین چیز ہے۔  مزید، گھر کا آنکھوں کو بھلا لگنا ہماری ذہنی و جسمانی صحت کے لئے بے حد مفید ہے۔ لہٰذا گھر میں کپڑوں کا ڈھیر نہ لگنے دیں بلکہ کپڑوں کو سلیقے سے تہ کیجئے اور الماری کے اندر رکھ دیں یا لٹکا دیں۔ کیونکہ زندگی میں سلیقہ بہت معنی رکھتا ہے چاہے وہ بات کرنے کا ہو یا رہن سہن کا۔ مزید اپنے بستر کو بے ترتیب نہ چھوڑیں کیونکہ بے ترتیب بستر پورے کمرے کا منظر خراب کر دیتا ہے۔ اور اسی طرح گندے برتنوں کو کچن کے سنک میں زیادہ دیر نہ رہنے دیں بلکہ اُن کو فوراً صاف کرنے کی کوشش کریں کیونکہ ایک صاف ستھرا کچن گھر کو پر سکون ماحول فراہم کرنے میں اپنا کردار ادا کرتا ہے۔ اگر یہ سب اصول ہم سب اپنے گھر میں جاری کریں گے تو یقیناً بہت کچھ خوشگوار نظر آئے گا۔ یاد رہے ! سزا جزا یا تادیب جو بھی ہو اس میں آپ بے لچک رہیں اور جو طے کریں اس پر خود بھی عمل کریں اور کروائیں۔
زیبا فاطمہ عطاریہ (امروہہ، یوپی)
آمدنی کے حساب سے خرچ کریں


گھر کا نظام بہتر ہو اس کیلئے کچھ اصول بنانا بیحد ضروری ہے۔ اول تو اپنی آمدنی کا حساب لگائیں اور ہر مہینے کا بجٹ بنائیں، جو ایسا ہو جس سے آمدنی سے کم خرچ ہو اور کچھ پیسہ بچا کر رکھا جائے جس سے آگے چل کر وبا یا کوئی بھی پریشانی آئے تو آپ خود ہی اس سے نپٹ سکیں اور آپ کو کسی کے آگے ہاتھ نہ پھیلانا پڑے۔ بازار جائیں تو کبھی غیر ضروری سامان کی طرف توجہ نہ دیں نہ ہی سیل وغیرہ کے چکر میں پڑے تو فضول خرچ نہیں ہوگا۔ جتنی چادر ہو اتنے ہی پیر پھیلائیں۔ کسی کی برابری نہ کریں نہ ہی دکھاوے کے چکر میں پڑے۔ باہر کے کھانے سے پرہیز کریں جہاں تک ہوسکے گھر کا بنا کھانا ہی کھائیں۔ بچوں کو بھی ہر چیز احتیاط سے استعمال کرنا سکھائیں۔ کوشش کیجئے گھر کے سبھی افراد بنائے گئے اصول پر ہی چلیں تو گھر کا ماحول خوشنما رہیگا۔
ہما انصاری (مولوی گنج لکھنؤ)

اگلے ہفتے کا عنوان: کفایت شعاری ایسے ہوتی ہے۔ اظہار خیال کی خواہشمند خواتین اس موضوع پر دو پیراگراف پر مشتمل اپنی تحریر مع تصویر ارسال کریں۔ وہاٹس ایپ نمبر: 8850489134

متعلقہ خبریں

This website uses cookie or similar technologies, to enhance your browsing experience and provide personalised recommendations. By continuing to use our website, you agree to our Privacy Policy and Cookie Policy. OK