عزت کے ساتھ جینا ہر عورت کا حق ہے اور اس کیلئے ضروری ہے کہ وہ والدین، خاندان، اور معاشرہ سے سپورٹ حاصل کرے۔ عورت کو یہ سمجھنا ہوگا کہ وہ کسی کا بوجھ نہیں بلکہ خاندان اور معاشرے کی ریڑھ کی ہڈی ہے جس کے بنا معاشرہ بیکار ہے۔ خواتین دوسروں کا اعتماد حاصل کرکے اپنی جگہ بنا سکتی ہیں۔
ایک مہذب معاشرے کی پہچان یہ ہے کہ وہ اپنی عورتوں کو محفوظ اور خوشحال زندگی فراہم کرے۔ تصویر: آئی این این
عورت، اللہ تعالیٰ کی وہ تخلیق ہے جس میں محبت، قربانی، اور صبر جیسی صفات بدرجہ اتم پائی جاتی ہیں۔ لیکن حقیقت یہ ہے کہ ہمارے معاشرے میں اسی عورت کو سب سے زیادہ ظلم اور ناانصافی کا سامنا کرنا پڑتا ہے۔ گھریلو تشدد، جو بظاہر ایک خاندانی مسئلہ سمجھا جاتا ہے، درحقیقت ایک معاشرتی بیماری ہے جو نہ صرف عورت بلکہ پورے خاندان کی بنیادوں کو کمزور کر دیتی ہے۔
یہ مسئلہ صرف شوہر کے ظلم تک محدود نہیں بلکہ اکثر گھر کے دیگر افراد بھی دانستہ یا نادانستہ طور پر عورت پر ظلم کرنے میں شامل ہوجاتے ہیں۔ ساس کا تحکمانہ سخت رویہ، نند کی تلخ کلامی، یا دیور کی بےجا مداخلت، یہ سب ایک عورت کی زندگی کو اجیرن بنا سکتے ہیں۔ ہمارے معاشرے میں عورت کو اس قدر مظلوم بنا دیا گیا ہے کہ اسکی آواز اکثر دب کر رہ جاتی ہے۔ ایک عورت، چاہے وہ کتنا ہی بڑا دکھ کیوں نہ سہ رہی ہو، زیادہ تر خاموش رہنے کو ترجیح دیتی ہے، کیونکہ اسے یہ یقین ہوتا ہے کہ اس کی آواز سننے والا کوئی نہیں ہوگا۔
بدقسمتی سے، گھریلو تشدد کے واقعات میں اکثر والدین کا رویہ بھی مایوس کن ہوتا ہے۔ والدین جنہیں اپنی بیٹی کے لئے سب سے بڑا سہارا ہونا چاہئیں، وہی اسے بوجھ سمجھنے لگتے ہیں۔ اگر بیٹی اپنی مظلومیت کی کہانی لے کر والدین کے پاس آتی ہے تو اکثر جواب یہی ملتا ہے کہ ’’بیٹی، گھر بسانا ہے تو سب سہنا پڑے گا‘‘ یا ’’لوگ کیا کہیں گے؟‘‘ یہ رویہ نہ صرف بیٹی کے حوصلے کو توڑ دیتا ہے بلکہ اسے ایک ایسی زندگی جینے پر مجبور کر دیتا ہے جو مسلسل تکلیف دہ اور بے معنی ہو جاتی ہے۔
والدین کو سمجھنا چاہئے کہ بیٹی کو سہارا دینا ان کی ذمہ داری ہے، اور اس کی حفاظت کرنا ان کا فرض ہے۔ اگر ایک بیٹی اپنے شوہر یا سسرال کے ظلم سے پریشان ہو کر اپنے ماں باپ کے پاس آتی ہے، تو اس کا مطلب یہ ہے کہ وہ ان پر بھروسہ کرتی ہے اور ان سے مدد کی توقع رکھتی ہے۔ والدین کا فرض ہے کہ وہ اس کی بات سنیں، اسے تقویت دیں، اور اگر ضرورت ہو تو قانونی مدد حاصل کریں۔ لیکن بدقسمتی یہ ہے کہ بہت سے والدین اپنی بیٹیوں کو اس قدر بوجھ سمجھتے ہیں کہ وہ انہیں دوبارہ اسی جہنم میں دھکیل دیتے ہیں، یہ سوچ کر کہ یہ مسئلہ ان کا نہیں بلکہ بیٹی کا نصیب ہے۔
یہ بات بھی بہت عام ہے کہ گھریلو تشدد صرف جسمانی اذیت تک محدود نہیں ہوتا۔ یہ جذباتی اور نفسیاتی اذیت کی صورت میں بھی عورت کی زندگی کو برباد کر دیتا ہے۔ شوہر کی سختی، سسرال کی باتیں، ماں باپ کی بے فکری سب مل کر ایک عورت کو اس حد تک توڑ دیتے ہیں کہ وہ یا تو خاموشی سے یہ ظلم سہتی رہتی ہے یا پھر موت کو گلے لگا لیتی ہے۔ یہ وہ مقام ہے جہاں معاشرہ، خاندان، اور والدین سب کی ناکامی واضح ہو جاتی ہے۔ اور ان سب کا سب سے برا اثر بچوں پر پڑتا ہے جس کا سامنا بھی ایک عورت کو کرنا پڑتا ہے۔
اس کا حل کیا ہو سکتا ہے؟ ایک پڑھی لکھی اور حوصلہ مند عورت ہی اس صورتحال کا مقابلہ کرسکتی ہے۔ تعلیم اور علم، عورت کو شعور دیتا ہے کہ وہ اپنے حقوق کو پہچانے اور ان کے لئے لڑ سکے۔ لیکن صرف تعلیم ہی کافی نہیں، عورت کو یہ ہمت اور حوصلہ بھی چاہئے کہ وہ اپنی زندگی کے فیصلے خود لے سکے۔ اس کے لئے ضروری ہے کہ والدین اپنی بیٹیوں کو مضبوط بنائیں، انہیں اعتماد دیں اور یہ یقین دلائیں کہ وہ اکیلی نہیں ہیں۔ اگر والدین اپنی بیٹی کو اس کے حق کے لئے کھڑا ہونے کا سبق دیں اور ہر حال میں اس کے ساتھ کھڑے ہوں، تو کوئی بھی عورت ظلم کے آگے جھکنے کے بجائے مقابلہ کرے گی۔
معاشرے کو بھی اپنی سوچ بدلنی ہوگی۔ عورت کو کمزور سمجھنا چھوڑنا ہوگا اور اس کے ساتھ برابری کا سلوک کرنا ہوگا۔ صرف قانون بنانے سے مسئلہ حل نہیں ہوگا بلکہ ان پر عمل بھی کرنا ہوگا اور لوگوں کی ذہنیت کو بدلنے کی بھی ضرورت ہے۔ ہر عورت کو یہ حق حاصل ہے کہ وہ عزت کے ساتھ جئے، اور اس کیلئے ضروری ہے کہ والدین، خاندان، اور معاشرہ اس کے حق میں کھڑے ہوں۔ عورت کو یہ سمجھنا ہوگا کہ وہ کسی کا بوجھ نہیں بلکہ خاندان اور معاشرے کی ریڑھ کی ہڈی ہے۔ جس کے بنا معاشرہ بیکار ہے۔ اُسے مضبوطی کے ساتھ سب کا سامنا کرنا ہوگا۔
جب والدین اپنی بیٹیوں کو سہارا دیں گے، معاشرہ ان کا ساتھ دے گا اور عورت خود اپنی طاقت پہچانے گی، تب ہی گھریلو تشدد کا خاتمہ ممکن ہوگا۔ ظلم کے خلاف خاموشی ایک جرم ہے، اور اس جرم کو ختم کرنے کے لئے ضروری ہے کہ ہر عورت اور ہر والدین اپنی ذمہ داری کو سمجھیں اور اسے ادا کریں۔ تبھی ایک بہتر اور محفوظ معاشرے کی بنیاد رکھی جاسکتی ہے۔ عورت کی عزت، اس کا حق ہے۔ اور ایک مہذب معاشرے کی پہچان یہ ہے کہ وہ اپنی عورتوں کو محفوظ اور خوشحال زندگی فراہم کرے۔ ہمیں یہ یاد رکھنا چاہئے کہ عورت کا تحفظ اور عزت نہ صرف ایک خاندان بلکہ پورے معاشرے کی ترقی کا ذمہ دار ہے۔ اس لئے پورے معاشرے کو مل کر اس پر کام کرنا ہوگا۔