بچپن، کتابوں، خوابوں، قہقہوں اور معصوم سوالوں کی دنیا ہے، یہ مقابلہ، دکھاوا اور فالوورز کی دوڑ نہیں ہے۔ ہمیں چاہئے کہ ہم ایسا ماحول بنائیں جس میں ہمارے بچے علم، محبت اور سچائی کی روشنی میں کھل سکیں۔ آئیے! بچوں کو سوشل میڈیا کے بجائے حقیقی دُنیا سے روشناس کروائیں تاکہ اُن کا مستقبل سنور جائے۔
بچوں کو سوشل میڈیا کے خطرات سے آگاہ کریں اور آن لائن سیفٹی کی اہمیت بتائیں۔ تصویر: آئی این این
آج کی تیز رفتار ڈجیٹل دنیا نے بچوں کے سیکھنے، بڑھنے اور سماج سے جڑنے کے طریقے کو یکسر بدل دیا ہے۔ ٹیکنالوجی اور سوشل میڈیا نے جہاں ترقی کے نئے دروازے کھولے ہیں، وہیں اس نے ہمارے معصوم بچوں، خصوصاً ننھی بچیوں کیلئے ایسی ان دیکھی راہیں بھی بنائی ہیں جو انہیں قبل از وقت جوانی کی جھوٹی چمک دمک اور بناوٹی دنیا کے اندھیروں میں دھکیل رہی ہیں۔ آج ہمارے اسکولوں اور گھروں میں یہ المیہ روز روشن کی طرح نظر آ رہا ہے کہ چوتھی، پانچویں جماعت کی ننھی بچیاں، جن کے ہاتھوں میں کتابیں ہونی چاہئیں، جن کے خوابوں میں رنگین تتلیاں اور مسکراہٹوں بھری معصوم دنیا ہونی چاہئے، وہ سوشل میڈیا کی چکاچوند دنیا کی قیدی بنتی جا رہی ہیں۔ اُن کا دل اب علم و تحقیق کی پیاس سے نہیں بلکہ لائکس، فالوورز اور بناوٹی تعریفوں کی بھوک سے لبریز ہے۔ بچپن کی وہ معصومیت، جو کبھی تجسس اور سیکھنے کے جذبے سے جگمگایا کرتی تھی، اب سوشل میڈیا کی مصنوعی روشنیوں میں مدھم پڑتی جا رہی ہے۔ ان کی نگاہوں میں خوابوں کے بجائے ’ٹرینڈز‘ کا عکس، کتابوں کی جگہ فون کی اسکرین اور دوستوں کی مسکراہٹ کی جگہ سیلفیز اور لائکس نے لے لی ہے۔ یہ مسئلہ صرف کسی ایک بچے یا کسی ایک گھر کا نہیں بلکہ یہ پورے سماج کی بے حسی، لاپروائی اور غفلت کا سنگین نتیجہ ہے جو ایک سنجیدہ غور و فکر اور عمل کا تقاضا کرتا ہے۔
وجوہات:
سوشل میڈیا کا بڑھتا ہوا زہر: سوشل میڈیا، جسے علم، محبت اور ربط قائم کرنے کیلئے تخلیق کیا گیا تھا، آج معصوم ذہنوں پر ایک ایسا نقاب ڈال رہا ہے جو انہیں خودی، سچائی اور اصل زندگی سے بیگانہ کر رہا ہے۔ ننھی بچیاں اپنی قدر و قیمت کو لائکس اور کمنٹس کی تعداد سے ناپنے لگی ہیں۔ ان کی مسکراہٹیں اب اصلی نہیں بلکہ ’فلٹرز‘ کے پیچھے چھپ چکی ہیں۔
قبل از وقت رشتوں کی دنیا سے آشنائی: آج کل فلموں، سوشل میڈیا اور ہم عمروں کی گفتگو نے بچپن کی سرحدوں کو مسمار کر دیا ہے۔ جن باتوں کی سمجھ کبھی بلوغت کے بعد آتی تھی، وہ ننھے ذہن اب ان پر بات کرتے اور سوچتے نظر آتے ہیں، اور جذباتی ناپختگی ان کے اندر بے چینی، اضطراب اور الجھن پیدا کر رہی ہے۔
ڈجیٹل مواد اور ہم عمر دباؤ: بچپن میں جو دل کتابوں، کہانیوں اور کھیلوں کی دنیا میں کھویا رہتا تھا، وہ آج یوٹیوب، انسٹاگرام اور دیگر ڈجیٹل پلیٹ فارمز پر فیشن، مصنوعی حسن اور مادہ پرستی کے جھوٹے خواب دیکھنے میں الجھ چکا ہے۔ ’’اگر سب کر رہے ہیں تو ہم کیوں پیچھے رہیں؟‘‘ ایک ایسی زنجیر بن چکا ہے جو ان کی معصومیت کو جکڑ رہا ہے۔
ڈجیٹل شعور اور اخلاقی تعلیم کا فقدان: اسکولوں میں نصاب کی کتابیں تو پڑھائی جاتی ہیں لیکن زندگی گزارنے کا فن، آن لائن دنیا کی حقیقت اور خود اعتمادی کی تربیت، یہ سب کہیں گم ہوگیا ہے۔ سوشل میڈیا کی چمک نے دلوں سے اصل قدر و قیمت کی پہچان چھین لی ہے۔
قبل از وقت دلچسپیوں کے سنگین نتائج
جذباتی اور ذہنی صحت کی بربادی: جب معصوم ذہن خود کو سوشل میڈیا کے پیمانے پر تولنے لگے تو مایوسی، بےچینی اور احساس کمتری ان کی روح کو دیمک کی طرح چاٹنے لگتی ہے۔
آن لائن خطرات کا بڑھتا ہوا جال: معصوم دل جب بغیر رہنمائی کے سوشل میڈیا کی دنیا میں قدم رکھتے ہیں تو نادانی میں اپنی نجی زندگی، جذبات اور شناخت ان لوگوں کے ہاتھوں میں سونپ دیتے ہیں جن کے ارادے اکثر ناپاک ہوتے ہیں۔
عملی حل:
والدین، خاص طور پر ماؤں کی رہنمائی اور ڈجیٹل شعور کی سخت ضرورت ہے۔
بچوں کے ساتھ سوشل میڈیا پر کھل کر بات کریں، دوست بنیں، ’جج‘ نہ کریں۔
اسکرین ٹائم کی حد مقرر کریں لیکن مکمل پابندی سے نہیں بلکہ سمجھداری سے۔
اعتماد پیدا کریں، خوف نہیں۔
بچوں کو سکھائیں کہ ان کی اصل قدر و قیمت لائکس یا فالوورز سے نہیں بلکہ ان کے علم، اخلاق اور ہمدردی سے جانی جاتی ہے۔
آن لائن سیفٹی اور میڈیا کے اثرات پر ورکشاپس میں شرکت کرنے دیں۔
خود اعتمادی، شخصیت سازی اور حقیقی دنیا کی رشتوں کی اہمیت سکھائیں۔
تعمیری مشغلے کی حوصلہ افزائی کی جائے۔
کھیل، کتابیں، فنون لطیفہ، تقریری مقابلے اور ٹیم ورک پر مبنی سرگرمیاں بچوں کی اصل شخصیت کو نکھارتی ہیں۔
گھر میں محبت اور کھلے دل کا ماحول
بچوں کو ایسا گھر دیں جہاں وہ اپنے دل کی بات بلا خوف کر سکیں۔
ان کے جذبات کی عزت کریں، انہیں سنا جائے، سمجھا جائے۔