گزشتہ ہفتے مذکورہ بالا عنوان دیتے ہوئے ہم نے ’’اوڑھنی‘‘ کی قارئین سے گزارش کی تھی کہ اِس موضوع پر اظہارِ خیال فرمائیں۔ باعث مسرت ہے کہ ہمیں کئی خواتین کی تحریریں موصول ہوئیں۔ ان میں سے چند حاضر خدمت ہیں۔
EPAPER
Updated: August 29, 2024, 2:29 PM IST | Saaima Shaikh | Mumbai
گزشتہ ہفتے مذکورہ بالا عنوان دیتے ہوئے ہم نے ’’اوڑھنی‘‘ کی قارئین سے گزارش کی تھی کہ اِس موضوع پر اظہارِ خیال فرمائیں۔ باعث مسرت ہے کہ ہمیں کئی خواتین کی تحریریں موصول ہوئیں۔ ان میں سے چند حاضر خدمت ہیں۔
کچھ عادتیں ذہنی کوفت اور پریشانی کا باعث ہیں
ہر انسان مُتضاد جذبات، عادات اور خصائل کا مجموعہ ہے۔ بہترین اطوار کے حامل انسانوں میں بھی کوئی نہ بشری کمزوری پائی جاتی ہے۔ کُچھ عادتیں ایسی ہوتی ہیں جو ہمارے معمولات کا حِصّہ بن کر ہماری فطرتِ ثانیہ میں بدل جاتی ہیں اور اس وجہ سے وہ ہماری دانست میں بُری نہیں رہتیں۔ مثلاً اپنے گھروں میں ٹی وی یا دوسرے آلات کو تیز آواز میں استعمال کرنا، دروازوں پر زور سے دستک دینا، ہمسایوں کے گھروں کے سامنے شور شرابہ کرنا، راہ چلتے ہوئے راستوں اور زینوں پرتھُوکنایا کچرا پھینکنا، غلط جگہ پارکنگ کرنا اور راستوں پر کھیلنا، تہواروں اور تقریبات میں عوامی گُزر گاہوں کو بند کرنا، شور شرابہ اور دیگر خرافات کرنا، دورانِ سفر ساتھی مُسافروں کا خیال نہ کرنا، بلا اجازت کسی کی ذاتی چیز کو استعمال کرنا اور ازراہِ مذاق کسی کو بُرے القاب سے پُکارنا وغیرہ یہ سب ایسی عادتیں ہیں جنہیں عام طور پر بُرا نہیں سمجھا جاتا۔ یہ تربیت کی چھوٹی چھوٹی خامیاں ہیں ۔ ان کی وجہ سےکسی کو کوئی بڑا جسمانی یا مالی نُقصان نہ ہوتا ہو مگر یہ عادتیں دوسروں کیلئےبے سکونی، ذہنی کوفت اور پریشانی کا باعث بہرحال ہوسکتی ہیں۔ بہت مُمکن ہے کہ ان میں سے چند یا بہتیری عادتیں ہم میں بھی ہوں، ہماری ایسی عادتوں پر کسی نے ازراہِ مُروّت و لحاظ ہمیں کبھی ٹوکا نہ ہو یا درگُزر کردیا ہو مگر دیر آ ید دُرست آید کے مصداق جب کبھی اپنی غلطی یا کوتاہی کا احساس ہوجائے تو معذرت کرنے اور اصلاح کرنے میں نہ تو ہم دیر کریں اور نہ ہی اپنی ہتک سمجھ کر اسےانا کا مسئلہ بنائیں کیونکہ ہم اگر اپنے لئے دوسروں سے بھلائی اور ادب و تمیز کی توقع رکھتے ہیں تو بدلے میں ہمیں بھی اُنکے جذبات و احساسات کا خیال رکھنا ضروری ہے۔ حقیقی اسلامی معاشرہ بھی وہی ہے جہاں سب ایک دوسرے کا خیال رکھیں، اپنی بُری عادتوں سےکسی کو تکلیف نہ دیں ۔ باہمی تعلقات ملنساری، حُسنِ اخلاق اور خیر خواہی پر استوار کریں۔
خالِدہ فوڈکر (ممبئی)
غصے میں آکر بد زبانی سے بچیں
بعض اوقات ہم اپنے حالات اور خیالات سے پریشان ہو جاتے ہیں اور اس درمیان ہمیں بات بات میں غصہ آنے لگتا ہے اور ہم کسی سے بھی الجھ جاتے ہیں اور اس سے بدزبانی کرنے لگتےہیں ۔ اس درمیان کوئی ہم سے کچھ کہہ دے تو اس پریشانی کی حالت میں ہم اپنے غصہ کو قابو میں نہیں رکھ پاتے اور سامنے بیٹھے انسان پر غصّہ کرنے لگتے ہیں ۔ یہ بھی نہیں دیکھنا چاہتے کہ شاید کوئی ہماری بہتری کیلئے ہمیں اچھی صلاح دے رہا ہے۔ بعض دفعہ ہماری یہ عادت ہمیں شرمندگی محسوس کراتی ہے جس سے ہم اپنا ہی نقصان کر بیٹھتے ہیں۔ ہمیں چاہئے کہ ہم غصّے کو قابو میں رکھیں اور غصّہ آنے پر صبر سے کام لیں۔ اس طرح ہم شرمند ہ ہونے سے بھی بچ جائیں گے۔
گل افشاں ( عثمان آباد)
قول و عمل کے تضاد اور دیگر برائیوں سے بچیں
ہمیں اپنی ہر اس عادت سے اجتناب کرنا چاہئےجس سے کسی دوسرے کو تکلیف پہنچے۔ جیسے کسی کو کچھ ایسا کہہ دینا جس سے اس کی دل آزاری ہو خواہ بات سچ ہی کیوں نہ ہو۔ کسی کی اصلاح کرنا محبت ہے اور کسی کو رسوا کرنا نفرت ہے۔ کسی پر تہمت لگانا بیحد شرمناک عمل ہے۔ کسی کے ساتھ بےوفائی یا دغا کرنا، عہد و پیماں کو توڑنا، اپنے قول و فعل میں تضاد، جھوٹ، لالچ اور عصبیت ایک بے انتہا تکلیف دہ عمل ہے۔ ہمیں ان سے ہر حال میں بچنا چاہئے۔ بہت ممکن ہے کہ ہمارے آس پاس کے لوگ خاص طور سے ہمارے متعلقین اور جاننے والے اس قبیح عمل کو کرنے کیلئے ہمیں بہکائیں لیکن ہمیں چوکنا رہنا ہوگا اور ایسےافراد پر نظر پڑتے ہی لاحول ولاقوۃ الاباللہ پڑھ کر خود کو اللّه کی حفاظت میں پہنچانا ہوگا۔ قول و فعل کا تضاد تو میں نے ایسا دیکھا ہے کہ ایک عالم دین جو خود بھی ایک عظیم الشان سیرت النبی ؐکے پروگرام میں بحیثیت مقرر مدعو تھے اور ہزاروں کی مجلسِ میں موصوف نے عوام سے خطاب کرتےہوئے ہوئے کہا، ’’نبی اکرم صلی اللّہ علیہ وسلم نے فرمایا :راستے میں چھوٹا سا پتھر بلکہ کنکر کا ٹکڑا دیکھو تو فوراً ہٹا دو تاکہ راہگیر، مسافر اور دوسری سواریوں کو آنے جانے میں دشواری نہ ہو۔ تمہارا یہ عمل صدقہ ہوگا۔ ‘‘ جبکہ جائے پروگرام سے باہر سڑک پر اس لئے جام لگا ہوا تھا کہ حضرت جس سواری سے تشریف لائے تھے وہ کوئی چھوٹی سی ماروتی نہیں تھی بلکہ مہندرا کمپنی کی اسکارپیو تھی۔ اب کیا کنکر ہٹانے کی بات عمل میں لائی جائے گی۔
ناز یاسمین سمن (پٹنہ)
ان بری عادتوں سے بچنا ضروری
ایک عام مشاہدے کے مطابق ہر انسان کے اندر چند ایسی بری عادتیں ہوتی ہیں جو اسکی شخصیت کی پہچان بن جاتی ہیں۔ جھوٹ بولنا، تہمت لگانا، نقصان پہنچا نا، کسی پر ظلم و زیادتی کر کے خوش ہونا، پڑوسی کو تکلیف دینا، خفیہ باتیں سن کر فساد برپا کر نااور نہ خود چین سے بیٹھنا نہ کسی کو چین سے جینے دینا، بھی ان کی عادتوں میں شامل ہے۔ قرآن کریم میں آخرت سنوارنے کے ساتھ ساتھ دنیا سنوارنے اور آداب معاشرت کے بھی زریں اصول موجود ہیں۔ انہیں میں سے ایک واضح اصول مسلمان کی عزت کرنا ہے۔ بہتان تراشی، عیب جوئی اور غیبت وغیرہ سے منع فرمایا گیا ہےلیکن آج تو ہم اپنی برائیوں کو بھول کر دوسروں کی عیب جوئی میں لگے رہتے ہیں۔ اللہ تو سب کے عیبوں کو جانتا ہے۔ اگر وہ سب کے سامنے ہمارے عیبوں کو ظاہر کر دے تو ہم کسی کو منہ دکھانے کے قابل نہیں رہ جائیں گے۔ اسی طرح ہم اپنے پڑوسیوں اور جاننے والوں کو ستاتے ہیں اور انہیں تکلیف دیتےہیں ۔ ان کا مذاق بھی اڑاتےہیں جبکہ ایسا کرنے سے سختی سے منع کیا گیا ہے۔ ہمارے نبی اکرمؐ نے ارشاد فرمایا: مسلمان وہ ہے جس کی زبان اور ہاتھ سے دوسرے محفوظ رہیں۔ اللہ ہمیں تمام بری عادتوں سے محفوظ رکھے۔ آمین
ایس خان (اعظم گڑھ)
ان ۵؍ بری عادتوں سے ہر حال میں بچئے
بہت سی عادتیں ایسی ہوسکتی ہیں جن دوسروں کو تکلیف پہنچتی ہے۔ یہاں ۵؍ عادتیں پیش کی جارہی ہیں جن سے ہمیں ہر حال میں بچنا چاہئے۔
۱۔ دوسروں کو تکلیف دےکر اپنا مفاد حاصل کرنا:اللہ کے رسول حضور اکرم صلی للہ علیہ وسلم نے ارشاد فرمایا ہے کہ جو مسلمان اپنے مسلمان بھائی کی حق تلفی کرکے ایک لقمہ بھی کھائے گا تو اللہ تعالیٰ اسے اس کھانے کے برابر جہنم کے انگارے کھلائے گا۔
۲۔ میزبان کے گھر کی چیز استعمال کرنا:اس سے آپ اندازہ لگا ئیں کے شریعت میں کسی دوسرے شخص کی چیز کو استعمال کرنے کے بارے میں کتنی حساسیت پائی جاتی ہے جیسے کہ ہم کہیں مہمان بن کر جائیں اور ہمیں میزبان کی کوئی چیز استعمال کرنی ہے تو استعمال سے پہلے سوچیں کہ میرے اس چیز کے استعمال سے میزبان خوش ہوگا یا اسکے دل کو تکلیف پہنچےگی، ہمارے معاشرے میں یہ چیز عام ہے۔
۳۔ اطلاع کے بغیر کسی کے گھر جانا:اطلاع کے بغیر کسی کے گھر کھانے کے وقت جانا شریعت کے خلاف ہے ۔
۴۔ کسی سے مانگ کر کوئی کی چیز جلدی واپس نہ کرنا:اکثر ہم چیزیں استعمال کیلئے لیتے ہیں لیکن مطلب پورا ہونے کے بعد واپسی میں تاخیر کرتے ہیں۔ اس بارے میں غفلت برتتے ہیں ، ایسا کرنا گناہ ہے۔
۵۔ کتاب لے کرواپس نہ کرنا: یہ ہمارے معاشرے میں یہ بات کہی جاتی ہے کہ کتاب کی چوری، چوری نہیں کہلاتی لہٰذا کسی سے مانگی ہوئی کتاب مطالعہ کے بعد گھر کے کسی کونے میں پڑی ہوتی ہے لیکن واپس نہیں کی جاتی جبکہ حدیث کا مفہوم ہے کہ حضور اکرم صلی للہ علیہ وسلم نے ارشاد فرمایا ہے کہ دوسروں سے لی ہوئی چیز واپس کرنے کی فکر کرو۔ اللہ ہم سب کو صحیح راہ پر چلائے(آمین)
عظمیٰ تجمل (مہاراشٹر)
بہت سی عادتیں تکلیف دہ ثابت ہوتی ہیں
ایسی بے شمار عادتیں ہو سکتی ہیں جن کو لوگ نہیں چھوڑتے اور یہ عادتیں دوسروں کیلئے تکلیف دہ ثابت ہوتی ہیں۔ اگر ہم خود اپنا غیر جانبدارانہ محاسبہ کریں تو ہمیں اپنی ایسی عادتیں نظر آئیں گی جو دوسروں کو خاصی تکلیف میں ڈال دیتی ہیں۔ مثلاکار کو عام لوگوں کے آنے جانے کے راستے میں پارک کر دینا، فلیٹ سے باہر خاموشی سے گلی میں کوڑا پھینکنا، پبلک واٹر سپلائی کو خود اکیلے گھنٹوں استعمال کرنا اور دوسروں کی پانی کی ضرورت کو نظر انداز کرنا، امتحان کے دوران اونچی آواز کے ساتھ ٹی وي چلانا اور شور شرابے کے ساتھ گانے سننا، باہر کھڑے کسی کے ٹو وہیلر پر بیٹھ کر اسکے كلچ، بریک اور گیئرکو بے وجہ مروڑتے رہنا۔ اے سی کے پانی کو گلی میں ٹپکتا چھوڑ دینا، کتابیں اُدھار مانگ کر پڑھنا اور واپس نہ کرنا، لوگوں سے رقم اُدھار مانگنا اور پھر واپس نہ دینا، لڑکیوں کے گھروں میں اپنے بھائی يا بیٹے کے رشتے کی بات کرنے جانا اور پھر وہاں سے اچھی طرح سے کھا پی کر غائب ہو جانا اور انکو دھوکہ دینا۔ دوسروں کی خامیوں کا اِدھر اُدھر ذکر کرکے لطف اندوز ہونا۔ غرض یہ کہ ایسی چھوٹی بڑی بہت سی عادتیں ہو سکتی ہیں جن پر انسان روزمرہ کی زندگی میں توجہ نہیں دیتا اور اپنے طور طریقوں میں یہ عادتیں جاری رکھتا ہے مگر یہ خراب عادتیں دوسروں کیلئے زحمت اور تکلیف کا باعث بنتی ہیں اور اکثر تعلقات میں ناخوشگوار ی پیدا کرتی ہیں۔ اس سے خراب عادتوں والے شخص کی عوامی شبیہ بھی مجروح ہوتی ہے۔ ہم میں سے ہر شخص کو اپنا احتساب کرنا چاہئے تاکہ اس قسم کی عادتوں سے نجات پا سکیں اور معاشرے میں بہتری آ سکے۔
سلطانہ صدیقی (جامعہ نگر، نئی دہلی)
کسی کی تکلیف کا احساس تک نہیں ہوتا
بسا اوقات انسان لا علمی میں دوسروں کو تکلیف پہنچا رہا ہوتا ہے اور اسے احساس تک نہیں ہوتا کہ سامنے والا کس اذیت سے گزر رہا ہے؟ کیا آپ نے کبھی سوچا ہے کہ اگر آپ بھی ان تکلیفوں سے گزرتے تو کیا ہوتا ؟آج تو ہم لوگوں کو تکلیفیں دے کر خوش رہتے ہیں ۔ ہم ذرا بھی نہیں سوچتے کہ ہم نے کسی کو تکلیف دی بھی ہے ۔ ہماری چھوٹی چھوٹی عادتیں تکلیف دہ ہوتی ہیں ، حالانکہ سب کو بخوبی علم ہے کہ ایک دن سب کو خدا کے سامنے حاضر ہونا ہے۔ ظاہر ہے کہ جو تکلیفیں ہم دوسروں کو دیتے ہیں تو ان پر ہم خدا کو کیسے منہ دکھائیں گے؟
اسی طرح زندگی میں ایک دوسرے سے موازنہ نہ کریں۔ موازنہ آپ کی خوشیوں کو کھا جاتا ہے اور یہیں سے حسد جنم لیتا ہے ۔ پہلا گناہ موازنہ کرنے سے ہی تو ہوا تھا جو ابلیس نے حضرت آدم علیہ السلام سے کیا تھا۔ ہماری عادتیں ایسی ہونی چاہئیں جن سے کسی کو تکلیف نہ ہو۔ ہم لوگ ایک دوسرے کی راحت کا خیال رکھیں۔ مشکل وقت میں ایک دوسرے کے کام آئیں۔ کسی کو تکلیف نہ دیں اور باہمی تعلقات خوش اسلوبی سے جوڑے رکھیں ۔
ہاجرہ نورمحمد( چکیا حسین آباد، اعظم گڑھ)
خود پر غور کریں تو دوسروں کی تکلیف کا احساس ہوگا
ہر انسان کسی نہ کسی ایسی عادت میں اس قدر گرفتار ہو جاتا ہے کہ اسے احساس ہی نہیں ہوتا کہ اس کی عادت سے کسی کو تکلیف بھی پہنچ سکتی ہے۔ بعض دفعہ ایسا ہوتا ہے کہ ہم کسی کی عادت کی وجہ سے پریشان ہو جاتے ہیں مگر اس کا اندازہ اسے نہیں ہوتا۔ اسی بات کو ذہن میں رکھ کرخود پر غور کرنا چاہئے کہ کہیں ہمارے اندر کوئی ایسی عادت تو نہیں جو کسی کو تکلیف پہنچا رہی ہے۔ جب ہم اس زاویے سے خود پرغورکریں گے تو ہمیں اپنی کمی کا احساس ہوگا اور ہم اسے درست کرنے کی کوشش کریں گے۔ اگر ہمارے اندر کوئی بری عادت ہے تو اسے بدلنا ضروری ہے۔ عادت چھوٹنے میں وقت ضرور لگتا ہے لیکن کوشش کریں تو چھوٹ ہی جاتی ہے۔
ہما انصاری (مولوی گنج، لکھنؤ)
مذاق اور بحث کے دوران احتیاط ضروری
بحث کی عادت سے دوسروں کو تکلیف پہنچ سکتی ہے۔ یہ عادت ا کثر تعلقات کو خراب کردیتی ہے۔ اختلافات کو بڑھا دیتی ہے۔ بحث کی عادت اکثر ذہنی اور جذباتی طور پر تھکا دیتی ہے۔ جب کوئی شخص بار بار بحث کرتا ہے تو اس کا رویہ دوسروں کیلئےمایوسی اور عدم تحفظ کا باعث بن سکتا ہے۔ بعض اوقات بحث میں الفاظ کا انتخاب بھی ایسا ہوتا ہے جو سامنے والے کو زخمی کر دیتا ہے۔ ہر بات میں مذاق کی عادت بھی دوسروں کو تکلیف پہنچاتی ہے، کیونکہ ہر شخص مختلف ہوتا ہے اور کچھ لوگ ایسی باتوں کو دل پر لے لیتے ہیں جس سے ان کے جذبات مجروح ہو جاتے ہیں، اس لئے یہ ضروری ہے کہ مذاق اور بحث میں احتیاط برتی جائے اور دوسروں کے جذبات کا خیال رکھا جائے۔
سمیرا اظہر سر گروه( نوی ممبئی )
یہ سخت ناپسندیدہ عادات ہیں
بعض عادتیں ایسی ہوتی ہیں جو ہم میں موجود ہوتی ہیں لیکن ہمیں خود اس کا احساس نہیں ہوتا اور وہ دوسروں کیلئے ناقابل برداشت ہوتی ہیں، ان کا تدارک ضروری ہے۔ جھوٹ بولنا ایک ایسا قبیح فعل ہے جس کی ہمارے مذہب میں سخت مذمت کی گئی ہے۔ جھوٹ بولنے سے ایک دوسرے پر سے اعتبار ختم ہو جاتا ہے اور بعض اوقات معاملات اس بری طرح الجھ جاتے ہیں کہ سلجھانا مشکل ہو جاتا ہے۔ دوم دوسروں کا مذاق اڑانا۔ اس مذموم عادت کی وجہ سے دلوں میں نفرتیں پید ا ہوجاتی ہیں ۔ وعدہ خلافی اور دوسروں کو انتظا ر کی سولی پر لٹکا نا بھی سخت ناپسندیدہ عادت ہے۔ محفل ८ میں کانا پھوسی کرنا اور بھونڈے مذاق کر کے قہقہے لگانا، کھانا کھا تے وقت منہ سے آوازیں نکا لنا۔ بیٹھے بیٹھے پیروں کو مسلسل حرکت دینا، بلا وجہ ناک میں انگلی گھمانا، بہت زیادہ بولنا، دوران گفتگو بھدے طریقے سے پورا منہ کھول کر جماہی لینا، بار بار کسی کو ٹوکنا، بلاوجہ کسی کے معاملات میں مداخلت کرنا اور بن مانگے مشورہ دینا بھی بعض ناپسندیدہ عادات میں شامل ہیں۔ اپنا محاسبہ کرکے ان عادات سے نجات حاصل کرنے میں سبھی کیلئے بہتری ہے۔
رضوی نگار اشفاق (اندھیری، ممبئی)
شیخی بگھارنے والا اپنی وقعت کھو دیتا ہے
ہر وقت بولتے رہنا اورسامنے والے کو بولنے کا موقع نہ دینا یا پھر صرف اپنی اور اپنی کی فیملی کی تعریف کرتے رہنا بری عادت میں شامل ہے۔ اس طرح شیخی بگھارنے والے دوست احباب نیز دور اور قریب کے رشتے داروں میں اپنی وقعت کھودیتے ہیں۔ ہمیں ایسی عادتوں سے اجتناب کرنا بہت ضروری ہے جن سے دوسروں کو تکلیف پہنچتی ہو۔ ویسے حضورؐ نے کہا ہے: تم میں بہترین مرد اور عورت وہ ہے جس کے اخلاق اچھے ہیں۔ دوسری طرف حضورؐ نے یہ بھی کہا ہے کہ تم میں مومن عورت یامر د وہ ہے جس کے ہاتھ سے، زبان سے اور اُس کے عمل سے کسی کو تکلیف نہیں پہنچتی ہے۔
عظمیٰ مزمل انعامدار (شولاپور )
ہماری کسی بھی بات سے کسی کو تکلیف نہ پہنچے
اگر کوئی سونا چاہ رہا ہے اور آپ اس کے پاس بیٹھ کر موبائل چلا رہے ہیں تو آپ ایئر فون استعمال کر سکتے ہیں۔ اگر کوئی بیمار ہے تو ہمیں اس کا خیال رکھنا چاہئےکہ اگر اس کو سونا ہے تو وہاں شور نہ کریں، لائٹ نہ جلائیں۔ ہمیں اپنے پڑوسی کا بھی خیال رکھنا چاہئے کہ ہماری کسی بھی عادت سے اس کو کوئی تکلیف نہ ہو۔ ہم کو اپنے گھر میں اپنے والدین اور اپنے شوہر، بیوی اور بچوں کا بھی خیال رکھنا چاہئے۔ ان کو ہماری کسی بھی بات سے یا حرکت سے کوئی تکلیف نہ پہنچے تبھی ہم لوگ اچھے انسان ہو سکتے ہیں۔ اللہ ہم کو ایک اچھا مومن بننے کی توفیق دے۔ آمین۔
طلعت شفیق( دہلی گیٹ علی گڑھ)
منفی عادتوں سے بچنے سےتعلقات خوشگوار رہیں گے
نہ جانے کب کس وقت کس کی عادت تکلیف پہنچائے، کہہ نہیں سکتے۔ اس لئے احتیاط لازم ہے۔ بری عادتوں میں سے چند یہ ہیں : بات بات پر قہقہہ لگانا، یا پھر ہنستے ہوئے کسی کی پیٹھ یا ہاتھ پرہلکا سا تھپکا لگانا۔ باتوں باتوں میں منفی جملے کہنا ’جانے دو‘، ’وہ بے وقوف ہے‘ یا’وہ عقل سے پیدل‘ ہے، ’ اُس کی بات ہی مت کرو‘وغیرہ سے کسی نہ کسی کو تکلیف پہنچتی رہتی ہے۔ ایسی تمام عادتوں سے بچیں تو ہمارے باہمی تعلقات خوشگوار رہیں گے۔
جبیرہ عمران پیرزادے (پونے )
زیادہ غصہ کرنے سے دوریاں پیدا ہوتی ہیں
زیادہ غصہ کرنے سے اکثر رشتے میں دوریاں پیدا ہو جاتی ہیں ۔ غصے میں کہی ہوئی بات ہمیشہ لوگوں کو یاد رہتی ہے، اس لئے غصہ نہ کریں ۔ اسی طرح دوسروں کے راز کسی کو نہ بتائیں۔ عادات ہر انسان کی شخصیت کا حصہ ہوتی ہیں لیکن جب یہ عادات دوسروں کو تکلیف پہنچاتی ہیں تو ایک مسئلہ بن جاتی ہیں ۔
کلثوم سراج اشرف(جونپور، یو پی)
ان عادات پر قابو پاناضروری ہے
ہمیشہ سوچ سمجھ کرایسی گفتگو کرنی چاہئے جس سے کسی کو ایذا نہ پہنچے۔ کسی کو جان بوجھ کر نظرانداز کرنا، جھڑک دینا، نا زیبا الفاظ کا استعمال کرنا، کسی کے جذبات کو ٹھیس پہنچانا، کسی کا مذاق اڑانا اورکسی کے ذاتی معاملات میں مداخلت کرنا وغیرہ جیسی عادتوں سے تکلیف پہنچتی ہے۔
خان نرگس سجاد(جلگاؤں )
قریبی لوگوں سے زیادہ توقعات وابستہ کرنا
میری ایک ایسی عادت ہے جو دوسروں کیلئے اور میرے اپنے لئے تکلیف کا باعث بنتی ہے وہ یہ ہے کہ مَیں اپنے قریبی لوگوں سے زیادہ توقعات وابستہ کرتی ہوں۔ مَیں چاہتی ہوں کہ جس قدر مَیں انہیں اہمیت دیتی ہوں، وہ بھی مجھے اتنی ہی اہمیت دیں۔ جتنے احترام سے میں ان کے ساتھ پیش آتی ہوں، وہ بھی اسی احترام سے میرے ساتھ پیش آئیں۔ جتنی اپنائیت کا مظاہرہ مَیں کرتی ہوں، وہ بھی اتنی ہی اپنائیت کا مظاہرہ کریں لیکن حقیقت یہ ہے کہ ہر مثبت عمل کا مثبت ردعمل ملے یہ ضروری نہیں، اور جب ایسا نہیں ہوتا ہے تو خود کو سمجھانا مشکل ہوجاتا ہے۔ شاید اسی وجہ سے لوگ میری اس عادت سے خائف رہتے ہیں۔ مَیں اپنی شخصیت میں بہتری لانے کی پوری کوشش کر رہی ہوں اور اللہ سے دعا گو ہوں کہ مجھے اس میں کامیابی عطا فرمائے (آمین)۔ دوسروں کے احساسات کا خیال رکھنا ایک خوبصورت صفت ہے۔ یہ نہ صرف ہمیں ایک بہتر انسان بناتی ہے بلکہ ہمارے تعلقات کو بھی مستحکم کرتی ہے۔ اسی لئے ضروری ہے کہ ہم اپنی عادتوں کا جائزہ لیں، ان میں بہتری لائیں، اور دوسروں کے ساتھ محبت اور احترام کے ساتھ پیش آئیں۔
نکہت انجم ناظم الدین (مانا، مہاراشٹر)
زور سے بات چیت کرنا
بعض عادتیں دوسروں کو تکلیف پہچانتی ہیں جن میں چند مندرجہ ذیل ہیں: ٭دکھاوا کرنا ٭نمائش کرنا ٭احسان جتانا ٭کسی کو اُن کے حدود بتانا ٭بنا سوچے سمجھے دوسروں پر تہمت لگانا ٭غیبت کرنا ٭بہت زیادہ رونا ٭ہمیشہ دوسروں پر حسد کرنا ٭بے ادبی کرنا ٭نظر انداز کرنا ٭اپنے ہی دل سے کسی کو غلط قرار دینا ٭زور سے بات چیت کرنا ٭بد کلامی کرنا۔
آفرین عبدالمنان شیخ (شولاپور، مہاراشٹر)
دوسروں کی چیز دیکھ کر حسد کرنا
حقیقی اسلامی معاشرہ وہی ہے جس میں لوگ ایک دوسرے کی راحت و آرام کا خیال رکھیں۔ مشکل وقت میں دوسروں کے کام آئیں۔ کسی کو تکلیف نہ دیں۔ اپنے باہمی تعلقات ملنسار، حسن اخلاق اور خیر خواہی پر استوار کریں۔ لوگوں کو اپنے، شر سے محفوظ رکھنا ضروری ہے۔ خاص طور پر ہم پڑوسیوں کے حقوق کے حوالے سے بے خبر ہیں۔ اونچی آواز میں بولنا، بلند آواز میں ٹی وی چلانا، کسی کے گھر کے سامنے جمع ہو کر شور کرنا جیسی عادتیں دوسروں کو تکلیف پہنچا سکتی ہیں۔ اس کے علاوہ دوسروں کی چیز دیکھ کر حسد کرنا بھی بری عادت ہے۔ کسی کو ہمیشہ کوئی نہ کوئی سامان مانگنے کی عادت ہوتی ہے اسے بھی بری عادت میں شمار کیا جاتا ہے، اکثر لوگ اس عادت سے تنگ آجاتے ہیں۔
فرحیں انجم (امراوتی، مہاراشٹر)
دوسروں کے ذاتی معاملات میں دخل اندازی کرنا
نادانستہ طور پر انسان اکثر و بیشتر اپنے رویے سے دوسروں کے جذبات کو ٹھیس پہنچاتا ہے اور دل ازاری کرتا ہے۔ کئی دفعہ تو اسے اس بات کا احساس تک نہیں ہوتا کہ اس سے ایسی کوئی حرکت سرزد ہوئی ہے۔ یہ عادتیں غیر ارادی طور پر ہوسکتی ہیں پھر بھی ان کا اثر دوسروں پر منفی ہوسکتا ہے۔ مثلاً اکثر لوگ دوسروں کی باتوں یا فعل میں تنقید نکالتے ہیں جس سے دوسروں کو بے عزتی کا احساس ہوتا ہے۔ بات چیت کے دوران کسی کی بات کو کاٹنا ایک ناپسندیدہ عمل ہے جو دوسروں کو نظر انداز محسوس کرواتا ہے۔ پیٹھ پیچھے باتیں کرنا جو تعلقات کو خراب کرسکتا ہے۔ دوسروں کے ذاتی معاملات میں دخل اندازی کرنا، خود کو اہمیت دینا، دوسروں کے جذبات کا خیال نہ رکھنا جو دوسروں کو تکلیف پہنچا سکتا ہے۔ ان عادتوں پر غور کرکے انہیں درست کرنے کی کوشش کرنا، تعلقات کو بہتر بنانے میں مددگار ثابت ہوسکتا ہے۔ اس لئے ضروری ہے کہ ہم اپنی عادتوں اور رویوں پر غور کریں اور کوشش کریں کہ ہم دوسروں کے لئے راحت کا باعث بنیں نہ کہ تکلیف کا۔
مومن رضوانہ محمد شاہد (ممبرا، تھانے)
کسی کے موبائل فون چلاتے وقت اس میں جھانکنا
اکثر ایسا ہوتا ہے کہ جو عادتیں ہمارے لئے عام ہوتی ہیں وہ دوسروں کو ناگوار گزرتی ہیں۔ جیسے کھانا کھاتے وقت شور کرنا، دوسروں کی باتوں کو کاٹ کر اپنی بات کہنا، کھانے میں عیب نکالنا، کسی کے موبائل فون چلاتے وقت اس میں جھانکنا وغیرہ۔ ہم ان باتوں کو اہمیت نہیں دیتے۔ لیکن کسی کو تکلیف دینا اچھی بات نہیں ہے، ہم اس بات سے واقف ہیں۔ اس بھاگتی دوڑتی دنیا میں کسی کو کوئی بھی فرق نہیں پڑتا نہ کبھی ان باتوں پر غور کرنے کے لئے وقت ملتا ہے۔ ایسے میں نہ جانے ہم کس کس کو تکلیف پہنچاتے ہیں اس بات کا اندازہ ہمیں نہیں ہے۔
مریم مجاہد ندوی (اورنگ آباد، مہاراشٹر)
اس عادت نے مشکل میں ڈال دیا تھا
جی، یہ بالکل درست بات ہے کہ ہماری کچھ عادتیں لوگوں کو تکلیف پہنچاتی ہیں۔ مَیں نے اس وقت تک اس بارے میں نہیں سوچا تھا جب تک ایک واقعہ سر زرد نہیں ہوا تھا۔ میری طبیعت میں مزاح کا عنصر ہر وقت غالب رہتا ہے۔ ایک مرتبہ مجھے اس عادت کی وجہ سے مشکل کا سامنا کرنا پڑا تھا۔ اس وقت مجھے احساس ہوا کہ سامنے والے کے مزاج کو مدنظر رکھتے ہوئے مزاح کرنا چاہئے، سب کی فطرت ایک جیسی نہیں ہوتی۔
ارجینا روش دھورو (بھیونڈی، تھانے)
بنا اطلاع دیئے کسی کے یہاں جانا
اچھی بری عادتیں سب میں ہوتی ہیں لیکن چند عادتیں جو بظاہر معمولی ہوتی ہیں اور جن کے بارے میں ہم غور ہی نہیں کرتے مگر یہ جب دوسروں کی تکلیف، دل آزاری، جذبات کو ٹھیس پہنچانے کا باعث بن جائیں تو ان کے بارے میں سوچنا چاہئے۔ بعض لوگ اپنی صاف گوئی کی عادت کو اچھا سمجھتے ہیں اور ہر بات بندوق کی گولی کی طرح داغتے جاتے ہیں، کسی کو برا لگتا ہے تو لگے۔ دوسری جانب کسی کی چپی بھی بڑی گراں گزرتی ہے کہ سامنے والا کہہ رہا اور اگلے کے منہ میں جیسے زبان ہی نہ ہو، سپاٹ چہرہ لئے سنتے رہتے ہیں تو بولنے والا جھنجھلا جاتا ہے۔ مزید یہ کہ کسی کے دروازے پر دستک دینا اور سیفٹی ڈور کی جالی سے اندر جھانکنا، اہل خانہ کے کون پوچھنے پر اپنا نامنہ بتا کر ’’مَیں ہوں‘‘ کہنا، بنا اطلاع دیئے کسی کے یہاں جانا، دعوت کے بعد کافی دیر تک بیٹھے رہنا جس سے میزبان کے نجی کاموں میں خلل پڑتا ہے۔ سورہ التحریم میں ان تمام عادتوں پر روشنی ڈالی گئی ہے جو اگر ہمارے اندر ہو تو جلد از جلد ان سے چھٹکارا حاصل کر لینا چاہئے۔
رضوانہ رشید انصاری (امبرناتھ، تھانے)
بے ترتیب کمرہ
بچپن سے یہ کہاوت سنتے آئی ہوں ’’انسان عادت کا پتلا ہے۔‘‘ ہماری عادتیں ہی ہمیں ایک بہتر کردار کا مالک بناتی ہیں۔ ماہرین نفسیات کا کہنا ہے کہ آپ کے رویہ پر آپ کی عادتوں کا نوے فیصد اثر پڑتا ہے۔ یہ عادتیں ہی ہمیں ایک دوسرے سے جوڑے رکھتی ہیں۔ ان ہی کی بدولت ہم ایک بااصول اور اچھے کردار کا حامل شخص بنتے ہیں۔ ہم عادتوں کو نہیں بناتے عادتیں ہمیں بناتی ہیں۔ ان عادتوں میں کچھ عادتیں ایسی بھی ہوتی ہیں جو دوسروں کی تکلیف کا باعث بنتی ہیں۔ جیسے بدکلامی، اونچی اواز میں باتیں کرنا، چیخنا، غیبت کرنا، بے اعتنائی برتنا، بلند قہقہہ لگانا، زیادہ باتیں کرنا، زیادہ کھانا کھانا، دیر تک سونا، کمرے کی بے ترتیبی وغیرہ۔ بظاہر یہ چھوٹی چھوٹی باتیں ہیں لیکن اس جانب توجہ دینے کی اشد ضرورت ہے۔ یہ باتیں انسان کی ذہنی اور جسمانی صحت پر اثر انداز ہوتی ہے۔ ساتھ ہی ہمارے اخلاق اور تربیت پر بھی گہرا اثر ڈالتی ہے۔
فردوس انجم (بلڈانہ، مہاراشٹر)
خود کو سب سے برتر سمجھنا بہت بری عادت
اللہ رب العزت نے انسان کو خوبصورت تخلیق کیا مگر ہم اپنی عادتوں کی وجہ سے پرکھے جاتے ہیں۔ دوسروں کی بعض عادتیں سخت تکلیف دیتی ہیں۔ مخاطب سمجھتا ہے کہ ہم سچ بولتے ہیں کھرا بولتے ہیں شاید انہیں علم نہیں ہوتا کہ بات کس طریقے سے کرنی چاہئے یا ہر کسی کے معاملے میں دخل دینا، غیبت کرنا، حسد کرنا، خود کو سب سے برتر سمجھنا بہت بری عادتیں ہیں۔ اس سے دوسروں کو تکلیف پہنچی ہے۔ ہمیں اپنی شخصیت پر غور کرنا چاہئے کہ ہم میں ایسی کون کون سی عادتیں ہیں جو دوسروں کو تکلیف دیتی ہے۔ اپنا محاسبہ کرنا چاہئے۔ دوسروں کو ’جج‘ کرنے سے پہلے خود کو اچھی سوچ کاحامل بنائیں۔ دوسروں کو تکلیف دینے گریز کریں۔
ایمن سمیر (اعظم گڑھ، یوپی)
راہ چلتے وقت تھوکنا یا کچرا پھینکنا
روزانہ ہمارا سامنا کئی لوگوں سے ہوتا ہے۔ بعض دفعہ ان کی عادتیں ہمیں تکلیف پہنچاتی ہیں۔ مثلاً راستے سے گزرتے ہوئے تھوک دینا یا کوڑا پھینک دینا۔ اس عادت کی وجہ سے راہگیروں کو پریشانی کا سامنا کرنا پڑتا ہے۔ ہوسکتا ہے کہ ان لوگوں کی نظر میں یہ عادت معمولی ہو لیکن اس کے کئی نقصانات ہیں۔ ادھر اُدھر تھوکنے یا کچرا پھینکنے سے گندگی پھیلتی ہے اور بیماریاں پھیلنے کا بھی خدشہ رہتا ہے۔ حقیقی اسلامی معاشرہ وہی ہے، جس میں لوگ ایک دوسرے کی راحت و آرام کا خیال رکھیں، مشکل وقت میں دوسروں کے کام آئیں، کسی کو تکلیف نہ دیں اور اپنے باہمی تعلقات ملنساری، حسن اخلاق اور خیرخواہی پر استوار کریں۔ اسلام انہی چیزوں کا درس دیتا ہے اورمعاشرے میں نرمی، محبت، شفقت اور ہمدردی کے جذبات پروان چڑھاتا اور معاشرے کو نقصان پہنچانے والے امور مثلاً بے جا شدت اور ایذا رسانی سے منع کرتا ہے۔ آپس میں اچھے تعلقات اور صلح صفائی سے زندگی گزارنا اِسلام کے بنیادی مقاصد میں سے ہے۔ لیکن ہم ان مقاصد کو بھول چکے ہیں۔
مرزا حبا ناظم بیگ (ممبئی، مہاراشٹر)
کسی کا مذاق اڑاتے ہوئے دلوں کو توڑنا
ہم میں سے بہت سے لوگوں کو دوسروں کا مذاق اڑانے کی عادت ہوتی ہے جبکہ مذاق کرنا اور مذاق اڑانا دونوں میں بہت فرق ہے۔ ہنسی مذاق کرنا خوش مزاجی کا ثبوت ہے جبکہ کسی کا مذاق اڑاتے ہوئے دلوں کو توڑنا، عزت نفس کو پارہ پارہ کرنا، سامنے والے کو احساس کمتری میں مبتلا کرنا سنگدلی اور بے رحمی کی نشانی ہے۔ کچھ لوگ گفتگو کے دوران لوگوں کی غلطیاں پکڑتے رہتے ہیں۔ کسی کے منہ سے کوئی غلط لفظ نکل گیا تو اس کا مذاق، نادانستگی میں کوئی غلط حرکت سرزد ہوگئی تو اس کا مذاق، بات بات میں دوسرے کو پاگل، بیوقوف اور احمق قرار دینا غرضیکہ ہر وقت اس کوشش میں رہنا کہ دوسروں کی ٹوہ لی جائے اور پھر اس سے سرزد کاموں کا مذاق اڑا کر محفل زعفران زار بنائی جائے مگر یاد رکھئے محفل تو اس مذاق سے لطف اٹھاتی ہے لیکن جس کا مذاق اڑایا جارہا ہے ذرا اسکے دل کے اندر جھانک کر تو دیکھئے۔ اکثر لوگ یوں سربزم اپنا مذاق اڑائے جانے پر احساس کمتری کا شکار ہوجاتے ہیں، بولنے سے پہلے سو بار سوچتے ہیں اور ڈر ڈر کر بولتے ہیں کہ کہیں بھول سے کوئی غلط لفظ نہ نکل جائے اور وہ سب کی استہزائیہ نظروں کا مرکز نہ بن جائیں۔ خدارا دلوں کے توڑنے سے بچئے۔ کسی کی عزت نفس پر حملہ آور ہوتے وقت پہلے خود کے بارے میں سوچئے۔ اگر آپ یوں مجلس میں مذاق بنائے جائیں تو آپ کی کیا حالت ہوگی!
سحر اسعد (بنارس، یوپی)
لوگوں کا حق مارنا
بعض عادتیں دوسروں کو تکلیف پہنچاتی ہیں اس بارے میں سوچنا بے حد ضروری ہے کیونکہ دوسروں کو ایذا پہنچانا اور انہیں تکلیف دینا تو ہم سوچ بھی نہیں سکتے ہیں کیونکہ اللہ تعالیٰ دوسروں کو تکلیف پہنچانے والے اور دوسروں کو دکھ دینے والوں کو بالکل پسند نہیں کرتا ہے۔ وہ اپنے بندے کو ملنے والی ہر تکلیف کا حساب پورا لیتا ہے۔ لوگ کسی کا حق مارتے ہیں، کسی کی برائی کرکے خوش ہوتے ہیں اور پیٹھ پیچھے باتیں کرتے ہیں، یہ عادتیں اتنی بری ہوتی ہیں کہ ان سے دوسروں کو بے حد دکھ پہنچتا ہے۔ اللہ تعالیٰ نے سورہ یٰسین میں کہہ دیا ہے کہ تمہیں ویسے ہی بدلہ دیا جائے گا جیسا تم نے دنیا میں عمل کیا ہے۔ یہ مکافات عمل ہے اور آخرت میں تو ضرور اس کا بدلہ چکانا پڑے گا۔ اسلئے کسی کو تکلیف اور دکھ پہنچانے سے قبل مکافات عمل کو اپنے ذہن میں رکھیں اور خدا کا خوف اپنے دل میں پیدا کریں۔ اللہ تعالیٰ ہمیں ہر برائی سے محفوظ رکھے (آمین)۔
ریحانہ قادری (جوہو اسکیم، ممبئی)
پڑوسیوں کا تنقیدی نگاہوں سے دیکھنا
جی ہاں! بعض عادتیں انسان کو تکلیف پہنچاتی ہیں۔ خاص طور پر اس وقت جب ہم چال میں رہتے ہوں، داخلے کا دروازہ ایک ہی ہو اور ہمیں آتے جاتے وقت پڑوسیوں کے گھر کے سامنے سے گزرنا پڑتا ہو اور ہمارے پڑوسی ہر بار ہمیں تنقیدی نگاہوں سے دیکھنے کے عادی ہوں۔ یہ عادت سخت تکلیف اور ذہنی كوفت کا باعث ہوتی ہے۔
نوشین نہال مومن (بھیونڈی، تھانے)
اپنے ہی بھائی کا خیال نہ رکھنا
ہماری روزمرہ کی زندگی میں بہت سے معاملات اور واقعات پیش آتے رہتے ہیں، اور ہر ایک کام کا تعلق کسی نہ کسی فرد سے رہتا ہے، ہر ایک، ایک دوسرے کا محتاج ہے، آج ہم دوسروں سے اپنی ضروریات کی تکمیل تو کر لیتے ہیں لیکن اس بات کا خیال نہیں رکھتے کہ کہیں ہماری وجہ سے ہمارا بھائی پریشان تو نہیں؟ اس کو تکلیف، مصائب و آلام کا سامنا تو نہیں کرنا پڑ رہا ہے؟ حدیث پاک میں ہے: مسلمان وہ ہے جس کے ہاتھ اور زبان سے مسلمان بھائی محفوظ رہے۔ لیکن انسان اس حدیث پاک پر عمل کرنے سے کوسوں دور ہے، انسان صرف اپنی زندگی اپنی حاجت و ضرورت کی فکر میں سرگرداں ہے۔ زبان درازی، سخت کلامی، ترش روئی، بد اخلاقی، ظلم و ستم، انسان کی زندگی کا حصہ بن چکا ہے۔ جھوٹ، غیبت، چغلی، بغض، حسد، کینہ، عداوت اور دشمنی کو انسان نے اپنا ساتھی بنا لیا، انسان ایذا رسانی، مار پیٹ، بدگمانی میں مبتلا ہے، اگر کسی نے تھوڑا بھی مرضی کے خلاف کر دیا تو حالت یہ ہو جاتی ہے کہ انسان بدسلوکی سے پیش آنا شروع کر دیتا ہے۔ یہی وجہ ہے کہ آج انسان ایک دوسرے سے متنفر ہے اور آپس میں اتحاد و اتفاق، محبت و الفت ختم ہو رہی ہے۔ انسان اپنے رب کا خوف اور آخرت کے عذاب سے ڈرتے ہوئے ایک دوسرے سے محبت کرے اور کسی کے دل کی تکلیف کا سبب نہ بنے۔
رضاء الفاطمہ (نوساری، گجرات)
کسی کو تکلیف نہ پہنچائیں
انسان کو ہمیشہ اخلاقی طور پر اپنی اصلاح کرنے کی کوشش کرتے رہنا چاہئے۔ ہمیشہ اس بات کا احساس ہونا چاہئے کہ ہمارے اخلاق اور رویے کے ذریعہ سے کسی کو کبھی تکلیف نہ پہنچے۔ اگر آپ سے کبھی کوئی شکایت کر رہا ہے کہ مجھے آپ کے فلاں رویے سے تکلیف ہے مہربانی کرکے یہ کام آپ نہ کیا کریں تو اس پر ناراضگی جتانے یا سخت جواب دینے کے بجائے اپنی اصلاح کرنے کی کوشش کریں اور یہ سمجھنے کی کوشش کرنی چاہئے کہ ہو سکتا ہے جو مجھے صحیح لگ رہا ہو وہ واقعی میں کسی کو تکلیف دے رہا ہو اور مجھے احساس نہ ہو۔ انسان کی اصل کامیابی یہ ہے کہ انسان اپنے دشمنوں میں اضافہ کرنے کےبجائے اپنے دوستوں میں اضافہ کرے۔ اپنوں میں اضافہ کرے۔ لیکن اس کے لئے اپنی اصلاح کی ضرورت ہوتی ہے۔ آخرت میں انہی لوگوں کو کامیابی حاصل ہوگی جو دنیا میں اچھے اخلاق کا مظاہرہ کریں گے۔ اس لئے معافی مانگنے اور معاف کرنے میں پہل کریں۔
فائقہ حماد خان (ممبرا، تھانے)
اپنی ہی کہنا اور دوسروں کی نہ سننا
عادتوں ہی سے شخصیت کی پہچان ہوتی ہے۔ بہت سے لوگ صرف اپنی بات ہی کہتے رہتے ہیں دوسروں کی نہیں سنتے۔ دوسروں کو بولنے کا وقت یا موقع نہیں دیتے۔ دوسرا بولتا ہے تو بیچ میں بولنا شروع کر دیتے ہیں۔ یہ بڑا ناگوار گزرتا ہے اور تکلیف پہنچانے کا باعث بنتا ہے۔ بہت سی عادتیں ایسی ہیں جو واقعی ناگوار گزرتی ہیں اور بڑی تکلیف پہنچاتی ہیں جیسے منہ ڈھانکے بنا چھینکنا اور کھانسنا، کھانا کھاتے وقت منہ سے آواز نکالنا، بات بات پر جھوٹ بولنا، چغلی کرنا، جھوٹی تعریف کرنا، باتیں بنانا، دوسروں کو اپنے آگے کم سمجھنا، سڑک پر جوتوں کو گھس گھس کے چلنا، زینہ کھٹ پٹ کرتے ہوئے چڑھنا، کھانا کھاتے وقت چمچے پلیٹ میں مارتے رہنا، بیٹھے بیٹھے میز تھپتھپاتے رہنا، فون پر بات کریں تو زور زور سے بولتے رہنا، بائیک وغیرہ سے راستہ تنگ کرنا، پان کی پیک دیواروں یا سڑکوں پر تھونکنا، سنک میں بلغم تھوکنا وغیرہ اسی قسم کی اور بھی بہت سی باتیں ہیں جو بڑی ناگوار گزرتی ہیں۔ بہت سے لوگ تو اپنی عادت بدلتے ہی نہیں چاہتے۔ ان کو کتنا ہی روکتے ٹوکتے رہئے۔ بری عادتیں بڑی مشکل سے مرتی ہیں۔
نجمہ طلعت (جمال پور، علی گڑھ)
مری زبان اور قلم سے کسی کا دل نہ دکھے
وہ انسان ہی کیا، جس میں خامیاں نہ ہوں۔ ہر انسان اچھائیوں اور برائیوں کا مجموعہ ہوتا ہے۔ اور سبھوں میں اچھی عادتوں کے ساتھ کوئی نہ کوئی ایسی عادت ہوتی ہے جس کی قباحت کا خود اسے اندازہ ہو، نہ ہو، لیکن دوسرے لوگوں کو بسااوقات اس سے تکلیف ہوتی ہے۔ میں بارہا سوچتی ہوں کہ مجھ میں ایسی کون سی عادت ہے جو کسی کو حرج میں ڈالنے والی ہے؟ وہ الگ بات ہے کہ عام انسانوں کی طرح میں اپنے منہ میاں مٹھو بن غلطی تسلیم کرنے سے انکاری رہتی ہوں۔ لیکن پھر بھی بہرحال، یہ قابلِ توجہ امر ہے۔ اور اس طرف ہم سب کو توجہ دینی چاہئے۔
بنت رفیق (جوکھن پور، بریلی)
سنی سنائی باتوں پر اعتماد کرلینا
ہمیں بعض عادتوں کی اصلاح کرنی چاہئے کیونکہ یہ نقصانده ہوتی ہیں اور دوسروں کو تکلیف پہنچا تی ہیں۔ وہ بعض عادتیں درج ذیل ہیں: ٭سنی سنائی باتوں پر اعتماد کرلینا۔ ٭با اخلاق، با شعور اور مخلص انسان کو زیر کرنے کی کوشش کرنا۔ ٭اعلیٰ تعلیم یافتہ ہونے کے باوجود بے عملی کا مظاہرہ کرنا۔ ٭کھانا کھاتے وقت پکانے والے کی محنت، وقت اور جذبات کو محسوس کرنے کے بجائے کھانے میں نقص نکالتے رہنا۔
ریحانہ خاتون (نالا سو پارہ، پال گھر)
اگلے ہفتے کا عنوان: معاشرے میں پھیلی برائیوں کو دور کرنے کیلئے مَیں یہ کام کرنا چاہتی ہوں۔اظہار خیال کی خواہشمند خواتین اس موضوع پر دو پیراگراف پر مشتمل اپنی تحریر مع تصویر ارسال کریں۔ وہاٹس ایپ نمبر: 8850489134