• Sun, 08 September, 2024
  • EPAPER

Inquilab Logo

اوڑھنی اسپیشل: کسی کی حوصلہ افزائی جو میری کامیابی کا سبب بنی

Updated: August 01, 2024, 2:16 PM IST | Saaima Shaikh | Mumbai

گزشتہ ہفتے مذکورہ بالا عنوان دیتے ہوئے ہم نے ’’اوڑھنی‘‘ کی قارئین سے گزارش کی تھی کہ اِس موضوع پر اظہارِ خیال فرمائیں۔ باعث مسرت ہے کہ ہمیں کئی خواتین کی تحریریں موصول ہوئیں۔ ان میں سے چند حاضر خدمت ہیں۔

Business Women discussing. Photo: INN.
کوئی نہ کوئی ایسا ضرور ہوتا ہے جو ہمیں ہمیشہ آگے بڑھنے کا حوصلہ دیتا ہے۔ تصویر: آئی این این۔

والدین کی حوصلہ افزائی

میرے والدین جن کا مثبت انداز فکر اور طرزِ زندگی، پُر امید لہجہ اور حوصلہ افزاء باتوں نے مجھے آگے بڑھنے میں مدد کی۔ طالب علمی کے دور میں پیش آنے والی تمام مشکلات میں انہوں نے میرا بھرپور ساتھ دیا۔ انہوں نے یہ نہیں بتایا کہ کیسے جینا ہے بلکہ اپنی مثال میرے سامنے پیش کی۔ ان کی حوصلہ افزائی میری کامیابی کا سبب بنی۔ آج میں جو کچھ ہوں انہی کی بدولت ہوں۔
ڈاکٹر حنا کوثر کلیم خان (ناسک، مہاراشٹر)
میری کامیابی میں اُردو کی ٹیچر کا اہم رول
اکثر لوگوں کا حسنِ ظن ہے کہ مَیں ایک اچھی مقرر ہوں۔ یہ خود ستائی یا خودنمائی نہیں ہے۔ مَیں جن طالبات کو تیار کرتی تھی انہیں اکثر انعامات سے نوازا جاتا تھا۔ اس وقت مجھے اپنے بچپن کا ایک واقعہ یاد آتا تھا۔ مَیں ساتویں جماعت میں زیر تعلیم تھی میری اُردو کی ٹیچر نے مجھے ایک تقریر دی۔ مَیں نے اسے اچھی طرح یاد کر لیا اور ٹیچر کو سنا دیا۔ ٹیچر نے مجھے لہجہ اور اتار چڑھاؤ اور انداز سکھایا۔ مَیں نے دوسرے دن ٹیچر کو جب تقریر سنائی تو کہا تمہارا ’ش‘ درست نہیں ہے۔ تقریر واپس لے لی اور ایک دوسری طالبہ کو دے دی۔ اس وقت میری آنکھوں میں آنسو بھر آئے اور مَیں نے اپنے رب سے کہا اس لڑکی کو مقابلے میں ناکام کر دے اور ایسا ہی ہوا۔ پھر دوسرے سال میرا ہائی اسکول میں داخلہ ہوگیا۔ اُردو کی ٹیچر نے ہمیں ایک مثنوی پڑھائی اور کہا کوئی بچی اپنے الفاظ میں پوری کہانی سنائے میں نے جھٹ سے سنا دی۔ ٹیچر نے بہت تعریف کی اور کہا، ’’بیٹا تمہاری اُردو بہت اچھی ہے لیکن ’ش‘ کی ادائیگی درست نہیں ہے۔ اگر اس پر توجہ نہیں دی تو ساری قابلیت بیکار ہے۔ پھر ’س‘ اور ’ش‘ سے شروع ہونے والے کئی الفاظ سکھائے اور بورڈ پر لکھ کر سب کو پڑھانے کہا۔ مَیں نے بالکل درست ادائیگی کی۔ وہ ٹیچر دنیا سے رخصت ہوچکی ہے لیکن میرے دل میں زندہ ہے۔ آج مَیں جو بھی ہوں اس میں ان کا بڑا ہاتھ ہے۔
شیخ رابعہ عبدالغفور (ممبئی)
والدین نے حوصلہ بڑھایا


مَیں آج جو کچھ بھی ہوں اپنے والدین کی بدولت ہوں۔ انہوں نے زندگی کے ہر موڑ پر میرا حوصلہ بڑھایا۔ طالب علمی کے زمانے میں کئی مقابلوں میں حوصلہ لیا اور نمایاں کامیابی حاصل کی۔ میرے والدین کی دعاؤں اور حوصلہ افزائی کی وجہ سے آج مَیں معلمہ ہوں۔ بحیثیت معلمہ، مَیں نے ہر مقابلے میں حصہ لیا اور اس میں بھی اپنی کامیابی درج کروائی۔ یہ سب میرے والدین کی محنت، دعاؤں اور حوصلہ افزائی کا نتیجہ ہے۔ افسوس کہ معلمہ بننے کے بعد کی میری کامیابیاں والدہ محترمہ دیکھ نہیں سکیں۔ اللہ ان کی مغفرت فرمائے اور میرے والد کا سایہ مجھ پر سلامت رکھے (آمین)۔
سیّد شمشاد بی احمد علی (کرلا، ممبئی)
والدین اور اساتذہ


اللہ کا شکر ہے بچپن سے لے کر آج تک زندگی کے ہر موڑ پر کامیاب رہی ہوں۔ طالب علمی کے زمانے میں والدین اور اساتذہ میری حوصلہ افزائی کرتے تھے جس کی وجہ سے مَیں ہمیشہ کلاس میں اول آتی تھی۔ ان لوگوں کی حوصلہ افزائی کی وجہ ہی سے مَیں نے گریجویشن، پوسٹ گریجویشن اور بی ایڈ میں امتیازی نمبرات حاصل کئے۔ آج میں ایک کامیاب شادی شدہ زندگی گزار رہی ہوں۔ میرا تین سال کا بیٹا ہے جس کی مَیں بہترین انداز میں تربیت کرنے کی کوشش کر رہی ہوں اور یہ سب میرے اپنوں کی حوصلہ افزائی کے سبب ہی ممکن ہوپایا ہے۔
تسنیم کوثر نوید (ارریہ، بہار)
والدین اور شریک حیات کے تعریفی جملے


۱۹۸۵ء جنوری میں میرا پہلا مضمون روزنامہ انقلاب صفحۂ ’بزم ِ خواتین‘ میں شائع ہوا تھا۔ میرے مرحوم والد جو کہ پڑھے لکھے نہیں تھے لیکن نہایت ہی تجربہ کار اور گہری سمجھ، بوجھ کے مالک تھے۔ انہوں نے میرا مضمون سننے کی خواہش ظاہر کی۔ مَیں نے اپنا مضمون پڑھ کر سنایا، انہیں بہت پسند آیا اور کہا کہ ’’تم نے کافی اچھا مضمون لکھا ہے اب یہ سلسلہ جاری رکھنا۔‘‘ ان کی اِس حوصلہ افزائی نے میری ہمت باندھی اور مَیں نے لکھنے کا سلسلہ جاری رکھا۔ اور میرے کافی مضامین شائع ہوئے۔ خاتون مشرق اور بیسوی صدی جیسے رسالوں میں بھی میرے افسانے شائع ہوئے۔ اس کے بعد یہ سلسلہ چند وجوہات کی بنا پر رکا رہا۔ شادی کے بعد ۱۹۲۱ء میں روزنامہ انقلاب ’صفحۂ اوڑھنی‘ میں میری پہلی نظم ’شکوۂ زندگی‘ شائع ہوئی اور دو، تین مضامین شائع ہوئے۔ میرے نامدار میر ساجد علی قادری وہ بھی مضمون نگار ہیں اُن کے بھی کافی مضامین اور نظمیں شائع ہوچکی ہیں لیکن خرابیٔ طبیعت کی وجہ سے وہ اب لکھنے سے قاصر ہیں۔ وہ بھی میری نظم اور مضامین پڑھ کر بے حد خوش ہوئے اور کہا کہ ’’تم بہت اچھا لکھتی ہو آگے بھی لکھتی رہنا۔‘‘ اُن کی بھی حوصلہ افزائی سے میری مزید ہمت بڑھی اور مَیں نے اب تک یہ سلسلہ جاری رکھا ہے۔ اللہ تعالیٰ کے فضل و کرم، اور میرے مرحوم والد اور میرے شوہر کی حوصلہ افزائی میری کامیابی کا سبب بنی۔
قادری ریحانہ (جوہو اسکیم، ممبئی)
ایک حادثے نے سب کچھ بدل دیا


ایک حادثے نے میری زندگی کو تبدیل کر دیا۔ ہوا یہ کہ ایک دفعہ مَیں بس کے ذریعہ پٹنہ سے اپنے گاؤں جا رہی تھی۔ میرے پاس ایک چھوٹا سا بیگ تھا جس میں دو سوٹ، چند کاغذات، فوٹو، موبائل فون اور پیسے تھے۔ بس جب میرے گاؤں پہنچی تو میں نیچے اتر گئی۔ لیکن بیگ بس ہی میں بھول گئی۔ ایک گھنٹے کے بعد یاد آیا کہ میرا بیگ بس میں چھوٹ گیا ہے۔ بس جا چکی تھی۔ میری حالت پاگلوں جیسی ہوگئی تھی۔ سب کچھ اسی میں تھا۔ میری سمجھ میں نہیں آرہا تھا کہ اب کیا ہوگا۔ بھلا ہو میری دوست کا اور گھر والوں کا جنہوں نے مجھے بہت ہمت دی اور میری حوصلہ افزائی کی۔ سب نے مجھے یہ سمجھایا کہ صبح ہونے سے پہلے رات بہت کالی ہوتی ہے۔ گھبراؤ نہیں اچھے دن آنے والے ہیں۔ ان پرانی یادوں کو بھول جاؤ۔ آنے والے دنوں کا انتظار کرو۔ ہاں سچ ہی کہا تھا سب نے۔ دھیرے دھیرے سب کچھ بھول گئی تھی مَیں۔ پھر ایک نئی زندگی کی شروعات ہوئی تھی۔ آج میرے شوہر نے مجھے اس مقام تک پہنچا دیا ہے کہ میں اپنے قلم کے ذریعے اپنے دکھ، درد، غم اور خوشی کو افسانے کے روپ میں لوگوں تک پہنچاتی ہوں۔ میں ہر مہینے ایک افسانہ لکھتی ہوں۔ اب میری کتاب چھپنے والی ہے۔ میں ریڈیو پر بھی افسانے پڑھتی ہوں اور مصروف رہتی ہوں، الحمدللہ!
نشاط پروین (شاہ کالونی، مونگیر، بہار)
میرے والدین اور بھائی کی حمایت
میری کامیابی میں میرے والدین اور دو بھائیوں کا بہت بڑا کردار ہے۔ کیونکہ میرے والدین نے مجھے پڑھنے کے لئے دوسرے صوبے بھیجا تاکہ مَیں پڑھ لکھ کر ایک بہتر انسان بن سکوں اور زندگی کو بہتر طریقے سے جینا سیکھوں۔ لیکن دور ہونے کی وجہ سے مَیں نے جب بھی ہمت ہاری یا پریشانی ظاہر کی اس وقت میرے والدین نے میرا حوصلہ بڑھایا ‌اور ہمیشہ مجھے سمجھایا تاکہ جس مقصد کے لئے آئی ہوں اس مقصد میں کامیابی حاصل کروں۔ اس دوران میرے بھائی مجھ سے اکثر ملنے آتے تھے اور میری ضروریات کا خیال رکھتے تھے۔ وہ ہمیشہ میری حمایت کرتے کیونکہ والدین نے ان کو میری ذمہ داری سونپ دی تھی۔ جب بھی ضرورت پڑی میرے بھائی ہمیشہ حاضر رہے۔ ان لوگوں نے میری ہمیشہ حوصلہ افزائی کی۔ ان کی مدد اور رہنمائی نے مجھے آگے بڑھنے اور کامیاب ہونے میں مدد فراہم کی۔ 
گلناز مطیع الرحمٰن قاسمی (مدھوبنی، بہار)
منفی رویے میری کامیابی کے اصل اسباب


جب لوگ آپ کے راستے میں حائل ہوجائے، آپ کا مذاق اڑائیں، آپ کو تکلیف دینے والے الفاظ محض اسلئے استعمال کریں کیونکہ وہ محسوس کرتے ہیں کہ آپ اُن سے بہتر ہو، میرے سوشل میڈیا کے سفر میں، میں نے ان چیزوں کا سامنا کیا ہے لیکن یہی رویہ مجھے ہمیشہ حوصلہ دیتا رہا۔ اور ایک وہ دور تھا اور ایک آج کا دور ہے۔ میں نے بہت عزت پائی۔ اللہ نے مجھے وہ مقام عطا کیا جس کے بارے میں مَیں نے کبھی تصور نہیں کیا تھا۔ دراصل زندگی میں منفی افراد، منفی رویے، منفی حالات انسان کو نکھارنے کا کام کرتے ہیں۔ ایسا ہی کچھ میرا ساتھ ہوا۔ لوگوں کے منفی رویوں نے میری شخصیت کو نکھارنے میں اہم کردار ادا کیا ہے۔ مجھے بیحد خوشی ہے کہ آج مَیں تعلیمی میدان میں پیش پیش ہوں۔
آفرین عبدالمنان شیخ (شولاپور، مہاراشٹر)
’’تم کرسکتی ہو! ہم تمہارے ساتھ ہیں....‘‘


اسکول کے دنوں کی بات ہے جب مَیں ہائی اسکول میں پڑھتی تھی۔ تب دوڑ کے مقابلے کا انعقاد ہوا تھا۔ جس میں ہر اسکول سے صرف دو طالبات کو شرکت کرنی تھیں۔ ہماری پی ٹی ٹیچر نے تمام طالبات کی مشق کروانے کے بعد مجھے اور ایک دوسری طالبہ کو مقابلے کیلئے منتخب کیا۔ مقابلے کیلئے دوسری اسکول جانا تھا۔ پہلی مرتبہ اسکول سے باہر مقابلے کیلئے جانا تھا اس لئے مَیں گھبرا گئی اور شرکت کرنے سے منع کر دیا۔ لیکن ٹیچر نے میری حوصلہ افزائی کی اور کہا کہ ’’تم کرسکتی ہو۔ ہم تمہارے ساتھ ہیں۔ تم مقابلے میں شرکت کرو چاہے جو بھی نتیجہ آئے۔ ہمت کرو اور آگے بڑھو۔‘‘ ٹیچر نے مجھ میں جوش بھر دیا اور مَیں نے دوڑ کے مقابلے میں دوم مقام حاصل کیا۔
خان نرگس سجاد (جلگاؤں، مہاراشٹر)
شوہر اور ساس سسر کا ساتھ


لڑکیوں کو تعلیم حاصل کرنے کے لئے کافی جدوجہد کا سامنا کرنا پڑتا ہے۔ مَیں خوش قسمت ہوں کہ شادی کے بعد بھی میرا تعلیم کا سلسلہ جاری رہا۔ میرے شوہر نے میرا بھرپور ساتھ دیا۔ خوشی اس بات کی ہے کہ میری ساس سسر نے کبھی اعتراض نہیں کیا۔ گھر کی ذمہ داریوں کو نبھاتے ہوئے مَیں نے ایم اے بی ایڈ کی ڈگری حاصل کی۔ فی الحال انگلش میڈیم اسکول میں پڑھا رہی ہوں۔ مَیں اپنے شوہر اور ساس سسر کی شکر گزار ہوں۔
شاہدہ وارثیہ (وسئی، پال گھر)
والدین کا ساتھ اور معلمہ بننے کا سفر


مَیں اللہ رب العزت کی شکر گزار ہوں کہ اس نے مجھے ہر موڑ پر کامیابی و کامرانی عطا کی۔ آج مَیں درس و تدریس کے شعبے سے وابستہ ہوں۔ مجھے ایک قابل اساتذه بنانے میں میرے والدین خاص طور پر، میری والدہ کا اہم کردار رہا ہے۔ ان کی حوصلہ افزائی کی بدولت ہی مَیں نے ڈی ٹی ایڈ میں اوّل مقام حاصل کیا اور آج کے ایم ای ایس اردو پرائمری اسکول میں بحیثیت معلمہ اپنے فرائض پوری ایمانداری اور محنت سے انجام دے رہی ہوں۔ اللہ سے دعا ہے کہ وہ اسی طرح میرے والدین کو مجھ پر مہربان رکھے اور ان کا ساتھ ہمیشہ برقرار رکھے۔
مومن حنا عمران (بھیونڈی، تھانے)
سرپرستوں نے خوب رہنمائی کی


انسان میں حوصلے کی کمی نہیں ہوتی لیکن اس کی افزائی کرنے والا کوئی ہو تو یہ شجر تیزی سے پھلنے پھولنے لگتا ہے اور ثمر کی بارش ہونے لگتی ہے۔ اپنی سروس کے دوران متعدد ہیڈ ماسٹرز کے زیر سایہ و صدارت کام کرتے ہوئے ان کی حوصلہ افزائی کی وجہ سے میری کئی صلاحیتیں اجاگر ہوئیں اور پروان چڑھیں، جو میرے طالبعلموں کیلئے بھی مفید ثابت ہوئیں۔ جب مَیں نوکری کو خیرباد کہہ کر دین سے جڑنے کا ارادہ کیا تب ہماری باجی شبنم سیّد نے میری کافی حوصلہ افزائی کی، ابتدا میں پانچ یا دس منٹ بولنے سے شروعات کی تھی۔ اب الحمدللہ دو تین گھنٹے درس دینے پر قدرت رکھتی ہوں، اس کے علاوہ درس کی تیاری، داعی تربیتی کورس، آن لائن آف لائن درس دینے کیلئے نہ صرف ہر وقت رہبری کی بلکہ اپنے زریں تاثرات اور مثبت آراء سے میرے حوصلوں کو بلند کیا۔ غلطی پر ٹوکا بھی اور تعریف کرکے حوصلہ بھی بڑھایا۔
رضوانہ رشید انصاری (امبر ناتھ، تھانے)
پرچے میں ناکامی اور والدین کا سمجھانا


مَیں بارہویں میں انگریزی پرچے میں فیل ہوگئی تھی۔ دل و دماغ پر مایوسی اور اُداسی طاری تھی۔ امی ابو کو حقیقت معلوم ہوئی تو انہوں نے مجھے ڈانٹنے کے بجائے سمجھایا۔ انہوں نے کہ، تم صرف ایک پرچے میں فیل ہوئی ہو۔ تم دوبارہ امتحان دے کر کامیاب ہوسکتی ہو۔ کامیابی اور ناکامی، زندگی کا حصہ ہیں۔ ناکام ہونے پر گھبرانے کی ضرورت نہیں ہے۔ ابّا نے مشورہ دیا کہ امتحان کی تیاری کے ساتھ ساتھ سلائی کا کورس کروں تاکہ مَیں کسی ہنر میں ماہر ہو جاؤں۔ مَیں نے ایسا ہی کیا اور مجھے کامیابی بھی ملی۔ بارہویں میں اچھے نمبر آئے اور سلائی کے ساتھ ساتھ مَیں نے زردوزی کا کام سیکھ لیا اور کمپیوٹر کورس بھی کرلی۔ دھیرے دھیرے مجھے اپنے کام کی وجہ سے شہرت بھی ملنے لگی۔ سلائی کے کام میں اتنی ماہر ہوگئی کہ سسرال والے بھی مجھے داد دیتے ہیں۔ مجھے بے حد خوشی ہے کہ مَیں نے اپنے والدین کی بات پر عمل کیا۔
عظمیٰ مزمل انعامدار (شولاپور، مہاراشٹر)
کچھ نیا سیکھنے کی چاہ 


انسان کو ہمیشہ کچھ نہ کچھ سیکھتے رہنا چاہئے اس سے اُسے زندگی میں آگے بڑھنے میں مدد ملتی ہے۔ مجھ میں بچپن ہی سے کچھ نہ کچھ سیکھنے کا جذبہ تھا۔ میرے ذہن میں یہ طاری رہتا تھا کہ مجھے پڑھائی کرنی ہے، کمپیوٹر کورس کرنا ہے، مہندی کا ہنر سیکھنا ہے، سلائی میں مہارت حاصل کرنی ہے وغیرہ وغیرہ۔ کچھ نہ کچھ سیکھنے کے جذبے نے مجھے زندگی میں آگے بڑھنا سکھایا۔ اس چاہت نے مجھے کامیابی سے ہمکنار کیا۔ اللہ تعالیٰ مجھے مزید کامیابی عطا کرے (آمین)۔
گل افشاں شیخ (عثمان آباد، مہاراشٹر)
والدہ اور ماموں جان کی حوصلہ افزائی


اپنے بچوں کو اعلیٰ سے اعلیٰ تعلیم سے آراستہ کرنے کے لئے خوب مشقت کی اور آج وہ کامیاب ہیں۔ مَیں تعلیم یافتہ ہوں لیکن ایک عام زندگی گزار رہی تھی۔ میری امی جان اور میرے ماموں جان ڈاکٹر رونق جمال اور ڈاکٹر عبدالعزیز عرفان نے میری حوصلہ افزائی کی اور مجھے قلم اٹھانے کے لئے آمادہ کیا۔ میری یہ خواہش تھی کہ میری لکھی ہوئی کہانیاں اور افسانے رسالے کی زینت بنیں۔ اللہ کے فضل و کرم سے میرے مضامین رسالوں میں شائع ہوتے ہیں۔ میں گھر میں فی سبیل اللہ لڑکیوں کی عربی کلاس بھی لیتی ہوں۔ یہ سب میرے بڑوں کی حوصلہ افزائی کا نتیجہ ہے۔ اور مَیں پُرامید ہوں کہ ادب کے میدان میں اپنی ایک شناخت بناؤں گی، ان شاء اللہ!
فرحین انجم (پراڈائز کالونی، امراؤتی، مہاراشٹر)
قرآن پاک کی آیت نے میری حوصلہ افزائی کی 
کسی بھی کام میں آگے بڑھنے اور اس کو بہتر بنانے کیلئے ہمیں ہمیشہ حوصلہ افزائی کی ضرورت ہوتی ہے۔ الحمدللہ میرے گھر میں سبھی ہر کام میں میری حوصلہ افزائی کرتے رہتے ہیں لیکن کبھی کبھی کہیں پر پڑھی اور سنی جانے والی بات بھی ہماری حوصلہ افزائی کا باعث بن جاتی ہے۔ جیسے میرے ساتھ ہوا۔ ایک دن میں قرآن پاک میں سوره قلم کی آیت نمبر ایک کی تفسیر پڑھ رہی تھی جس سے مجھے قلم کی اہمیت اور اس کی طاقت کے بارے میں پتا چلا کہ میرا تھوڑا سا لکھنا بھی مجھے بہترین قلمکار بنا سکتا ہے اور دوسروں کو فائدہ بھی پہنچا سکتا ہے۔ اس کے بعد میرے اندر لکھنے کا شوق اور جذبہ پیدا ہوا لیکن مجھے سمجھ نہیں آرہا تھا کہ شروعات کیسے کی جائے تو میرے ذہن میں اس فیچر کا خیال آیا لیکن مجھے لگا کہ میں تو ایک ادنیٰ سی طالب علم ہوں۔ اگر میری تحریر شائع نہیں ہوئی تو.... لیکن میں نے ہمت کی اور اپنی پہلی تحریر روانہ کی اور الحمدللہ جب سے اب تک میری کئی تحریریں شائع ہوچکی ہیں اور میری تحریر میں نکھار بھی آتا جا رہاہے۔
مَیں اللہ کا شکر ادا کرتی ہوں کہ اللہ نے ہمیں ایسی عظیم کتاب سے نوازا جو ہمیں برائی سے روک کر اچھے کاموں کی طرف ابھرتی ہے اور میں انقلاب کے ان لوگوں کی بھی شکر گزار ہوں جنہوں نے مجھے یہ موقع دیا اور میری مزید حوصلہ افزائی کی۔
شازیہ رحمٰن (غازی آباد، یوپی)
والدین کی حوصلہ افزا باتیں
آگے بڑھنے کے لئے حوصلہ افزائی بہت ضروری ہے۔ کسی بھی انسان کے لئے حوصلہ افزائی محرک کا کام کرتی ہے۔ مثبت اور منفی دونوں صورتوں میں یہ کامیابی کی ضامن ہے۔ بشرطیکہ ہمارے اندر مضبوط قوت ارادی اور بلند عزائم ہو۔ میری حوصلہ افزائی کرنے والوں کی فہرست میں میرے والدین سب سے پہلے ہے۔ بچپن سے لے کر عملی زندگی میں آگے بڑھنا ہو، زندگی کے ہر موڑ پر، حالات اور موقع کی مناسبت سے بھر پور حو صلہ افزائی کی ہے۔ امتحان ہو یا کوئی مسئلہ در پیش ہو وہ ہر صورتحال میں مجھے حوصلہ دیتے آئے ہیں۔ ان کی حوصلہ افزائی سے مجھے تحریک ملتی ہے۔ یہی وجہ ہے کہ آج میں کامیاب اور مطمئن ہوں۔
سمیرہ گلنار محمد جیلانی (ناندیڑ، مہاراشٹر)
والد صاحب کی نصیحت سے کامیابی ملی
مجھے بچپن ہی سے پڑھائی کا بہت شوق تھا اور میں بہت لگن اور شوق سے اپنی پڑھائی کر رہی تھی۔ دسویں اور بارہویں میں میرے حوصلے پست ہوگئے تھے۔ جب کالج میں داخلہ لینے کی بات آئی تو سب لوگوں نے بہت مخالفت کی اور ایسی ایسی باتیں کہیں کہ سن کر بہت دکھ ہوا تھا اور مایوسی چھا گئی تھی۔ بعض اوقات جب ہم لوگوں کے طعنے اور فقرے بازیوں سے بہت پریشان ہوجاتے ہیں اور ہمیں سمجھ نہیں آتا کہ کیا کریں اور ہمت جواب دینے لگتی ہے تو ہمارے والدین کی نصیحت اور حوصلہ افزائی ہی ہمیں آگے بڑھنے میں مدد کرتی ہے۔ میرے والد صاحب نے ہمت دلائی۔ وہ کہتے تھے کہ، ’’کسی کی باتوں پر دھیان مت دو.... اپنا کام کرو! دوسروں کی باتوں کو اہمیت دو گی تو وہ لوگ تم پر حاوی ہوجائیں گے۔ اس لئے غیر ضروری باتوں کو نظر انداز کرو۔‘‘ ان کی انہیں باتوں سے بہت ہمت ملی، پھر میں نے پوسٹ گریجویشن کیا اور تدریسی امور بھی انجام دیئے۔ آج لگتا ہے کہ اگر مایوسی کا شکار ہو جاتی تو کیا ہوتا!
ایس خان (اعظم گڑھ، یوپی)
شوہر کا تعاون
شادی کے بعد مجھے ایک مرض لاحق ہوگیا تھا۔ زندگی مشکل لگنے لگی تھی۔ اس وقت میرے شوہر نے میرا ساتھ دیا۔ انہوں نے مجھے گھر سے کاروبار کرنے کا مشورہ دیا۔ مَیں نے اس مشورہ پر عمل کیا اور خود کو مصروف رکھنے کی کوشش کی۔ دھیرے دھیرے مَیں بہتر محسوس کرنے لگی۔ گزرتے وقت کے ساتھ میرا کاروبار ترقی کرتا گیا۔ مجھے ایک پہچان مل گئی۔ ایک وقت ایسا تھا کہ جب مجھے لگتا ہے کہ شاید مَیں چند دن کی مہمان ہوں لیکن میرے شوہر نے مجھے حوصلہ دے کر زندگی کو نئے رُخ پر ڈال دیا۔
نسرین انصاری (بھیونڈی، تھانے)

والدہ نے میری بے حد حوصلہ افزائی کی تھی
کسی کی حوصلہ افزائی ہمیں نا اُمیدی کے سمندر سے نکال کر اُس خشکی پر پہنچا دیتی ہے جہاں ہمیں بہت کچھ کر گزرنے کی ترغیب ملتی ہے۔ وہ ۲۷؍ مئی کی صبح تھی میں اپنے کمرے میں بیٹھی پہلی دفعہ عربک کیلی گرافی کرنے میں مصروف تھی۔ آرٹ میرا جنون تھا اور اسی کو میں کسی صفحے پر اتارنا چاہتی تھی۔ خدا خدا کرکے ۲؍ گھنٹے کی مسلسل انتھک مشقت کے بعد میری کیلی گرافی مکمل ہوئی۔ مَیں نے کئی رنگوں کی مدد سے اسم پاک ’’اللہ‘‘ لکھا تھا۔ تکمیل کے بعد مَیں نے اپنی کیلی گرافی والدہ محترمہ کو دکھائی اُن کی آنکھیں حیرت سے پھیل گئی۔ وہ مسرت و بے یقینی کے ملے جلے جذبات کے زیر اثر تھیں۔ مجھے یاد ہے آج بھی اُنہوں نے میری بیحد حوصلہ افزائی کی تھی۔ ڈھیر ساری دعاؤں سے نوازا تھا۔ یہ اُن کی حوصلہ افزائی اور دعاؤں کا ثمر ہے کہ آج میں عربک کیلی گرافی میں کسی حد تک ماہر ہوگئی ہوں۔ لوگ میرے بنائے گئے طغرہ کو دیکھتے ہیں، پسند کرتے ہیں اور اچھی قیمت پر خرید لیتے ہیں!
مریم ارشاد (ممبئی، مہاراشٹر)
والد صاحب کی مشفق انداز میں حوصلہ افزائی


میرے والد محترم کی حوصلہ افزائی جو میری کامیابی کی بہت بڑی وجہ ہے۔ معلمہ بننے کے لئے ٹیچر اہلیتی امتحان درکار ہے۔ دیگر مصروفیات اور گھریلو ذمہ داریوں کی وجہ سے مَیں یہ امتحان کامیاب نہ ہوسکی تھی۔ اس وقت میرے والد صاحب نے میری حوصلہ افزائی کی انہوں نے مجھے اگے بڑھنے کی ترغیب بھی دی۔ مَیں اپنی ناکامی پر بہت افسردہ تھی۔ والد صاحب نے نہایت مشفق انداز میں مجھے سمجھایا۔ مجھے بتایا کہ ناکامی کی وجہ میری قابلیت کی کمی نہیں بلکہ دیگر ذمہ داریاں بھی ہیں۔ ان کے سمجھانے کا انداز اور حوصلہ افزائی کی وجہ سے مَیں نے دوبارہ تیاری کی اور امتحان میں کامیابی حاصل کرلی اور آج فتح کی اس منزل پر ہوں جہاں جلد ہی ٹیچرز بھرتی میں میرا بھی نام ہوگا، ان شاء اللہ!
سیمیں صدف میر نوید علی (جلگاؤں، مہاراشٹر)
حوصلہ افزائی بنی طاقت
انسان کی زندگی میں اس کے حوصلے کا امتحان ہوتا رہتا ہے اور جو باہمت اور حوصلہ مند ہوتا ہے وہ کامیابی کی منزلیں طے کر لیتا ہے۔ خود اعتمادی اور لگن ہی کسی انسان کو کامیابی کے مدارج طے کرنے میں معاونت فراہم کرتے ہیں۔ مجھے اگر کبھی کسی مقام پر کامیابی ملی ہے تو رب العالمین کے فضل سے اور میری محنت اور خود اعتمادی اور والدین، اساتذہ و اپنوں کی دعاؤں اور ساتھ سے۔ ان تمام کے باوجود مجھے احساس ہوتا ہے کہ ابو امی اور دادا کے ساتھ ساتھ میری مخلص و ہمدرد سہیلی کی پرہمت باتیں مجھے کامیابی کی طرف لے گئیں۔ اگر زندگی میں مثبت پہلو کی طرف رہنمائی کرنے والے سچے لوگ میسر ہیں تو ان کی قدر لازمی ہے کیونکہ ان کی حوصلہ کن باتیں بلندیوں میں اڑان بھرنے کیلئے ہر آن تیار کرتی رہتی ہیں اور یہ یاد دلاتی ہیں کہ اگر آپ کو کامیاب ہونا ہے تو پہلے خود کو پہچانئے اور منفی سوچ کے حامل لوگوں کو نظر انداز کرکے مسکراتے ہوئے اپنی صلاحیت کا مظاہرہ کیجئے۔
بنت شکیل احمد (قاسم پورہ، مئو، یوپی)
استاد اور شوہر نے حوصلہ افزائی کی
قلمکاری، مقالہ نگاری، مضمون نویسی کا شوق و ذوق مجھے بچپن سے ہی تھا، لیکن اس وقت مجھے اتنا شعور نہ تھا کہ میں کچھ لکھوں اور اس پر محنت کرکے تحریری میدان میں قدم بڑھاؤں، البتہ ایک دو تحریر زمانۂ طالب علمی میں لکھ کر اپنے استادِ گرامی سے اصلاح کروائی تھی، انہوں نے میری حوصلہ افزائی کی اور تحریر لکھنے کی طرف تاکید کی۔ لیکن میں اپنی درسی کتابوں کے مطالعہ میں ہی مستغرق رہی اور تحریر پر خاص توجہ نہ دے سکی۔ پھر چند سال بعد میری استانی صاحبہ کی زیر نگرانی میں چند مضامین لکھے، پھر یہ سلسلہ بند ہو گیا۔ پھر شادی کے بعد جب میں نے اپنے شوہر سے اپنی دلی خواہش ’مضمون نگاری‘ کا اظہار کیا تو انہوں نے مجھے اجازت دی اور میری سابقہ تحریروں پر حوصلہ افزائی کی۔ باوجود اس کے کہ میری سابقہ تحریریں ظاہری حسن اور باطنی معنویت سے عاری تھیں، لیکن اس حوصلہ افزائی نے میری پست ہمت کو بلند کیا۔ میں اس جستجو اور تلاش میں رہی کہیں سے مجھے اس کے قواعد و ضوابط معلوم ہوں اور میں چند لائن لکھتی رہوں، اسی دوران زیادہ عرصہ نہیں گزرا کہ مجھے آن لائن مضمون نگاری کورس کی ایک پوسٹ ملی، یہ دیکھ کر میری خوشی کی انتہا نہ رہی۔ میں نے رابطہ کیا۔ اس میں داخلہ لے لیا، اس کورس کو کرنے کے بعد الحمدللہ میری تحریر میں کچھ حد تک نکھار آتا گیا۔ اگرچہ اب بھی مجھے لکھنا نہیں آتا اور بہت سی خامیاں ره جاتی ہیں، لیکن اپنے آپ میں پہلے سے بہتر محسوس کرتی ہوں۔ یہ کاوشیں اور محنتیں کرانے والے اس کورس کے سرپرست اور نگراں مولانا عادل اور مولانا ارقم ہیں۔ انہوں نے میری بہت حوصلہ افزائی کی۔ ہمیشہ مضمون لکھنے کی تاکید اور استقلال و استحکام پر ابھارتے رہے۔ ان حضرات کی حوصلہ افزائی کی وجہ سے آپ لوگ میری دوسری تحریر روزنامہ انقلاب میں پڑھ رہے ہیں۔
رضاء الفاطمہ نور سعید مرکزی (نوساری، گجرات)
میرے دونوں چاچا نے میرا بھرپور ساتھ دیا


میری زندگی میں کامیابی کی بنیاد میرے دونوں چاچا (شمس الدین چاچا اور عبدالرحمٰن چاچا) نے رکھی۔ ابو میٹرک پاس تھے اور کھیتوں کی دیکھ بھال کرتے تھے۔ ہماری تعلیم و تربیت پر توجہ کیلئے انہیں زیادہ وقت نہیں مل پاتا تھا لیکن میرے دونوں چاچا نے ہماری تعلیم و تربیت میں کوئی کمی نہ ہونے دی۔ دونوں درس و تدریس سے وابستہ تھے۔ انہوں نے میری اور میرے بہن بھائی کی تعلیم پر بھرپور توجہ دی۔ میری خوبیوں کو پہچان کر اسے نکھارا اور زندگی کے ہر اس امتحان میں رہنمائی کی جہاں مجھے اس کی سخت ضرورت تھی۔ وہ دامے درمے قدمے سخنے میرے اور میرے بہن بھائی کے ساتھ رہے۔ ان دونوں نے میری زندگی میں ایک ایسی روشنی کا کام کیا جو ہمیشہ مجھے آگے بڑھنے کی ترغیب دیتی رہی۔ جب بھی کسی مشکل سے سامنا ہوتا وہ ہمیشہ ساتھ کھڑے ہوتے اور ہمیں اپنی کوششوں کو جاری رکھنے کی ترغیب دیتے۔ ان کے مشورے اور رہنمائی نے مجھے ہر قدم پر سہارا دیا۔ میرے دونوں چاچا کی رہنمائی اور حوصلہ افزائی نے میری زندگی کے ہر موڑ پر میری رہنمائی کی۔ ان کی سکھائی ہوئی باتوں نے مجھے ایک مضبوط انسان بنایا اور میری کامیابی کی بنیاد رکھی۔ آج میں جس مقام پر ہوں وہ مقام حاصل کرنا ان کی حوصلہ افزائی اور تعاون کے بغیر ناممکن تھا۔ وہ کل بھی میری چھوٹی سی چھوٹی کامیابی اور حصولیابی پر خوش ہوتے تھے۔ آج بھی اسی قدر خوش ہوتے ہیں اور آگے بڑھنے کیلئے حوصلہ افزائی کرتے ہیں۔ اللہ میرے دونوں چاچا کو سلامت رکھے اور انہیں صحت والی لمبی عمر عطا فرمائے (آمین)۔
نکہت انجم ناظم الدین (مانا، مہاراشٹر)
استاد ِمحترم کی حوصلہ افزائی میری کامیابی کا سبب بنی
حوصلہ افزائی، خوابیدہ صلاحیتیوں اور جرأت کو مہمیز دے کر آپ کی ذہنی صلاحیتیں اُجاگر کرکے کامیابی کی شاہراہ پر گامزن کرسکتی ہیں۔ ہمارے استاد محترم مولانا عبدالرحیم اصلاحی ہماری بہت حوصلہ افزائی کرتے تھے۔ وہ کہتے تھے علم حاصل کرنے کیلئے کوئی وقت کوئی عمر درکار نہیں لہٰذا علم حاصل کرتی رہو۔ کہتے تھے ماں کی گود سے لے کر قبر تک علم حاصل کرو۔ کسی بھی مقابلے کی فہرست میں میرا نام دیکھ کر خوش ہوجاتے تھے وہ میرا حوصلہ بڑھاتے تھے۔ کہتے تھے اچھی شاگردہ ہو ذہین ہو۔ جب میں عربی ششم کے کلاس میں تھی تو وہ کہتے تھے محنت جاری رکھنا، ذہن اچھا ہے، ان شاء اللہ تعالیٰ اچھے نمبرات سے پاس ہو جاو گی اور ان کی یہ حوصلہ افزائی میرے لئے باعث مسرت تھی۔ میں دوسرے اسکول میں امتحان دینے جاتی تھی۔ اندر خوف رہتا تھا وہاں بھی انہوں نے میری حوصلہ افزائی کی۔ عربی ششم کا جب میرا نتیجہ آیا تو الحمدللہ میری پہلی پوزیشن تھی۔ ہمارے استاد محترم کو خبر پہنچی تو وہ بہت خوش ہوئے۔ دعائیں دیں اور حوصلہ افزائی کی کہ آگے بڑھتی رہنا۔ کامیابی تمہاری قدم چومےگی اور پھر انہیں کی حوصلہ افزائی کی بدولت میں نے آن لائن کلاسیز میں اعلیٰ سے اعلیٰ کامیابی حاصل کی۔ میں تو کچھ بھی نہیں تھی، انہوں نے مجھے اس قابل بنایا۔ آج میں جو کچھ بھی ہوں، جس مقام پر بھی ہوں، استاد محترم مولانا عبدالرحیم اصلاحی ہی کی حوصلہ افزائی کی بدولت ہوں۔ اللہ رب العزت سے دعا ہے اللہ ہمارے استادوں کو لمبی عمر عطا فرمائے اور انہیں ہر بیماری سے دور رکھے اور ہمیشہ خوش و آباد رکھے (آمین)۔
ہاجرہ نور محمد (چکیا ، حسین آباد، اعظم گڑھ، یوپی)
’’تم ڈی ایڈ کرکے خود کو ثابت کر دو....‘‘


بارہویں کے امتحانات کے بعد میرا رجحان سائنسی شعبے میں اگے بڑھنا تھا۔ لیکن گھر کے معاشی حالات کی بنا پر میں اس شعبے میں نہیں جاسکی۔ حالانکہ میرے والدین نے بڑی کوشش کی مگر نا کام رہے۔ میری بڑی بہن معلمہ کے طور پر خدمات انجام دے رہی تھی اور میرا ایسا ماننا تھا گھر میں ایک معلمہ کافی ہے۔ اس کے علاوہ میں ڈی ایڈ نہیں کرنا چاہتی تھی لیکن میرے والد کے دوست جن کا نام ابراہیم ہے۔ انہوں نے مجھے کافی سمجھایا اور کہا یہ چیلنج ہے کہ تم ڈی ایڈ کرکے خود کو ثابت کر دو۔ بس ان کا یہ جملہ میرے لئے چیلنج بن گیا۔ اور میں نے کمر کس لی۔ اور ڈی ایڈ میں ایڈمیشن لے لیا۔ الحمدللہ! چاچا کو بہت ساری دعائیں۔ اگر وہ میری حوصلہ افزائی نہ کرتے تو اج میں درس و تدریس کے شعبے میں اپنی خدمات انجام نہ دے رہی ہوتی۔ اللہ کا شکر ہے اج میں کامیاب معلمہ ہوں اور سماج کی خدمت انجام دے رہی ہوں۔
مومن رضوانہ محمد شاہد (ممبرا، تھانے)
مَیں اپنے اساتذہ کی بہت شکر گزار ہوں

دہم جماعت میں کامیابی کے بعد گیارہویں جماعت میں، مَیں نے داخلہ آرٹس میں لیا تھا۔ پہلے مجھے تعلیم کو جاری رکھنے کی اجازت نہیں تھی اور جب اجازت ملی تب مجھے اس بات کا علم تھا کہ سائنس سے پڑھنے کی چاہ ہوتے ہوئے بھی اس کے اخراجات پورے نہیں ہوسکتے ہیں۔ لیکن کہتے ہیں نا جہاں چاہ وہاں راہ کے مصداق، مجھے دہم جماعت میں اچھے نمبرات حاصل ہوئے تھے اس لئے مجھے آرٹس کے بجائے سائنس میں لے لیا گیا۔ اس وقت میری کلاس سمیع اللہ خان سر جو بائیلوجی پڑھاتے تھے۔ انہوں نے میری حوصلہ افزائی کی اور مالی حالت کو دیکھتے ہوئے مجھے فزکس خود ہی پڑھایا۔ وہیں راحت عزیز سر اور مجیب الرحمٰن سر نے بھی میری بر وقت حوصلہ افزائی کی جس کا نتیجہ یہ نکلا کہ میں بارہویں جماعت میں اول نمبر سے کامیاب ہوئی۔ میں اپنے اساتذہ کی بہت شکر گزار ہوں۔ آج بھی میرے اطراف چند ایسے افراد ہیں جو میری حوصلہ افزائی کرتے ہیں۔ ان شاء اللہ میں ان تمام کی امیدوں پر پورا اترنے اور مزید کامیابیوں سے ہمکنار ہونے کی تابہ مقدور کوشش کروں گی۔
فردوس انجم (بلڈانہ مہاراشٹر)
کامیاب ازدواجی زندگی میں میری ساس کا کردار


نشیب و فراز تو سبھی کی زندگی میں آتے رہتے ہیں۔ بزرگوں کے سامنے اپنی بات کوئی معنی نہیں رکھتی۔ میری ازدواجی زندگی کے شروع میں حوصلہ شکن پریشانیاں واقع ہوئیں۔ میری والدہ اور ساس نے مجھے صبر کرنے کی تلقین کی اور صبر سے کام لینے کو کہا۔ اُن کی حوصلہ افزائی کے باعث آخر میں مجھے کامیابی ملی۔ جو سب جگہ میری برائیاں کرتے پھرتے تھے بعد میں ہر جگہ میری تعریفوں کے پل باندھنے لگے۔ صبر کا پھل واقعی میٹھا ہوتا ہے۔ انسان کو ہمت نہیں ہارنی چاہئے اور اللہ پر کامل یقین رکھتے ہوئے ہر پریشانی کا سامنا کرنا چاہئے۔
نجمہ طلعت (جمال پور، علی گڑھ)
پرنسپل صاحب نے میرے ذوق کو پہچانا


مجھے بچپن ہی سے لکھنے کا بہت شوق ہے۔ جو بھی خیالات ذہن میں آتے تھے انہیں ایک ڈائری میں قلم بند کر دیا کرتی مگر کسی بھی تخلیق کو کبھی شائع نہیں کر پائی کہ ہر وقت یہ ڈر ستاتا کہ پتا نہیں میری تخلیقات کسی کو پسند بھی آئیں گی یا صرف ایک مذاق بن کر رہ جائیں گی۔ برسوں تک اسی کشمکش میں رہی لیکن وہ وقت بھی آگیا جب میرے لکھنے کا شوق اور پروان چڑھا اور مجھے عمدہ کامیابی بھی ملی۔ جب ہمارے کالج میں والد صفت ڈاکٹر اظہر حیات پرنسپل کے عہدے پر فائز ہوئے۔ انہوں نے میرے ذوق کو پہچانا اور نہ صرف مجھے لکھتے رہنے کا مشورہ دیا بلکہ میری مسلسل حوصلہ افزائی بھی کرتے رہے۔ یہ انہی کی حوصلہ افزائی کا نتیجہ ہے کہ میری ایک کتاب بھی شائع ہوئی اور دو تین اشاعت کے منتظر ہیں۔ انہی کی بدولت آج اردو ادب میں مجھے اپنی ایک پہچان بنانے میں کافی حد تک کامیابی ملی ہے۔
ڈاکٹر روحینہ کوثر سیّد (ناگپور، مہاراشٹر)
میرے پاپا میری طاقت


بچپن میں اسکولوں میں مقابلے ہوتے تھے۔ مَیں ان مقابلوں میں حصہ لینا چاہتی تھی لیکن مجھ میں حوصلہ نہیں تھا۔ مجھے لگتا تھا کہ مَیں کبھی بھاگ دوڑ والے مقابلوں کا حصہ نہیں بن پاؤں گی۔ اس صورتحال میں پاپا نے مجھے حوصلہ دیا۔ مَیں مقابلے میں حصہ لینے لگی۔ پھر ایسا بھی وقت آیا کہ مَیں ان مقابلوں میں اول آنے لگی۔ یقیناً میری اس کامیابی میں میرے پاپا نے اہم رول ادا کیا ہے۔
صبیحہ خان (ممبئی)
میرے رفیق حیات نے میری حوصلہ افزائی کی


مَیں نے جامعةالصالحات، رامپور سے عالمہ اور فاضلہ کی سند حاصل کی۔ اسی درمیان میں نے علیگڑھ مسلم یونیورسٹی سے پرائیویٹ طور پر میٹریکولیشن اور پی یو سی کی سرٹیفکیٹس فرسٹ ڈویژن سے حاصل کی۔ پھر میرا نکاح میرے بڑے ماموں اور سرپرست محترم ظفر اقدس جیلانی کے بڑے بیٹے عمر اقدس جیلانی سے ہوگیا۔ میرے شریک زندگی نے جب میرا رجحان درس و تدریس کی جانب دیکھا اور مجھے اپنے بیشتر اوقات کتابوں کی نذر کرتے دیکھا تو انہوں نے مزید تعلیم حاصل کرنے میں میری ہر ممکن معاونت کی۔ انہوں نے مجھے بی اے، ایم اے، بی ایڈ اور ایم ایڈ کرنے میں نہ صرف اپنا وقت، اپنی توانائی اور اپنے پیسے صرف کئے بلکہ میری بھرپور حوصلہ افزائی بھی فرمائی۔ اگرچہ میں جامعةالصالحات کی ایک بہترین اور ذہین طالبہ تسلیم کی جاتی تھی، خاص طور سے انگلش لٹریچر میں لیکن اپنے شوہر سے حاصل کئے ہوئے علم سے احساس ہوا کہ علم ایک اتھاہ سمندر ہے۔ انہوں نے میری خود اعتمادی بڑھانے کیلئے حضرت محسن دربھنگوی، جناب محمد اثری اور پروفیسر عبد الباری کی خدمات حاصل کیں۔ میں نے جامعةالصالحات سے فراغت کے بعد صبر کرلیا تھا کہ اب بس ہوگئی پڑھائی لکھائی لیکن میرے رفیق حیات نے میری حوصلہ افزائی کی اور آج میں بہار کے مسلم بچیوں کے سب سے قدیم اور بڑے ادارے کی نہ صرف سب سینئر معلمہ ہوں بلکہ اس ادارے کے مختلف شعبوں کی سربراہ بھی رہی۔
ناز یاسمین سمن (پٹنہ، بہار)
قلمکار ساتھی نے میری مدد کی


۲۰۱۶ء میں، مَیں نے فیس بک کے شائری گروپس میں لکھنا شروع کیا تھا۔ وہاں پر میری شاعری کافی لوگوں کو پسند آتی تھی۔ کچھ لوگ سمجھتے تھے کہ کسی شاعر کی شاعری لکھتی ہوں، جب ان کو یہ پتا چلا کہ میں خود کے ہی احساس اپنے لفظوں میں لکھتی ہوں تو انہوں نے مجھے اپنی کتاب لکھنے کا مشورہ دیا۔ اس سے میری حوصلہ افزائی ہوئی اور میں شائع کروانے کے راستے تلاش کرنے لگی، میرے ایک ساتھی مقیت الرحمٰن صاحب جو خود بھی لکھتے ہیں انہوں نے میری بہت مدد کی۔ فروری ۲۰۲۱ء میں مجھے کامیابی ملی، جب میری پہلی کتاب شائع ہوئی۔ وہیں سے آہستہ آہستہ راہیں کھلتی گئیں۔ مجھے بہت زیادہ لکھنے کا موقع ملا اور کافی قلمکاروں سے جان پہچان ہوئی۔ اب تک میری ۱۳؍ کتابیں چھپ چکی ہیں۔ کافی لوگ میرے لکھنے کے طریقے کو پسند کرتے ہیں۔ اپنی اس کامیابی کے لئے میں جناب مقیت الرحمٰن صاحب کا تہہ دل سے شکریہ ادا کرتی ہوں۔
ہما انصاری (مولوی گنج، لکھنؤ)
سہیلیوں کی حوصلہ افزائی 
یوں تو کسی بھی شخص کی کامیابی کے پیچھے عموماً سب سے پہلا ہاتھ والدین کا ہوتا ہے اور پھر اساتذہ اور دیگر لوگ بھی اس کار خیر کا حصہ ہوتے ہیں۔ میرے ساتھ بھی یہی کچھ ہے الحمدللہ والدین، بھائی، بہن اور اساتذہ سبھی کا بھرپور تعاون رہا ہے لیکن ان سب کے ساتھ میری سہیلیوں کا بھی میری کامیابی میں بڑا دخل ہے۔
ان کا خاص ذکر اس لئے، کہ ہم جماعتوں میں اکثر ایک دوسرے سے کتمان علم اور حسد جلن کی بیماری عام ہوتی ہے، لیکن میری ہم جماعتیں کافی مختلف تھیں۔ ایک دوسرے کے ساتھ ہنسی مذاق میں بھی کچھ ایسے جملے بول جایا کرتی تھیں جس سے ہمیں برابر حوصلہ ملتا تھا۔ عین امتحان کے موقع پر باتوں ہی باتوں میں تیاری کرا دینا، بیماری میں بھرپور تعاون کرنا، کوئی سبق یاد نہ ہونے پر حوصلہ افزائی کرتے رہنا اور ساتھ بیٹھ کر یاد کرا دینا اور کبھی کبھار بات کو مذاق کے دھارے پر لے جا کر کچھ اس انداز میں سمجھانا کہ وہ بات ہمیشہ کے لئے یاد ہوجاتی تھی، یہ میری سہیلیوں کا خاص وصف تھا۔ سب سے خوبصورت بات یہ تھی کہ کوئی کسی پر فوقیت نہیں دکھاتی تھی اور یہی وجہ ہے کہ آج بھی ان کے کہے ہوئے جملے ذہن و دل کو مسرور کر دیتے ہیں اور حوصلہ دیتے ہیں۔
بنت رفیق (جوکھن پور، بریلی)
میرے شوہر کی حوصلہ افزائی کے بغیر یہ ممکن نہ تھا


اوپن یونیورسٹی سے ایک فوری طبی امدادی سرٹیفکیٹ کورس کرنے کی خواہش ہوئی لیکن مصروفیات کے مدنظر یہ خیال آیا کہ شاید یہ کورس کرنا بہت مشکل ہوگا۔ لیکن میرے شوہر کا کہنا تھا کہ یہ کام آسان ہے۔ اُنہوں نے داخلہ کروا دیا۔ جب بھی مجھے اس کی تیاری مشکل لگتی وہ بدستور میری حوصلہ افزائی کرتے اور گھر کے کئی کاموں میں مدد بھی کرتے رہے۔ آخرکار میں نے ان کے حوصلہ دلانے کی بدولت تحریری، پریکٹیکل اور وائیوا تینوں حصے کامیابی سے مکمل کر لئے۔ سرٹیفکیٹ ہاتھ میں آجانے پر مجھے نہایت مسرت حاصل ہوئی اور یہ ایک يقینی امر تھا کہ میرے شوہر کی حوصلہ افزائی کے اور ان کی لگاتار ہمت بنائے رکھنے کی تلقین کے بغیر یہ سرٹیفکیٹ کورس کرنا ممکن نہیں تھا۔
سلطانہ صدیقی (جامعہ نگر، نئی دہلی)

اگلے ہفتے کا عنوان: بچوں میں عدل و انصاف کا جذبہ کیسے پیدا کیا جائے؟

اظہار خیال کی خواہشمند خواتین اس موضوع پر دو پیراگراف پر مشتمل اپنی تحریر مع تصویر ارسال کریں۔ وہاٹس ایپ نمبر: 8850489134

متعلقہ خبریں

This website uses cookie or similar technologies, to enhance your browsing experience and provide personalised recommendations. By continuing to use our website, you agree to our Privacy Policy and Cookie Policy. OK