یوں تو ہر وقت کا بولنا اچھا نہیں سمجھا جاتا مگر زندگی میں ایسا وقت بھی آجاتا ہے جب نہ بولنا اور خاموش رہ جانا نقصان کا باعث ہو جاتا ہے۔ دراصل ایسی خاموشی تعلقات میں بڑی سی دراڑ ڈال دیتی ہے۔ اگر ہم بروقت اس درز کو بھرنے کی کوشش نہیں کرتے تو رشتوں کے بیچ کی یہ خلیج وقت کے ساتھ اور گہری ہوتی چلی جاتی ہے۔
بدگمانی اور غلط فہمیاں ہماری انفرادی اور سماجی زندگی کیلئے زہر کا کام کرتی ہیں۔تصویر: آئی این این۔
خاموشی اور گفتار میں اگر کوئی موازنہ کیا جائے تو لازمی طور پر خاموشی کے حق میں زیادہ ووٹ ہوں گے۔ ایک چپ ہزار سکھ کا محاورہ ہم سب نے سن رکھا ہے اور اپنی زندگی کے کسی نہ کسی مرحلے پر اس سے مستفید بھی ہوئے ہیں، کئی مرتبہ ایسا ہوتا ہے کہ بات کرنے سے بات زیادہ بگڑ جاتی ہے اور اس کے بالکل برعکس کبھی یوں بھی ہوتا ہے ایک خاموشی بگڑی ہوئی بات بنا دیتی ہے۔ اب اس سارے متضاد منظرنامے میں اہم اور قابل توجہ یہ چیز ہے کہ ہمیں علم و احساس ہو کہ کب خاموش رہنا ہے اور کب گفتگو کرنی ہے؟ کیونکہ سکوت و گفتار دونوں ہی مخصوص مواقع پر اپنی اپنی جگہ پر اہم ہیں۔
یوں تو ہر وقت کا بولنا اچھا نہیں سمجھا جاتا مگر زندگی میں ایسا وقت بھی آجاتا ہے جب نہ بولنا اور خاموش رہ جانا نقصان کا باعث ہو جاتا ہے۔ مثال کے طور پر کبھی ہمارے رشتوں یا تعلقات میں کوئی معمولی سا اختلاف، چھوٹی سی بدگمانی یا غلط فہمی پیدا ہوجاتی ہے اور فریقین اس غلط فہمی کو خاموشی سے نظر انداز کرتے رہتے ہیں۔ نتیجتاً یہ خاموشی تعلقات میں بڑی سی دراڑ ڈال دیتی ہے۔ اگر ہم بروقت اس درز کو بھرنے کی کوشش نہیں کرتے تو رشتوں کے بیچ کی یہ خلیج وقت کے ساتھ اور گہری ہوتی چلی جاتی ہے۔ دونوں فریق اپنی انا اور ہٹ دھرمی کو گلے لگائے ہوئے طویل عرصے تک ایک دوسرے سے ناراض اور بدگمان رہتے ہیں۔ ایک وقت ایسا بھی آتا ہے کہ وہ ایک دوسرے کی صورت تک دیکھنے کے روادار نہیں رہتے۔ بطور مسلمان ہم جنہیں آپس میں تین روز سے زیادہ قطع تعلق کی اجازت ہی نہیں برسوں گزار دیتے ہیں کہ سگے بھائی بہن اور قریب ترین رشتے بھی آپسی دشمنی یا بدگمانی کو نہ صرف ساری عمر پالتے رہتے ہیں بلکہ کچھ تو اپنی اولاد کے ذہن و دل میں بھی ان نفرتوں اور بیگانگی کی فصل بو جاتے ہیں۔ نتیجتاً خوبصورت ترین رشتوں اور اچھے بھلے متحد خاندانوں کا شیرازہ بکھر جاتا ہے۔ دلوں کی تنگی، عدم برداشت، ناچاقی اور قطع تعلقی کے بد اثرات اور بے برکتی آنے والی نسلوں میں بھی منتقل ہوتی رہتی ہے۔ دراصل بدگمانیوں کا معاملہ بھی ایک گرداب کی طرح ہوتا ہے جو نقطے سے شروع ہو کر طویل دائروں میں پھیلتا چلا جاتا ہے اور پھر وہ بھنور اپنے قریب آنے والی ہر شے کو غرقاب کردیتا ہے۔
اگر کبھی ایمانداری اور غیر جانبداری سے اپنا جائزہ لیں تو پتہ چل جائیگا کہ اس ساری خرابی کا مرکز و منبع ہماری انا اور احساس برتری کی تہوں میں چھپا ہوا ہے۔ ہم اپنی خود ساختہ شان و بڑائی کے زعم میں مبتلا ہو کر خیر کی جانب پہل کرنے سے اعراض کرتے ہیں۔ ہر کسی کی ترجیح یہی ہوتی ہے کہ معاملات کو سدھارنے اور اختلافات کو ختم کرنے کیلئے دوسرا فریق پہل کرے۔ اس کے علاوہ کئی معاملات ایسے ہوتے ہیں جن میں بدخواہ اور شر پسند افراد اپنی سازش کے ذریعے آپسی رشتوں میں پھوٹ ڈالتے اور منافرت پھیلاتے ہیں اور لوگوں کے بیچ مفاہمت اور سمجھوتہ ہونے نہیں دیتے، ایسے بد فطرت عناصر کی سازش سے باخبر رہنا اور بچنا بھی ضروری ہے۔
بدگمانی اور غلط فہمیاں ہماری انفرادی اور سماجی زندگی کیلئے زہر کا کام کرتی ہیں۔ اسکے سبب ہونے والے خسارے چونکہ وقت گزرنے کے ساتھ ساتھ بڑھتے ہی جاتے ہیں۔ ہماری غیر مناسب و غیر وقتی خاموشی بھی معاملات کے زیادہ بگاڑ کا باعث ہوتی ہے۔ اس لئے اس بات کی شدید ضرورت ہے کہ ہم آج سے اس بات کا عہدکریں کہ اپنے بزرگوں کی مانند ہم نے ساری عمر اختلافات اور رنجشیں نہیں پالنی بلکہ وسیع قلبی اور فراخدلی کے ساتھ فریقین نے ایک دوسرے کی کوتاہیوں کو معاف کرکے اور ناانصافی و زیادتیوں کی تلافی کرکے اپنے کشیدہ تعلقات کو بحال کرنے کی ہر ممکن تدبیر کرنی ہے۔ اور حکمت و ادب کے ساتھ اپنے بزرگوں کو بھی اپنی پرانی رنجشیں دور کرنے پر آمادہ کرنے کی کوشش کرنی ہے تاکہ ہماری آئندہ نسل کو مخلص رشتوں اور باہمی انس و محبت سے بھرپور ایک خوشگوار ماحول میسر آسکے۔
بدگمانی کو نہیں چھوڑتے خاموشی پر
بات کیجئے تو کوئی حل بھی نکل آتا ہے
بہتری کی کوشش کے اس سلسلے کا پہلا قدم ہے آپسی گفتگو کا دروازہ کھولنا، ایک دوسرے کو موقع دینا کہ وہ اپنے نظریے، اعتراضات و شکایات کے بارے میں کھل کر بات کرسکیں اور باہمی رضامندی سے کسی بہتر نتیجے پر پہنچ سکیں۔ اکثر اوقات نیک نیتی اور خلوص کے ساتھ صرف باہمی گفتگو ہی سے کئی رنجشیں دور ہو جاتی ہیں۔ ایک انگریزی محاورہ ہے کہ وقت پر لگنے والا ایک ٹانکہ نو ٹانکے لگانے کی مشقت سے بچا لیتا ہے بالکل اسی طرح وقت پر دور کی گئی غلط فہمی کئی بگڑے تعلق سنبھال لیتی ہے۔ ہماری ایک چھوٹی سی پہل رشتوں اور دوستی کے بیچ حائل ہونے والی اجنبیت و بیگانگی کی بلند دیواریں توڑ کر ٹوٹے ہوئےخوبصورت اور قیمتی ر شتے، پرخلوص دوستیاں اور تعلقات دوبارہ جوڑ سکتی ہے۔