• Fri, 10 January, 2025
  • EPAPER

Inquilab Logo

بچوں کو سمجھنے اور سمجھانے کی ’’ٹیپ اِن ٹیپ آؤٹ‘‘ حکمت عملی

Updated: January 08, 2025, 2:55 PM IST | Odhani Desk | Mumbai

بلاشبہ ماں اور باپ، دونوں مل کر بچوں کی بہتر انداز میں پرورش کرسکتے ہیں مگر بعض دفعہ ان کی سوچ اور مزاج کے اختلاف کے سبب بچوں کی شخصیت متاثر ہوتی ہے۔ اس صورتحال سے نمٹنے کیلئے بچوں کی ماہر نفسیات ڈاکٹر ارین اویوریٹ اور ڈاکٹر جورڈانا مورٹیمر نے ’’ٹیپ اِن، ٹیپ آؤٹ‘‘ کی حکمت عملی پیش کی ہے۔

Parents can train children better as a team through the "tap in, tap out" strategy. Photo: INN
’’ٹیپ اِن، ٹیپ آؤٹ‘‘ حکمت عملی کے ذریعہ والدین بحیثیت ٹیم بچوں کی بہتر تربیت کرسکتے ہیں۔ تصویر: آئی این این

اولاد کی تربیت کرنا ایک اہم ذمہ داری ہے۔ یہ ذمہ داری ماں اور باپ، دونوں کو نبھانی پڑتی ہے۔ ماں اور باپ، دونوں الگ الگ خاندانوں میں پرورش پاتے ہیں۔ اس لئے دونوں کے مزاج میں تضاد ہوتا ہے۔ دونوں کی سوچ بھی مختلف ہوتی ہے۔ ہوسکتا ہے کہ کسی ایک کا تعلق ایسے خاندان سے ہو جہاں نظم و ضبط پر سختی سے عمل کیا جاتا ہو جبکہ دوسرے کے یہاں زیادہ روک ٹوک نہیں کی جاتی ہو۔ اس صورتحال میں دونوں اپنے اپنے مطابق بچوں کی پرورش کرتے ہیں۔ اس وجہ سے بچّے اکثر کنفیوز ہوجاتے ہیں کہ آخر وہ کس کی بات مانے۔ اکثر اس اہم موضوع کو نظرانداز کر دیا جاتا ہے جبکہ گھر کے ماحول اور والدین کے رویے کا بچّے پر بہت گہرا اثر پڑتا ہے۔ بلاشبہ ماں اور باپ، دونوں مل کر بچوں کی بہتر انداز میں پرورش کرسکتے ہیں مگر بعض دفعہ ان کی سوچ اور مزاج کے اختلاف کے سبب بچوں کی شخصیت متاثر ہوتی ہے۔ اس صورتحال سے نمٹنے کیلئے بچوں کی ماہر نفسیات ڈاکٹر ارین اویوریٹ اور ڈاکٹر جورڈانا مورٹیمر نے ’’ٹیپ اِن، ٹیپ آؤٹ‘‘ کی حکمت عملی پیش کی ہے۔
 یہ خیال ’گڈ کاپ، بیڈ کاپ‘ والدین کی حکمت عملی کی یاد دلاتا ہے لیکن اس تکنیک میں والدین کو مل جل کر کوشش کرنی ہے۔ اس کا مطلب یہ ہے کہ جب والدین میں سے کوئی ایک بچے سے بات کرتے وقت یا سمجھاتے وقت حد سے زیادہ پریشان یا مایوس ہو جائے تو دوسرا فریق ’ٹیپ اِن‘ (مداخلت) کرے جبکہ پہلا فریق خاموشی سے ’ٹیپ آؤٹ‘ (وہاں سے ہٹ جائے) ہوجائے۔ دوسرا فریق پُرسکون حالت میں بچے سے بات کرے۔ اب دوسرے فریق کی ذمہ داری ہے کہ وہ معاملے کو نرمی سے حل کرے۔
اس حکمت عملی کے چند اہم اصول
 والدین کو ایسے اشارے (سگنل) پر اتفاق کرنا چاہئے جس کے بارے میں بچّے نہیں جانتے ہوں۔ مثال کے طور پر، کندھے پر ہلکا سا تھپتھپائیں یا اپنے ساتھی کی پیٹھ کو چھوئیں۔
 پہلے فریق کو اس بات سے اتفاق کرنا چاہئے کہ اگر اسے اشارہ ملتا ہے تو وہ فوراً وہاں سے ہٹ جائے۔
 جو فریق ’ٹیپ اِن‘ کر رہا ہو اسے پرسکون رویہ برقرار رکھنا چاہئے۔ بصورت دیگر یہ حکمت عملی ناکام ثابت ہوگی۔
ناراض ہونا معمول کی بات ہے، ایسا سمجھنا بہت بڑی غلطی ہے
 جب والدین حد سے زیادہ پریشان ہو جاتے ہیں تو وہ اپنے جذبات قابو نہیں کر پاتے ہیں اور بعض اوقات غصے کی حالت میں چیخنے چلانے لگتے ہیں۔ کلینیکل سائیکالوجسٹ اور لائف کوچ، ڈاکٹر میلانیا گرین برگ کے مطابق، والدین بچوں سے بات کرتے وقت بعض اوقات بدترین غلطیوں کا ارتکاب کر سکتے ہیں۔
بچوں سے بات چیت کے دوران والدین یہ غلطیاں کرتے ہیں
بہت زیادہ باتیں کرنا: والدین غصے یا مایوسی کی حالت میں بچّوں سے بہت زیادہ باتیں کرنے لگتے ہیں۔ ڈاکٹر گرین برگ کے مطابق، ’’جب والدین بچوں سے بہت زیادہ باتیں کرتے ہیں تو بچے کی توجہ ان کی باتوں سے ہٹ جاتی ہے۔‘‘ تحقیق کے مطابق انسان کا ذہن یادداشت کو چار حصوں میں مختصر مدت کیلئے ایک ساتھ محفوظ رکھ سکتا ہے۔ یہ دورانیہ تقریباً ۳۰؍ سیکنڈز (ایک یا ۲؍ جملے) کا ہے۔
ناگوار باتیں: ڈاکٹر گرین برگ کے مطابق، ’’بیشتر والدین بچوں کے ساتھ کسی معاملے میں بات چیت کے دوران حواس کھو بیٹھتے ہیں اور بچوں پر تنقید کرنے لگتے ہیں۔ ایسا کرنے سے آپ بچوں کو اپنے سے دور کردیتے ہیں۔‘‘
لاپروا کہنا: والدین اکثر اپنے بچّوں کو لاپروا کہتے ہیں۔ بار بار ان پر تنقید کرتے ہیں کہ اسے تو ذرا بھی فکر نہیں ہے۔ بچّے وقت کے ساتھ ذمہ دار بنتے ہیں اور قدرتی طور پر ان میں اپنے والدین کے تئیں ہمدردی کا جذبہ پیدا ہوتا ہے۔ کم عمری میں ہی بچوں سے اس بات کی امید کرنا اُن پر ظلم کرنے جیسا ہے۔ اگر بچّے آپ کا نظریہ نہیں سمجھ رہے ہیں تو انہیں بُرا یا لاپروا ہرگز نہ کہیں۔ کیونکہ اس سے بچے خود کو دوسروں سے کمتر محسوس کرنے لگتے ہیں۔
بات نہ سننا: اکثر والدین بچوں کی کسی بات پر بہت غصہ ہوتے ہیں اور اس دوران بچہ اپنی بات سمجھانے کی کوشش کرتا ہے مگر وہ فوراً اس کی بات کو رد کر دیتے ہیں۔ اُس وقت وہ بچوں کی بات کو کوئی اہمیت نہیں دیتے۔ ڈاکٹر گرین برگ کا کہنا ہے کہ، ’’ہم سب چاہتے ہیں کہ ہمارا بچہ دوسرے کا احترام کریں۔ اس کا بہترین طریقہ یہ ہے کہ ہم خود اُن کی باتوں کو اہمیت دیں اور غصے کی حالت میں بھی بچوں کو اپنی بات کہنے کا موقع دیں۔‘‘
 والدین ایک ٹیم ہے۔ جب بچوں سے بات چیت کے دوران ایک فریق غصے کی حالت میں ہو تو فوراً دوسرے فریق کو ’ٹیپ اِن‘ ہونا چاہئے اور پہلا فریق سگنل یا اشارہ ملتے ہی (خاموشی سے) ’ٹیپ آؤٹ‘ ہوجانا چاہئے۔ اس طرح بچوں کو سمجھنے اور سمجھانے میں مدد مل سکتی ہے۔

متعلقہ خبریں

This website uses cookie or similar technologies, to enhance your browsing experience and provide personalised recommendations. By continuing to use our website, you agree to our Privacy Policy and Cookie Policy. OK