اکثر مائیں بچوں کی بے جا حمایت کرتی ہیں، یہ جانتے ہوئے بھی کہ اُن کا بچہ غلطی پر ہے۔ عموماً بچے آپ کے بھروسے کا غلط فائدہ اٹھانے لگتے ہیں اور اپنی بات کو صحیح ثابت کرنے کیلئے جھوٹ کا سہارا لیتے ہیں۔ بچے میں اپنی غلطی کا خود اعتراف کرنے کی اور اپنی غلطی پر معافی مانگنے کی عادت ڈالنا آپ کی ذمہ داری ہے۔
بچہ جب کوئی اچھی بات یا کوئی اچھا کام یا پڑھائی اچھے سے کرے تو اُس کی حوصلہ افزائی ضرور کریں۔ تصویر : آئی این این
دنیا میں انسانی زندگی کا دارو مدار جتنا مردوں پر ہے، اتنا ہی عورتوں پر بھی ہے۔ فطری طور پر عورتیں خلقت کے انتہائی امور سنبھال رہی ہیں۔ خلقت کے بنیادی امور جیسے عمل پیدائش اور تربیت اولاد عورتوں کے ہاتھ میں ہی ہے۔ اولاد کی تربیت ماں کی اہم ذمہ داری ہوتی ہے۔ اسی لئے ماں کو بچے کی پہلی درسگاہ کہا جاتا ہے۔ کوئی بھی ماں یہ نہیں چاہے گی کہ اُس کے بچے کی تربیت میں کوئی کمی رہ جائے، یا کبھی ماں کی پرورش پر کوئی انگلی اٹھائے۔ اس کے لئے ہر ماں کو کچھ نقطوں کو ذہن میں رکھنا ہوگا۔
نو عمری ہی سے بچوں کی تربیت ایسی کریں کہ وہ شروع ہی سے اچھائیوں اور برائیوں میں فرق کرسکیں۔ بچہ جب کوئی اچھی بات یا کوئی اچھا کام یا پڑھائی اچھے سے کرے تو اُس کی حوصلہ افزائی ضرور کریں، اور اُس کی کسی بھی غلطی پر مناسب طریقے سے منع کریں۔ ماں کو خود اپنی صلاحیتوں اور سیرت پر غور کرتے ہوئے بچوں کی تربیت کرنی چاہئے۔ بچوں کو بچپن ہی سے حضور اکرمؐ کی سنتوں اور صحابۂ کرام کے واقعات سنائیں جس سے بچوں کے دلوں میں بچپن ہی سے بزرگوار کی محبت نقش ہو جائے، اور وہ سنتوں کو اور اُن کی سیرت کو اپنانے کی کوشش کریں۔
بچوں کے سامنے وقتاً فوقتاً اس بات کا ذکر کریں کہ جھوٹ بولنا گناہ کبیرہ ہے، اور مذاق میں بھی بولا گیا جھوٹ جھوٹ ہی ہوتا ہے۔ اور ماؤں کو خود بھی اس بات سے گریز کرنا چاہئے کہ بچے کے سامنے قطعی جھوٹ سے کام نہ لیں۔
اکثر مائیں بچوں کی بے جا حمایت کرتی ہیں، یہ جانتے ہوئے بھی کہ اُن کا بچہ غلطی پر ہے۔ عموماً بچے آپ کے بھروسے کا غلط فائدہ اٹھانے لگتے ہیں اور اپنی بات کو صحیح ثابت کرنے کیلئے جھوٹ کا سہارا لیتے ہیں۔ بچے میں اپنی غلطی کا خود اعتراف کرنے کی اور اپنی غلطی پر معافی مانگنے کی عادت ڈالنا آپ کی ذمہ داری ہے۔ اپنے بچے پر یقین رکھیں مگر آنکھ بند کرکے یقین بالکل بھی نہ کریں۔ کیونکہ ماں سے بہتر اپنے بچے کو کوئی بھی نہیں سمجھ سکتا۔ ایک بات جو بہت مقبول ہے وہ یہاں بالکل درست ہے ’’سونے کا نوالہ کھلائیے اور شیر کی نظر دیکھئے‘‘۔ ماں سے بہتر بچوں کی ضرورتوں کو کوئی نہیں سمجھتا آپ اس کی ضروریات کو ضرور پورا کریں مگر اُس کی خواہشات پر آپ کو لگام لگانی ہے، کیونکہ خواہشات کبھی بھی مکمل نہیں ہوتیں۔ جب بھی آپ اس کو کچھ بھی دیں تو اس بات پر شکر کی تلقین کریں۔ سب سے پہلے اللہ کا اور پھر والدین کا شکر ادا کریں اور اُسے یہ بھی احساس دلائیں کہ کتنے لوگوں کو تو یہ بھی نصیب نہیں ہوتا، اس سے بچے میں صبر اور شکر کا جذبہ پیدا ہوگا اور اسے چیزوں کی قدر و قیمت کا اندازہ ہوگا۔
بچہ جب تھوڑا بڑا ہو جائے تو اس کے مسائل اسے خود حل کرنے دیں مگر اس بات کا ضرور دھیان دیں کہ وہ کہاں صحیح ہے اور کہاں غلط، کیونکہ یہی مناسب وقت ہوتا ہے اسے اچھے برے میں فرق سمجھانے کا۔ اپنے گھر کی چھوٹی چھوٹی باتوں میں اُس کی رائے ضرور لیں، اور مناسب لگنے پر اسے اپنائیں بھی۔ اس سے بچے کو اپنی اہمیت کا احساس ہوتا ہے اور اس میں خود اعتمادی کا اضافہ ہوتا ہے۔ ایک جو بہت اہم نقطہ ہے جسے اکثر مائیں نظرانداز کر دیتی ہیں وہ ہے اپنے بچے کا موازنہ کسی اور سے کرنا۔ اچھے یا برے کسی بھی صورت میں کیونکہ بچوں کو یہ بات بالکل بھی پسند نہیں آتی اور پسند بھی کیوں آئے۔ میرا بچہ خود باصلاحیت ہے بھلے وہ پڑھائی میں نہ بھی تیز ہو مگر اس میں اور دوسری خوبیاں بھی ہیں جسے ہم نظرانداز بالکل بھی نہیں کرسکتے۔ ہر بچے کا مزاج، پسند نا پسند، شوق سب مختلف ہوتے ہیں کیونکہ ہم سب کے گھروں کا ماحول مختلف ہوتا ہے۔ بس یہ دیکھیں کہ ہمارا بچہ خود اعتماد ہونا چاہئے۔ اپنی صلاحیتوں میں خود اعتماد ہونا چاہئے۔ اور یہ خود اعتمادی بچے میں ماں ہی سے ملتی ہے۔ جو بچے کی ہر چھوٹی بڑی کامیابی پر اُس کی حوصلہ افزائی کرتی ہے۔ اور اُس کی غلطیوں کو بجائے دوسروں کے سامنے ظاہر کرنے کے خاموشی سے اُس کی غلطیوں کو درست کرتی ہے، یہ بات بچوں کو بہت متاثر کرتی ہے کہ بجائے سب کے سامنے ڈانٹنے کے خاموشی سے اُن کی غلطی کو سدھارا گیا۔
بچے پر کبھی بھی اپنی خواہشات کو مسلط نہ کریں، اسے اس کی مرضی کے مطابق پڑھنے دیں، اور آگے بڑھنے میں اس کا ساتھ دیں۔ بچوں کے دوستوں کے معاملے میں بھی ماں کو محتاط رہنے کی ضرورت ہے، کیونکہ ماں کو یہ ضرور معلوم ہونا چاہئے کہ اس کے بچے کی دوستی کس طرح کے بچوں سے ہے۔ دوستی کو اچھی طرح نبھانا بھی ماں کو ہی بتانا پڑتا ہے۔ بچوں میں ہمیشہ دوسروں کی مدد کرنے کا بھی جذبہ پیدا کریں۔ ماں کو بچوں سے دوستانہ رویہ رکھنا چاہئے تاکہ بچے ہر مسئلہ پر بات کرسکیں۔
یہ چند زندگی کے ایسے بنیادی اصول ہیں، جو بذریعہ ماں بچوں میں پیدا ہوتے ہیں، جو اُس کی شخصیت کو الگ پہچان دیتے ہیں۔