اکثر دیکھنے میں آتا ہے کہ گھروں میں خواتین کی ناچاقیوں کی بڑی وجہ امور خانہ داری میں عدم تعاون ہے۔ ساسیں اور گھر کی دیگر خواتین کئی بار یہ سمجھتی ہیں کہ اب یہ اور یہ ہمارا کام نہیں رہا۔ دوسری طرف بہو بھی کچھ ایسا ہی تصور کرتی ہے۔ ہونا تو یہ چاہئے کہ دونوں فریق حتی المقدور ایک دوسرے کا تعاون کریں۔
مثبت طرز زندگی اپنا کر آپسی محبت و الفت برقرار رکھی جاسکتی ہے۔ تصویر : آئی این این
تمہاری نئی دلہن کیسی ہے؟ روٹی پانی دے رہی ہے یا نہیں؟ اس کا رویہ کس طرح کا ہے؟ رکھ رکھاؤ کیسا ہے؟ کیا کیا چیزیں وہ جہیز میں لے کر آئی ہے؟ یہ اور اس قسم کے متعدد سوالات نئی دلہن کے آنے پر اکثر سسرال والوں سے ہوتے رہتے ہیں۔ کہنے کو بہت عام سی بات ہے اور بعض دفعہ عادتاً بھی اس طرح کی باتیں ہوتی ہیں، لیکن اگر سنجیدگی سے غور کیا جائے تو کبھی کبھار یہ پورے گھر اور خاندان کے بگاڑ کا سبب بھی بن سکتی ہیں۔ وہ نئی دلہن جسے ساس اور دیگر اہل خانہ بڑے چاؤ اور شوق سے بیاہ کر لاتے ہیں، رشتے بناتے وقت خدشات دونوں طرف سے ہوتے ہیں۔ وہ بیٹی جو اپنا آشیانہ، اپنا گھروندا، اپنے والدین کا وہ گھر جہاں اس کی قلقاریاں گونجی تھیں، رشتۂ ازدواج میں بندھنے کے بعد اس کاشانے کو چھوڑ کر اپنا گھر بسانے کے لئے ایک دوسرے گھر آجاتی ہے، جہاں وہ بہت ساری امنگوں آرزوؤں کے ساتھ متعدد واہموں سے گھری ہوتی ہے، وہیں سسرال والے بھی کہیں نہ کہیں تھوڑا ڈرے ہوئے ہوتے ہیں کہ کس طرح کا رویہ ہوگا وغیرہ؟
اب ایسے میں بے تکے سوالات ہوں تو یقیناً دونوں ایک دوسرے پر تنقیدی نگاہ کا اور دوسرے کے خلاف بد گمانی کا تسلسل بڑھ جائے گا۔ سوال بیٹی سے بھی اس کی سسرال والوں کے متعلق ہوتا ہے اور سوال سسرال والوں سے بھی بہو کے متعلق ہوتے ہیں اور پھر جب مسلسل تنقید ہی رہے گی تو ناچاقیاں ہونا فطری ہے۔ ان ناچاقیوں سے بچنے کے لئے کیوں نہ مثبت طرز زندگی اپنایا جائے کہ آپسی محبت الفت باقی رہے۔
رشتوں کا تقدس و احترام
اپنے گھر کے ماحول کو پُرسکون بنانے کے لئے ضروری ہے کہ ہم ایک دوسرے کا احترام کریں۔ بزرگوں کی عزت کریں اور اپنے چھوٹوں سے شفقت سے پیش آئیں۔ ایک دوسرے کے معاملات میں بے جا مداخلت نہ کریں۔ بہو کے لئے ضروری ہے کہ اپنے ساس سسر اور دوسرے اہل خانہ کا احترام کرے۔ ان کی ہدایات کو اپنائے۔ ان کے تجربات سے فائدہ اٹھائے۔ بڑوں کے لئے ضروری ہے کہ بہو کو اپنے گھر کا ایک فرد سمجھیں اور اس کا ویسے ہی تقدس کریں جیسے بیٹی کا کیا جاتا ہے۔
درگزر کریں
رشتوں کی ڈور کو مضبوط بنانے کے لئے درگزر کرنا نہایت ضروری امر ہے۔ کون ہے وہ جس سے غلطیاں نہیں ہوتی ہیں۔ اپنے گھر میں غلطی بیٹی بھی کرتی ہے اور مائیں بھی۔ تو پھر جب آنے والی دلہن سے غلطی ہو تو اسے بیٹی سے بھی بڑھ کر درگزر کیا جائے، کیونکہ وہ کچھ بھی ہو جائے اپنے میکے نہیں جا سکتی اور بہوؤں کے لئے بھی اپنے بڑوں سے درگزر کرنا ضروری ہے۔
گھر کی بات باہر نہ کہیں
رشتوں کی ڈور میں کمزوری کئی بار کسی کی بات باہر کرنے سے بھی آتی ہیں۔ جس طرح مائیں اپنی بیٹی کی غلطیاں کسی غیر پر ظاہر کرنے کے بجائے بیٹی کو سمجھاتی ہے، ہٹ دھرمی کے باوجود دوسرے سے جا کر اس کی شکایت نہیں کرتی ہیں۔ بہو کے ساتھ بھی یہی رویہ رکھا جائے اور اسی طرح بہو پر بھی یہ لازم ہے کہ اہل خانہ کی طرف سے ہونے والی کمی و زیادتی کو گھر کے باہر بیان نہ کرے کیونکہ اب وہ اس کا اپنا گھر ہے جہاں اسے ساری زندگی گزارنی ہے اور ان نئے رشتوں سے برابر سامنا رہے گا۔
امور خانہ داری میں باہمی تعاون
اکثر دیکھنے میں آتا ہے کہ گھروں میں خواتین کی ناچاقیوں کی بڑی وجہ امور خانہ داری میں عدم تعاون ہے۔ ساسیں اور گھر کی دیگر خواتین کئی بار یہ سمجھتی ہیں کہ اب یہ اور یہ ہمارا کام نہیں رہا۔ دوسری طرف بہو بھی کچھ ایسا ہی تصور کرتی ہے۔ ہونا تو یہ چاہئے کہ دونوں فریق حتی المقدور ایک دوسرے کا تعاون کریں۔ ہر گھر میں امور خانہ داری کی ذمہ داریاں مختلف ہوتی ہیں۔ عین ممکن ہے کہ بہو جس گھر سے آرہی ہے وہاں کے کھانا پکانے کے طریقے الگ ہوں سسرال والوں سے۔ اس لئے شروعات میں انہیں امور خانہ داری کے متعلق رہنمائی کی جائے۔ اس دوران تنقید نہ کی جائے تو بہتر ہوگا۔
اب سے کچھ عرصہ پہلے جبکہ تعلیم نسواں کا رواج خال خال ہی تھا، اس وقت بیٹیاں آنکھ کھولتے ہی امور خانہ داری میں حصہ لینا شروع کر دیتی تھیں اور شادی ہوتے ہوتے ماہر ہو جاتی تھیں۔ اب چونکہ بچیوں کی حصول تعلیم کے چلتے ان کا اکثر وقت ہوسٹل کی نذر ہو جاتا ہے یا پھر وہ تعلیم و تعلم میں ہی مشغول رہتی ہیں اس لئے اس طرف توجہ ذرا کم کم ہی ہوتی ہے اور پھر مشکل اس وقت آتی ہے جب تعلیمی سلسلہ مکمل ہوتے ہی رشتۂ ازدواج میں بندھ جاتی ہیں۔ ایسے میں سسرال والوں کی معزز خواتین کا تعاون نہایت ضروری ہوتا ہے۔ خود بہوؤں کو چاہئے کہ امور خانہ داری میں دلچسپی لیں، کاہلی و سستی کا مظاہرہ نہ کریں تاکہ دوسرا کوئی حرج محسوس نہ کرے اور باہمی الفت و محبت بنی رہی۔ اسی سے گھر بنے گا، دیواریں نہیں کھڑی ہوں گی۔