خواتین اچھی ٹیچر بھی ہوتی ہیں جنہیں یہ جاننا چاہئے کہ بچوں کی تربیت میں اُن کا کردار بہت اہم ہے۔ موجودہ دور میں جب ہر چیز ایک ’’معمول ‘‘ بن گئی ہے ، تدریس کا سلسلہ بھی اس سے مستثنیٰ نہیں۔ زیرنظر مضمون میں بچوں کیلئے شعور اور زبان کی ترقی ، ان کی پڑھنے کی مہارت کو فروغ دینے جیسے امور پر بحث کی گئی ہے۔
اساتذہ کو چاہئے کہ وہ طلبہ کے سامنے اپنے خیالات اور جذبات کے اظہار کے لئے مختلف طریقے اپنائیں۔ تصویر : آئی این این
ایک بنیادی خوبی جو انسان کو دیگر تمام مخلوقات سے ممتاز کرتی ہے وہ زبان ہے۔ انسان میں جو بولنے اور مختلف زبانوں کو سیکھنے کی جبلی صلاحیت ہے وہ دیگر جانداروں میں ناپید ہے۔ انسانی بچہ جس ماحول میں پیدا ہوتا ہے وہ اس کی زبان کو خود کار طریقے سے اپنا لیتا ہے۔ اسے کسی خاص تربیت کی ضرورت نہیں ہوتی۔ وہ مادری زبان بغیر کسی سعی کے نہ صرف سمجھ سکتا ہے بلکہ بول بھی سکتا ہے۔ علم لسانیات کے یہ نکات اب کافی عام فہم ہیں کہ زبان کی دو شکلیں ہوتی ہیں۔ بول چال کی زبان اور تحریر کی زبان۔ اصل زبان بول چال کی زبان ہے اور تحریر کی زبان، بول چال کی زبان ہی کی نمائندگی کرتی ہے۔ کسی زبان کو پوری طرح جاننے کا مطلب یہ ہے کہ آپ اس کی دونوں شکلوں کو جانتے اور استعمال کر سکتے ہیں۔ زبان کی بنیادی مہارتیں چار ہیں : سننا، بولنا، پڑھنا، لکھنا۔
جہاں تک مادری زبان کا تعلق ہے پہلی دو مہارتیں یعنی سن کر سمجھنا اور بولنا سب کیلئے یکساں طور پر آسان ہوتا ہے کیونکہ یہ دونوں مہارتیں بچوں کو کم و بیش چار سال میں اپنے ماحول سے خود بخود حاصل ہوجاتی ہیں البتہ باقی دو مہارتیں یعنی پڑھنا اور لکھنا، اسے کوشش کر کے حاصل کیا جا سکتا ہے۔
جس طرح تصویر رنگوں کی زبان ہوتی ہے اسی طرح تحریر انسانی فکر و احساس کی ترجمان ہوتی ہے۔ کسی بھی تحریر کے پر تاثیر ہونے کا انحصار الفاظ کے انتخاب اور استعمال پر ہوتا ہے۔ ایک اچھے ادیب کو چار ’’میم‘‘ سے واقف ہونا ضروری ہے: معلومات، موضوع، مشاہدہ اور محنت۔ تحریر میں نکھار اور پختگی کے لئے مشق ضروری ہے۔ انسانی جذبات، نفسیات میں اہم مقام رکھتے ہیں۔ تحقیق سے ثابت ہوتا ہے کہ احساسات کو الفاظ میں ڈھالنے سے اداسی اور مایوسی کی کیفیت زائل ہوتی ہے۔ تحریری صلاحیت کا فروغ زباندانی کا سب سے اہم مقصد ہے، اس لئے قومی تعلیمی پالیسی میں مادری زبان کی اہمیت پر زور دیا گیا ہے، ساتھ ہی ثانوی سطح پر تحریری صلاحیتوں کو بڑھاوا دینے کے کے مقصد سے اساتذہ کیلئے ہدایات تجویز کی گئی ہیں جو درج ذیل ہیں : اساتذہ کو چاہئے کہ وہ بچوں کے سامنے اپنے خیالات اور جذبات کے اظہار کیلئے مختلف طریقے اپنائیں جیسے بحث و مباحثہ، تبادلۂ خیال، انٹر ویوز، ڈراما وغیرہ۔
پڑھنے کی مہارت کو فروغ دینے کیلئے مختلف ادبی تحریروں کے پڑھنے پر مشتمل سرگرمیاں منعقد کی جائیں۔ قومی تعلیمی پالیسی ۲۰۲۰ء کے مقاصد کے مطابق، اساتذہ کو کثیر الثقافتی مواد کے متن کا تفصیل سے مطالعہ کرنا چاہئے اس کے لئے جدید تدریسی طریقے استعمال کئے جائیں۔ لوک ادب، موسیقی اور تہواروں کے ذریعے طلبہ کو لسانی اور کثیر الثقافتی تناظر میں مطالعہ کا تفصیلی تجربہ دیا جانا چاہئے۔ مطبوعہ متن کو پڑھنے کی فہم الفاظ کے معنی تلاش کرنے کے ساتھ شروع ہوتی ہے اس کیلئے اساتذہ کو چاہئے کہ وہ لائبریری کے اوقات کار طے کریں اور مختلف موضوعات پر کتابیں پڑھنے کی ترغیب دیں۔ مطالعے پر آپس میں گفتگو کی جائے اس سے تحریری صلاحیتوں کے فروغ میں مددملتی ہے۔ اعلیٰ تحریری نمونے ان کے سامنے رکھے جائیں، ساتھ ہی مختلف قسم کی تحریری سرگرمیوں کا انعقاد کیا جائے (جیسے انٹرویو، سیمینار وغیرہ)۔ طلبہ کو اپنے پڑھے ہوئے مواد کی تشریح، تجزیہ، تنقید اور ترکیب کرنے کے قابل ہونا چاہئے۔ فعال زبان کی مہارت کیلئے مضمون نویسی، نوٹ لکھنا، درخواستیں، خطوط، اشتہارات، لطیفے، نظمیں اور بلاگ لکھنے کے مواقع فراہم کیے جائیں۔
سیکھنے سے معذور طلبہ کو کلاس روم میں زبان سیکھنے کے دوران بہت سی مشکلات کا سامنا کرنا پڑتا ہے۔ ان مشکلات کو کم کرنے کیلئے استاد کو شعوری طور پر سوچنا چاہئے اور طلبہ کی مشکلات کی تشخیص کرنی چاہئے۔ ان میں بصارت کی خرابی، سماعت کی کمزوری، ہم آہنگی کی معذوری، ذہنی پسماندگی اور جذباتی خلل وغیرہ شامل ہیں۔ اساتذہ کو اس شناخت کے بعد حیاتیاتی اور سماجی فرق کو مد نظر رکھتے ہوئے انہیں سائنسی انداز میں حل کرنا چاہئے۔ اساتذہ سے توقع کی جاتی ہے کہ وہ تیسری جماعت تک درست تشخیص کر لینگے۔ اس کے بعد والدین کے تعاون سے ماہر نفسیات کی رہنمائی میں جدید تدریسی اور علاج کے طریقے استعمال کیے جائیں۔
مختصر یہ کہ زبان کا سیکھنا اور سکھا نا ایک عام سی انسانی سرگرمی ہے لیکن یہ اتنی ہی توجہ طلب بھی ہے۔ ایک اچھے تعلیمی اور سماجی ڈھانچے کیلئے ضروری ہے کہ اس پر سنجیدگی سے کام کیا جائے اور ایک لائحہ عمل بنایا جائے جس سے بہتر نتائج حاصل ہوں۔ اس مختصر مضمون کا مقصد لسانی تجزیہ نہیں ہے بلکہ کچھ ایسے مسائل پر گفتگو کرنا ہے جن کا بالواسطہ تعلق ابتدائی سطح میں تعلیم و تعلم سے ہے۔ اس سلسلے کے مزید چند نکات درج ذیل ہیں :
بچوں کیلئے شعور اور زبان کی ترقی ایک دوسرے پر منحصر ہے۔ تصور اور آوازوں کے مجموعے ( لفظ ) کا رشتہ بے قاعدہ ہے اور اس کی کوئی منطقی دلیل نہیں ہے لیکن یہ رشتہ عالمگیر اور مستحکم ہے۔ زبان ایک منظم علامتی نظام ہے۔ معنی کی تعمیر کیلئے لسانی نظام کی قابلیت لا محدود ہے۔ تحریری زبان میں حروف آوازوں کے مجموعوں کی نمائندگی کرتے ہیں اور ان سے تعلق بھی بناتے ہیں۔
بول چال کی یعنی بیانی زبان کے مقابلے میں تحریری زبان تک پہنچنے میں زیادہ مراحل طے کرنے پڑتے ہیں۔ زبان محض ایک آلہ ہی نہیں یہ شعور کا ایک لازمی اور ناگریز حصہ ہے۔ یہ انسانی ذہن اور خود شعوری کی لیاقت ہے۔ یہ شعور کی ترقی کے ساتھ ترقی کرتی ہے۔ جب شعور پر روک لگا دی جاتی ہے تو زبان بھی رک جاتی ہے۔ یہ خلاصہ ابتدائی تعلیم کے لئے نہایت اہم ہے۔ اساتذہ جتنا زیادہ اس نکتے پر توجہ دینگے اُتنا طلبہ کا فائدہ ہوگا۔