گزشتہ ہفتے مذکورہ بالا عنوان دیتے ہوئے ہم نے ’’اوڑھنی‘‘ کی قارئین سے گزارش کی تھی کہ اِس موضوع پر اظہارِ خیال فرمائیں۔ باعث مسرت ہے کہ ہمیں کئی خواتین کی تحریریں موصول ہوئیں۔ ان میں سے چند حاضر خدمت ہیں۔
EPAPER
Updated: June 19, 2024, 12:41 PM IST | Odhani Desk | Mumbai
گزشتہ ہفتے مذکورہ بالا عنوان دیتے ہوئے ہم نے ’’اوڑھنی‘‘ کی قارئین سے گزارش کی تھی کہ اِس موضوع پر اظہارِ خیال فرمائیں۔ باعث مسرت ہے کہ ہمیں کئی خواتین کی تحریریں موصول ہوئیں۔ ان میں سے چند حاضر خدمت ہیں۔
خواتین کو گھر کے ساتھ ساتھ سماجی طور پر متحرک ہونا ضروری ہے
خواتین اپنے آپ میں ایک ایسی طاقت رکھتی ہیں جس کا کوئی جواب نہیں ہے۔ ایک عورت پورے گھر کی ذمےداری اور رشتےداروں کا فرض بخوبی تنہا ادا کرتی ہے۔ اس لئے خواتین کو گھر کے ساتھ ساتھ سماجی طور پر متحرک ہونا ضروری ہے۔ آج سماج میں ہر طرف بدعنوانی پھیلی ہوئی ہے کوئی بھی کسی کو بے وقوف بنا جاتا ہے۔ عورتیں، لڑکیاں اور معصوم بچیاں درندوں کے ہاتھوں بےبس اور لاچاری کا شکار ہو رہی ہیں کہیں محفوظ نہیں ہیں۔ اگر خواتین اپنی حفاظت کیلئے آواز اٹھائیں یا اپنی حفاظت کرنا سیکھ جائیں تو ملک کی بیٹیاں کھلی ہوا میں سانس لے سکیں گی۔ ہر ادارہ میں عورتوں کا یکجا ہونا ضروری ہے۔
بی بشریٰ خاتون (جامعہ نگر، نئی دہلی)
خواتین سمجھداری سے گھر اور باہر، دونوں ذمہ داریاں نبھا سکتی ہیں
موجودہ دور میں خواتین کو متحرک ہونا بے حد ضروری ہے تاکہ وہ بااختیار بن سکیں۔ خواتین کو تعلیم اور ہنر حاصل کرکے اپنے آپ کو اس قابل بنانا چاہئے اور سماجی طور پر متحرک ہونا چاہئے۔ خواتین گھر بیٹھے بھی بااختیار بن سکتی ہیں۔ سلائی سکھانا، مہندی سکھانا، کھانا پکانا سکھانا، بچوں کو ٹیوشن پڑھانا جیسے کام انجام دے کر بااختیار بن سکتی ہیں۔ یاد رہے کوئی بھی کام چھوٹا یا بڑا نہیں ہوتا، بس اُس کام کو محنت، لگن اور ایمانداری سے کرنے کی کوشش کرنی چاہئے۔ خواتین سمجھداری سے گھر اور باہر، دونوں ذمہ داریاں نبھا سکتی ہیں۔ وہ اپنی صلاحیتوں کے ذریعے بہتر معاشرہ تشکیل دے سکتی ہیں۔
سیّد شمشاد بی احمد علی (کرلا، ممبئی)
وہ بہتر طریقے سے معاملات کا نظم سنبھال سکتی ہیں
آج زندگی کے ہر شعبے میں خواتین مردوں کے شانہ بہ شانہ قدم ملا کر چل رہی ہیں۔ خواتین میں چونکہ قدرتی طور پر حساسیت زیادہ ہوتی ہے لہٰذا وہ سماج میں پھیلی ہوئی برائیوں پر زیادہ نظر رکھ سکتی ہیں اور انہیں دور کرنے کے لئے اقدام بھی کرسکتی ہیں۔ خواتین میں چیزیں کو زیادہ باریکی سے محسوس کرنے اور انہیں سلجھانے کی زیادہ سمجھ ہوتی ہے۔ بعض معاملات میں خواتین، مرد حضرات کے مقابلے زیادہ بہتر طریقے سے معاملات کا نظم سنبھال سکتی ہیں۔ مثلاً خواتین پر گھریلو تشدد کے معاملات اگر خواتین کے سامنے پیش کئے جائیں تو وہ انہیں بہتر طریقے سے سمجھ کر اس کا مناسب حل پیش کرسکتی ہیں۔ اسی طرح خواتین بچوں کی نگہداشت، ان کی تعلیم و تربیت، خواتین کے ذاتی مسائل، کم عمری کی شادی سے ہونے والے مسائل کو بہتر طور پر سمجھ کر انہیں سلجھا سکتی ہیں۔ اور بے شک بہت سی باشعور خواتین سوشل میڈیا کے ذریعے یہ تمام امور بخوبی انجام دے رہی ہیں۔
رضوی نگار اشفاق (اندھیری، ممبئی)
اپنے بچوں اور قوم کی صحیح رہنمائی بھی کرسکتی ہیں
خواتین چونکہ گھر کی مکمل طور پر ذمہ دار ہوتی ہیں، لہٰذا بدلتے ہوئے حالات کے مطابق ان کا سماجی طور پر متحرک رہنا بھی ضروری ہو جاتا ہے تاکہ سماج میں ہونے والی تبدیلیوں سے وہ واقف ہوسکیں اور اس کے مثبت اور منفی اثرات کو سمجھ سکیں۔ نہ صرف اپنے بچوں بلکہ نوجوان نسل کو اس کے مطابق ڈھال سکیں۔ انہیں زمانے کی اونچ نیچ سے واقف کروا سکیں۔ ان میں خود اعتمادی کو بڑھاوا دینے کی کوشش بھی کرسکتی ہیں۔ اپنی صلاحیتوں کا درست اور بھرپور طریقے سے استعمال سماجی بھلائی کیلئے کرسکتی ہیں۔ اپنے بچوں اور قوم کی صحیح رہنمائی بھی کرسکتی ہیں۔ ان کی بہترین تربیت اس انداز میں کرسکیں تاکہ ان کا مستقبل شاندار بن سکے اور وہ ایک انسان اور ذمہ دار شہری بھی بن سکیں۔
نسیم رضوان شیخ (کرلا، ممبئی)
تاکہ سماج میں خواتین کی اہمیت کو سمجھا جاسکے
عورتوں کے بغیر سماج کا تصور ہی نہیں کیا جا سکتا۔ سماج میں خواتین کی آدھی شمولیت ہی سے سماج بنتا ہے۔ میں اس بات کی طرف اشارہ کرتی چلوں کہ عورتوں کہ حقوق، عدل و انصاف اور مساوات کیلئے وہ صدیوں سے لڑتے ہوئےآ رہی ہیں۔ خواہ وہ تعلیم حاصل کرنے کیلئے ہو یا تعلیم حاصل کرنے کے بعد کام کرنے کی آزادی ہو، عورتوں نے ہمیشہ خود کو قید پایا ہے۔ آزادی کیا ہوتی ہے انہیں یہ کبھی محسوس نہیں ہونے دیا گیا۔ عورتوں کو ہمیشہ اُن کے حقوق سے محروم رکھا گیا ہے۔ سماج عورت کو اس بات کی اجازت نہیں دیتی کہ وہ بااختیار بنے۔ آج بھی عورتیں خود کو گھر کے باہر سماج میں محفوظ نہیں سمجھتیں۔ اس لئے ان کا سماج میں متحرک ہونا ضروری ہے تاکہ وہ اپنے مسائل اپنے معاملات کو ظاہر کر سکیں اور سماجی سرگرمیوں میں حصہ لے سکیں۔ سماج کو بہتر بنانے کے لئے اُس میں بڑھ چڑھ کر حصہ لے سکیں اور اپنی صلاحیت و قابلیت کو ظاہر کرسکیں جس سے سماج کا زیادہ سے زیادہ فائدہ ہو۔ اور ایک بہتر سماج ابھر کر آئے۔ انہیں سراہا جائے۔ انہیں ایک بار موقع دیں وہ بھی ڈاکٹر، کلیکٹر، پائلٹ اور ٹیچر بن سکتی ہیں۔ وہ اچھی ماں، بیٹی، بہن بننے کے ساتھ ساتھ اور بھی بہت کچھ بن کر سماج میں خود کا سر بلند کرکے جی سکتی ہیں۔ سماجی طور پر متحرک ہونا اس لئے بھی ضروری ہے تاکہ سماج میں خواتین کی اہمیت کو سمجھا جاسکے۔ خواتین سماج کی بہتری اور روشن مستقبل کے لئے وہ کام کرسکیں۔ اللہ رب العزت نے عورتیں کے اندر بہت سی صلاحیت دی ہیں جس سے وہ صرف گھر اور خاندان کو چلانے ہی نہیں ساتھ ہی سماجی تحریکوں میں بھی حصہ لے سکتی ہیں اور مددگار ثابت ہو سکتی ہیں۔
مرزا حبا ناظم (ممبئی، مہاراشٹر)
تاکہ وہ سماجی کام انجام دے سکیں
خواتین کو سماجی طور پر متحرک ہونے کے فائدے بہت ہیں۔ خواتین اگر سماجی طور پر متحرک ہوں گی تبھی تو سماجی کام انجام دے پائیں گی۔ جو خواتین کچھ کرنے کے قابل ہیں وہی اپنے آس پڑوس میں فائدے کی بات بتا سکتی ہیں کسی کے کام آسکتی ہیں۔ تاریخ بتاتی ہے کہ خواتین نے اپنے حقوق کیلئے بڑی جدو جہد کی ہے مگر ان کی یہ جنگ ابھی ختم نہیں ہوئی ہے اور وہ اپنے حقوق کیلئے برابر سماجی تحریکوں میں حصہ لے رہی ہیں۔ معاشرے کی ترقی میں خواتین کا اہم کردار ہوتا ہے۔ کسی مفکر نے کیا ہی بہترین عکاسی کی ہے کہ ایک پڑھے لکھے سماج کی بنیاد تعلیم یافتہ اور با اخلاق خواتین ہوتی ہیں۔ خواتین صحیح کا ساتھ دے کر اور غلط کی مخالفت کرکے سماج کو اہم تعاون دے سکتی ہیں۔ خواتین اپنی صلاحیتوں سے سوچ اور غور وفکر کے جواہرات سے سماج کو کامیاب بنانے میں اہم کردار ادا کر سکتی ہیں۔ خواتین کا تعلیم یافتہ ہونا اشد ضروری ہے۔ خواتین کی تعلیم پورے خاندان اور سماج کی تعلیم ہے۔
نشاط پروین شاہ کالونی (مونگیر، بہار)
اپنے حقوق کے لئے متحرک ہونا ہی ہوگا
عورت کا بنیادی مسئلہ یہ نہیں ہے کہ اس کے پاس روزگار ہے یا نہیں۔ عورت کا بنیادی ترین مسئلہ اور فریضہ وہ ہے جسے آج بد قسمتی سے مغرب میں نظر انداز کر دیا گیا ہے۔ وہ ہے تحفظ کا احساس، سلامتی کا احساس اور صلاحیتوں کے نشوونما پانے کے امکانات کی فراہمی کا احساس اور معاشرے میں، خاندان میں، شوہر کے گھر میں یا والدین کے گھر میں اس کا ظلم و زیادتی سے محفوظ رہنا۔ جو لوگ عورتوں کے سلسلے میں کام کر رہے ہیں انہیں ان پہلوؤں پر کام کرنا چاہئے۔ عورت اور سماج میں اس کے ساتھ ہونے والے برتاؤ کا موضوع قدیم ایام سے ہی مختلف معاشروں اور تہذیبوں میں زیر بحث رہا ہے۔ دنیا کی آدھی آبادی عورتوں پر مشتمل ہے۔ دنیا میں انسانی زندگی کا دار و مدار جتنا مردوں پر ہے اتنا ہے عورتوں پر بھی ہے جبکہ فطری طور پر عورتیں خلقت کے انتہائی اہم امور سنبھال رہی ہیں۔ خلقت کے بنیادی امور جیسے عمل پیدائش اور تربیت اولاد عورتوں کے ہاتھ میں ہے۔ معلوم ہوا کہ عورتوں کا مسئلہ بہت ہی اہمیت کا حامل ہے اور قدیم زمانے سے ہی معاشروں میں مفکرین کی سطح پر اسی طرح مخلتف قوموں کی رسوم و روایات اور عادات و اطوار میں اس پر توجہ دی جاتی رہی ہے۔ سماج کے ساتھ عورت کا قدم قدم سے ملا کر چلنا اتنا ہی اہمیت کا حامل ہے جتنا مردوں کو ہے۔ زمانے قدیم پر ایک نظر ثانی کی جائے تو ہمیں پتہ چلتا ہے کہ عورتوں پر کتنا ظلم و ستم ہوتا رہا ہے۔ سماج میں اپنا مقام بنانے کیلئے، اپنے حقوق کیلئے متحرک ہونا ہی ہوگا۔
تسنیم کوثر انصار پٹھان (کلیان، تھانے)
خواتین کو متحرک ہونے کیلئے تعلیم حاصل کرنا ہوگا
سماج میں خواتین کو متحرک ہونے کے لئے تعلیم یافتہ ہونا ضروری ہے۔ تعلیم کے ساتھ کوئی بھی سماجی کام یا نوکری کی جاسکتی ہے۔ اندرا گاندھی، سروجنی نائیڈو، سنیتا ولیمز، کلپنا چاولہ، ثانیہ مرزا، کئی مشہور شخصیات کو ہم دیکھتے آئے ہیں سماج میں ان کا الگ رتبہ ہے۔ بااختیار بننا خواتین کے لئے فخر کی بات ہے۔ اس سے ہر لڑکی کو کچھ کرنے کے لئے ہمت ملے گی۔ اس لئے لڑکوں کے ساتھ ساتھ لڑکیوں کا بھی تعلیم یافتہ ہونا ضروری ہے۔
شاہدہ وارثیہ (وسئی، پال گھر)
گھر کا ماحول خوشگوار بنا سکتی ہیں
اسلام میں خواتین کی چند مثالیں موجود ہیں جنہوں نے سماجی و ازدواجی زندگی میں متحرک ہو کر اپنا کردار ادا کیا ہے۔ آج کے دور میں خواتین کے لئے سماجی طور پر متحرک ہونا بہت ضروری ہے۔ ہم اپنی اولاد کی درست نہج پر تربیت کرسکتی ہیں۔ سماج میں خواتین کے خلاف ہو رہے مظالم کی مخالفت کرسکتی ہیں۔ ازدواجی زندگی کو بحسن و بخوبی نبھا سکتی ہیں۔ گھر کا ماحول خوشگوار بنا سکتی ہیں۔ دیگر خواتین کی ترقی کیلئے راستے ہموار کرسکتی ہیں۔ گھر اور سماجی کاموں کو انجام دینے کے لئے خواتین کا متحرک ہونا ضروری ہے۔
فرحین انجم (امراوتی، مہاراشٹر)
تاکہ وہ نئی نسل کی صحیح نشوو نما کرسکیں
آج کے دور میں خواتین کا سماجی طور پر متحرک ہونا پہلے سے کہیں زیادہ ضروری ہو گیا ہے۔ گلوبلائزیشن سوشل میڈیا اور جدید ٹیکنالوجی کے مضر اور مفید دونوں اثرات آج سماج کے سبھی شعبوں میں دیکھے جا رہے ہیں۔ لوگ کہیں نہ کہیں اپنی دینی ثقافتی اور اخلاقی اقدار سے دور ہوتے جا رہے ہیں اور معدہ پرستی کا دور دورہ ہے۔ نئی نسل کی صحیح نشوو نما اور بہتر مستقبل کیلئے خواتین کا رول ایک بہتر سماج کی تشکیل دینے میں بہت اہم ہو گیا ہے۔ خواتین اگر متحرک ہیں تو وہ ایسے راستے تلاش کرسکتی ہیں جن پر گامزن ہوکر جدید ٹیکنالوجی سے مستفید بھی ہوا جاسکتا ہے اور اپنی روایتی، سماجی، ثقافتی اور دینی اقدار کی حفاظت بھی ممکن ہوسکتی ہے۔ خواتین کی مثبت اور متحرک سوچ مردوں کی سوچ پر بھی یقیناً اثر انداز ہوتی ہے اور نئی نسل کیلئے بھی مشعل راہ ہوسکتی ہے۔ سماج میں منفی رجحانات، بے جا مقابلہ بازی، حسد، اور بے چینی میں اضافہ ہو رہا ہے اس لئے بہتر معاشرے اور سماج کی تشکیل کیلئے خواتین کا آج کے دور میں متحرک ہونا اشد ضروری ہے۔ اس ضمن میں خواتین کے مختلف رابطہ گروپ الگ الگ شعبوں میں تعمیری مہم کا آغاز کرسکتے ہیں اور سماج سے منفی اثرات کے خاتمے کیلئے اور تعمیری سوچ کو فروغ دینے کیلئے کام کر سکتے ہیں۔
سلطانہ صدیقی (جامعہ نگر، نئی دہلی)
ایک صالح سماج کا حصہ بننے کیلئے
خواتین کے ساتھ ہر دور میں ناانصافی ہوتی رہی ہے اور ان کے ساتھ نازیبا سلوک ہوتا رہا ہے اور ایسا بھی متعدد بار ہوا ہے کہ اسی سماج نے ان پر ظلم و زیادتی کی ہے بلکہ ان کو سر راہ اجتماعی طور پر ذلیل و رسوائی کا سامنا بھی کرنا پڑا ہے لہٰذا خواتین کو خود پر ہونے والے ظلم و زیادتی پر قدغن لگانے کے لئے سماجی طور پر متحرک ہونا ہوگا تب ہی ہم ایک صالح سماج کے حصہ بن سکتے ہیں۔
ترنم صابری (سنبھل، یوپی)
کئی سماجی مسائل حل کرسکتی ہیں
اپنی خوبیوں اور صلاحیتوں سے بھرپور فائدہ اٹھانے کے لئے عورت کو سماجی طور پر متحرک ہونا چاہئے۔ موجودہ الیکشن میں عورت کی تحریک سے نتائج پر خاطر خواہ اثر پڑا۔ بچوں کی پی ٹی اے کی میٹنگ میں جب عورت شامل ہوتی ہے تو تعلیمی مسائل حل کرنے میں آسانی ہوتی ہے۔ سماجی خدمت میں عورت کی شمولیت فضول خرچیوں کو کم کرکے نیک کاموں میں دولت کو خرچ کرنے کی ترغیب دیتی ہے۔ دینی اجتماعات میں شامل ہو کر دین کی اشاعت کرسکتی ہے۔ مختلف احتجاج میں حصہ لے کر ظلم کو روک سکتی ہے۔ ڈاکٹر، ٹیچر یا بحیثیت مقرر سماجی خدمت انجام دے سکتی ہے۔ اپنے گھر والوں کے ساتھ قوم کی تربیت کرسکتی ہے۔
شیخ رابعہ عبدالغفور (ممبئی)
سماج اور معاشرہ میں نئی روح پھونکنے کیلئے
دنیا کے تمام ماہرین تعلیم متفق ہیں کہ تعلیم کا پہلا اور مرکزی کردار انسانوں میں اپنی مٹی، قوم، زبان اور ثقافت سے محبت اور اجتماعی شعور پیدا کرنا ہے۔ بشرطیکہ تعلیم ہر قسم کے تعصب اور طبقاتی امتیازات سے بالکل پاک ہو کیونکہ جس قوم کے نصاب تعلیم میں صنف، رنگ، نسل، طبقه، برادری، زبان، منصب یا جغرافیہ وجہ امتیاز بنے اس قوم کے زوال کی کہانی شروع ہو جاتی ہے۔ ہمارا دین بھی تقویٰ، علم، اخلاق، کردار اور جدجہد کو اہمیت اور فوقیت دیتا ہے۔ اب تو دور حاضر نے بھی فرسودہ روایات کو نظر انداز کرکے مندرجہ بالا نظریات کی جانب پیش قدمی کرنی شروع کر دی ہے۔ سماج اور معاشرہ میں نئی روح پھونکنے کیلئے مردوں سے زیادہ خواتین کا متحرک ہونا اسلئے بھی ضروری ہے تاکہ نئی نسل کی صحیح نہج پر پرورش اور رہنمائی ہوسکے، خواہ وہ روپ ماں کا ہو یا معلمه کا۔ بچوں کی تربیت کیلئے ماں کا عہدہ تو متعین اور مستقل ہے ہی لیکن اب تو بیشتر اداروں میں اور وہ بھی نوخیز اور نونہالوں کی تعلیم و تربیت میں معلمه کا رول نہ صرف پروان چڑھتا جارہا ہے بلکہ اہم بھی ہوتا جارہا ہے۔ ماضی قریب میں ہمارے سامنے عزیزانساء (والدہ سرسید احمد خان)، امام بی بی (والدہ علامه محمد اقبال)، آبادی بانو بیگم (والدہ مولانا محمد علی جوہر) وغیرہ کے ذریعے بچوں کی پرورش و پرداخت اور تربیت کی مثالیں موجود ہیں۔ خواتین کے فعال کردار کے بغیر معاشرہ کی تشکیل، اصلاح اور ترقی ناممکن ہے۔ اسلئے خواتین کو سماجی طور پر متحرک ہونے کی اشد ضرورت ہے۔
ناز یاسمین سمن (پٹنه، بہار)
عورت گھر اور معاشرہ کو خوشیوں کا گہوارہ بنا سکتی ہے
خواتین کو سماجی طور پر متحرک ہونے کے لئے اُن کا تعلیم یافتہ ہونا اشد ضروری ہے۔ ایک مرد کے تعلیم یافتہ ہونے سے ایک فرد ہی تعلیم یافتہ ہوتا ہے جبکہ ایک عورت کے تعلیم یافتہ ہونے سے پورا خاندان علم و ہنر کی دولت سے فیضیاب ہوتا ہے۔ کیونکہ تعلیم ہی عورت کو متحرک بناتی ہے وہ تعلیم کی وجہ سے ہی اپنے ہر کام انجام دیتی ہے۔ سماجی کاموں میں بڑھ چڑھ کر حصہ لیتی ہے۔ اس میں جینے کا شعور و سلیقہ پیدا ہوتا ہے اور وہ ترقی کی راہ پر گامزن ہو کر کامیاب ہوتی ہے اور آگے بڑھتی ہے۔ متحرک ہو کر عورت کسی بھی شعبہ جات میں ترقی کرسکتی ہے اور اپنے اندر پوشیدہ صلاحیتوں کو اُجاگر کرسکتی ہے۔ تناؤ اور فکروں سے آزاد ہوسکتی ہے اور نئے نئے کورسیز سیکھ کر اپنے آپ کو پُراعتماد اور قابل بنا سکتی ہے۔ جسمانی و ذہنی صحت پر توجہ دے سکتی ہے۔ ایک تعلیم یافتہ اور سمجھدار عورت ہی باہمت اور متحرک ہو کر گھر اور معاشرے کو خوشیوں کا گہوارہ بنا سکتی ہے اور ایک کامیاب اور اچھا شہری بن سکتی ہے جو ملت، سماج اور ملک کی عظیم خدمت ہوگی۔
ریحانہ قادری (جوہو اسکیم، ممبئی)
خواتین ہی خواتین کے مسئلے کو بہتر طور سے سمجھ سکتی ہیں
خواتین کو سماجی طور پر متحرک ہونا چاہئے کیونکہ خواتین سماج کا نصف حصہ ہیں اور خواتین ہی خواتین کے مسئلے کو بہتر طور سے سمجھ سکتی ہیں اور ان کے مسائل کو حل کرسکتی ہیں، ایک دوسرے کے دکھ درد کو آپس میں بانٹ سکتی ہیں اور ان کی ہر طرح سے مدد بھی کرسکتی ہیں۔ آپس میں دکھ درد کو بانٹنے کا یہ جذبہ اللہ تعالیٰ نے صنف نازک میں بدرجہ اتم عطا فرمایا ہے اس لئے خواتین کو سماجی طور پر متحرک ہونا ہی چاہئے اور ایک صالح سماج کا حصہ بننے کی کوشش کرنی چاہئے۔
پھول جہاں (حیات نگر، یوپی)
خواتین نئے معاشرے کی تشکیل کرتی ہیں
معاشرے میں خواتین روز اول سے ہی دوم فرد کی حیثیت سے جانی گئیں ہیں۔ اسے اپنی اہمیت کا اندازہ ہے لیکن تب بھی وہ معاشرے کے اس نظام کی قدر کرتی آرہی ہے۔ لیکن خواتین کو سماجی طور پر استحکام ملنا ضروری ہے۔ اس کی شروعات پر غور کریں تو پتہ چلتا ہے کہ فرانسیسی انقلاب نے خواتین کو سماجی بیداری عطا کی۔ اس وقت خواتین نے پہلی بار اپنے حقوق کے لئے آواز بلند کی۔ پدرسری اور قدامت پرستی کو چیلنج کیا اور انقلاب میں بھرپور حصہ لیا۔ ان خواتین کا تعلق امراء کے طبقے سے نہیں تھا بلکہ یہ متوسط اور نچلے طبقے کی خواتین تھیں جنہیں تعلیم سے محروم کر کے گھریلو کاموں میں جکڑ دیاگیاتھا۔ نتیجتاً جو نظریات و افکار پیدا ہوئے اس نے نئے سماج کی تشکیل کی اور فکر کی نئی راہیں کھولیں ۔ خواتین نئے معاشرے کی تشکیل کرتی ہیں۔ ان کے ذمہ نئی نسل کو پروان چڑھانا ہوتاہے۔ اس میں کوئی شک نہیں کہ خواتین آرٹ کلچر سے لے کر سرمایہ داری اور سائنس و انجینئرنگ جیسے شعبوں میں بھی آگے بڑھ رہی ہیں تاہم خواتین کا اپنے اطراف کےسماجی نظام سے واقف ہونا ضروری ہے۔ ان میں سماجی شعور اور بیداری آنا چاہئے۔ اس کی کچھ مثالیں ہمیں شاہین باغ اور نربھیا کیس جیسے مظاہرے کے طور پر ملتی ہیں ۔ لیکن تب بھی ان کی آوازوں کو قومی دھارے میں شامل کرنا چاہیے۔ یہ اس وقت ہی ممکن ہے جب خواتین سماجی طور پر متحرک ہوگی۔
فردوس انجم ( بلڈانہ مہاراشٹر)
بیدار مغز خواتین ناری شکتی کی پہچان ہیں
خواتین اور سماجی بیداری، گھر اور سماج یہ دونوں ہی زندگی کے اہم میدانِ عمل ہیں جہاں مرداور خواتین دونوں پر کئی ذمہ داریاں عائد ہوتی ہیں۔ سماجی طور پر بیدار ومتحرک افراد مُلک و معاشرے کا قیمتی سرمایہ ہوتے ہیں۔ اگر یہ بیداری اور فعالیت خواتین میں پیدا ہوجائے تو ایک بہتر سماج کی تشکیل کے امکانات زیادہ روشن ہو جاتے ہیں ۔ عورتوں کے حقوق کا تحفظ، بچوں کی تعلیم و تربیت، حفظانِ صحت، خود کفالت روزگار جیسے بیشترمسائل سے آگاہی اور اُنہیں حل کرنے کی کوششوں میں مردوں کے شانہ بہ شانہ عورتوں کا شامل ہونا زیادہ نتیجہ خیز ہوتا ہے۔ عورتوں کا سماجی طور پر متحرک و فعال ہونا اس لئے بھی ضروری ہے تاکہ وہ ’’اپنی مدد آپ‘‘ کے زرّیں اُصول کے تحت ہرمُشکل میں مردوں کے دست نگر بنے رہنے کے بجائے اخود اپنی راہیں بنا سکیں ۔ جہیز کی لعنت، بیٹے بیٹیوں میں تفریق، وراثت میں عورتوں کی حق تلفی، گھریلو تشدد جیسی کئی بُرائیاں جو معاشرے میں رائج ہو چکی ہیں اُن سب کی اصلاح اور خواتین کی فلاح و بہبود کے کئی ایسے مرحلے ہیں جو مردوں کی بہ نسبت خواتین بہتر طور سے حل کر سکتی ہیں ۔ خواتین کی قُوتِ ارادی، اُن کی عہد بستگی، فوری فیصلہ کرنے کی قابلیت، مقررہ اہداف کے حصول کیلئے درکار انتھک محنت اور کفایت شعاری جیسی امتیازی خصوصیات کی حامل اور سماجی مسائل حل کرنے کیلئے متحرک و بیدار مغز خواتین ناری شکتی کی پہچان ہیں۔
خالدہ فوڈکر (ممبئی)
خواتین کا متحرک ہونا پورے معاشرے کیلئے مفید ہے
خواتین کا سماجی طور پر متحرک ہونا بہت فائدہ مند اور ضروری ہے۔ خواتین کی سماجی سرگرمیوں میں شمولیت معاشرتی انصاف اورصنفی برابری کو فروغ دیتی ہے۔ اس حقیقت سے کوئی انکار نہیں کرسکتا کہ خواتین کی مختلف میدانوں میں شمولیت سے معاشرتی ترقی میں تیزی آتی ہے۔ جب خواتین تعلیم، صحت اور اقتصادی شعبوں میں فعال ہوتی ہیں تو معاشرہ مجموعی طور پر ترقی کرتا ہے۔ ان کا معاشی طور پر متحرک ہونا ملکی معیشت کو مضبوط بناتا ہے۔ خواتین کی شمولیت سے مختلف صنعتوں میں جدت اور پیداواری صلاحیت میں اضافہ ہوتا ہے۔ خواتین کی فعالیت ان کی نجی زندگی پر مثبت طور پر اثر انداز ہوتی ہے۔ ایک خود مختار اور تعلیم یافتہ خاتون بہتر طور پر اپنے خاندان کی کفالت کر سکتی ہے اور بچوں کی بہتر پرورش کر سکتی ہے۔ خواتین کی شرکت ثقافتی ترقی کو بھی فروغ دیتی ہے۔ ان کی مختلف صلاحیتوں اور مثبت نقطہ نظر سے معاشرتی مسائل کے حل میں مدد ملتی ہے۔ اسی طرح ان کی سماجی سرگرمیوں میں شمولیت جسمانی اور ذہنی صحت کے لئے بھی فائدہ مند ہے۔ سماجی تعلقات اور سرگرمیاں خواتین کو مختلف سماجی اور معاشرتی مشکلات سے بچانے میں مدد کرتی ہیں۔ ان وجوہات کی بنا پر، خواتین کا سماجی طور پر متحرک ہونا نہ صرف خواتین کی اپنی ذاتی زندگی کے لئے بلکہ پورے معاشرے کے لئے فائدہ مند ہے۔
نکہت انجم ناظم الدین مانا (مہاراشٹر)
مثبت تبدیلی کے لئے متحرک ہونا ضروری ہے
غیر محفوظ اور نادار لوگوں کو مالی مدد کرنا، طبی نگہداشت اور سماج اور معاشرے میں استحکام ، خواتین کے فعل و کردار کے بغیر مشکل ہے اور ان کے بغیر معاشرے کی ترقی بھی نہیں ہوسکتی۔ اس سلسلے میں پہلی بات یہ ہے کہ خواتین کو تعلیم کی طرف راغب کیا جائے۔ اس حقیقت پر دنیا کے تمام ماہرین تعلیم متفق ہیں کہ تعلیم کا پہلا اور مرکزی کردار خواتین ہیں جن کی طرف توجہ دینی چاہئے۔ نظریاتی طور پر جاننے اور سیکھنے کے سارے عمل کا دارومدار اس بات پر ہوتا ہے کہ ہر فرد کو اپنے منصب، اپنے فرائض اور اپنی ذمہ داریوں کا شعور ہو۔ اس طرح ہر فرد معاشرے کے لئے ایک مفید اور ذہنی طور پر کشادہ و حدت کا کام کرتا ہے۔ جب افراد متحرک ہونے کے بجائے جامد رہ جاتے ہیں اور ان کا دائرہ کار محدود ہوجاتا ہے تو تمام وسائل، محنت اور نظریات کارآمد اور مفید ہونے کے بجائے غیرمؤثر اور بے معنی ہوکر رہ جاتے ہیں۔ اس سے آپ حرکت کی اہمیت کو سمجھ سکتے ہیں اور جب حرکت کا یہ دائرہ خواتین میں ہو اور وہ متحرک ہوجائیں تو سوچئے کہ معاشرے میں کتنی مثبت تبدیلیاں آسکتی ہیں۔ اس لئے خواتین کو خود بھی متحرک رہنے پر توجہ دینی چاہئے۔
ہاجرہ نورمحمد (چکیا حسین آباد، اعظم گڑھ)
خود کیلئے، خاندان اور سماج کیلئے متحرک ہونا چاہئے
ہم نے کتابوں میں پڑھا ہے کہ انسان ایک سماجی جانور ہے لیکن جیسے جیسے وقت گزرتا گیا یہ بات ثابت ہوگئی کے ہر انسان سماج سے جڑا ہوا ہے مرد ہو یا خواتین ہر ایک کو سماج میں رہ کر ہی اپنے کام انجام دینے ہیں۔ سماجی طور پر متحرک رہنا جتنا مرد کے لئے ضروری ہے اتنا ہی خواتین کے لئے بھی ضروری ہے۔ ایک عورت تعلیم حاصل کرتی ہے تو اس کا پورا خاندان تعلیم حاصل کرتا ہے، اسی طرح سماجی معلومات بھی گھر کی خواتین کے لئے بے حد ضروری ہے۔ صحیح غلط کی پہچان ہمیں سماج کے ذریعے حاصل ہوتی ہے۔ آج کے اس جدید دور میں سماج میں جاری تبدیلیوں اور جدید تکنیکی معلومات حاصل کرنے کے لئے اور اپنے خاندان کے افراد کو بھی اس سے مستفید کرنے کیلئے خواتین کو سماج سے جڑی ہر بات سے آگاہ ہونا ضروری ہے۔ اگر ہمیں کسی بھی طرح کا بدلاؤ لانا ہے تو گھر ہو یا سماج میں شروعات ہمیں خود سے کرنی ہوتی ہے ۔ گھر کی خواتین سماجی طور پر متحرک ره کر، سماج میں ہورہے کارناموں پر غور و فکر کرکے اور صحیح غلط کی پہچان کے ساتھ اپنے گھر میں تبدیلی لاسکتی ہیں اور یہیں سے سماج میں تبدیلی لانے کی راہیں ہموار ہوتی ہے۔
گل افشاں شیخ (عثمان آبادمہاراشٹر )
اپنے حقوق کی حفاظت کیلئے متحرک رہیں
عورت تعلیم یافتہ ہو یا غیر تعلیم یافتہ، آج کے دور میں اس کا سماجی طور پر متحرک رہنا ضروری ہی نہیں لازمی بھی ہے۔ اس طرح سے عورت سماج میں ہو رہی تبدیلی سے واقف ہوتی ہے اور اپنے اطراف کے ماحول اور سرگرمیوں سے واقفیت رکھتے ہوئے اپنی عملی کارکردگی میں متحرک رہتی ہے نیز سماج اور خاندان میں بہترین تبدیلی لا سکتی ہے۔ اتنا ہی نہیں، متحرک اور ماحول سے آگاہ رہتے ہوئے وہ اپنے بچوں کی بہتر طریقے سے پرورش کر سکتی ہے۔ خواتین میں بیداری اور ان کے سرگرم عمل رہنے سے صنفی مساوات کو فروغ حاصل ہوتا ہےاور وہ خاندانی استحکام کو فروغ دیتے ہوئے ان کی فلاح و بہبودی کے لئے مثبت اثرات مرتب کرتی ہیں ۔ اپنے حقوق کی حفاظت اور انہیں مضبوط بنانے کے لئے ضروری ہے کہ وہ گھر اور معاشرے کے ساتھ سماجی میدان میں بھی متحرک رہیں۔ اس لئے کہ ان کا متحرک رہنا نہ صرف ان کی اپنی زندگی کو بہتر بناتا ہے بلکہ معاشرتی بہتری اور ترقی کے لئے بھی ضروری ہے۔
مومن رضوانہ محمد شاہد (ممبرا، تھانہ )
متحرک رہئے، اس لئے کہ عورت مجبور نہیں ہے
اچانک بجلی چلی جائے تو ہم موم بتی جلا کر اُجالا کرتے ہیں لیکن ہم یہ کبھی سوچتے نہیں کہ موم بتی خود کو مکمل طور پر جلا کر دوسروں کو روشنی دینے کا کام کرتی ہے۔ یہی مثال ہمارے معاشرے میں موجود خواتین کی ہے جو خود کو پوری طرح قربان کردیتی ہیں تاکہ ایک اچھا ماحول ہو جس میں وہ اپنے بچوں کی اچھی پرورش و تربیت اور دیگر ذمہ د داریوں کو انجام دے سکیں ۔ اس کے باوجود معاشرے میں خواتین پر ظلم و ستم کے واقعات ہوتے ہیں۔ عورت ظلم برداشت کر لیتی ہے لیکن ظلم کے خلاف آواز اٹھانے سے قاصر رہتی ہے کہ وہ اکیلے کچھ کر نہیں پاتی، جبکہ درحقیقت عورت کہیں مجبور نہیں ہے۔ ہم تاریخ پر نظر دوڑا ئیں تو بی بی خدیجہؓ، بی بی فاطمہؓ، بی بی عائشہ ؓجیسی عظیم اور پاکباز ہستیوں کا بحیثیت خاتون معاشرے میں ایک مضبوط اور متحرک اور اپنے دائروں میں ایک خودمختار رول نظر آتا ہے۔ ماضی قریب میں اور موجودہ دور میں بے شمارخواتین کی ایسی مثالیں موجود ہیں، جنہوں نے اپنی حدود کی پاسداری کرتے ہو ئے نہ صرف عظیم مقاصد کے لئے کام کیا اور اپنے ملک و قوم کے ساتھ خاندان اور معاشرے کو فیض پہنچایا بلکہ ساتھ ہی معاشرتی و دینی اقدار، روایات اور رشتوں کاپاس رکھتے ہوئے اس بات کو ثابت کیا کہ عورت اپنے خاندان کا نگینہ ہی نہیں بلکہ اپنی قوم اور معاشرے کی عزت و وقار کا استعارہ بھی ہے۔
آفرین عبدالمنان شیخ (شو لا پور مہاراشٹر)
متحرک خواتین مثبت تبدیلی لاسکتی ہیں
خواتینکو سماجی طور پر متحرک رہنا چاہئے تا کہ وہ اپنے ساتھ ہونے والےظلم و زیادتی، تشدد، حق تلفی اور نا انصافی کے خلاف آواز بلند کر سکیں۔ اپنے حق کے لئے احتجاج کریں، اپنے حق کی لڑائی لڑیں اور سماج میں پھیلی برائیوں کی روک تھام کے لئے ٹھوس اقدام کریں، عدم مساوات کی تفریق کو مٹا کر برابری کے حقوق حاصل کریں۔ اس حقیقت کو نہ بھولیں کہ ایک تعلیم یافتہ خواتین نسلوں کو سنوار سکتی ہے۔ خواتین سماج میں تعلیمی بیداری کے ذریعے مثبت تبدیلی اور انقلاب برپا کر سکتی ہیں۔ سماج کے مسائل پر غوروخوض اور ان کے حل کے لئے کوشش اور اپنی رائےپیش کرکے خواتین کے تحفظ کو یقینی اور با اختیار بنا سکتی ہے۔ گھریلو مصروفیات سے کچھ وقت اپنے لئے اور اپنے معاشرے کی بہتری کے لئے بھی نکالنا ضروری ہے۔
خان نرگس سجاد(جلگاؤں ، مہاراشٹر)
متحرک رہتے ہوئے خواتین معاشرے کو بدل سکتی ہیں
میں نے بچپن ہی سے سماجی علوم سیکھے۔ بات اس زمانے کی ہے۔ جب میری عمر لگ بھگ آٹھ برس رہی ہوگی تب میری والدہ نے مجھے سماجی علوم سکھائے۔ اور میرا ماننا یہ ہے کہ تمام ہی خواتین کو سماجی علوم میں متحرک ہونا چاہئے۔ میں نے اپنے محلے میں سب کو بتایا کہ ہمارے ملک کا وزیراعظم کون ہے، ہماری یعنی خواتین کی حفاظت کے لئے کئی قوانین ہیں جن کی ہمیں جانکاری ہونی چاہئے۔ میری ایک بیٹی ہے سلمہ، آج وہ ہر فن میں مہارت حاصل کر چکی ہے، اس کو میں نے خود اپنے پاس رکھ کر پڑھنا لکھنا سکھایا۔ اس کے ساتھ ہی اسے دوسرے ہنر میں مہارت حاصل کرنے کی بھی ترغیب دی۔ میں سمجھتی ہوں کہ اگر تمام خواتین متحرک ہوجائیں، تعلیم کی طرف توجہ دیں ، اپنے حقوق کو جاننے کی فکر کریں تو ہمارا معاشرہ ہی بدل جائے۔ اس لئے کہ خواتین کی بیداری کے بغیر معاشرے میں تبدیلی نہیں آسکتی۔ بچوں کی بہترین تربیت کے ساتھ ان کی پڑھائی لکھائی پر ہمیں خود توجہ دینی چاہئے۔
شریفہ بیگم عرف مرو (بلگرام یوپی)
متحرک خاتون آوازِ نسواں بھی بن سکتی ہے
عورت ایک مکمل تخلیق ہے۔ چھوٹی ذہنیت رکھنے والے اسے وہ مقام و مرتبہ نہیں دے پاتے جو اس کا حق ہے۔ صنف نازک خانگی ذمہ داریوں کے ساتھ ساتھ سماجی ذمہ داریاں بھی بخوبی نبھا سکتی ہے اور تاریخ میں ایسی بے شمار مثالیں ملیں گی جب خواتین تجارت کیا کرتی تھیں ، جنگوں میں زخمیوں کی مرہم پٹی کرتی تھیں اور تعلیم یافتہ خواتین نہ صرف بچوں کو بلکہ بسااوقات بڑے لوگوں کو بھی تعلیم دیا کرتی تھیں ۔ موجودہ دور میں بھی عورت کو سماجی طور پر متحرک ہونا ضروری ہے اس کی کئی وجوہات ہیں مثلاً کسی خاتون کو معاشی تنگی کا سامنا ہے، ایسے حالات میں اگر وہ سماجی طور پر متحرک ہے تو وہاں سے اپنے مسئلے کے حل کیلئے نئے آئیڈیاز تلاش کرسکتی ہے۔ تعلیمی میدان میں اپنے لئے راہ ہموار کر سکتی ہے، جو صلاحیتیں اللہ تعالیٰ نے اسے دی ہیں وہ اسے دوسروں تک پہنچا سکتی ہے، سماج کی تعمیر و ترقی میں اپنا حصہ ڈال سکتی ہے، اپنی ہم جنس خواتین کی آواز بن سکتی ہے، ان کے مسائل منظر عام پر لا سکتی ہے۔
بنت رفیق جوکھن پور، بریلی
سماجی اصلاح و بہبود کیلئے متحرک رہنا چاہئے
انسانی سماج میں خواتین کا زمانہ قدیم سے اہم رول رہا ہے۔ حضرت عائشہؓ اور دوسری صحابیات میدانِ جنگ میں زخمیوں کی مرہم پٹی کرتیں، پانی پلاتیں اور شہیدوں کو مقام محفوظ تک پہچانے میں مدد کرتی تھیں ۔ قابل اور با صلاحیت خواتین، عورتوں اور مردوں دونوں کے مسائل سے بخوبی واقف ہوتی ہیں اور بہتر طریقے سے مسائل کا حل نکال سکتی ہیں۔ سماجی اصلاح و بہبود کے لئے خواتین کو ضرور کوشاں رہنا چاہئے۔ موجودہ دور میں بھی خواتین اپنی قابلیت و صلاحیت کا لوہا منوا رہی ہیں۔ اسلامی شعور کے ساتھ خواتین کو سماجی طور پر متحرک رہنا چاہئے۔ باشعور خواتین سماج میں ایسی ہیں جیسے شہد کے چھتے میں رانی مکھی کا مقام۔
ریحانہ خاتون عبدالجبار، نالا سو پا رہ
متحرک خواتین بازی بھی پلٹ سکتی ہیں
موجودہ حال میں خواتین کو دیکھا جائے تو وہ ہر شعبے میں مردوں کے شانہ بہ شانہ ہر مقابلہ میں حصہ لے رہی ہیں اور جب جب قوم کو قوم کے مردوں کو عورتوں کی ضرورت پڑی ہے اس وقت خواتین نے جو جذبہ دکھایا وہ بھی تاریخ میں لکھنے کے قابل ہے۔ زیادہ دور کی بات نہیں، یاد کیجئے ان عورتوں کو جو شاہین باغ میں سردیوں کی راتوں میں ڈٹ کر کھڑی تھیں، احتجاج کرتی رہیں اور اپنے حق کے لئے لڑتی رہیں۔ اور اگر ہم ۱۴؍سو سال پہلے کی عورتوں کو دیکھیں تو ہر جنگ میں خواتین، مردوں کے لئے ڈھال بنی رہیں۔ جنگ ِ یرموک کا وہ واقعہ یاد کریں جب رومی افواج لاکھوں کی تعداد میں تھے اور مسلمان بہت تھوڑے تھے، گھنٹوں لڑنے کے بعد مسلمان فوج پیچھے ہٹنے لگی، اس وقت خواتین اپنے خیموں سے نکل آئیں اور کہنے لگیں کہ اپنی عورتوں اور ان معصوم بچوں کو دشمنوں کے حوالے کرکے کہاں جاؤگے؟ اس طرح انہوں نے مسلم فوجیوں کو مقابلہ پر ابھارنے کے لئے ان کی حوصلہ افزائی کی۔ اس سے مسلمان فوج کے اندر لڑنے اور فتح حاصل کرنے کا جذبہ پیدا ہوا، انہوں نے رومیوں کے سامنے ڈٹ کر مقابلہ کیا اور بالآخر اللہ نے مسلمانوں کو فتح عطا کردی۔ مؤرخین لکھتے ہیں کہ مسلمان عورتوں کا ایمان و یقین پر مشتمل یہ ایسا کارنامہ تھا کہ تاریخ ایسی مثالیں لکھنے سے قاصر ہے۔ اس واقعے کے ذکرکا مقصد مسلم خواتین کی متحرک شخصیت کو اجاگر کرنا ہے۔
سدرة المنتهى ( بنارس، یوپی)
اس لئے خواتین کا متحرک ہونا ضروری ہے
صنفی مساوات: خواتین کو متحرک کرنے سے صنفی مساوات کو فروغ ملتا ہے۔ جب خواتین معاشرتی اقتصادی اور سیاسی شعبوں میں فعال ہوتی ہیں تو صنفی عدم مساوات کو کم کیا جا سکتا ہے۔ اقتصادی ترقی: خواتین کا فعال ہونا ملکی معیشت کی ترقی میں معاون ثابت ہوتا ہے۔ تعلیم اور صحت: خواتین کی سماجی سرگرمیوں سے تعلیم اور صحت کے میدان میں بہتری آتی ہے۔ خاندانی اور معاشرتی استحکام : خواتین کی سماجی شرکت سے خاندانی اور معاشرتی استحکام بڑھتا ہے، خواتین اپنی کمیونٹی اور خاندانوں میں مثبت تبدیلیاں لا سکتی ہیں۔ ثقافتی ترقی: خواتین کی شرکت ثقافتی تنوع اور تخلیقی صلاحیتوں میں اضافہ کرتی ہے۔ مختلف نقطہ نظر اور تجربات سے معاشرتی ترقی ممکن ہوتی ہے۔ انسانی حقوق : خواتین کو متحرک کرنا ان کے انسانی حقوق کی پاسداری کا حصہ ہے۔ ہر انسان کو برابری کا موقع ملنا چاہئے اور خواتین کو ان کے حقوق سے محروم نہیں کیا جاسکتا۔
گلناز مطیع الرحمٰن قاسمی، مدھوبنی، بہار
متحرک خواتین تعمیری کردار ادا کرسکتی ہیں
آج ہر شعبے میں خواتین، مردوں کے شانہ بہ شانہ کھڑی ہیں۔ انہیں مساوی حقوق حاصل ہیں۔ وہ گھر سے لے کر باہر تک کی ذمہ داریاں اٹھاتی ہیں۔ روزمرہ کی یکساں مصروفیات انہیں تھکا دیتی ہیں ، ایک ہی دائرہ میں محنت و مشقت سے کبھی کبھی وہ ڈپریشن کا شکار بھی ہوجاتی ہیں۔ اگر کبھی ایسا ہوتا ہے تو ہم خود اندازہ کرسکتے ہیں کہ گھر اور خاندان کتنا متاثر ہوتا ہے۔ لہٰذا خواتین کی ذہنی صحت کی فکر کرنا بھی ضروری ہے۔ خواتین کو چاہئے کہ وہ خود سماجی طور پر متحرک ہوں۔ معاشرے کے حالات و واقعات اور ان میں آئی تبدیلی سے واقفیت حاصل کرکے، ایک دوسرے کے دکھ درد، آزمائش و پریشانی، خوشی و غمی میں شریک ہوں، اس طرح وہ اپنے مزاج میں خوشگوار تبدیلی لاسکتی ہیں۔ سماجی رابطے میں رہ کر مفید و مضر باتوں سے بروقت آگاہ ہوسکتی ہیں۔ ملت کی بھلائی کے لئے اپنی خدمات پیش کرکے کارِ خیر میں حصہ لے سکتی ہیں، گھر، خاندان، سماج کی بہتری کے لئے اپنی مثبت فکر سے تعمیری کردار ادا کرسکتی
بنت شبیر احمد (ارریہ، بہار)
اگلے ہفتے کا عنوان: وہ ڈش جو میں نے اِس بقرعید پر بنائی (مع ترکیب)
اظہار خیال کی خواہشمند خواتین اس موضوع پر دو پیراگراف پر مشتمل اپنی تحریر مع تصویر ارسال کریں۔ وہاٹس ایپ نمبر: 8850489134