• Sat, 22 February, 2025
  • EPAPER

Inquilab Logo Happiest Places to Work

اوڑھنی اسپیشل: بسیار گفتاری (زیادہ بولنا) کیوں نقصاندہ ہے؟

Updated: December 07, 2023, 5:22 PM IST | Saaima Shaikh | Mumbai

گزشتہ ہفتے مذکورہ بالا عنوان دیتے ہوئے ہم نے ’’اوڑھنی‘‘ کی قارئین سے گزارش کی تھی کہ اِس موضوع پر اظہارِ خیال فرمائیں۔ باعث مسرت ہے کہ ہمیں کئی خواتین کی تحریریں موصول ہوئیں۔ ان میں سے چند حاضر خدمت ہیں۔

Photo: INN
طویل اور غیر ضروری گفتگو وقت اور توانائی کا ضیاع ہے۔ تصویر: آئی این این

کثرت کلام کئی فتنوں کو جنم دیتا ہے
کہہ رہا ہے شور دریا سے سمندر کا سکوت
جس کا جتنا ظرف ہے اتنا ہی وہ خاموش ہے
دوسری بات یہ ہے کہ گفتار چاندی ہے خاموشی سونا ہے۔ خاموشی عقلمندی کی نشانی ہے۔ بسیار گفتاری منفی شخصیت کا مظہر ہے۔ زیادہ بولنے والے میں تحمل کا فقدان ہوتا ہے۔ وہ بنا سوچے سمجھے ہی بولتا رہتا ہے، یہ ذاتی شخصیت کا ایک نقصاندہ پہلو ہے۔ جو زیادہ بولتا ہے لوگ اس کی باتوں کو زیادہ غور سے نہیں سنتے۔ جو خاموش رہتا ہے لوگ اس کو سننے کے لئے بے تاب رہتے ہیں۔ انسان کو کردار کا غازی ہونا چاہئے گفتار کا نہیں۔ کثرت کلام سے تمام عیب ظاہر ہو جاتے ہیں اور زیادہ بولنا کئی فتنوں کو جنم دیتا ہے۔ کمان سے نکلا ہوا تیر اور زبان سے نکلا ہوا لفظ واپس نہیں آتا۔ زبان سے نکلنے والے تلخ الفاظ بہت عمیق زخم لگاتے ہیں جو تا عمر مندمل نہیں ہوتے۔ بقول پروفیسر وسیم بریلوی؎
کون سی بات کہاں کیسے کہی جاتی ہے
یہ سلیقہ ہو تو ہر بات سنی جاتی ہے
اس لئے یہ بہت ضروری ہے کہ بات کرنے کا سلیقہ آنا چاہئے۔ فضول بات کرنے سے کوئی فائدہ نہیں۔ لن ترانی بات کو بدصورت بنا دیتی ہے اور اس میں خاص مدہ ضائع ہو جاتا ہے۔
نجمہ طلعت (جمال پور، علی گڑھ)

بسیار گفتاری: وقت کا ضیاع


اللہ نے قوت گویائی کی صورت میں انسان کو ایک ایسی بیش بہا نعمت عطا کی ہے جو اسے دیگر مخلوقات سے ممتاز کرتی ہے۔ اس کے ذریعے وہ اپنے جذبات و محسوسات کا اظہار کرتا ہے۔ بلا شبہ یہ ایسی خوبی ہے جس کے ذریعے دلوں میں گھر کیا جاسکتا ہے اور تعلقات میں تلخی اور زہر بھی گھولا جاسکتا ہے۔ برمحل اور موقع کی مناسبت سے بولنا ایسا ہنر ہے جو انسان کی شخصیت میں چار چاند لگا دیتا ہے۔ اس کے بر عکس بسیار گفتاری ایک ایسی خامی ہے جس کی وجہ سے ہونے والے نقصان کا اکثر ازالہ بھی نہیں ہو پاتا۔
 زیادہ اور بلا ضرورت بولنے سے خرابیاں کبھی کبھی اتنی بڑھ جاتی ہیں کہ بنتے کام بھی بگڑ جاتے ہیں۔ اس میں کوئی دو رائے نہیں کہ بلا جواز لب کشائی اکثر الجھنوں کو راہ دیتی ہے۔ لوگوں کی سمع خراشی تو ہوتی ہی ہے، کئی معاملات میں تلخی و ترشی کا باعث بھی بنتی ہے۔ زیادہ باتیں کرنے سے اکثر اوقات عمل کا ارادہ کمزور ہو جاتا ہے، کاموں میں غلطیاں و خطائیں بڑھ جاتی ہیں۔ بسیار گفتاری کی وجہ سے انسانی ذہن توجہ کے ساتھ مختلف مسائل پر غور و فکر نہیں کر پاتا۔ زیادہ بولنے والا شخص اپنا اور دوسروں کا بہت سا قیمتی وقت لایعنی گفتگو میں ضائع کر دیتا ہے۔ علاوہ ازیں فضول گوئی کی وجہ سے لوگ بھی ایسے شخص سے دوری اختیار کرتے ہیں۔ لہٰذا یہ ضروری ہے کہ ہم صرف کام کی باتیں بیان کرنے کے لئے بولیں۔ اس طرح بولیں کہ لوگ ہمارے بولنے کے منتظر رہیں ورنہ خاموش رہیں کہ خاموشی میں بڑی عافیت اور راحت ہے۔
فوڈکر ساجدہ (جوگیشوری، ممبئی)
زیادہ باتیں کرنا احمق کی نشانی ہے


بولنا تو سب کو آتا ہے مگر کب، کہاں اور کتنا بولنا ہے یہ بہت کم لوگ جانتے ہیں۔ جب بھی بولیں وقت پر بولیں اور جو بھی بولیں سوچ کر بولیں۔ بہت لوگ سوچتے ہیں کہ زیادہ بولنا عقلمند کی پہچان ہے مگر یہ سچ نہیں ہے عقلمند تو وہ ہے جو صبر کے ساتھ اور سوچ سمجھ کر بولیں۔ زیادہ بولنے سے بہت سارے نقصان ہوتے ہیں۔ زیادہ بولنے سے وقت اور طاقت ضائع ہوتی ہے۔ زیادہ بولنے سے آپسی رشتے خراب ہوتے ہیں۔ زیادہ بولنے سے راز فاش ہوتے ہیں۔ زیادہ بولنے والے کو احمق سمجھا جاتا ہے۔ ان پر اعتبار نہیں کیا جاتا ہے۔ رسول اللہﷺ کا فرمان ہے: جب بھی بولو سچ بولو۔ جو لوگ زیادہ بولتے ہیں انہیں فکر کرنی چاہئے۔ جو بھی بولیں سوچ سمجھ کر بولیں اور کم بولیں۔ خاموشی ہزار نعمت ہے۔ جو انسان زیادہ بولتا ہے اس کی زبان پھسل جاتی ہے اور اسے بات منوانے کے لئے ہزار جھوٹ بولنا پڑتا ہے۔ اس سے ہماری آخرت خراب ہوتی ہے۔ خاموش رہنا بھی عبادت ہے۔ اگر اپنی زندگی میں سکون چاہتے ہو تو خاموشی اختیار کرو۔
تحسین سعید تامبولی (شولاپور، مہاراشٹر)
زیادہ بولنا کئی برائیوں کا سبب


زیادہ بولنا اچھی بات نہیں ہے۔ فضول کی باتیں جس میں کوئی بھلائی اور کوئی فائدہ نہیں ہے بلکہ زیادہ بولنے سے تباہ کاریاں بہت ہیں مثلاً زیادہ بولنا شیطان کو پسند ہے۔ دل آزاری کا باعث ہے۔ زیادہ بولنا غلطیاں کرواتا ہے۔ زیادہ بولنا ترقی کے راستے بند کروا دیتا ہے۔ جاہلوں کا کام ہے۔ زیادہ بولنا غیبتوں کے دروازے کھلواتا ہے۔ عیب کھولنے کی طرف لے جاتا ہے اور دلوں میں نفرت پیدا کرواتا ہے۔ وقت ضائع کرواتا ہے۔ عزت و وقار ختم کروادیتا ہے۔ زیادہ بولنا اللہ پاک اور رسول کریمﷺ کو ناپسند ہے۔ زیادہ بولنا کراما کاتبین یعنی اعمال لکھنے والے فرشتوں کی تکلیف کا سبب ہے۔ اس طرح سے اتنی برائیاں پیدا ہوتی ہیں زیادہ بولنے سے۔ تو ہمیں کم بولنا چاہئے اور ناپ تول کر بولنا چاہئے۔ پہلے تو لو پھر بولو۔ مختصراً یہ کہ زیادہ بولنے کے زیادہ نقصانات ہیں۔
نشاط پروین (مونگیر، بہار)

زیادہ بولنے والے کی اہمیت کم ہو جاتی ہے


زیادہ بولنا معیوب سمجھا جاتا ہے کیونکہ اس سے آپ کی شخصیت پر برا اثر پڑتا ہے۔ جہاں بولنا مناسب نہیں ہے وہاں بھی بولتے ہیں جس کے سبب کبھی کبھی شرمندگی یا جھگڑے کا سامنا کرنا پڑتا ہے۔ زیادہ بولنے والے سے لوگ بیزار ہوجاتے ہیں۔ زیادہ بولنے والے کی اہمیت کم ہو جاتی۔ انسان کی روحانیت ختم ہو جاتی ہے جس سے انسان کا سکون جاتا رہتا ہے۔ سکون حاصل کرنے کیلئے وہ اور زیادہ بولنے لگتا ہے۔ جبکہ خاموشی میں نجات میں بھی ہے اور ثواب بھی۔
ثمینہ علی رضا خان (کوسہ، ممبرا)
انسان اپنی قدر کھو دیتا ہے
خاموش رہنا ایک اچھی عادت ہے۔ حدیث میں آتا ہے کہ آپؐ فرماتے ہیں کہ جو اللہ اور رسولﷺ پر ایمان رکھتے ہیں انہیں چاہئے کہ خاموش رہیں یا بھلی بات بولیں۔ اس سے معلوم ہوتا ہے کہ انسان کو زیادہ نہیں بولنا چاہئے۔ زیادہ بولنا نقصان دہ ہوتا ہے۔ انسان کو سامنے والے کی نظر میں گرا دیتا ہے۔ اس لئے زیادہ نہیں بولنا چاہئے۔ زیادہ بولنے سے پرہیز کرنا چاہئے۔ زیادہ بولنے والے سے سب تنگ آ جاتے ہیں۔ زیادہ بولنے سے آ پ کی شخصیت کمزور نظر آتی ہے۔ بسیار گفتاری سے انسان اپنی قدر کھودیتا ہے۔
صبیحہ سلفی بنت محمد شاکر اسلامی (مدھوبنی، بہار)
بدگمانیاں پیدا ہو جاتی ہیں


زیادہ باتیں کرنا اپنے آپ میں ایک بڑا مسئلہ ہے۔ زیادہ بولنے سے انسان کا وقار کم ہو جاتا ہے۔ دراصل زیادہ بات کرنے والے لوگوں کو برداشت کرنا مشکل ہوتا ہے۔ اس کے علاوہ زیادہ باتیں کرتے وقت وہ ایسی بات کہہ جاتے ہیں جس سے رشتے خراب ہو جاتے ہیں، بد گمانیاں پیدا ہو جاتی ہیں اور آپ کے رشتہ دار دوست احباب دور ہو جا تے ہیں۔ زیادہ بولنے کی عادت کی وجہ سے ان کا بہت سارا وقت بھی ضائع ہوتا ہے اور کام کا بوجھ بڑھ جاتا ہے۔ زیادہ باتیں کرنے سے آپ کو لوگ بیوقوف سمجھنے لگے ہیں۔ ہو سکتا ہے کہ آپ باتوں ہی باتوں میں وہ بھی کہہ دیں جو آپ کی شخصیت کا حصہ نہ ہو مگر دوسروں پر رعب ڈالنے کے لئے آپ کو جھوٹ کا سہارا بھی لینا پڑ جائے اور اس طرح غیبت بھی شروع ہو جاتی ہے اور لوگ آپ سے دور بھاگنا شروع کر دیتے ہیں۔ بہتر یہ ہے کہ کم بولیںا ور ضرورت کے وقت بولیں۔
نسیم رضوان شیخ (کرلا، ممبئی)
انسان جھوٹی سچی باتیں ملا کر کہنے لگتا ہے


ہر چیز کی زیادتی بری ہوتی ہے۔ چاہے وہ کھانا پینا ہو۔ سونا جاگنا ہو یا پھر بولنا۔ ہمارے دین اسلام میں بھی ہر چیز میں میانہ روی اختیار کرنے کا حکم ہے۔ سوال یہ ہے کہ زیادہ بولنے سے نقصان کیا ہے؟ سب سے پہلے یہ کہ زیادہ بولنے والے کے جملے قیمتی نہیں ہوتے۔ زیادہ بولنے والا آدمی بے وزن اور بے واقعت ہونے لگتا ہے۔ بغیر مانگے مشورہ دینے والے کی کوئی اہمیت نہیں رہتی۔ اپنی زندگی کو اگر باوقار اور وضعدار بنانا چاہتے ہو تو سوچ سمجھ کر ناپ تول کر بولیں۔ سائنسی نظریئے سے دیکھیں تو زیادہ بولنے سے جسم سے زیادہ توانائی خارج ہوتی ہے۔ جس سے دماغ پر تناؤ بڑھتا ہے۔ تناؤ بڑھنے سے انسان جلد غصہ میں آجاتا ہے اور غصہ صحت کا دشمن ہے۔ زیادہ بولنے والا اپنے بڑ بولے پن میں جھوٹی سچی باتیں ملا کر کہنے لگتا ہے۔ زیادہ بولنے سے اہم ہے کہ کیا بولنا ہے اس پر نظر کھی جائے اور کس طرح اپنی گفتگو کو بامعنی بنایا جائے۔ بسیار گفتاری سے فائدہ کوئی نہیں ہے بلکہ لوگوں کی نظروں میں اپنی اہمیت کم کرتا ہے۔ وہ کہتے ہیں نا کہ اتنا مت بولو کہ لوگ تمہارے چپ ہونے کا انتظار کریں بلکہ اتنا بول کے چپ ہو جاؤ کہ لوگ تمہیں آگے سننے کو بے تاب ہوں۔
ناہید رضوی (جوگیشوری، ممبئی)
غیبت میں مبتلا ہوتا ہے
زیادہ بولنا انسان کے لئے بے حد نقصاندہ ہے۔ بعض دفعہ انسان زیادہ بولنے کی وجہ سے جھوٹ بول دیتا ہے۔ زیادہ بولنے والا غیبت بھی کر دیتا ہے اور یہاں تک کہ زیادہ بولنے کی وجہ سے کبھی کبھی لوگوں کی دل آزاری بھی ہوتی ہے اس لئے میری یہ کوشش ہے کہ مَیں کم بولوں اور آپ سے بھی یہی کہوں گی کہ خاموش رہنا اور کم بولنا ہی زیادہ فائدہ مند ہے۔ زیادہ بولنے سے ہم سبھی کو بچنا چاہئے۔
انصاری شفاء عابد علی (نائیگاؤں، بھیونڈی)
گفتگو بے معنی ہوجاتی ہے


کہتے ہیں کم بولنا عبادت ہے۔ کم بولنا انسان کیلئے بہترین عمل ہے۔ ایک طرف جہاں کم بولنے سے زبان سے نکلے الفاظ کے شر سے انسان محفوظ رہتا ہے وہیں کسی کی دل شکنی ہونے سے بھی بچ جاتا ہے۔ لیکن کسی کی دلجوئی کیلئے الفاظ میں کنجوسی کرنا مناسب نہیں۔ اسی طرح صحیح وقت پر درست الفاظ کا استعمال کرنا بھی بیحد ضروری ہے۔ کہتے ہیں ہزار شکوے سے بہتر ہے خاموشی۔ لیکن حق بات کہتے خاموش کہنا غلط ہے۔ کچھ لوگ بلاوجہ اور بے معنی گفتگو کرتے ہیں اور انہیں اس درجہ بولنے کی عادت ہوتی ہے کہ کئی بار لوگ اکتا جاتے ہیں۔ اس کے برعکس کچھ لوگ اتنی خوبصورت گفتگو کرتے ہیں کہ بار بار سننے کو دل چاہتا ہے۔ سب اچھے یا برے الفاظ کا کھیل ہیں۔ الفاظ اچھے ہیں تو زیادہ بولنا بھی برا نہیں لگتا اور الفاظ بے معنی ہیں تو خاموشی ہی بہتر ہے۔ انسان جتنا زیادہ گہرا، دانشمند اور قابل ہوگا وہ اتنا ہی کم بولنے والا ہوگا۔ اکثر لوگ کہتے ہیں خالی برتن ہی آواز کرتا ہے۔ وہیں دوسری طرف ہمارے معاشرہ میں لڑکیوں کا زیادہ بولنا اچھا نہیں سمجھا جاتا۔ حالانکہ لڑکیاں زیادہ اور لڑکے کم بولتے نظر آتے ہیں۔ لیکن لڑکیوں کے قہقہے ہی سے گھر پرنور نظر آتا ہے۔ اور یہی قہقہہ کب خاموشی میں بدل جاتے ہیں پتہ ہی نہیں چلتا۔ اس لئے جو بول رہا ہے اسے بولنے دو، بس غیبت اور دل شکنی نہ ہو۔
جویریہ طارق (سنبھل، یوپی)

اہمیت ختم ہو جاتی ہے


انسان کی زبان ایک دکان کی طرح ہے جب دکان کھلتی ہے تو اس کے متعلق معلوم ہوتا ہے۔ انسان کی زبان ہی اس کی شخصیت کے بارے میں راز کھولتا ہے۔ ہمارے مذہب میں زیادہ باتیں کرنے سے منع کیا گیا ہے کیونکہ زیادہ باتیں کرنے سے دل مردہ ہو جاتا ہے اور مردہ دل انسان کو اللہ تعالیٰ سے دور کر دیتا ہے۔ اس لئے زیادہ نہیں بولنا چاہئے۔ میرے خیال میں زیادہ بولنے سے انسان کی باتوں کی اہمیت ختم ہو جاتی ہے۔ اس لئے انسان کو جتنی ضرورت اتنی بات کرنی چاہئے۔
 انسان کی عزت انسان کے ہاتھوں میں ہوتی ہے اور اس وقت یہ بات بہت اہمیت رکھتی ہے جب ہم اپنی زبان کو قابو میں رکھیں اور زیادہ باتوں سے پرہیز کریں۔
قریشی عربینہ محمد اسلام (بھیونڈی، تھانے)
پہلے تولو پھر بولو....
یوں تو زیادہ بولنا یا کم بولنا انسان کی فطرت ہوتی ہے لیکن اکثر زیادہ بولنے والے لوگ بغیر سوچے سمجھے بولتے چلے جاتے ہیں اور بعض دفعہ یہ لوگوں کی دل آزاری کا سبب بن جاتی ہے۔ ناسمجھی میں ہمارے منہ سے ایسی بات نکل جاتی ہے جس کے لئے ہمیں بعد میں پچھتانا پڑسکتا ہے۔ وہ کہتے ہیں نا پہلے تولو پھر بولو تاکہ آپ کو شرمندہ نہ ہونا پڑے۔ زیادہ بولنے والے یہ سمجھتے ہیں کہ زیادہ بولنے سے وہ محفل کی جان بن جائیں گے بلکہ پیٹھ پیچھے وہ ان کے مذاق کا سبب بن جاتا ہے اس لئے کم بولیں لیکن پُر اثر بولیں۔
ہما عاصم (لکھنؤ، یوپی)
بسیار گفتاری: خودپسندی میں مبتلا کر دیتی ہے


زیادتی خواہ کسی بھی شے کی ہو نقصاندہ ہے پھر وہ بسیار خوری ہو یا بسیار گفتگو۔ زیادہ بولنے والوں سے لوگ بیزاری محسوس کرتے ہیں۔ زیادہ بولنے والا دھیرے دھیرے خود پسندی میں مبتلا ہونے لگتا ہے اور اکثر لایعنی گفتگو کرنے لگتا ہے۔ جس سے ا س کی اپنی صحت پر بھی منفی اثرات ہونے لگتے ہیں۔ زیادہ بولنے والا پھر اس بات سے بے خبر ہو جاتا ہے کہ آیا وہ جو کہہ رہا ہے وہ سچ بھی ہے یا نہیں، بس چونکہ اسے بولنے کا خبط ہوتا ہے تو اس کا کام بولتے رہنا ہے۔ جھوٹ بذات خود ایک بڑی بیماری ہے۔ زیادہ بولنے والوں سے اطراف کے لوگ ملنے سے کتراتے ہیں۔ معاشرے میں ان کی عزت بتدریج کم ہونے لگتی ہے۔
رضوی نگار (اندھیری، ممبئی)
راز کھل جاتے ہیں


حضرت عمرؓ نے فرمایا، کم کھانے میں صحت، کم سونا عبادت اور کم بولنے میں سمجھداری ہے۔ میرا ماننا ہے کہ انسان کو زیادہ بولنے سے پرہیز کرنا چاہئے کیونکہ جو انسان زیادہ بولتا ہے لوگ اسے باتونی، بیوقوف اور ناسمجھ کہتے ہیں۔ زیادہ بولنے والے شخص باتوں باتوں میں سب بول دیتے ہیں جو انہیں نہیں بولنا چاہئے۔ زیادہ بولنے سے آپ کے راز کھل جاتے ہیں اور لوگ اس راز کا فائدہ اٹھا سکتے ہیں، پھلے ہی آپ کتنے سچے، اچھے اور نیک کیوں نہ ہوں مگر لوگ آپ کی اس اچھائی کا فائدہ اٹھانے سے پیچھے نہیں ہٹیں گے اور آپ کو بڑی مشکل میں ڈال دیں گے۔ اس لئے ہر شخص کو سوچ سمجھ کر اور جس بارے میں وہ کہہ رہا ہے اس کی پوری معلومات ہونی چاہئے۔ سامنے والا س طبیعت کا مالک ہے اس کے مزاج کے مطابق ہی بات کرنی چاہئے۔ کم بولنے سے ہم اپنی عزت اپنے ہاتھوں میں محفوظ رکھ سکتے ہیں۔ جس طرح زیادہ کھانے سے جسم کا موٹاپا بڑھ جاتا ہے اسی طرح زیادہ بولنے سے دماغ میں آکسیجن کی کمی ہو جاتی ہے جس سے ذہنی دباؤ بڑھ جاتا ہے۔ لہٰذا بسیار گفتاری سے پرہیز میں ہی سمجھداری ہے۔
انصاری رفعنا حفیظ الرحمٰن (نائیگاؤں، بھیونڈی)
اپنا ہی نقصان ہوتا ہے


باتیں کرنا تو سبھی جانتے ہیں اور کسی کسی کو مسلسل بولنا اچھا بھی لگتا ہے مگر گفتگو کے فن سے کوئی کوئی ہی واقف ہوتا ہے۔ کب، کہاں اور کیا بولنا ہے؟ یہ سمجھنا ہر کسی کے بس کی بات نہیں۔ کچھ لوگ باتیں کرنے کے اتنے شوقین ہوتے ہیں کہ وہ یہ سمجھ ہی نہیں پاتے کہ سامنے والے کو ان کی باتیں سننے میں دلچسپی ہے بھی یا نہیں۔ کچھ لوگ تو باتوں میں اتنے مگن ہو جاتے ہیں کہ جو بات کسی کو نہیں بتانی ہوتی وہ بھی بتا دیتے ہیں اور اپنا ہی نقصان کر لیتے ہیں۔ اس لئے مَیں تو یہی کہوں گی کہ پہلے تولو پھر بولو۔ کیونکہ کمان سے نکلا تیر اور زبان سے نکلی بات پلٹ نہیں سکتی اس لئے ایسی بات زبان سے نکالیں ہی نہیں جس سے اپنا یا کسی کا نقصان ہو یا کسی کی دل آزاری ہو۔
یاسمین محمد اقبال (میرا روڈ، تھانے)
زیادہ بولنا بہت بڑی بیوقوفی ہے
ہم اپنے جذبات کو، خیالوں کو لفظوں کے ذریعے بیان کرنے کی کوشش کرتے ہیں۔ الفاظ اگر حد میں ہوں تو بہت بہتر ہے۔ لیکن اگر الفاظ زیادہ ہو جائیں اور حد پار کر جائیں تو کافی نقصاندہ ہے۔ بولنا تو ہر ایک کو آتا ہے لیکن کب، کہاں، کیسے اور کتنا بولنا ہے یہ بہت کم لوگ جانتے ہیں۔ سوچنے کی بات یہ ہے کہ ہم زیادہ بولتے کیوں ہیں؟ کچھ لوگوں کا کہنا ہے کہ ’’جب بھی بولیں وقت پر بولیں۔ مدتوں سوچیں مختصر بولیں۔‘‘ کچھ لوگوں کو بغیر سوچے سمجھے بولنے کی عادت ہوتی ہے جس کی وجہ سے کبھی کبھی رشتے بھی ٹوٹ جاتے ہیں۔ بغیر سوچے بولنے کا بہت نقصان ہے۔ کبھی کبھار ہم بولنے میں اتنے مگن رہتے ہیں کہ سامنے والے پر کیا گزر رہی ہے نہیں سوچتے۔ کسی کی دل آزاری بھی ہوتی ہے جو بہت بڑا گناہ ہے۔ جس میں ہم خواتین کی تعداد زیادہ ہے۔ لوگ کہتے ہیں کہ زیادہ بولنا عقلمندی کی نشانی ہے، یہ سراسر غلط ہے بلکہ زیادہ بولنا بہت بڑی بیوقوفی ہے۔ لفظوں کو تول کر بولنا چاہئے۔ بولنے سے پہلے سو بار سوچنا چاہئے کہ بولنا صحیح ہے کہ نہیں۔ بعض دفعہ ہمارا بولنا کسی کو پسند نہیں آتا پھر بھی ہم اپنی اہمیت جتانے کیلئے بولتے رہتے ہیں۔ ایسا نہیں کرنا چاہئے۔ خدا ہمیں زیادہ بولنے سے بچائے۔
سمیہ معتضد (اعظم گڑھ، یوپی)
زیادہ بولنے والوں سے لوگ کتراتے ہیں


ضرورت سے زیادہ بولنا ایک ناپسندیدہ عمل ہے۔ یہ عام مسئلہ ہے جو لوگوں کی روزمرہ زندگی میں مختلف طریقوں سے اثر اندا ہوتا ہے۔ زیادہ بولنا تنازعات کا سبب بنتا ہے۔ زیادہ بولنے والوں سے لوگ کتراتے ہیں۔ لوگ اکثر زیادہ بولنے والوں سے ناراض رہتے ہیں۔ لوگ ان سے دور بھاگتے ہیں۔ اس قسم کے لوگ دوسروں کو بات کرنے کا موقع ہی نہیں دیتے۔ ایسے لوگ اپنی بات درست انداز میں سامنے والے تک پہنچا نہیں پاتے۔ زیادہ بولنے والوں کو بدتمیز بھی سمجھا جاتا ہے۔ پیشہ ورانہ زندگی میں بھی انہیں مشکلات کا سامنا کرنا پڑتا ہے۔
زینب ساجد پٹیل (جلگاؤں، مہاراشٹر)

زیادہ بولنے سے راز ظاہر ہو جاتے ہیں


زیادہ بولنے سے ہمارے جسم کا اسٹیمنا (توانائی) ختم ہو جاتا ہے اور جب کسی کی بات کا جواب ہم بہت زیادہ بول کر دیتے ہیں تو وہ بات سامنے والے کو اکثر سمجھ نہیں آتی۔ اور اس کے معنی بھی بدل جاتے ہیں اور وقت بھی ضائع ہوتا ہے۔ اس لئے ہمیں بہت سوچ سمجھ کر اپنی رائے کسی کو دینی چاہئے جو سامنے والے کیلئے مفید ہو۔ اکثر زیادہ بولنے کی وجہ سے آپ اپنے راز سامنے والے کو بتا دیتے ہیں۔ زیادہ بولنے سے ہماری جو سوچ ہے اس کی اہمیت کم ہو جاتی ہے۔ درست طریقہ یہ ہے کہ ہمیں کم بولنا چاہئے اور اچھا بولنا چاہئے۔
صدف الیاس شیخ (تلوجہ)
زیادہ بولنا کئی برائیوں کی جڑ


اخلاق کے چار ارکان ہیں: (۱)زبان کی حفاظت (۲) فضول اور لایعنی کاموں سے اجتناب (۳)جذبات کی رو میں بہنے سے گریز اور، (۴) دل کی صفائی۔ اخلاق کے پہلے رکن سے اگلے تینوں ارکان پیوستہ ہیں۔ شریعت کی رو سے دیکھا جائے تو ہمیں زبان کی حفاظت کی تلقین کی گئی ہے۔ اور کثرت کلام کے بجائے قلت کلام سے کام لینے کو احسن سمجھا گیا ہے۔ اللہ کے رسول حضرت محمدﷺ کی عادات مبارکہ میں سے ایک عادت کم بولنا بھی رہی ہے۔ زیادہ بولنے والے شخص کو بہت سے نقصانات سے دوچار ہونا پڑتا ہے۔ زیادہ بولنے والا شخص جھوٹ بولنا، غیبت کرنا، بہتان باندھنا، مبالغہ آرائی کرنا، فضول گوئی کرنا جیسی برائیوں کا مرتکب ہو جاتا ہے۔ زبان سے قابو چھوٹ جاتا ہے اور ایسے افراد کی قوت ارادی بھی کم ہو جاتی ہے۔ ایسے افراد کو بولنے میں دوسروں پر سبقت لے جانے کی خواہش ہوتی ہے اس لئے بقیہ لوگ انہیں سنجیدگی سے نہیں سنتے ہیں۔ ایسے افراد کی وجہ سے پیغام کی مؤثر ترسیل نہیں ہو پاتی۔ غلط فہمیاں اور آپسی اختلافات پیدا ہوتے ہیں۔ اس لئے ذی عقل و ذی شعور افراد بقدر ضرورت ہی بولتے ہیں۔ شاعر طاہر فراز نے کیا خوب کہا ہے کہ؎
جب کبھی بولنا وقت پر بولنا=مدتوں سوچنا مختصر بولنا
نکہت انجم ناظم الدین (جلگاؤں، مہاراشٹر)
کیونکہ یہ وقت کا ضیاع ہے


قوت گویائی عطیہ خداوندی ہے، ارشاد الٰہی ہے: ’’اسی نے انسان کو پیدا کیا، اسی نے بولنا سکھایا۔‘‘ اس کے ذریعہ ا‌نسان اپنے خیالات، احساسات اور مافی الضمیر کو سلیقے سے ادا کر سکتاہے۔ فضول اور اضافی باتوں سے اجتناب کرے، کم گو انسان معاصی و ذنوب کے ارتکاب سے محفوظ رہتا ہے۔  جو انسان بسیار گفتاری کا عادی ہوتا ہے، ضرور اس کی ذات میں ایسے معائب و نقائص ہوتے ہیں جن کی پردہ پوشی کے لئے وہ زیادہ بولتا ہے۔ فکر و تدبر کے علاوہ خود اعتمادی کی دولت سے بھی محروم ہوتا ہے، زیادہ بولنے والا انسان اپنا اور دوسروں کا بہت سا وقت ضائع کرتا ہے۔ اس لئے کم بولنا چاہئے۔ 
گفتار کا غازی بن تو گیا =کردار کا غازی بن نہ سکا 
رخسانہ (علیگڑھ، یوپی)
زیادہ بولنے والا بار بار پچھتاتا ہے
یہ بات مجربات میں سے ہے کہ خاموش رہنے میں ندامت کا امکان کم ہے۔ جبکہ موقع بے موقع بول پڑنے کی عادت سے انسان کو بار بار معافی مانگنی پڑتی ہے یا پھر دل ہی دل میں پچھتاوا ہوتا ہے کہ میں یہاں نہ بولا ہوتا تو اچھا تھا کیونکہ میرے بولنے سے میرا اپنا ناراض ہو گیا، فلاں کا چہرہ اُتر گیا، فلاں کا دل دکھ گیا اور اپنا وقار بھی مجروح ہوا۔ حضرت سیدنا محمد بن نضر حارثیؒ سے مروی ہے: زیادہ بولنے سے وقار جاتا رہتا ہے۔ مزید جو زیادہ بولتا ہے وہ مصیبتوں اور گناہوں میں پھنسا رہتا ہےکیونکہ زیادہ بولنے سے انسان فحش گو اور بے باک ہو جاتا ہے۔ اور زیادہ بولنا انسان کے لئے دنیا و آخرت میں ذلت و رسوائی کا سبب بن سکتا ہے، بلکہ امام غزالیؒ کے فرمان کے مطابق زیادہ بولنے والا سب سے بڑا گناہگار ہے۔ یاد رہے انسان کی اکثر خطائیں اس کی زبان سے ہی سر زد ہوتی ہیں۔ اور جس طرح خریداری کے وقت لاپروائی کے سبب دھوکہ کھا جانے والا پچھتاتا ہے اسی طرح زبان کو بے ضرورت چلانے والا بھی پچھتاتا ہے۔ اسی زبان کی وجہ سے انسان کو سب سے زیادہ مصیبت آخرت میں ہوگی۔ خدا را ہم سب کو چاہئے کہ کم بولنے کی کوشش کریں کیونکہ جو کم بولتے ہیں اللہ رب العزت اُن کی زبان پر حکمت جاری فرما دیتا ہے۔
زیبا فاطمہ عطاریہ (امروہہ، یوپی)
گفتگو میں اعتدال ضروری
گفتگو کرنا بھی ایک فن ہے۔ کہتے ہیں نا کہ آپ کسی کے بارے میں کوئی رائے نہ دیں جب تک کہ آپ اس سے کچھ دیر باتیں نہ کرلیں۔ جب ہم بہت رنجیدہ و غمگین ہو تے ہیں تو ایسے میں کسی کی اچھی باتیں، محبت کی چاشنی میں گوندھے ہوئے الفاظ اور تسلی کے بول ہمارے غموں کو دور کردیتے ہیں۔ لیکن اس کے برعکس کسی میں زیادہ بولنے کی عادت ہوتی ہے جس سے بہت سے لوگ پریشان رہتے ہیں۔ ایسی ہی ہماری ایک شناسا خاتون ہے۔ ان میں زیادہ بولنے اور دوسروں کے سکون اور خوشیاں برباد کرنے کی بہت بری عادت ہے۔ اپنی اسی عادت کی وجہ سے کئی بار بے عزت اور رسوا ہوئی ہیں۔ لیکن عادت ہے کہ مانتی نہیں۔ اللہ بچائے ایسے دشمن سے، اس کی بسیار گفتاری سے۔ کوشش کریں کہ ہماری باتوں سے کسی کو دکھ نہ پہنچے۔ گفتگو میں اعتدال رکھیں خاموشی میں طاقت چھپی ہوتی ہے!
ایس خان (اعظم گڑھ، یوپی)
دوسروں کو بولنے کا موقع نہیں دیتے


انسان کو اپنی بات تول کر بولنا چاہئے۔ دراصل انسان کی زبان ہی فساد کی جڑ ہے۔ یہ حقیقت ہے کہ زبان سے نکلی بات اور کمان سے نکلا ہوا تیر واپس نہیں آتا۔ ایک حدیث کا مفہوم ہے کہ یوں ہی جھوٹی باتیں ملا ملا کر زیادہ بولنے والا، تاکہ سامعین اس کی باتوں سے محظوظ ہوں، اللہ تعالیٰ کے نزدیک جھوٹا ہے۔ بسیار گفتار محفل کی جان تو بن سکتے ہیں مگر رب کو ناراض کر کے شہرت ملی تو کیا فائدہ؟ گفتگو کے آداب ہیں کہ کچھ اپنی کہو کچھ ان کی سنو۔ زیادہ بولنے کی عادت سے کسی اور کو بولنے کا موقع نہیں ملتا۔ موضوع کی طوالت سے سامعین اکتا جاتے ہیں اور باتوں کا رخ کہیں سے کہیں پہنچ جاتا ہے۔ تمام حاضرین کو اپنا نقطۂ نظر پیش کرنے کا موقع نہ ملنے کی وجہ سے محفل میں ان کی موجودگی برائے نام اور محدود ہو کر رہ جاتی ہے کیونکہ وہ تو محض سامع کا رول ہی ادا کر پاتے ہیں۔ زیادہ باتیں کرنے والوں کو پتہ ہی نہیں چلتا اور وہ باتوں ہی باتوں میں کسی کا راز بھی عیاں کر دیتے ہیں یا لاعلمی میں کسی کے جذبات کو ٹھیس پہنچانے والی باتیں کر جاتے ہیں۔ بسیار گفتاری کا سب سے بڑا نقصان وقت کا ضیاع ہے۔ آپ کا لحاظ کرکے کوئی آپ کے پاس بیٹھا ہے تو ان کا قیمتی وقت ہرگز ضائع نہ کریں۔ کم سے کم الفاظ میں بامعنی، جامع اور بامقصد بات کرنا زیادہ بہتر ہے۔ کوئی بھی بات گھما پھرا کر نہ کہیں۔
رضوانہ رشید انصاری (امبرناتھ، تھانے)
شخصیت متاثر ہوتی ہے
کیونکہ یہ وقار کے منافی ہے، جاذبیت کو ختم کر دیتی ہے اور شخصیت متاثر ہوتی ہے۔ بسا اوقات انسان بولنے میں ایسی باتیں بول دیتا ہے جس سے کسی کو تکلیف ہوتی ہے۔ کسی کا مذاق بن جاتا ہے۔ انجانے میں بہت سی ایسی باتیں کہہ دیتا ہے جس کا اسے بعد میں افسوس ہوتا ہے۔ ایسے لوگوں کو معاشرے میں کوئی خاص اہمیت حاصل نہیں ہوتی۔ لہٰذا بول چال میں بہت احتیاط برتیں کیونکہ لفظ تیر بھی ہوتے ہیں اور پھول بھی۔ یہ نرم و نازک اور محبت بھرے ہوں تو فاتح ِ عالم ہوتے ہیں اور اگر کھردرے اور نفرت انگیز ہوں تو خود اپنے لئے وبالِ جان بن جاتے ہیں۔ اس لئے یہ بھی کہا جاتا ہے کہ یہ زبان تخت پر بھی لے جاتی ہے اور تختہ دار پر بھی۔ بعض اوقات تو کچھ لوگوں میں سوائے میٹھی اور صلح جو زبان کے اور کوئی خوبی نہیں ہوتی لیکن یہ واحد خوبی بھی اتنی بڑی ہوتی ہے جو اُن کی ساری خامیوں کو چھپا لیتی ہے۔ ہمیشہ کم بولیں، غلطیاں کم ہوں گی۔ جب بھی بولیں سوچ سمجھ کر بولیں۔ درست بات بولیں ورنہ خاموش رہیں کیونکہ ہر چیز کی زیادتی نقصان دہ ہے خواہ وہ حلال ہی کیوں نا ہو۔ میانہ روی اختیار کریں اسی میں بہتری ہے۔
 مرشدہ خانم بنت محمد سراج (مریاد پور، مئو، یوپی)
وقار میں کمی آتی ہے
ربِ کریم نے انسان کو بے شمار خوبیوں اور خامیوں سے سر فراز کیا ہے جن میں سے ایک لفظوں کا درست استعمال کرنا ہے۔ لفظوں کے استعمال میں کمی بیشی انسان کو فائدے کے ساتھ ساتھ خسارے میں بھی ڈال سکتی ہے۔ صحیح وقت پر صحیح الفاظ کی ادائیگی انسان کو فاتح عالم بنا دیتی ہے۔ اس کے برعکس اگر الفاظ غلط اور کھردرے ہوں تو انسان کے لئے وبال جان بن جاتے ہیں۔ یہ بات بھی ثابت ہے کہ زیادہ بات کرنے سے وقار اور دبدبے میں بھی کمی آجاتی ہے۔ اگر انسان شیریں کلامی کا مظاہرہ کرے تو وہ کامیابی کی منزل کو پاسکتا ہے۔
ڈاکٹر ایس ایس خان (ممبئی )
اُن کی باتوں کو قابل بھروسہ نہیں مانا جاتا


یہ مشہور مقولہ ہے کہ ہر انسان اپنی زبان کی پیچھے چھپا ہوتا ہے۔ گفتگو کا انداز اور اسلوب انسان کے مزاج اور تربیت کا آئینہ ہوتا ہےجس طرح کم کھانا صحت مند رہنے کی چابی ہے اُسی طرح کم بولنا، نپا تلابولنا وقار اور عزت کی نشانی ہے۔ بسیار گفتاری کا پہلا نقصان تو یہ ہے کہ زیادہ بولنے والے فضول گو افراد سماج میں اپنی قدر و منزلت قائم نہیں رکھ پاتے، معاشرے میں باتونی افراد کو عمومی طور پر پسند نہیں کیا جاتا، اُن کی باتوں کو قابل بھروسہ مانا جاتا ہے اور نہ کسی رائے کو۔ چھوٹی سی بات کا فسانہ اور رائی کا پہاڑ بنانے کی عادت کی وجہ سے وہ اپنا شخصی اعتبار ہی کھو دیتے ہیں چونکہ ان کی باتیں تدبر اور حکمت سے خالی، سچ جھوٹ کی آمیزش کے ساتھ صرف چرب زبانی ہوتی ہیں اسلئے ان کی باتوں کو کوئی عزت نہیں ملتی بلکہ مذاق اور بکواس میں شمار ہوتی ہیں۔ انسان سماج میں اپنے کردا ر اور گفتار سے معزز ہوتا ہے۔ اگر کوئی اپنی بات کا اعزاز کھو دے یہ بڑا خسارہ ہے۔ باتونی افراد بولنے سے پہلے بالکل بھی سوچتے نہیں اور نہ موقع محل کا خیال رکھتے ہیں۔ اپنی گفتگو کی روانی میں کچھ ایسا کہہ جاتے ہیں جو نہ صرف مخاطب کو ناگوار گزرتا ہے بلکہ خود کیلئے بھی شرمندگی کا باعث ہوتا ہے اس عادت کی وجہ سے کئی خانگی اور سماجی معاملات اس قدر بگڑ جاتے ہیں کہ بعد میں ہزار معذرتیں بھی اس بگاڑ کو سنوارنے میں ناکام رہتی ہیں۔ معاشرہ میں اپنی قدر بنائے رکھنے کیلئے ’’پہلے تولو، پھر بولو‘‘ گفتگو کا یہ زریں اصول زندگی میں شامل کرنا بہت اہم ہے۔
خالدہ فوڈکر (ممبئی)
اللہ کی ناراضگی کا سبب


بسیار گفتار کی تین وجوہات ہوتی ہیں: اپنی بڑھائی بیان کرنا، دوسروں کی کمزوریاں بیان کرکے انہیں نیچا دکھانا اور دوسروں کے قد کو چھوٹا دکھا کر اپنا قد بڑھانے کی کوشش۔ پھر یہ جنون کی شکل اختیار کر لیتا ہے۔ کئی لوگ اس بیماری میں مبتلا ہے۔ بسیار گفتاری کی وجہ سے ہم مقصد سے ہٹ جاتے ہیں اور الله کی ناراضگی بھی مول لیتے ہیں۔ ہمیں اس برائی سے بچنے کی کوشش کرنی چاہئے۔
شگفتہ راغب شیخ (نیرول، نوی ممبئی)
زیادہ بولنا ندامت کا سبب بنتا ہے
اگرچہ بولنا بھی ایک صلاحیت ہے لیکن زیادہ بولنا بھی نقصان دہ ثابت ہوتا ہے۔ زیادہ بولنے والے شخص کی باتوں کی کوئی اہمیت نہیں رہتی اور نہ ہی اس شخص کی باتوں کو کوئی غور سے سنتا ہے اس کی باتیں بے وزن، بے وقعت اور بے معنی ہو جاتی ہیں۔ زیادہ بولنے سے انسان کا وقار چلا جاتا ہے اور اس کی باتوں کا حسن بھی ضائع ہو جاتا ہے۔ بعض دفعہ زیادہ بولنا دوسرے لوگوں کی دل آزاری کا بھی باعث بن جاتاہے لیکن ہمیں اس بات کا احساس نہیں ہوتا کیونکہ زیادہ بولنا انسان کی سوچنے اور سمجھنے کی صلاحیت کم کر دیتا ہے۔ اس لئے ہمیں ہر بات بہت سوچ سمجھ کر بولنا چاہئے۔ کب، کہاں اور کیا بات کرنی ہے؟ یہ سلیقہ بھی آنا چاہئے تاکہ بولنے کے بعد اپنی بات پر ہم احساس ندامت میں مبتلا ہونے سے بچ جائیں اور ہماری باتوں کی اہمیت بھی باقی رہے۔
شازیہ رحمٰن (غازی آباد، یوپی)
لوگوں پر غلط تاثرات پڑتے ہیں


خاموش رہ کر جائزہ لینا پھر اپنی بات کو معنی خیز انداز میں پیش کرنا، ایک دانشور شخصیت کی مثال ہے۔ کسی نے کیا خوب کہا ہے کہ خاموشی عبادت ہے۔ کسی نادان سے بےجا بحث دانا ہونے کا ثبوت نہیں دیتی۔ ایک وقت تھا جب میں بھی لاشعوری طور پر بہت باتیں کیا کرتی تھی۔ جیسے جیسے وقت گزرا تجربہ اور تجزیہ کے ذریعے اقدار ہوا کہ کم گو ہونا بہت بڑا ہتھیار ہے۔ اس بات پر غور کرنا چاہئے کہ کہاں، کب اور کتنا بولنا ہے۔ کم سے کم لفظوں میں مکمل اظہار خیال کا بہتر ہونا باکمال شخصیت کا ثبوت ہے۔ لفظوں کے غلط اور غیر ضروری استعمال سے معاشرہ اور اس میں بسے کئی خاندان تباہی کی کگار پر آ کھڑے ہوتے ہیں۔ کوشش کرنی چاہئے کہ بول چال میں احتیاط برتی جائے کیونکہ یہ الفاظ ہی ہوتے ہیں جو زبان سے تیر کی طرح نکلے تو خنجر و نشتر بن کر سینہ چیر دیتے ہیں اور پھول کی طرح نرم و نازک اور محبت بھرے ہوں تو کانوں میں رس گھول دیتے ہیں اور دل پر راج کرنے والے بن جاتے ہیں۔ بولنے کا ہنر ہر ایک کے پاس نہیں ہوتا یہ وہ خوبی ہے جو انسان کی ساری خامیوں کو نظر انداز کر کے فاتح عالم بنا دیتی ہے۔ زیادہ بولنے سے غلطیوں کے امکانات زیادہ ہوتے ہیں اور لوگوں پر غلط تاثرات پڑتے ہیں۔ صحیح وقت پر بامعنی بات کرنا بہتر ثابت ہوتا ہے۔ زیادہ بولنے سے آپ کی شخصیت کمزور اور نادان نظر آتی ہے۔ ان کی باتوں کو اہمیت نہیں دی جاتی اور نہ ہی بھروسہ کیا جاتا ہے۔ کوشش کرنی چاہئے کہ سمجھداری سے ضرورت کے مطابق بات کریں۔ اس کے علاوہ زیادہ بولنے سے الفاظ کی غلط تشریح ہوجاتی ہے اور بولنے والا اپنی بات صحیح اور مکمل طور پر نہیں سمجھا پاتا۔ زیادہ بولنے سے بولنے والا اپنی بات کےجواز اور مقصد سے دور چلا جاتا ہے جس سے سننے والا بھی بیزار ہو جاتا ہے اور بولنے والے کی بات کا کوئی بھی اثر نہیں پڑتا۔ ممکنہ کوشش ہو کہ بسیار گفتاری سے بچا جائے اور کم سخن ہونے کی خوبی کو اپنا کر اپنے وقار اور عزت کو قائم رکھا جائے۔
مومن رضوانہ محمد شاہد (ممبرا، تھانے)
بسیار گفتاری وقت کا ضیاع


انسان کو اللہ تعالیٰ نے بولنے کی طاقت عطا فرمائی ہے جیسا کہ سورہ رحمٰن میں ارشاد الٰہی ہے: ’’اسی نے انسان کو پیدا کیا۔ اسی نے اسے بولنا سکھایا۔‘‘ انسان کو اتنا ہی بولنا چاہئے جتنی ضرورت ہوتی ہے۔ بسیار گفتاری سے ہونے والے چند نقصانات مندرجہ ذیل ہیں: ٭ زیادہ باتیں کرنے سے آدمی کی خطائیں اور غلطیاں بڑھ جاتی ہیں۔
٭ زیادہ باتوں سے آدمی کا دل سخت ہوجاتا ہے۔ ٭ زیادہ بولنے کی عادت، لائق مذمت ہے۔ ٭ زیادہ باتیں کرنے سے آدمی کی جسمانی طاقت ضائع ہوجاتی ہے۔ ٭ زیادہ بولنے سے عمل کرنے کا ارادہ کمزور ہوجاتا ہے۔ ٭ زیادہ باتوں کی وجہ سے آدمی کا ذہن توجہ کے ساتھ مختلف مسائل پر غور نہیں کرسکتا۔ ٭ زیادہ بولنے کی وجہ سے لوگ آدمی سے نفرت اور دوری اختیار کرتے ہیں۔ ٭ بسیار گفتاری وقت کا ضیاع ہے۔ ٭ زیادہ بولنے والے آدمی کی بہت ساری باتیں فضول، بیہودہ اور بے فائدہ ہوتی ہیں۔
آفرین عبدالمنان شیخ (شولاپور، مہاراشٹر)
طویل گفتگو کو سننا پسند نہیں کیا جاتا


کسی بھی چیز کی زیادتی نقصاندہ ثابت ہوتی ہے۔ یہی معاملہ زیادہ بولنے کا بھی ہے۔ بات کرتے وقت جب تک ہم حدود کے دائرہ میں رہتے ہیں اور اپنی بات کو خوبصورت الفاظ میں پیش کرتے ہیں تب تک ہر شخص ہمیں توجہ سے سنتا ہے اور ہماری باتوں پر غور کرکے عمل بھی کرتا ہے مگر جب ہم سامنے والے کو متاثر کرنے کیلئے اپنی گفتگو طویل کرنے لگتے ہیں وہیں پر ہم غلط ہو جاتے ہیں۔ بہت سی غلط باتیں، غلط مثالیں اور غلط الفاظ ہماری زبان سے نکل جاتے ہیں جس کا تعلق موضوعِ گفتگو سے نہیں ہوتا اور سامنے والا ہمیں توجہ سے سننا بند کر دیتا ہے۔ بسیار گفتاری کا ایک بڑا نقصان یہ بھی ہے کہ ہم دوسروں کو بولنے کا موقع نہیں دیتے، جس کے لئے بعد ہمیں پشیمان ہونا پڑتا ہے۔
فرح حیدر (اندرا نگر، لکھنؤ)
انسان اپنی قدر کھو دیتا ہے


خاموش اِنسان سمجھدار تب تک لگتا ہے جب تک وہ کچھ بولے نہیں۔ انسان کی زبان اس کی شخصیت کو ظاہر کرتی ہے۔ کم بولنا اور سوچ سمجھ کر بولنا سمجھداری کہلاتا ہے۔ اپنے آپ پر غور کریں تو پتہ چلتا ہے کہ کسی بھی پروگرام میں جائیں تو کوئی بات نہ کرے تو ہمیں برا لگتا ہے اور کوئی زیادہ بولے تو تب بھی برا لگتا ہے۔ یہ اِنسان کی فطرت ہے کہ ہم اپنے مزاج کے مطابق ہی سامنے والے کو پسند یا ناپسند کرتے ہیں۔ زیادہ بولنے والے لوگوں سے لوگ بہت زیادہ جڑنا پسند نہیں کرتے کیونکہ کسی کو وہ اپنے آگے بولنے نہیں دیتے ہیں۔ اور بولتے بولتے کسی کی رازداری کی باتیں نہ چاہتے ہوئے ان کے منہ سے نکل جاتی ہے۔ بسیار گفتاری سے اِنسان اپنی عزت خود گنوا دیتا ہے۔ کم بولنا عبادت بھی ہے۔
شاہدہ وارثیہ (وسئی، پال گھر)
مذاق کا سبب بنتا ہے


بعض لوگوں کی زیادہ بولنے کی عادت ہوتی ہے، یہ اچھی عادت نہیں ہے۔ زیادہ بولنے والے دوسروں کی بات صحیح سے نہیں سن پاتے، بس اپنی ہی بات کہتے جاتے ہیں۔ کبھی کبھی ایسا بھی ہوتا ہے جو بات نہیں کہنے والی ہوتی ہے وہ بھی زبان سے پھسل جاتی ہے۔ فضول کی باتیں کرنا وقت کو برباد کرنے جیسا ہے۔ ایسے لوگوں سے سبھی کتراتے ہیں کیونکہ بغیر مطلب کی باتیں سننا کسی کو بھی پسند نہیں ہے۔ کم یا ضرورت کے مطابق بولنا سمجھداری کی نشانی ہے۔ بسیار گفتاری کی وجہ سے آپ کا مذاق بھی بنایا جا سکتا ہے اور آپ کو شرمندگی بھی اٹھانی پڑ سکتی ہے۔ اس سے بچنے کی کوشش کیجئے۔
 ہما انصاری ( مولوی گنج لکھنؤ)
بسیار گفتاری چغلی کا باعث
کیونکہ زیادہ بولنا ہمارے وقار کو کم کر دیتا ہے۔ اس عادت کی وجہ سے انسان کی ذہنی صلاحیت بھی کمزور ہو جاتی ہے۔ ہمیشہ مناسب اور کم الفاظ میں اپنی بات کہنا چاہئے۔ کم بات کرنے والے شخص کی بات کو اہمیت دی جاتی ہے۔ لوگ ان کی رائے پر عمل کرنا پسند کرتے ہیں۔ بسیار گفتاری چغلی کا باعث بن جاتی ہے، اس طرح انسان گناہ میں مبتلا ہو جاتا ہے۔ اپنی اس عادت کوبدلنے کی کوشش کرنی چاہئے۔
مومن روزمین (کوٹر گیٹ، بھیونڈی)


اگلے ہفتے کا عنوان: ایسی بات جو آپ نے سیکھی اور اس کا فائدہ ہوا (کیا کیا فائدے ہوئے تفصیل کے ساتھ)۔ اظہار خیال کی خواہشمند خواتین اس موضوع پر دو پیراگراف پر مشتمل اپنی تحریر مع تصویر ارسال کریں۔ وہاٹس ایپ نمبر: 8850489134

متعلقہ خبریں

This website uses cookie or similar technologies, to enhance your browsing experience and provide personalised recommendations. By continuing to use our website, you agree to our Privacy Policy and Cookie Policy. OK