یہ تو سماج کے اندر روزمرہ کا مشاہدہ ہے کہ شوہر کی وفات کے بعد یا مطلقہ ہو جانے کے بعد بچوں کی ذمہ داری کوئی قبول نہیں کرتا۔ اس سے پہلے کہ عورت تہی دامن ہو جائے، دست سوال دراز کرنے پر مجبور ہو اسے اپنی صلاحیتوں کا استعمال کرنا سیکھنا چاہئے۔ اس سے وہ خود کفیل ہوگی اور شرمندگی سے بچی رہے گی۔
سلائی، کڑھائی، بنائی وغیرہ ایسے فنون ہیں جن میں عورت اپنی قسمت آزما سکتی ہے۔ تصویر: آئی این این۔
اللہ رب العالمین نے مرد و عورت کی تخلیق کرکے دونوں کے لئے اپنے اپنے دائرے میں رہ کر خاص کاموں کا تعین فرما دیا ہے۔ دینی لحاظ سے تو چاہے مرد ہو یا عورت جو بھی تقویٰ اختیار کرے گا اللہ کے نزدیک باعزت ہوگا۔ جبکہ دنیاوی لحاظ سے دیکھا جائے تو دونوں کے اپنے اپنے کام مقرر ہیں اور عورت گھر کی ملکہ ہے اور وہ گھر میں رہ کر امور خانہ داری کو سنبھالے، اسی میں اس کی کامیابی ہے اور مرد کے لئے کسب معاش کی ذمہ داری ہے کہ وہ اہل خانہ کے لئے رزق کا کمائے اسی میں اس کی قوامیت ہے۔
بڑا پرسکون ہوتا ہے وہ لمحہ، جب مردوں میں سے کوئی اپنی بہن، بیٹی، بیوی یا ماں کی ضروریات کا خیال رکھتا ہے انہیں ان کی پسند کی چیزیں لا کر دیتا ہے اور مزید یہ جملے بھی بولے کہ ’’کسی اور چیز کی ضرورت ہو تو بتانا میں پورا کروں گا، تمہیں فکرمند ہونے کی ضرورت نہیں۔ کسب معاش میری ذمہ داری ہے۔ ‘‘ یہ اور اس طرح کے جملے بڑے فرحت بخشے ہوتے ہیں، قلوب و اذہان کو معطر کرتے ہیں اور تحفظ کا احساس بھی دلاتے ہیں۔ لیکن دقت اس وقت آتی ہے جب شادی ہو جانے کے بعد بالاتفاق شوہر سے کسی صورت علاحدگی ہو جائے، شوہر اپنے پیچھے اولاد چھوڑ گیا، کسب معاش کا کوئی ذریعہ نہیں .... وہ خود اپنا اور بچوں کا گزارا کیسے کرے؟
یہ بات تو کسی پر مخفی نہیں کہ ہمارے معاشرے میں عورت کے لئے دوسری شادی کرنا ایک مشکل امر ہے۔ اور اگر ساتھ میں بچے میں ہوں تو دوسری شادی کرنا ناممکن امر بن جاتا ہے۔ اگر صنف نازک کے ہاتھ میں کوئی ہنر کوئی تجارت یا کسب معاش کا کوئی سلیقہ اور ذریعہ نہ ہو تو وہی عورت تہی دامن ہو جاتی ہے۔ وہ اس بات پر مجبور ہو جاتی ہے کہ وہ دوسروں کے سامنے اپنے بچوں کی پرورش کی خاطر دست سوال دراز کرے اور بیچارگی کی زد میں آجائے، لوگوں کا میل کچیل کھائے۔ اور ذلت آمیز زندگی گزارے۔
یہ تو سماج کے اندر روزمرہ کا مشاہدہ ہے کہ شوہر کی وفات کے بعد یا مطلقہ ہو جانے کے بعد بچوں کی ذمہ داری کوئی قبول نہیں کرتا۔ اس سے پہلے کہ عورت تہی دامن ہو جائے، دست سوال دراز کرنے پر مجبور ہو اسے اپنی صلاحیتوں کا استعمال کرنا سیکھنا چاہئےاس سے وہ خود کفیل ہوگی اور شرمندگی سے بچی رہے گی۔
قرون اولی کی خواتین کو دیکھا جائے تو ان میں بھی بہت ساری خواتین معاشی سرگرمیوں میں حصہ لیتی نظر آئیں گی۔ خدیجہؓ کو ہی دیکھیں ایک تاجر خاتون تھیں۔ زینب بنت خزیمہ صدقہ و خیرات میں خاص دلچسپی رکھنے کی وجہ سے اپنے ہاتھ سے کماتی تھیں اور صدقہ کرتی تھیں۔ زبیر بن عوام کی زوجہ اسماء بنت ابوبکر اپنے شوہر کے کاموں میں ہاتھ بٹاتی تھیں۔ عبداللہ ابن مسعود کی زوجہ دستکاری کے ذریعے اپنے بچوں اور شوہر کا رزق حاصل کرتی تھی۔ یہ مثالیں بتاتی ہیں کہ عورت کا اپنے دائرے کے اندر رہ کر کسب معاش میں حصہ لینا کوئی معیوب عمل نہیں ہے۔
کوئی تعلیم یافتہ ہے اپنے علم کو کسب معاش کا ذریعہ بناسکتی ہے۔ کوئی ہنر اور فن سیکھ کر اپنے فن کے ذریعے اپنا پیٹ پال سکتی ہے اور موجودہ دور میں تو سوشل میڈیا کے ذریعے یہ کام اور بھی آسان ہوگیا ہے۔ سلائی، کڑھائی، بنائی، پینٹنگ، کھانا پکانا اور دیگر بہت سارے ایسے فنون ہیں جن میں عورت اپنی قسمت آزما سکتی ہے۔ اپنی صلاحیت کو پہچان کر، موبائل یا سوشل میڈیا میں مصروف کار ہونے کے بجائے ان کا استعمال مثبت کاموں میں کرکے صلاحیتوں کو پروان چڑھا سکتی ہے اور اہل خانہ کی اجازت سے کسب معاش میں اپنا بھی حصہ ڈالے تاکہ بوقت ضرورت کسی کے سامنے اسے شرمندہ ہونے کی ضرورت نہ پیش نہ آئے۔
ذیل میں گھر بیٹھے کئے جانے والے چند کاروبار کے بارے میں بتایا جا رہا ہے:
خواتین گھر بیٹھے بچوں کو ٹیوشن دے سکتی ہیں۔ ابتدا میں پرائمری کلاس کے بچوں کو پڑھایا جاسکتا ہے۔ اس دوران آپ اپنے بچوں کی پڑھائی کی جانب بھی خاص توجہ دے سکتی ہیں۔
بیکری کا بزنس بھی شروع کیا جاسکتا ہے۔ آپ بیکنگ کورس کرکے اس میں مہارت حاصل کرسکتی ہیں اور اچھی خاصی کمائی کرسکتی ہیں۔
اگر آپ سلائی جانتی ہیں تو ٹیلرنگ کا پیشہ اپنایا جاسکتا ہے۔ آس پاس رہنے والی خواتین آپ کی گاہک بن سکتی ہیں۔
اگر آپ کوکنگ میں ماہر ہیں تو یوٹیوب پر اپنا کوکنگ چینل بنا سکتی ہیں۔ اس کاروبار سے آپ اچھا خاصا کما سکتی ہیں۔
گھر کے چھوٹے موٹے ڈیکوریشن پیس بنا کر بھی انہیں فروخت کیا جاسکتا ہے۔ اس کاروبار کے ذریعے آپ اپنی تخلیقی صلاحیتوں کو بروئے کار لاسکتی ہیں۔
اِن کاروبار کے ذریعے آپ اپنی مالی حالت کو بہتر بنا سکتی ہیں اور اپنے بچوں کی بہتر انداز میں کفالت کرسکتی ہیں۔