ایک زمانہ تھا جب خواتین کا سائنس لینا اور ان کا پڑھنا معیوب سمجھا جاتا تھا۔ دھیرے دھیرے زمانہ بدلا، لوگوں کی ذہنیت بدلی اور انہوں نے اپنی بچیوں کو انجینئرنگ اور میڈیکل کے شعبو ں میں جانے کا حوصلہ دیا، مگر اس جانب مزید محنت کی ضرورت ہے۔ اگر انہیں مالی تعاون حاصل ہو تو وہ مزید منازل طے کرسکتی ہیں۔
سائنس کے شعبے میں میری کیوری کا نام ہمیشہ یاد رکھا جائیگا۔ وہ دنیا کی پہلی خاتون تھیں جنہیں دو مرتبہ نوبیل انعام سے نوازا گیا تھا۔ تصویر: آئی این این
خواتین اور سائنس یہ دو لفظ قدیم زمانے میں دور دور تک کوئی تعلق نہیں رکھتے تھے۔ خواتین کا سائنس لینا اور ان کا پڑھنا معیوب سمجھا جاتا تھا۔ دھیرے دھیرے زمانہ بدلا، لوگوں کی ذہنیت بدلی اور انہوں نے اپنی بچیوں کو انجینئرنگ اور میڈیکل کے شعبوں میں جانے کا حوصلہ دیا۔
لیڈی ہارڈنگ میڈیکل کالج، ملک کا پہلا طبی ادارہ ہے جو صرف خواتین کیلئے مختص ہے۔ یہ کالج دہلی میں واقع ہے۔ یہاں بیچلرز، پوسٹ گریجویٹ اور اسپیشلائزیشن کے مختلف کورسیز پیش کئے جاتے ہیں اور یہ کالج اپنے اسپتال کے ذریعہ علاج و معالجہ کی خدمات بھی فراہم کرتا ہے۔ وہیں دوسری طرف ملک کی پہلی یونیورسٹی اندرا گاندھی دہلی ٹیکنیکل یونیورسٹی فار ویمن ۱۹۹۸ء میں قائم کی گئی جہاں خواتین انجینئرنگ کی تعلیم حاصل کرسکتی ہیں۔ مَیں بھی اسی کالج کی طالبعلم ہوں، یہاں سے میں ایم ٹیک کر رہی ہوں۔ حکومت کی جانب سے خواتین کو انجینئرنگ کے شعبے میں آگے بڑھانے کا یہ ایک اچھا قدم ہے۔ یہاں کمپیوٹر سائنس، انفارمیشن ٹیکنالوجی، الیکٹرانکس اور دیگر تکنیکی شعبوں میں انڈر گریجویٹ، پوسٹ گریجویٹ اور پی ایچ ڈی وغیرہ کئے جاسکتے ہیں۔ یہاں خواتین کو اسٹارٹ اپس، انٹرپرینیور شپ، انڈسٹری پروجیکٹس اور ریسرچ کے ذریعے عملی تجربہ حاصل کرنے کا موقع بھی فراہم کرتے ہیں۔ جو خواتین انڈسٹریز میں نہیں جانا چاہتیں وہ پوسٹ گریجویٹ میں ریسرچ کرکے لیکچرار بھی بن سکتی ہیں۔ ان تبدیلیوں کی اہم وجوہات مختلف جگہوں پر سرکاری یونیورسٹیز کا قائم ہونا، اسکالر شپ دینا، وومن کوٹہ کے تحت ایڈمیشن آسان ہونا اور لڑکیوں کو پڑھانے اور آگے بڑھانے کے تئیں لوگوں میں بیداری پیدا کرنا وغیرہ کے سبب ممکن ہو پایا ہے۔ کیونکہ آج کل بہت سے لوگ مہنگائی کی وجہ سے بھی اپنے بچیوں کی تعلیم پوری نہیں کرا پاتے اور جلد شادی کرکے رخصت کر دیتے ہیں۔ آج بھی سرکاری اسکولوں میں جاکر دیکھیں وہاں کی ۹۰؍ فیصد بچیوں کے بھائی پرائیویٹ اسکولوں میں تعلیم حاصل کر رہے ہیں جبکہ بہنیں سرکاری اسکولوں میں پڑھ رہی ہیں۔ اس سے یہ اندازہ ہوتا ہے کہ ماں باپ کے پاس دو بچوں کو پرائیویٹ اسکول میں پڑھانے کے پیسے نہیں ہیں۔ جب ایک کی بات آتی ہے تو لڑکوں کی پڑھائی کو ہی آج بھی ترجیح دی جاتی ہے۔ سرکاری اسکولوں کی خستہ حالی سے بہت سی بچیاں اس میں بھی بہت آگے نکل رہی ہیں اور اپنے والدین کا نام روشن کررہی ہیں۔
آئی آئی ٹی اور این آئی ٹی میں پڑھائی کا خرچ بہت زیادہ ہوگیا ہے۔ پرائیویٹ کی تو بات ہی رہنے دیں جو عام مڈل کلاس فیملی نہیں اٹھا پاتی مگر مختلف اسکالرشپ اسکیم کے تحت طلبہ آج کل اپنی پڑھائی پوری کر پا رہے ہیں اور یہ ایک بہت بڑی تبدیلی ہے۔ آئی آئی ٹی میں ۲۰؍ فیصد وومن کوٹہ سے بہت سی بچیوں نے داخلہ لینا شروع کر دیا ہے۔ اسکالرشپ اسکیمیں، بہتر تعلیم اور مثبت سوچ نے خواتین کو میڈیکل اور انجینئرنگ جیسے شعبوں میں تعلیم حاصل کرنے اور آگے بڑھنے کا حوصلہ دیا ہے۔ میرا مضمون لکھنے کا مقصد ہی یہی ہے کہ بچیوں کو انجینئرنگ اور میڈیکل کے شعبے میں حصہ لینے کا موقع دیں جس سے ہم سب مل کر ایک بہتر مستقبل تشکیل دے سکیں کیونکہ خواتین پورے گھر کا نظام چلاتی ہیں۔ ایک خاتون کو پڑھانے سے پوری نسل ترقی کرسکتی ہے۔ اس کے علاوہ وومن سیفٹی بہتر بنانے اور قانون کو سخت کرنے کی کوشش کی جائے تو یقیناً والدین اپنی بچیوں کو پڑھنے اور آگے بڑھنے کیلئے نہیں روکیں گے۔
اچھی بات یہ ہے کہ آج میڈیکل اور انجینئرنگ شعبے میں لڑکے اور لڑکیوں کا ایڈمشن تناسب برابر ہوگیا ہے اور یہ مثبت تبدیلی ہے۔ سائنس کے شعبے میں میری کیوری کا نام ہمیشہ یاد رکھا جائے گا۔ وہ بہت ذہین تھیں اور بچپن سے ہی کتابیں پڑھنے کا شوق رکھتی تھیں لیکن ان کے پاس پیسے نہیں تھے۔ میری نے کافی محنت کی، مختلف چھوٹے موٹے کام کئے اور پیسے اکٹھا کئے تاکہ وہ پیرس جا کر تعلیم حاصل کرسکیں۔ انہوں نے دو نئے عناصر دریافت کئے: ریڈیم اور پولونیم۔ یہ دونوں عناصر دنیا کے لئے بہت اہم ثابت ہوئے۔ ریڈیم ریڈی ایشن کا استعمال کرتے ہوئے کینسر کے خلیات کو ختم کرتا ہے اور ایڈوانسڈ پروسٹیٹ کینسر میں زندہ رہنے کے امکانات کو بہتر بناتا ہے۔ وہ دنیا کی پہلی خاتون تھیں جنہیں دو مرتبہ نوبیل انعام سے نوازا گیا تھا۔ ان کی ایک تحریر جس کی یہ سطر آج بھی یاد رکھنے کے قابل ہے: ’’زندگی میں کسی چیز سے خوفزدہ ہونے کی ضرورت نہیں بلکہ اسے سمجھنے کی ضرورت ہے۔ اب وقت ہے کہ ہم زیادہ سمجھیں تاکہ ہم کم خوفزدہ ہوں۔‘‘
اگر اسی طرح بچیوں کو گھر والوں کا مکمل سپورٹ اور اسکالرشپ اسکیموں سے مالی تعاون ملتا رہے گا تو خواتین سائنسی تحقیق میں مزید بلندیوں کو چھو سکتی ہیں۔