• Sun, 08 September, 2024
  • EPAPER

Inquilab Logo

خواتین کو سوشل میڈیا کے استعمال میں محتاط رہنا چاہئے

Updated: May 28, 2024, 11:10 AM IST | Rashmi Bansal | Mumbai

ہفتہ میں ایک بار ہی سہی اپنا جائزہ لیجئے کہ ایک دوسرے کے رابطے میں رہنے کی یہ جو سہولت آپ کو دستیاب ہے، وہ آپ کو وقت کے زیاں کی طرف تو نہیں لے جا رہی ہے؟ کہیں آپ کو نفسیاتی الجھنوں میں تو مبتلا نہیں کر رہی ہے؟ یہ آپ کے فائدہ کے بجائے نقصان کا سودا تو نہیں؟

Rather than spending time on social media, it is better to think about real life issues. Photo: INN
سوشل میڈیا پر وقت گزارنے سے بہتر ہے کہ حقیقی زندگی کے مسائل پر غور کریں۔ تصویر : آئی این این

آج کل ’ہیرامنڈی‘ نامی ویب سیریز کے کافی چرچے ہیں۔ کچھ لوگوں کو یہ سیریز بہت پسند آئی جبکہ کچھ لوگ اس پر تنقید کر رہے ہیں۔ اس وجہ سے کچھ لوگ سمجھ نہیں پا رہے ہیں کہ اسے دیکھیں یا نہ دیکھیں؟ دراصل جتنے منہ اتنی باتیں۔
 آج کے دور میں یہ کہا جاسکتا ہے: جتنے منہ، اتنے سوشل میڈیا پوسٹس۔ ہم ایک ایسی دنیا میں رہ رہے ہیں جہاں ہر کوئی اپنے خیالات کا اظہار کرسکتا ہے۔ چاہے وہ ہمارے موضوع کے بارے میں کچھ جانتا ہو یا نہ جانتا ہو۔ گھر کے چاچا جان فیملی وہاٹس ایپ گروپ پر فارورڈ کرتے ہیں۔ بھانجی آہستہ سے کہتی ہے، یہ جعلی ہے۔ لیکن چاچا جان کو پڑھے لکھے ہونے کے باوجود یہ کیوں نہیں معلوم تھا۔ دراصل جو ہم پڑھتے ہیں اگر اس سے ہمارے خیالات ملتے ہیں تو ہمیں یقین ہوجاتا ہے کہ یہ بالکل درست ہے۔
 آج کل لوگ دوستی صرف ان سے کرتے ہیں جو ایک جیسی سوچ رکھتے ہیں۔ خاص کر سیاست کے معاملات میں۔ ویسے پرانے وقتوں میں ہمیں اس سے کوئی فرق نہیں پڑتا تھا کہ ہمارا دوست کس لیڈر کو ووٹ دے گا۔ لیکن آج وہی دوستی دشمنی میں بدل جاتی ہے جب ہم وہاٹس ایپ پر دیر تک بحث کرنے لگتے ہیں۔
 اگر آپ سوشل میڈیا پر صرف اپنے خیالات رکھنے والوں کی پیروی کریں گے تو آپ کو یہ وہم ہو جائے گا کہ یہ ہے دنیا کا سچ۔ اس نظریے کے حامل افراد دوسروں کی زندگی کا چین و سکون چھین رہے۔ ہاں پھر یہی لوگ کہیں گے ملک کی حالت اتنی خراب ہے بچوں کو کنیڈا بھیجنا پڑے گا۔ ہم دوسری جانب ’برین واش‘ ہو جاتے ہیں۔
 لیکن معاملہ کبھی بھی سیاہ اور سفید نہیں ہوتا۔ کچھ لوگ دکھاوا کریں گے وہ بہت اچھے انسان ہیں لیکن حقیقی زندگی میں سخت دل رکھتے ہیں۔ ملک میں بہت سی خامیاں ہیں لیکن اچھی چیزیں بھی ہیں۔ سیاست کے امتحان میں کوئی لیڈر ۱۰۰؍ میں سے ۱۰۰؍ نمبر نہیں لے سکتا، یاد رکھیں۔
 آپ اپنے اندر جھانک کر دیکھیں۔ آپ نے دیکھا ہوگا کہ ہم فوراً دوسروں پر تنقید کر دیتے ہیں۔ جبکہ دوسرے کی جس حرکت پر ہمیں غصہ آتا ہے وہ کام تو ہم خود بھی کرتے ہیں لیکن انسان اپنی غلطی پر پردہ ڈال دیتا اور دوسروں کی غلطی پر شور مچاتا ہے۔ آج کل سوشل میڈیا پر دوسروں کی زندگی پر تنقید کرنا ہم اپنا فرض سمجھتے ہیں۔ اگر کسی موٹی خاتون نے کوئی نیا اسٹائل اپنایا ہے تو فوراً اس پر ہنسنا یا مذاق اڑانا شروع کر دیں گے۔ اس کی پوسٹ پر نازیبا کمنٹس کریں گے۔ ہر شخص کو اپنی مرضی کے مطابق جینا کا حق ہے۔ ہر کوئی اپنی مرضی کے مطابق کپڑے پہن سکتا ہے۔ بھلا اس میں آپ کو تکلیف کیوں ہے؟
 سوشل میڈیا کا جائزہ لیا جائے تو معلوم ہوتا ہے کہ لفظوں کے میزائلوں کا سلسلہ جاری ہے۔ جیسے کوئی جنگ یا لڑائی چل رہی ہو۔اس جنگ میں مخالف فریق کا دل جیتنے والا جیتتا ہے کہ ہاں، میں غلط تھا، اب میں سمجھ گیا کہ آپ جو کہہ رہے ہیں، وہ صحیح ہے۔ لیکن کیا ایسا کبھی ہوا ہے؟ نہیں۔ تو اس لڑائی میں پڑنا صرف آپ کا وقت ضائع کرے گا۔ ویسے بہت سے لوگوں کے پاس شاید وقت کی کمی نہیں ہوتی۔ وہ یا تو دفتر میں بیٹھ کر وقت گزار رہے ہیں، یا گھر میں عیش و عشرت سے لطف اندوز ہورہے ہیں۔
 سوشل میڈیا کا استعمال کرتے ہوئے اگر آپ ’’اموشنل رین کوٹ‘‘ پہنیں تو بہتر ہوگا تاکہ سوشل میڈیا پر ہونے والی تنقیدوں کا آپ پر کوئی اثر نہ ہو۔ اگر آپ کسی بھی موضوع پر بحث کرنا چاہتے ہیں تو اپنے دوست کو کال کرکے بلائیں اور آمنے سامنے بیٹھ کر باتیں کریں۔ کچھ اپنی کہیں، کچھ اس کی سنیں۔ اور اگر کوئی سماجی مسئلہ آپ کو پریشان کرتا ہے تو کوئی اقدام کریں۔ سوشل میڈیا پر وقت گزارنے سے بہتر ہے کہ حقیقی زندگی کے مسائل پر غور کریں۔ کوئی تنظیم قائم کریں۔ لوگوں کی مدد کریں۔ دوسروں کا دکھ درد بانٹیں۔ اگر آپ کسی کی مدد کریں گے تو آپ کو قلبی سکون محسوس ہوگا۔
 فضول خرچی اور فضول بحث، دونوں ہی سے پرہیز کریں۔ سوشل میڈیا نے فضول خرچی میں بھی بے تحاشا اضافہ کر دیا ہے۔ ایک دوسرے پر سبقت حاصل کرنے کی کوشش نے ہمیں فضول خرچی بنا دیا ہے۔ برانڈیڈ کپڑے پہننے کا شوق عام ہوتا جا رہا ہے۔ ۲۰؍ ہزار کے کپڑے، ۵۰؍ ہزار کی گھڑی، ۲؍ لاکھ کی بائیک.... فہرست طویل ہے۔ لیکن برانڈیڈ اور مہنگے کپڑے پہن کر بھی لوگ مطمئن نہیں ہوتے۔ سمجھ میں نہیں آتا یہ بے اطمینانی ہمیں کہاں لے جائے گی؟ لہٰذا زندگی سادگی سے گزاریں۔ لوگوں سے محبت سے پیش آئیں۔ انسان بنیں۔ اس وقت انسان کو انسان بننے کی بہت زیادہ ضرورت ہے۔ نئی نسل کی بہتر تربیت کریں۔ انہیں سازگار ماحول فراہم کریں۔ سوشل میڈیا کی نفرت والی دنیا سے انہیں باہر نکالیں۔ ان کے اندر بھرے ہوئے غصے کو محبت میں بدلنے کی کوشش کریں۔ آپ کی کوشش سےیہ سب ممکن ہوسکتا ہے۔n

متعلقہ خبریں

This website uses cookie or similar technologies, to enhance your browsing experience and provide personalised recommendations. By continuing to use our website, you agree to our Privacy Policy and Cookie Policy. OK