• Mon, 23 December, 2024
  • EPAPER

Inquilab Logo

تعلیم خواتین کو بااختیار بنانے میں اہم کردار ادا کرتی ہے

Updated: March 08, 2024, 11:44 AM IST | Saaima Shaikh | Mumbai

دفترِ انقلاب میں ’عالمی یومِ خواتین‘ کی مناسبت سے منعقدہ مباحثے میں مدعو خواتین کی گفتگو کا لب لباب یہی تھا۔ ذیل میں ملاحظہ کیجئے۔ گفتگو کے چند اقتباسات:

A group photo of all the women participating in the debate. Photo: Anurag Ahire
مباحثے میں شامل تمام خواتین کا گروپ فوٹو۔ تصویر: انوراگ اہیرے

انقلاب نے حسب ِ سابق، عالمی یوم ِ خواتین کیلئے ایک مباحثے کا انعقاد کیا جس میں مختلف شعبہ جات سے تعلق رکھنے والی پانچ خواتین کو مدعو کیا گیا تھا۔ اس میں ’’اوڑھنی‘‘ کی قلمکار خواتین بھی شامل تھیں۔ مباحثہ ۲؍ گھنٹے تک جاری رہا۔ مباحثے کے چند اقتباسات یہاں پیش کئے جا رہے ہیں۔ سب سے پہلے ان خواتین کا تعارف:

مباحثے میں شامل مختلف شعبہ جات سے تعلق رکھنے والی مہمانان خصوصی

ڈاکٹر ریحانہ احمد مشہور سماجی کارکن ہیں۔ طویل عرصے سے تعلیم کے میدان میں اپنی خدمات انجام دے رہی ہیں اور خواتین میں تعلیم کے فروغ کیلئے ہمہ وقت سرگرم رہتی ہیں۔ گزشتہ کئی برسوں سے ’گرلز بورڈ آف ایجوکیشن، انجمن اسلام‘ کی چیئرپرسن کی ذمہ داریاں نبھا رہی ہیں۔ چند سال قبل ممبئی یونیورسٹی نے انہیں ان کے تحقیقی مقالے پر پی ایچ ڈی کی ڈگری تفویض کی ہے۔
تظمین دلوی نے میٹھی بائی کالج سے بزنس مینجمنٹ اسٹڈیز کی تعلیم حاصل کی ہے۔ انسٹی ٹیوٹ آف کمپنی سیکریٹریز آف انڈیا کے مشکل ترین امتحان میں انہوں نے شاندار کامیابی حاصل کی ہے۔ فی الحال بزنس مینجمنٹ کی پڑھائی کے ساتھ ایک کمپنی میں سیکریٹری کے طورپر ۳؍مہینے کیلئے انٹرن شپ بھی کر رہی ہے۔
تبسم ایچ ملک نے ممبئی یونیورسٹی میں گروارے انسٹی ٹیوٹ سے ماس کمیونی کیشن اینڈ جرنلزم کا کورس کیا۔ فی الحال ممبئی دوردرشن سے وابستہ ہیں جہاں نیوز ریڈنگ اور رپورٹنگ کے علاوہ میڈیا اور کنٹینٹ رائٹر کے طور پر بھی اپنی ذمہ داریاں نبھا رہی ہیں۔
فرحت صدیقی فیشن ڈیزائنر ہیں۔ کلوتھینا نامی کمپنی کی بانی ہے۔ ان دنوں ریلائنس، منترا اور نائیکا جیسی عالمی شہرت یافتہ کارپوریٹ کمپنیوں کو اپنی خدمات پیش کررہی ہیں۔ وہ ان کمپنیوں کے لئے ہر ماہ تقریباً ۱۰؍ ہزار سوٹ تیار کررہی ہیں۔
ڈاکٹر ماریہ شیخ نے ڈاکٹر محمد اسحاق جمخانہ والا اور حاجی عبدالرزاق کالسیکر طبیہ کالج ممبئی سے بی یو ایم ایس میں اوّل درجے سے کامیابی حاصل کی۔ سندیپ یونیورسٹی ناسک میں ایم بی اے ہیلتھ کیئر اینڈ مینجمنٹ مکمل کیا جس میں انہیں گولڈ میڈل نوازا گیا۔
مباحثے کا موضوع:
بااختیار یعنی کیا؟ کن صلاحیتوں کو بروئے کار لا کر خواتین خود کو بااختیار بناسکتی ہیں؟
ڈاکٹر ماریہ شیخ
 مَیں سمجھتی ہوں ہر عورت کا تعلیم یافتہ ہونا ضروری ہے۔ بحیثیت ڈاکٹر میری جانب سے یہ کوشش ہوسکتی ہے کہ جو لوگ میرے کلینک پر آتے ہیں اُن کی ذہن سازی کی جاسکے۔ انہیں اپنے بچوں کو تعلیم دلوانے کے لئے بیدار کیا جاسکتا ہے۔ میرے کلینک میں متوسط طبقے کے لوگ آتے ہیں۔ مریضوں سے بات چیت کے دوران معلوم ہوتا ہے کہ وہ یا اُن کے بچے مالی مسائل کے سبب تعلیم حاصل نہیں کر پاتے ہیں۔ ایسی صورتحال میں، مَیں ان کی رہنمائی کرتی ہوں۔ ہر شخص کو کم از کم گریجویشن کرنا چاہئے۔ یہ بہت ضروری ہے۔ تعلیم انسان کے شعور کو بیدار کرتی ہے۔ اسے صحیح اور غلط کا فرق معلوم ہوتا ہے۔ تعلیم یافتہ خاتون معاشرے کی بہتری کے لئے کوشش کرسکتی ہے۔ وہ آنے والی نسلوں کی درست نہج پر تربیت کرسکتی ہے۔ تعلیم یافتہ نہ ہونے کی وجہ سے ازدواجی زندگی میں مسائل پیدا ہوتے ہیں۔ اس لئے مَیں سبھی والدین سے یہی کہوں گی کہ اپنی بیٹیوں کو خوب پڑھائیں۔ انہیں اپنی دلچسپی کے مطابق اپنا کریئر کا انتخاب کرنے کی اجازت دیں۔ انہیں بااختیار بننے دیں۔ آج کل بہت سے مواقع ہیں۔ لڑکیاں گھر بیٹھے اپنے لئے روزگار پیدا کرسکتی ہیں۔ وہ اپنی صلاحیتوں کو بروئے کار لا کر کامیاب ہوسکتی ہیں۔
فرحت صدیقی
 مَیں ایک بزنس وومن ہوں۔ میرے شوہر نے مجھے اس مقام تک پہنچایا ہے۔ مَیں نے صوفیہ کالج سے فیشن ڈیزائننگ کیا تھا۔ شادی کے بعد شوہر نے مجھے اپنا کریئر شروع کرنے کیلئے آمادہ کیا۔ ابتداء میں مَیں نے ملازمت کی۔ اس کے بعد کلوتھینا نامی کمپنی کی بنیاد رکھی۔ آج یہ کمپنی کامیابی کے ساتھ آگے بڑھ رہی ہے۔ بچپن میں والدین نے گرمی کی چھٹیوں میں کسی نہ کسی سرگرمی میں مصروف رکھا جیسے سلائی، بنائی، کڑھائی وغیرہ۔ میری دلچسپی کو دیکھتے ہوئے والدین نے مجھے فیشن ڈیزائننگ کرنے کا مشورہ دیا۔ تعطیلات کی سرگرمیوں سے فائدہ ملا۔ الحمدللہ، مجھے ان کاموں میں کبھی کوئی پریشانی نہیں ہوئی۔ مَیں سمجھتی ہوں کہ خواتین کو آگے بڑھنے کا موقع دیا جانا چاہئے۔ انہیں مواقع دیئے جائیں گے تو وہ ضرور خود کو ثابت کریں گی۔ ہم سب میں کئی صلاحیتیں ہوتی ہیں، انہیں پہچاننے کی ضرورت ہوتی ہے اور ان کا صحیح بھی استعمال کرنا چاہئے۔ بحیثیت  ِبز نس وومن مَیں یہی کہوں گی کہ سبھی خواتین منفرد ہوتی ہیں، وہ یقیناً اپنی صلاحیتوں کے ذریعے دنیا میں اپنا نام پیدا کرسکتی ہیں۔
تبسم ایچ ملک
 مَیں صحافتی شعبے سے وابستہ ہوں۔ مَیں پہلے یہ بتانا چاہوں گی کہ آخر اس سفر کی شروعات کیسے ہوئی۔ دراصل بچپن سے درس و تدریس کے شعبے کے بارے میں سنتے آئی تھی۔ صحافتی شعبے کے بارے میں کچھ نہیں جانتی تھی۔ مَیں ٹیچر بننا چاہتی تھی۔ مَیں پڑھائی میں اچھی تھی۔ ہم ۵؍ بھائی بہنیں ہیں۔ اچھی بات یہ تھی کہ ہمارے والدین نے ہمارے ساتھ کبھی تفریق نہیں کی۔ وہ پانچوں کو تعلیم یافتہ دیکھنا چاہتے تھے۔ میرے والد صاحب پینٹر تھے لیکن انہوں نے ہماری بہترین تربیت کی۔ گریجویشن مکمل ہونے کے بعد ایک اسکول میں پڑھانا شروع کیا تھا۔ اس دوران میرے دوست نے مجھے این ڈی ٹی وی میں جاب کے متعلق بتایا۔ مَیں نے انٹرویو دیا اور اس طرح مجھے صحافتی شعبے میں پہلی ملازمت مل گئی۔ جہاں مَیں نے ۲؍ سال آئی ٹی ڈپارٹمنٹ میں کام کیا۔ وہاں رہتے ہوئے مَیں نے کئی نامور رپورٹرز کو کام کرتے ہوئے دیکھا، اس طرح رپورٹر بننے کا خیال آیا۔ ممبئی یونیورسٹی میں گروارے انسٹی ٹیوٹ سے ماس کمیونی کیشن اینڈ جرنلزم کا کورس کیا۔ اس دوران مَیں ’’آج تک‘‘ نیوز چینل میں انٹرن شپ بھی کر رہی تھی۔ اس کے بعد مجھے دوردرشن میں کام کرنے کا موقع ملا اور ۱۲؍ سال سے مَیں یہاں اپنی ذمہ داری نبھا رہی ہوں۔ مَیں عنقریب اپنا یوٹیوب چینل شروع کرنے والی ہوں۔ مَیں نے اپنا سفر درس و تدریس سے شروع کیا تھا اور مجھے اس شعبے سے بے انتہا محبت ہے اس لئے مَیں ٹاٹا انسٹی ٹیوٹ آف سوشل سائنس (گوونڈی) کے طلبہ کو پڑھا بھی رہی ہوں۔ اپنے کریئر کے بارے میں بتا کر مَیں یہی کہنا چاہوں گی کہ اگر آپ میں آگے بڑھنے کی چاہت ہے تو آپ ضرور کامیاب ہوں گی۔ اس کیلئے مسلسل کوشش کیجئے۔ مخفی صلاحیتوں کو پہچانئے۔ اپنی شخصیت کو بہتر بنانے کے لئے مسلسل جدوجہد کیجئے۔ جیت یقینی آپ کی ہوگی۔
تظمین دلوی
 فی الحال مَیں بیچلر آف مینجمنٹ اسٹڈیز کر رہی ہوں۔ اس کے ساتھ ساتھ کمپنی سیکریٹری کا کورس بھی کر رہی ہوں۔ اس کے علاوہ انٹرن شپ بھی جاری ہے۔ اس دوران کارپوریٹ کمپنی کے بزنس ایونٹ کرتی ہوں۔ اُن کے ایونٹ جرمنی اور ملائیشیا میں ہوتے ہیں۔ ابھی بنگلور میں بھی ہونے والے ہیں۔ کمپنی سیکریٹری بننے کا سفر کچھ یوں شروع ہوا کہ دسویں میں ۹۵؍ فیصد مارکس آئے تھے۔ اس وقت سب چاہتے تھے کہ مَیں سائنس شعبہ منتخب کروں۔ لیکن میرے ذہن میں یہ بات صاف تھی کہ مجھے ڈاکٹر نہیں بننا ہے۔ اس دوران مَیں نےریسرچ کیا۔ کاؤنسلنگ کے ذریعے ایپٹی ٹیوڈ ٹیسٹ بھی کروائے۔ نتیجہ یہی آیا کہ میرا رجحان کامرس یعنی کاروباری شعبے کی طرف ہے۔ کاؤنسلر نے ایک بات کہی تھی ’’بچے کا جس شعبے میں رجحان ہو، اسے وہی شعبہ منتخب کرنا چاہئے۔‘‘ اس لئے مَیں نے وہی کیا۔ بی ایم ایس کے دوران میرے بھائی جو سی اے ہیں، نے مشورہ دیا کہ کوئی پروفیشنل کورس بھی کرو۔ پھر مَیں نے غور و فکر کرنے کے بعد سی ایس (کمپنی سیکریٹری) کا شعبہ منتخب کیا۔ مَیں ایم بی اے بھی کرنا چاہتی ہوں۔ ان سب میں میری فیملی کا مکمل سپورٹ رہا ہے۔ آج مَیں جس مقام پر ہوں، وہ سب کچھ ان کے بغیر ناممکن تھا۔ میری والدہ سرکاری اسکول میں ٹیچر ہے۔ مَیں نے بچپن ہی سے انہیں محنت کرتے دیکھا ہے۔ ہم گھاٹکوپر میں رہتے ہیں اور وہ ملاڈ پڑھانے کیلئے جاتی ہے۔ مَیں نے انہیں روزانہ مشقت کرتے دیکھا ہے۔ گھر اور اسکول، دونوں کی ذمہ داریاں بخوبی نبھاتے دیکھا ہے۔ میرے ذہن میں پہلے ہی یہ تھا کہ مجھے بھی ان کی طرح محنت کرنی ہے۔ گھر میں ہم دو بہنیں ہیں۔ ایچ ایس سی میں ہمارے اچھے نتائج آئے تھے۔ اس وقت ہماری کزن نے ڈاکٹری مکمل کی تھی۔ ہم تینوں کی کامیابی پر گھر پر چھوٹی سی تقریب رکھی گئی تھی۔ گھر والوں کے جملے تھے کہ ’’ہماری بیٹیاں ہی ہمارا نام روشن کر رہی ہیں۔‘‘ یہی چھوٹی چھوٹی چیزیں ہیں جنہوں نے ہمیں آگے بڑھنے کا حوصلہ بخشا ہے۔ مَیں نے اکثر دیکھا کہ گھروں میں خواتین کی باتوں اور مشوروں کو ترجیح نہیں دی جاتی ہے۔ انہیں قابل نہیں سمجھا جاتا ہے۔ لیکن حقیقت یہ ہے کہ خواتین کو قابل بنانے کی ذمہ داری بھی گھر والوں  ہی کی ہوتی ہے۔ اچھی بات ہے کہ مَیں ابھی سے گھر کے کام کاج سنبھالتی ہوں۔ بینک کے کام بھی انجام دیتی ہوں۔ اہم معاملات میں میری رائے مانگی جاتی ہے۔ یہ سارے میری والدہ ہمیشہ سے کرتی آئی ہیں۔ اس لئے مَیں والدین سے کہنا چاہوں گی کہ وہ اپنی بچیوں کو قابل بنائیں۔ اہم امور میں ان سے مشورہ کریں۔ جب عورت گھر چلا سکتی ہے تو اہم فیصلے کیوں نہیں کرسکتی؟ اس بارے میں غور کرنے کی ضرورت ہے۔
ڈاکٹر ریحانہ احمد
 میرا تعلق کوکن (مہاراشٹر) سے ہے۔ جب مَیں چھوٹی تھی تو مجھے تعلیم کے حصول کے لئے ممبئی لایا گیا تھا۔ میری والدہ تعلیم یافتہ نہیں تھیں۔ قرآن شریف پڑھتی تھیں اور اُردو زبان سے بھی واقفیت تھی۔ (انہوں نے روزنامہ انقلاب سے دیرینہ وابستگی کا تفصیلی ذکر کیا۔) مَیں ممبئی یونیورسٹی کی اکیڈمک آف کاؤنسل کی ۵؍ سال ممبر رہ چکی ہوں۔ نیشنل مونیٹرنگ کمیٹی فار مائناریٹی ایجوکیشن میں بھی ۵؍ سال تک اپنی خدمات پیش کرچکی ہوں۔ بال بھارتی میں بھی ۵؍ سال تک اپنی ذمہ داریاں نبھائی ہیں۔ اسی طرح ممبئی یونیورسٹی کے ویمنس ڈیولپمنٹ سیل میں بھی ۵؍ سال تک کام کیا ہے۔ اس کے علاوہ گجرات فساد سے متاثرہونے والی ۱۱۳؍ بچیوں کو گود لیا تھا جنہیں’ کے جی‘ سے ’پوسٹ گریجویشن‘ تک کی تعلیم دلوائی۔ کوکن میں لڑکیوں کیلئے پہلی اسکول کی بنیاد رکھی۔ اس اسکول سے ہر سال تقریباً ۳۰؍ لڑکیاں اعلیٰ تعلیم حاصل کر رہی ہیں۔ ان سب کے ساتھ ہی مَیں انجمن اسلام کی بھی ذمہ داری انجام دے رہی ہوں۔ مَیں بین الاقوامی سطح پر بھی فعال ہوں۔ میں نے کئی کانفرنسوں میں شرکت کی ہے۔ علاوہ ازیں تعلیم کے شعبے میں میری جدوجہد مسلسل جاری ہے۔

مباحثے میں مڈ ڈے انفو میڈیا لمیٹڈ کے منیجنگ ڈائریکٹر وکاش جوشی، مڈ ڈے کی سی ایف او راج شری بولیکر، ڈاکٹر ماریہ، فرحت صدیقی، تبسم ایچ ملک، تظمین دلوی، ڈاکٹر ریحانہ احمد اور مڈڈے کی ایڈیٹر ٹیناز نوشیان۔ 
اس موقع پر مڈ ڈے انفو میڈیا لمیٹڈ کے منیجنگ ڈائریکٹر وکاس جوشی موجود تھے۔ انہوں نے حاضرین سے کہا، ’’آپ سب مزیدکامیابیاں حاصل کرتی رہیں اور چہرے پر ہمیشہ مسکراہٹ سجا کر رکھیں۔‘‘
مڈ ڈے انفو میڈیا لمیٹڈ کی سی ایف او راج شری بولیکر نے شرکاء کو مخاطب کرتے ہوئے کہا، ’’آپ سب آسمان کے ستارے ہیں۔ ہمیشہ ایسی چمکتے رہیں۔‘‘
 مڈ ڈے کی ایڈیٹر ٹیناز نوشیان نے اپنے خیالات کا اظہار کیا کہ، ’’مَیں سمجھتی ہوں کہ مسلم خواتین بڑے پیمانے پر اپنی شناخت درج کروانے کی ضرورت ہے۔‘‘
 اس مباحثے میں شامل خواتین قلمکار نے اپنی آراء پیش کیں۔ انہوں نے تعلیم کے تئیں بیداری لانے پر بھی زور دیا۔ ساتھ ہی مہمانان خصوصی سے سوالات بھی کئے۔
خواتین قلمکار کی تفصیلات:
شیخ عظمیٰ رضوان گریجویشن کی طالبہ ہے۔ وہ بیکنگ بھی کرتی ہے۔
شیخ تحسین گزشتہ ۱۶؍ برسوں سے درس و تدریس کے پیشے سے وابستہ ہیں۔ فی الحال انہوں نے اپنی چیرٹیبل کلاسیز کی شروعات کی ہے۔
شیخ شفارضوان نے فارمیسی سے ڈپلوما مکمل کیا ہے۔
انصاری فرح سماجی کارکن اور موٹیو ویشنل اسپیکر ہیں۔
شیخ رابعہ تبریز عالم طنز و مزاح پر ریسرچ کر رہی ہیں۔ اس کے علاوہ ممبئی یونیورسٹی میں پڑھا بھی رہی ہیں۔
شاہدہ وارثیہ یوٹیوبر ہیں۔ اس سے قبل سے وہ درس و تدریس کے پیشے سے بھی وابستہ رہ چکی ہیں۔
مومن رضوانہ محمد شاہد معلمہ ہیں۔ آل انڈیا آئیڈیل ٹیچرس اسوسی ایشن (آئیٹا) کی لیڈی کنوینر بھی ہیں۔
خان عالیہ نے حال ہی میں بی ایم ایس سے گریجویشن مکمل کیا ہے۔
ادریسی ریحانہ عبدالجبار معلمہ ہیں۔ دینی تعلیم پر مبنی ان کا یوٹیوب چینل ہے۔
نسیم رضوان شیخ معلمہ ہیں۔ وہ اس شعبے میں فعال ہیں اور سماجی کام بھی انجام دے رہی ہیں۔
اس مباحثے میں اراکین انقلاب رئیسہ منور، شیریں عثمانی، صائمہ شیخ، خان تمنا اور سیّد عالیہ بھی موجود تھیں۔

متعلقہ خبریں

This website uses cookie or similar technologies, to enhance your browsing experience and provide personalised recommendations. By continuing to use our website, you agree to our Privacy Policy and Cookie Policy. OK