Inquilab Logo

ہندوستان کی جنگ آزادی میں خواتین کا حصہ ناقابل ِ فراموش ہے

Updated: August 16, 2022, 12:04 PM IST | Khawaja Kausar Hayat | Mumbai

ملک کی آزادی کا کوئی بھی باب خواتین کی قربانیوں سے خالی نہیں ہے۔ وہ کبھی حوصلہ بن کر، کبھی طاقت بن کر اور کبھی تحریک بن کر متحرک رہیں اور مجاہدین کا حوصلہ بلند کرتی رہیں۔ وہ نہ تو حق سے دستبردار ہوئیں نہ ہی فرض سے

Abadi Bano Begum.Picture:INN
عبادی بانو بیگم (بی اماں) ۔ تصویر:آئی این این

ہم نے آزادی کو چند مخصوص اور چنندہ ناموں تک محدود کر رکھا ہے۔ بے شک کسی تحریک کے لئے کامیاب نمائندگی بہت ضروری ہوتی ہے  مگر اس نمائندگی کو محور و مرکز بنانے والی اُن چھوٹی چھوٹی طاقتوں کو فراموش نہیں کیا جاسکتا جو تیلیوں کا کام کرکے جوالا تیار کرتی ہیں۔  ملک کی آزادی کا کوئی بھی باب خواتین کی قربانیوں سے خالی نہیں ہے۔ وہ کبھی حوصلہ بن کر، کبھی طاقت بن کر اور کبھی تحریک بن کر متحرک رہیں اور مجاہدین کا حوصلہ بلند کرتی رہیں۔ وہ نہ تو  حق سے دستبردار ہوئیں  نہ ہی فرض سے۔ امور خانہ داری سرانجام دینے والی خواتین ضرورت پڑنے پر اپنی تنظیمی صلاحیتوں کے ساتھ گھوڑے پر سوار ہوکر میدان جنگ میں اُتر آئیں۔ کئی مرتبہ جیل گئیں۔ تلوار اور قلم کی دھار اور کاٹ کو بوقت ضرورت استعمال کیا اور خوب کیا۔  بیگم زینت محل، بیگم حضرت محل، ارونا آصف علی، سروجنی نائیڈو، اینی بیسنٹ، ڈاکٹر لکشمی سہگل، بھیکاجی کاما اور رما دیوی چودھری کے علاوہ ایسی خواتین کو یاد کرنا ضروری ہے  جن کی خدمات کو بھلایا نہیں جاسکتا۔ اس میں مولانا  محمد علی اور شوکت علی کی والدہ بی اماں، کا کردار بھی تاریخی اہمیت کا حامل ہے۔
عبادی بانو بیگم (بی اماں)
ء۱۹۲۲ء میں خلافت کا خاتمہ کردیاگیا۔ تحریک بھی سرد پڑ گئی  لیکن اس نے عوامی اتحاد و سیاسی بیداری کی جو فضاء قائم کی اس نے کاروان آزادی کو ایک نئی جہت عطا کی۔ خواتین کا سیاسی شعور اور قومی سیاسی زندگی میں ان کی شرکت جرأت مندانہ اقدام تھا۔ بی اماں گاندھی جی اور کانگریس کے دیگر رہنمائوں کے زیر اثر قومی محاذ آرائی میں شامل ہوئیں۔  انڈین نیشنل کانگریس کے وسیع تر  مقاصد، ہندومسلم اتحاد، عدم تشدد، دیہی ترقی، تعلیم بالغان، ہریجنوں کی فلاح و بہبودکے تعمیری منصوبے، عوامی رابطہ اور منصوبہ بندی جیسے اُمور سے کسی نہ کسی طرح وابستہ رہیں۔ وہ کھل کر عوامی جلسوں میں شریک ہوئیں، ولایتی کپڑوں اور شراب کی دکانوں پر دھرنا دیا۔ ان کی سیاسی سرگرمیوں کا واحد مقصد آزادیٔ وطن تھا۔ ’’کاروان حریت کے مسافروں نے اپنے اس میر کارواں کو ’ام الاحرار‘ کے خطاب سے نوازا لیکن پیار میں اپنے پوتوں اور پوتیوں کی ’بی اماں‘ بن گئیں۔ ‘‘ مولانا محمد علی جوہر کے نومبر ۱۹۲۴ء کے کامریڈ میں شائع شدہ مضامین بہ عنوان ’ماں کی یاد‘ سے اس کی تائید ہوتی ہے۔ ایس سیتا مورتی نے بی اماں کے تعلق سے اپنے خیالات کا اظہار کیا کہ ’’ اب میں ایک بات اور کہہ کر اپنی تقریر ختم کردوں گا۔ ہندو شاستروںمیں لکھاہے کہ قومیں دولت اور روپے پیسے سے سربلند اور سرتاج نہیں ہوتیں بلکہ اپنی قربانیوں سے،  وہ قربانی جوحق و صداقت کے لئے ہو۔ نظر بند علی برادران نے قربانی دی اورملک نہ صرف ان کے سامنے خراج وفاداری اور اطاعت پیش کرتا ہے بلکہ وہ ان کی والدہ کے سامنے بھی سرنیازخم کرتا ہے۔ ‘‘ (’’ جمہور‘‘ کلکتہ۔ ۸؍ جنوری ۱۹۱۸ء)؍ ۳۰؍ دسمبر ۱۹۱۷ءکو آل انڈیا مسلم لیگ کے سالانہ اجلاس میں جو کلکتہ میں ہی منعقد ہوا،  بی اماں کی طرف سے ایک پیام بنام مسلمانان ہند قاضی عبدالغفار نے پڑھا جس کے ولولہ انگیز الفاظ نے مسلمانوں کی سیاسی زندگی میں ایک نئی روح پھونک دی۔ دہلی کے ایک صاحب کے بیان کے مطابق بی اماں کے پیغام عمل کا ایک ایک لفظ تیر و نشتر کاکام دے رہا تھا اور جس نے اجلاس لیگ کو مجلس ماتم بنادیا۔ (بحوالہ سیرت محمد علی، رئیس احمد جعفری۔ صفحہ ۲۶۰) 
زلیخا بیگم (زوجہ مولانا ابوالکلام آزاد)
  زلیخا بیگم  بڑی ہمت والی خاتون تھیں۔ معاشی پریشانیاں انہیں بہت اٹھانی پڑی۔ مولانا آزادی کی جدوجہد میں مصروف رہتے تھے لیکن زلیخا بیگم نے ان کو کبھی پریشان نہیں کیا۔  ۱۹۲۴ء  میں جب مولانا کو ایک سال کی سزا ہوئی تو انہوں نے مہاتماگاندھی کو خط لکھا کہ ’’میرے شوہر کو محض ایک سال کی سزا ہوئی ہے جو ہماری امیدوں سے بہت کم ہے۔ اگر ملک و قوم سے محبت کے نتیجہ میں یہ سزا ہے تو اس کو انصاف نہیں کہا جائے گا، یہ ان کی اہلیت کیلئے بہت کم ہے۔ آج سے میں بنگال خلافت کمیٹی کا پورا کام دیکھوں گی۔ ‘‘ واہ کیا خود اعتمادی اور بہادری تھی!  حالانکہ اِن دنوں  وہ علیل تھیں پھر بھی شوہر کی سزایابی کی خبر بہت ہمت سے سنی اور آزادی کی تحریک میں عملاً شریک ہونے کا فیصلہ کیا۔ 
امجدی بیگم (زوجہ مولانا محمد علی )
  رام پور کے ایک معروف خاندان کی چشم و چراغ امجدی بیگم، مولانا محمد علی کی فلسفیانہ اور سیاسی اصولوںکی پیروکار تھیں اور مولانا کے ہر سفر، عوامی جلسوں اور دیگر سرگرمیوں میں ساتھ ساتھ رہتی تھیں۔ انہوں نے ’ستیہ گرہ ‘ اور ’خلافت فنڈ‘ کے لئے روپیے جمع کئے۔ گاندھی جی کے سفری اخراجات ان ہی کے ذمہ تھا۔ 
زبیدہ دائودی
  یہ مولانا شفیع دائودی کی بیگم تھیں جنہوں نے انگریزوں کے خلاف عدم اعتماد کی تحریک میں شامل ہوکر آزادی کی جنگ میں عملی طور پر حصہ لیا۔ انہوں نے اپنے شوہر اور دوسرے رشتہ داروں سے انگریزی کپڑے اکٹھا کئے اور کانگریس دفتر میں اس کی ہولی جلائی۔ در در جاکر انگریز ی کپڑے اکٹھا کرنے والوں کی یہ رہنما تھیں۔ وہ آزادی کی جدوجہد میں حصہ لینے اور  خواتین کو اپنے خیالات سے متاثر کرنے کے لئے تمام عوامی اجتماعات میں شرکت کرتی تھیں۔ 
عزیزن
  ان کی پیدائش لکھنو میں ۱۸۲۳ء میں  ہوئی تھی۔ سارنگی محل میں امرائو جان کے ساتھ رہتی تھیں۔ ۴؍ جون ۱۸۵۷ء کو  جب نانا صاحب نے ہندوؤں اور مسلمانوں سے انگریزوں کے خلاف جنگ میں ان کا ساتھ دینے کے لئے کہا تو مسماۃ عزیزن نے بھی گھر چھوڑ دیا اور آزادی کی تحریک میں شامل ہوتے ہوئے خواتین کی ایک بٹالین کو منظم کیا۔ فن حرب کی ماہر عزیزن نے  دوسری خواتین کو اسلحہ جاتی تربیت دی۔ اس دوران پکڑی گئیں اور جنرل ہیلاک کے سامنے پیش کی گئیں۔ ان سے کہا گیا کہ اگر تم اپنا گناہ قبول کرلو تو تمہیںمعاف کردیا جائیگا۔ انہوں نے اس تجویز کو مسترد کردیا اور شہادت کو ترجیح دی۔ 
سعادت بانو کچلو 
 مجاہد آزادی  ڈاکٹر سیف الدین کچلو  بیرسٹر ہونے کے ساتھ ساتھ کانگریس کے مسلم قومی رہنما تھے۔ وہ پنجاب کے پہلے کانگریس کے صدربنائے گئے تھے اس کے بعد ۱۹۴۲ء میں آل انڈیا کانگریس کمیٹی کے جنرل سیکریٹری بنائے گئے۔ سعادت بانوکچلو انہی کی بیگم تھیں۔ ان کو اردو اور فارسی میں مہارت حاصل تھی اور مجاہدوںکی ہمت افزائی کے لئے حب الوطنی کی نظمیں اور گیت تیار کیے گئے تھے۔ یہ وہ دو ر تھا جب مسلمان عورت کیلئے تحریری طور پر اپنی آرأ کااظہار کرنا مشکل تھا۔ جب کچلو گرفتارہوئے تو بیگم سعادت بانو نے کہا کہ ’’انہیں فخر ہے کہ ملک کی خدمت میں انہیں جیل کی سلاخیںملیں۔ ‘‘ وہ ’سول نافرمانی ‘کی تحریک میں سرگرم رہیں جبکہ ڈاکٹر کے کچلو کے قائم کردہ’سوراج آشرم‘ سے بھی وابستہ رہیں۔ وہ اس کی چیئر پرسن بھی تھیں۔ 
بیگم خورشید (بیگم عبدالمجید خواجہ )
 نواب حمید اللہ سر بلند جنگ کی سب سے بڑی بیٹی اور اردو کے مشہور شاعر مرزا اسد اللہ خان غالب کے خاندان سے تھیں۔ ایک سماجی اور سیاسی کارکن کی حیثیت سے خواتین کی تعلیم کے کیلئے سرگرم عمل رہیں۔ وہ نہرو خاندان سے بھی قریب تھیں بالخصوص سروجنی نائیڈو کی بیٹی پدمجا  نائیڈو سے جو حیدر آباد میں ان کی ہم جماعت تھیں۔ اسی طرح سے جواہر لعل کی بہن وجے  لکشمن پنڈت سے بھی ان کے دوستانہ تعلقات تھے۔ گاندھی جی کی ’تحریک عدم تعاون‘ سے متاثر ہوئیں اور اس میں شامل ہوئیں۔ کھادی پہننا شروع کردیا اور قیمتی گہنوں کو تحریک آزادی کے حوالے کردیا۔ 
نشاط النساء بیگم
  سودیشی تحریک میں شمولیت اختیار کی اور علی گڑھ میں خلافت تحریک کو قائم کرنے میں مدد کی۔ ان کا سال ولادت ۱۸۸۴ء یا ۱۸۸۵ء ہے۔ ان کا تعلق اُناؤ (یوپی) کے قصبہ موہانی سے ہے۔ کتابوں میں آتا ہے کہ مولانا حسرت موہانی ’’محشر عمل اور حشر بداماں‘‘ تھے مگر بیگم نشاط عقل و ہوش سے کام لینے والی نہایت سلجھی ہوئی خاتون تھیں چنانچہ جدوجہد آزادی سے متعلق اپنے شوہر کی بھرپور اور بامعنی رفاقت نبھائی۔ علیگڑھ میں ڈاکٹر شیخ عبداللہ اور ان کی بیگم نے تحریک نسواں کا بیڑا اٹھایا تھا۔ عورتوں میں بیداری پیدا کرنے کیلئے رسالہ ’’خاتون‘‘ ۱۹۰۴ء میں جاری کیا۔ ۲۸؍ دسمبر ۱۹۰۵ء کو خواتین کانفرنس منعقدہ علیگڑھ میں عطیہ فیضی، بیگم شیخ عبداللہ اور مسز عباس طیب جی کے علاوہ بیگم نشاط نے بھی اظہارِ خیال کیا تھا۔ جب مولانا حسرت موہانی قید و بند میں تھے تب بہت سے اہم کام بیگم نشاط ہی نے انجام دیئے۔ حیات و سیرت بیگم حسرت موہانی (مرتبہ شفقت رضوی)کے مطابق، مشہور ادیب مولانا عبدالحلیم شرر نے کہا تھا کہ بیگم نشاط جس مردانہ وار اولوالعزمی سے شوہر کی وفاداری کیساتھ ملک کی قومی اور ادبی خدمات انجام دے رہی ہیں وہ نہایت قابل داد ہیں۔

متعلقہ خبریں

This website uses cookie or similar technologies, to enhance your browsing experience and provide personalised recommendations. By continuing to use our website, you agree to our Privacy Policy and Cookie Policy. OK