اب تک تقریباً ساڑھے ۳؍ ہزار لڑکیوں نے سلائی سیکھ کر اپنے لئے ذریعہ معاش پیدا کیا ہے، انیسہ کی بیش بہا خدمت کیلئے انہیں اعزاز سے بھی نوازا گیا ہے اور ان کا عزم ہے کہ وہ پوری زندگی یہ سلسلہ جاری رکھیں گی۔
EPAPER
Updated: March 03, 2025, 3:25 PM IST | Saadat Khan | Mumbai
اب تک تقریباً ساڑھے ۳؍ ہزار لڑکیوں نے سلائی سیکھ کر اپنے لئے ذریعہ معاش پیدا کیا ہے، انیسہ کی بیش بہا خدمت کیلئے انہیں اعزاز سے بھی نوازا گیا ہے اور ان کا عزم ہے کہ وہ پوری زندگی یہ سلسلہ جاری رکھیں گی۔
مدنپورہ، ہنگ والی چال، ساؤٹر اسٹریٹ، کی ۶۲؍ سالہ اشرفی انیسہ فضل الرحمٰن نے تقریباً ۳۳؍ سال قبل اپنے ۳؍ بچوں کی تعلیم و تربیت اور بالخصوص اپنے خاوند کی مالی مدد کیلئے مدنپورہ و اطراف کی پڑھی لکھی لڑکیوں کو اضافی ہنر اور غیر پڑھی لکھی لڑکیوں کو بر سر روزگار بنانے کیلئے اپنے چھوٹے سے گھر میں معمولی فیس کے عوض کپڑوں کی سلائی سکھانے کی مہم شروع کی تھی، جو اب بھی جاری ہے۔ اس طویل مدت کے دوران کم و بیش ساڑھے ۳؍ ہزار لڑکیاں ان سے سلائی سیکھ چکی ہیں۔ ان کی اس بیش بہا خدمت کیلئے انہیں حال ہی میں مقامی تنظیم کی جانب سے اعزاز سے بھی نوازا گیا ہے۔
بیلاسس روڈ (ممبئی سینٹرل) پر واقع انجمن اسلام اسکول سے ایس ایس سی اور صوفیا کالج (پیڈر روڈ) سے ایچ ایس سی پاس کرنے والی اشرفی انیسہ کی والدہ نے کالج کی پڑھائی کے دوران انہیں سلائی سکھائی تھی۔ شادی ہونے کے باوجود انہوں نے سلائی کا کام جاری رکھا تاکہ ان کا ہنر برقرار رہے۔ وہ محلے اور متعلقین کے گھروں کی خواتین اور لڑکیوں کے کپڑوں کی سلائی کرتی تھیں۔
۱۹۹۲ء میں بابری مسجد کی شہادت کے بعد پھوٹ پڑنے والے فساد سے پیدا ہونے والے مالی بحران کے سبب انہوں نے کپڑوں کی سلائی کے علاوہ لڑکیوں کو سلائی سکھانے کا آغاز کیا تھا۔ اس وقت گھر میں ان کے علاوہ ان کی نند کی ایک سلائی مشین تھی۔ ۲؍ سلائی مشینوں اور ۳؍ لڑکیوں سے انہوں نے اپنی سلائی کلاس کا آغاز کیا تھا۔ اس وقت سلائی سکھانے کی ماہانہ فیس صرف ۶۰؍ روپے تھی۔ سیکھنے والوں کی تعداد میں اضافہ ہونے سے انہوں نے ۲؍ کے بجائے ۳؍ اور پھر ۶؍ مشینیں گھر میں ہی سیٹ کیں۔ جن کے ذریعے ایک وقت میں ۱۲؍ لڑکیاں سلائی، کٹنگ اور دیگر کام سیکھتی ہیں۔ سیکھنے والی لڑکیوں کی تعداد میں بتدریج اضافہ ہونے سے انہوں نے ایک کے بجائے ۲؍ بیچ شروع کئے۔ ایک بیچ دوپہر میں ۲؍ تا ۴؍ اور دوسرا ۴؍ سے ۶؍ بجے تک جاری رہتا ہے۔ عموماً ایک لڑکی کو سلائی، کٹنگ اور دیگر کاموں کو سیکھنے کیلئے ۳؍ مہینے درکار ہوتے ہیں۔ سال میں ۴؍ مرتبہ ۱۲؍ لڑکیوں کے ۲؍ بیچ کو سکھانے کا مطلب سال میں تقریباً ۱۰۰؍ لڑکیاں سلائی کا ہنر سیکھ رہی ہیں۔ جس کی بنیاد پر کہا جاسکتا ہے کہ اشرفی انیسہ، اپنی کلاس سے ۳۳؍ سال میں تقریباً ساڑھے ۳؍ ہزار لڑکیوں کو سلائی سکھا چکی ہیں۔
انیسہ اشرفی کی سلائی کلاس میں مدنپورہ، کلیئر روڈ، ممبئی سینٹرل، کالا پانی اور بائیکلہ وغیرہ کے علاوہ دور دراز علاقوں مثلاً سانتا کروز اور پنویل سے بھی لڑکیاں سلائی سیکھنے کیلئے آتی ہیں۔ انہیں شلوار قمیص، شرارہ، غرارا، جینٹس شرٹ، کرتا، پلازو، انارکلی کے علاوہ چائنیز اور سفاری کالر، پاکستانی ڈریس اور لیڈیز پینٹس کی کٹنگ اور سلائی سکھائی جاتی ہے۔ ۱۹۹۳ء میں جب انہوں نے سلائی سکھانا شروع کیا تھا اس وقت وہ ۶۰؍ روپے ماہانہ فیس لیتی تھیں، اب یہی فیس ۵۰۰؍ روپے ہوگئی ہے۔ اُس دور میں بھی جن غریب لڑکیوں کے پاس فیس کی رقم نہیں ہوتی تھی، ان کی فیس معاف کر دی جاتی تھی، آج بھی یہ روایت برقرار ہے۔ جن لڑکیوں کو پڑھنا لکھنا بالکل نہیں آتا ہے، انیسہ آپا انہیں بنیادی تعلیم بھی دیتی ہیں تاکہ وہ کپڑوں کی پیمائش، ڈیزائن اور سلائی کی بنیادی اُصولوں کو تحریری طور پر محفوظ رکھ سکیں۔
یہاں سے سلائی سیکھ کر متعدد غریب لڑکیوں نے اپنی روزی روٹی کا ذریعہ پیدا کرلیا ہے۔ ۲؍ ایسی طالبہ بھی ان سے سلائی اور کٹنگ سیکھ کر گئی ہیں جو صوفیا (پیڈر روڈ) اور سسمیرا کالج (ورلی) میں زیر تعلیم تھیں۔ ان دونوں لڑکیوں نے یہیں سے کپڑوں کی کٹنگ اور سلائی سیکھ کر فیشن ڈیزائننگ کا کورس کیا تھا۔ آج دونوں لڑکیاں بڑی کمپنیوں میں فیشن ڈیزائنر کی حیثیت سے خدمات پیش کر رہی ہیں۔ فینسی مارکیٹ سے برادران وطن کے گھروں کی لڑکیاں بھی یہاں سلائی سیکھنے آتی ہیں۔ کیرالہ کی ایک لڑکی نے بھی یہاں سے سلائی سیکھی ہے۔ متعدد غریب لڑکیاں یہاں سے سلائی سیکھ کر کامیاب زندگی گزار رہی ہیں۔‘‘
ایک سوال کے جواب میں انیسہ اشرفی نے بتایا کہ، ’’ہماری کلاس صرف سلائی سکھانے کا مرکز نہیں بلکہ جو غمگسار لڑکیاں، متعدد پریشانیوں میں مبتلا ہونے سے دلبرداشتہ، مایوس اور احساس کمتری میں مبتلا ہوتی ہیں، ان کی دلجوئی، حوصلہ افزائی اور ذہن سازی بھی کی جاتی ہے۔ ان کے مسائل سن کر انہیں حل کرنے اور انہیں سمجھانے کی کوشش کی جاتی ہے جس سے لڑکیوں کی خوداعتمادی میں اضافہ ہوتا ہے۔ ایسے کئی معاملات سامنے آچکے ہیں۔ کلاس کی لڑکیوں کیلئے وقتاً فوقتاً پکنک کا نظم بھی کیا جاتاہے تاکہ مایوسی اور احساس کمتری کے دلدل سے انہیں نکالا جاسکے۔ میری خوش نصیبی ہے کہ جس طرح میں یہاں آنے والی لڑکیوں کا خیال رکھتی ہوں اسی طرح وہ بھی مجھ پر جان نچھاور کرتی ہیں۔ ۲۰۱۸ء میں کینسر کے عارضہ میں مبتلا ہونے پر میری کلاس کی لڑکیوں نے معاشی اور اخلاقی طور پر جو مدد کی تھی وہ میں فراموش نہیں کرسکتی۔ میں اپنے عمل سے پوری طرح مطمئن ہوں اور پوری زندگی اسے جاری رکھنے کی کوشش کروں گی۔‘‘
اشرفی انیسہ فضل الرحمٰن کی جہد مسلسل اور معمولی کام کے ذریعے بڑی خدمت کے عوض رئیس ایریا لیول فیڈریشن کی مقامی صدر عائشہ انصاری نے حال ہی میں انہیں ایوارڈ سے نوازا ہے۔