وہ ’رہنما فاؤنڈیشن‘ نامی این جی او کی بانی ہیں اور کراؤڈفنڈنگ کی راہ سے ضرورتمندوں کی اعانت کا کارخیر بخوبی انجام دے رہی ہیں۔ مستقبل میں ان کا پروفیسر بننے کا ارادہ ہے اور سماجی کاموں کو مزید فروغ دینا چاہتی ہیں۔
EPAPER
Updated: March 05, 2025, 2:50 PM IST | Azhar Mirza | Mumbai
وہ ’رہنما فاؤنڈیشن‘ نامی این جی او کی بانی ہیں اور کراؤڈفنڈنگ کی راہ سے ضرورتمندوں کی اعانت کا کارخیر بخوبی انجام دے رہی ہیں۔ مستقبل میں ان کا پروفیسر بننے کا ارادہ ہے اور سماجی کاموں کو مزید فروغ دینا چاہتی ہیں۔
نالاسوپارہ کی رہنے والی سعدیہ شیخ ’رہنما فاؤنڈیشن‘ نامی این جی او کی بانی ہیں۔ اس وقت وہ حیدرآباد کی معروف درسگاہ مولانا آزاد نیشنل اردو یونیورسٹی سے ماسٹر آف سوشل ورک کررہی ہیں۔ وہ اپنی اور دوسروں کی زندگیوں میں تبدیلی لانے کے عزم کے ساتھ کس طرح طالبات اور دوشیزاؤں کیلئے مشعل راہ بن چکی ہیں، آئیے جانتے ہیں۔
سعدیہ شیخ کی زندگی میں سی اے اے این آر سی مخالف احتجاج نے انقلاب برپا کیا۔ ۱۵؍ دسمبر ۲۰۱۹ء کے جامعہ ملیہ اسلامیہ میں طلبہ کے مظاہرے اور پولیس کریک ڈاؤن نے انہیں اس جانب سوچنے، سمجھنے پر مجبور کیا۔ بقول سعدیہ ’’احتجاجی تحریک میں شامل ہونے کی بنیادی وجہ یہ تھی کہ چونکہ میں خود ایک طالبہ ہوں تو مجھے یہ ڈر ستا رہا تھا کہ جو کچھ آج اُن کے ساتھ ہو رہا ہے، وہ ہمارے ساتھ بھی ہوسکتا ہے۔ پھر یہ کہ جو ہمارے ساتھ غلط ہو رہا ہے، اس کے خلاف ہمیں جمہوری طریقے سے آواز اٹھانی چاہئے۔‘‘
رہنما فاؤنڈیشن کے متعلق استفسار پر سعدیہ نے بتایا کہ ’’اس این جی او کی شروعات لاک ڈاؤن میں ہوئی تھی۔ اس کے قیام کے پیچھے کی کہانی یہ ہے کہ سی اے اے احتجاج کے وقت میں ممبئی اور بہارمیں کئی جگہ پر گئی تھی تو میں نے دیکھا کہ جو لوگ اس قانون کے خلاف جگہ جگہ دھرنا دے رہے ہیں وہ خود چھوٹے چھوٹے مسائل سے جوجھ رہے ہیں، سہولیات سے محروم ہیں، اس کے باوجود وہ اس متنازع قانون کے خلاف صدائے احتجاج بلند کر رہے ہیں۔ ایسے مظاہروں میں، دیگر مقررین کی طرح میں نے بھی تقریریں کیں۔ لیکن مجھے یہ سوال پریشان کر رہا تھا کہ ان لوگوں کیلئے میں زمینی سطح پر کیا کرسکتی ہوں؟‘‘
مذکورہ سوال نے سعدیہ کو سماج کیلئے کچھ کرنے کی ترغیب تو دے دی، اس کے بعد کیا اور کیسے کرنا ہے کا جواب انہوں نے خود ہی ڈھونڈ نکالا۔ وہ بتاتی ہیں کہ ’’سماجی کاموں کیلئے پیسہ سب سے ضروری ہوتا ہے، جو میرے پاس بھی نہیں تھا۔ لیکن کئی لوگوں کو یہ کام ’کراؤڈ فنڈنگ‘ سے کرتے دیکھ ترغیب مل گئی تھی۔ تو میں نے بھی فلاحی کاموں کیلئے سوشل میڈیا کی مدد سے فنڈ ریزنگ شروع کی اور اس طرح سب سے پہلے راشن کٹس تقسیم کرنے کا بیڑہ اٹھایا۔ میں نالاسوپارہ میں مقیم تھی، لہٰذا میں نے نالاسوپارہ ایسٹ کے سنتوش بھون علاقے کو منتخب کیا۔ پہاڑی پر آباد یہ سلم ایریا ہے جہاں ضرورتمند خاندانوں میں، ہم نے کچھ سماجی رضاکاروں کی مدد لیکر راشن کٹس تقسیم کیا۔ جب لاک ڈاؤن مزید بڑھ گیا اور مختلف مسائل کے سبب ہمیں بھی آبائی وطن (بہار) جانا پڑا تو پھر یہ کام میں نے اپنے گاؤں اور اطراف میں بھی کیا۔‘‘ سعدیہ نے اپنے اگلے پڑاؤ کے متعلق بتایا کہ ۲۰۲۰ء میں اپنے گاؤں ’بیورا بندھولی‘ ضلع دربھنگہ میں قیام کے دوران کمیونٹی لائبریری شروع کی۔ لوگوں کو کمیونٹی لائبریری کا کانسپٹ نہیں پتہ تھا۔ اس کیلئے ہم نے بیداری پروگرام کئے۔ چونکہ ہمارے پاس بھی وسائل کم تھے۔ اسلئے ہم نے مقامی لوگوں کی مدد لی اور ان سے اپیل کی کہ وہ اپنے پاس سے ہمیں کتابیں عطیہ کریں۔ یہ سارے اپ ڈیٹس میں سوشل میڈیا پر بھی پوسٹ کرتی رہی۔ اس وجہ سے بہت سے لوگوں نے ہمیں کتابیں بھیجیں۔ کچھ نے پیسوں کے ذریعے ہماری مدد کی۔ کاروان میگزین نے ہمیں اپنا سبسکرپشن مفت دیا۔ پھر پرتھم آرگنائزیشن نے ہمیں اپنے پبلی کیشن کی کہانیوں کی چھوٹی چھوٹی کتابیں تحفہ میں دیں۔ ہم نے کئی اردو اور انگریزی اخبارات منگوانے شروع کئے۔ اس طرح بچوں کے ساتھ بڑوں کو بھی اس لائبریری سے جوڑنے کی ہم نے کوشش کی۔ ہمارامقصد یہی ہے کہ گاؤں میں پڑھائی اور مطالعہ کا ماحول بنے۔ آپ کو بتادوں کہ اس کمیونٹی لائبریری میں اب روزانہ ۲؍ گھنٹوں کی ٹیوشن کلاس بھی چلائی جا رہی ہے جس میں دو ٹیچرز بچوں کو پڑھاتی ہیں۔ ان ٹیچرز کو مشاہرہ این جی او کی طرف سے ادا کیا جاتا ہے۔‘‘
سعدیہ نے فلاحی کاموں کے متعلق جانکاری دیتے ہوئے بتایا کہ ’’ہماری این جی او سنتوش بھون میں سرگرم ہے، وہاں ہمارے ایک کوآرڈینیٹر ہیں جو مقامی طور پر سرگرم ہیں۔ وہی ہم تک پہنچنے والے تقاضے اور ضرورت کے کیسیز کو دیکھتے ہیں۔ وہاں ہم رمضان کے موقع پر ضرورتمند افراد میں راشن کٹس اور کپڑے بھی تقسیم کرتے ہیں۔ راشن کٹس تقسیم کا کام بہار میں بھی کرتے ہیں۔ راشن کٹس کی تعداد کے متعلق استفسار پر سعدیہ نے بتایا کہ ہمارا ہدف تو تین سو کا ہوتا ہے لیکن ۱۰۰؍ تک ہم پہنچ جاتے ہیں۔ ساتھ ہی ہم بہار میں ضرورتمند افراد کے گھروں میں ہینڈپمپ کی تنصیب کے حوالے سے بھی کام کررہے ہیں، نیز جن گھروں میں ٹوائلٹس نہیں ہیں، انہیں ٹوائلٹس بنوا کر دینے میں بھی مدد کرتے ہیں اور جن لوگوں کو تعلیمی فیس کی دقت ہوتی ہے، ہم ان کیلئے کراؤڈ فنڈنگ کے ذریعہ اس کا انتظام کرتے ہیں۔‘‘ سعدیہ شیخ نے مزید بتایا کہ ’’ہم حیدرآباد میں بھی اپنی این جی او کے ذریعہ روہنگیا پناہ گزینوں کیلئے کام کرنا چاہتے ہیں۔ ان کے بارے میں مجھے اپنے کورس کے فیلڈ ورک کے سبب پتہ چلا ہے اور ہم نے تہیہ کیا ہے کہ ایک ساتھ تینوں جگہ (بندھولی بہار، ممبئی نالاسوپارہ اور رفیوجی کیمپ حیدرآباد) ضرورتمندوں کی مدد کریں گے۔‘‘
اعلیٰ تعلیم کے حصول اور سماجی خدمت کے میدان میں کام کرنے کے حوالے سے درپیش دقتوں یا چیلنجز کے متعلق سعدیہ کہتی ہیں کہ ’’اس حوالے سے تو کچھ لوگوں کی جانب سے الٹی سیدھی باتیں سننے کو ملیں اور مجھے لگتا ہے کہ اس طرح کی صورتحال کم وبیش ہر جگہ ہی ہوتی ہے۔ جب آپ کوئی کام کرتے ہیں تو شروعات میں دقتیں تو آتی ہی ہیں۔ اور اگر آپ لڑکی /خاتون ہیں تو چیلنجز تو ہوتے ہی ہیں۔ اور یہ ہر جگہ ہوتا ہے۔ میں جس جگہ سے میں آتی ہوں وہ تعلیم کے معاملے میں کافی پچھڑا ہوا علاقہ مانا جاتا ہے۔ میں اپنی بات کروں تو کچھ لوگوں نے ابتدا میں بہت سی باتیں کہیں، طعنے دئیے۔ چونکہ مجھے تعلیم و سماجی کاموں کے سبب تنہا سفر کرنا پڑتا ہے۔ یا میں بیرون شہر رہتی ہوں یا پھر عوامی پروگراموں میں خطاب کرتی ہوں تو والد صاحب کو کچھ لوگ کہتے بھی ہیں کہ بیٹی کو اتنی آزادی کیوں دے رکھی ہے، رشتہ ملنے میں دقتیں آئیں گی، شادی کیسے ہوگی؟ اس کو کیا نیتا گری کرنی ہے کیا، سیاست میں جانا ہے کیا؟ خیر یہ تو ہوتا ہی ہے۔ تعریفیں کرنے والے بھی ہوتے ہیں اور حوصلہ شکنی کرنیوالے بھی ہوتے ہیں۔‘‘
سماج میں مثبت تبدیلیوں میں خواتین کے کردار کے متعلق سعدیہ کا خیال ہے کہ ’’بحیثیت عورت ہم کس طرح اپنے گھر کو پیار و محبت کے ساتھ اچھے طریقے سے چلاتے ہیں، تو وہ گھر کس طرح آباد رہتا ہے۔ تو اسی طرح سے ہم جس محلے، سماج اور علاقے میں رہ رہے ہیں، اگر ہم سمجھیں یہ لوگ ہمارے ہیں اور اپنے ساتھ ساتھ ان کو لے کر چلنا ہے تو یہ سوچ ہمیں بہتری کی طرف لے جائیگی۔‘‘ فرد، سماج اور ملک کی ترقی کے باہمی تعلق پر سعدیہ نے یہ خیال پیش کیا کہ ’’میرا ماننا ہے کہ ایسے ملک میں جہاں اکثریت پسماندہ طبقہ کی ہے وہاں اگر آپ یہ سوچتے ہیں کہ آپ کی ترقی ہو یا اس سماج اور دیش کی ترقی ہو تو اکیلے کسی ایک فرد کے ترقی کر جانے سے پورے سماج اور دیش کی ترقی نہیں ہوگی۔ کیونکہ آپ اپنی اونچی بلڈنگ بنالیں گے لیکن آس پاس والے تو وہیں کے وہیں رہیں گے۔ اسلئے جنہوں نے تعلیمی و معاشی طور پر ترقی کرلی ہے انہیں چاہئے کہ وہ پسماندہ افراد کو اپنے ساتھ اور برابر لانے کی کوشش کریں، تبھی صحیح معنوں میں دکھائی دیگا کہ ڈیولپمنٹ ہورہا ہے۔‘‘ صنف نسواں کی ترقی اور بہتری کے حوالے سے سعدیہ نے کہا کہ ’’مجھے لگتا ہے کہ تعلیم ہی واحد ذریعہ ہے جس سے ہمیں طاقت ملتی ہے کہ ہم اپنی اور لوگوں کی قسمت کو بدلنے کا ذریعہ بن سکیں۔ میں نے اپنی زندگی میں دیکھا ہے کہ ہمارا کیا بیک گراؤنڈ تھا اور اب کتنا کچھ بدل چکا ہے۔ میرے والدین کا مائنڈ سیٹ کافی تبدیل ہوا ہے اور بھی بہت سی چیزیں ہیں۔ تو یہ سب کیسے ہوا؟ چونکہ میں پڑھائی کررہی ہوں تو ان کو یہ یقین اور حوصلہ مل رہا ہے کہ میں صحیح کررہی ہوں۔‘‘
چیلنجز اور دقتوں کے حوالے سے سعدیہ نے بتایا کہ ’’مجھے بہت زیادہ دقتیں نہیں ہوئیں، حالانکہ ہمارے معاشی حالات اتنے مستحکم نہیں تھے۔ والد صاحب (شیخ ریاض) جب گاؤں سے ممبئی آئے تھے تو وہ بیگ سازی کے ایک کاریگر تھے۔ پھر انہوں نے برسوں کی محنت و لگن سے اس میں ترقی کی اور آج ماشاء اللہ کارخانے کے مالک بنے۔ والدین نے ہم سبھی بھائی بہنوں کی تعلیم کیلئے بڑے جتن کئے۔ میں نے مدرسہ سے دینی و اسکولی تعلیم حاصل کی۔ چونکہ دسویں تک اردو اور عربی زبان ذریعہ تعلیم رہی اور میں ڈاکٹر بننا چاہتی تھی اسلئے میرا روڈ کے کالج میں میں نے گیارہویں سائنس میں ایڈمیشن لیا۔ انگریزی میڈیم کے سبب مجھے زبان و بیان کے لحاظ سے دقتیں آئیں۔ اس باعث میں گیارہویں بھی فیل ہوگئی تھی۔ پھر سمجھ میں نہیں آرہا تھا کہ کیا کروں۔ میں نے بارہویں انٹی گریٹیڈ طریقے سے مکمل کی۔ پھر اسٹریم بدلنے کا فیصلہ کرلیا۔ اس طرح میں نے رضوی کالج سے بی اے کیا اور اس دوران میری سوشل ورک میں دلچسپی بڑھی اور پھر میں نے اسی میں ماسٹرز کا فیصلہ کرلیا۔‘‘ مستقبل کے عزائم کے متعلق استفسارپر سعدیہ نے کہا کہ ’’میں اس وقت مولانا آزاد اردو یونیورسٹی، حیدرآباد سے ماسٹرز آف سوشل ورک کررہی ہوں۔ ارادہ تو میرا پروفیسر بننے کا بھی ہے، کیونکہ مجھے یہ مضمون بہت پسند ہے اور چاہتی ہوں کہ اسے پڑھاؤں بھی۔ ساتھ ہی میں اپنی این جی او اور سماجی کاموں کو بھی آگے بڑھانا چاہتی ہوں۔‘‘
عالمی یوم ِ خواتین کے موقع پر خواتین کے لئے پیغام
’’ماشاء اللہ ہمارے سماج کی خواتین اور لڑکیاں اب کافی بیدار ہوگئی ہیں۔ ہر لڑکی کے اپنے خواب ہیں جنہیں وہ پورا کرنا چاہتی ہیں۔ ضرورت اس بات کی ہے کہ انہیں صحیح رہنمائی حاصل ہو۔ میرا ماننا ہے کہ اگر آپ کے پاس ہدف ہے تو اسے پانے کا آپ کو راستہ بھی پتہ ہونا چاہئے۔ میں لڑکیوں سے یہی کہنا چاہتی ہوں کہ کیسی ہی صورتحال ہو گھبرائیں نہیں۔ لگن کے ساتھ اپنے ہدف کے حصول میں لگے رہیں۔ لوگوں کا کام ہے بولنا، وہ کبھی چپ نہیں رہیں گے۔ ہمیں فقط اپنے گول (ہدف) کے متعلق سوچنا ہے کہ یہ ہمارے لئے کتنا معنی رکھتا ہے۔ جب لوگ آپ کا کام دیکھیں گے تو خود بخود چپ ہوجائیں گے۔ لوگوں کا منہ ہم اپنے کام اور حصولیابیوں سے ہی بند کرسکتے ہیں۔‘‘