آئی ٹی میں پوسٹ گریجویشن کرنے کے بعد انہوں نےبطور لیکچرار اپنے کریئر کا آغاز کیااورشعبہ درس و تدریس میں ۶؍ سال تک اپنی خدمات انجام دینے کے بعد ’’سی فوڈ‘‘ کا کاروبار شروع کیا جس کا دائرہ بیرون ریاست تک پھیل گیا ہے۔
EPAPER
Updated: March 06, 2025, 1:35 PM IST | Qutbuddin Shahid | Mumbai
آئی ٹی میں پوسٹ گریجویشن کرنے کے بعد انہوں نےبطور لیکچرار اپنے کریئر کا آغاز کیااورشعبہ درس و تدریس میں ۶؍ سال تک اپنی خدمات انجام دینے کے بعد ’’سی فوڈ‘‘ کا کاروبار شروع کیا جس کا دائرہ بیرون ریاست تک پھیل گیا ہے۔
قطب الدین شاہد
shahid.qutbuddin@mid-day.com
اس قول کو دہراتے تو بہت لوگ ہیں لیکن اس پر یقین کم ہی لوگ رکھتے ہیں کہ ’’انسان اگر ٹھان لے تو کوئی ایسا کام نہیں جسے وہ انجام نہ دے سکے۔‘‘ لیکن عافین زاہد کو نہ صرف اس قول پر مکمل اعتماد ہے بلکہ عزم محکم سے انہوں نے بار بار اسے ثابت بھی کیا ہے۔ بھیونڈی میں ’اے ٹو زیڈ سی فوڈ‘ کے نام سے انہوں نے ایک ایسا کاروبار کھڑا کیا، جسے کچھ سال قبل تک ایک خاتون کیلئے ناممکن تو نہیں لیکن بہت مشکل تصور کیا جاتا تھا۔ آج ان کے کاروبار سے نہ صرف شہر بلکہ بیرون شہر اور بیرون ریاست کے لوگ بھی مستفید ہو رہے ہیں۔ کاروبار کی بنیاد مستحکم ہوئی تو انہوں نے دینی تعلیم حاصل کرنے کا ارادہ کیا۔ اس کیلئے انہوں نے ایک آن لائن کورس میں داخلہ لے کر ۷؍ سالہ عالمیت اور فضیلت کی تعلیم شروع کی۔ یہاں بھی ان کا عزم کام آیا۔ بہت ساری مصروفیات کے باوجود انہوں نے سال اول کے امتحان میں ۹۷؍ فیصد مارکس کے ساتھ کامیابی حاصل کی۔
ایک متوسط گھرانے سے تعلق رکھنے والی عافین زاہد کی زندگی کا سفر جدوجہد سے بھرا ہوا ہے۔ وہ معاشی طور پر پریشان کبھی نہیں رہیں لیکن انہیں خاموش بیٹھنا بھی پسند نہیں تھا۔ وہ زندگی اور ذہانت کو خالق کائنات کی جانب سے عطا کردہ ایک قیمتی اثاثہ اور امانت سمجھتی ہیں، اسلئے آگے بڑھ کر چیلنجز کو قبول کرتی ہیں۔ روٹین کی زندگی سے انہیں کبھی دلچسپی نہیں رہی۔ اس کا اندازہ ان کے تعلیمی سفر سے بھی لگایا جاسکتا ہے۔ اول تا ہفتم اقصیٰ گرلز اردو ہائی اسکول سے تعلیم حاصل کرنے کے بعد انہوں نے صمدیہ ہائی اسکول سے ایس ایس سی کا امتحان دیا اور پھر بی این این کالج کا رُخ کیا۔ اُن دنوں بھیونڈی کی لڑکیوں کیلئے شہر سے باہر جا کر تعلیم حاصل کرنا ایک مشکل مرحلہ تھا لیکن انہوں نے ملنڈ میں واقع کیلکر کالج سے بی ایس سی آئی ٹی کی ڈگری حاصل کی۔ آج سے ۲۰؍ سال قبل ہمارے سماج میں’آئی ٹی‘ سے متعلق کچھ خاص معلومات نہیں تھی اور طالبات میں تو اس مضمون کے تئیں دلچسپی ’نہ‘ کے برابر تھی اس کے باوجود انہوں نے اس مضمون کا انتخاب کیا اور امتیازی پوزیشن کے ساتھ کامیابی حاصل کی۔ ۲۰۰۹ء میں بھیونڈی کے جی ایم کالج سے اسی شعبے میں پوسٹ گریجویشن کیا اور پھر بی این این کالج میں بطور لیکچرار اپنے کریئر کا آغاز کیا۔ اسی کیساتھ وہ جی ایم کالج سے وزیٹنگ فیکلٹی کے طور پر بھی وابستہ رہیں۔ یہ سلسلہ ۶؍ سال تک جاری رہا۔ اسی دوران ۲۰۱۰ء میں وہ رشتہ ازدواج میں بندھ گئیں اور یہاں سے ان کی زندگی کے ایک نئے سفر کا آغاز ہوا۔ کہا جاتا ہے کہ ہر کامیاب مرد کے پیچھے کسی خاتون کا ہاتھ ہوتا ہے اسی طرح ہر کامیاب خاتون کے پیچھے کسی مرد کا بھی ہاتھ ہوتا ہے۔ عافین اس حوالے سے بھی خوش نصیب ہیں کہ پہلے انہیں اپنے والد طفیل احمد خان اور بعد میں شوہر زاہد انصاری کی بھرپور حمایت اور سرپرستی ملی۔ یہ ایک آفاقی حقیقت ہے کہ صلاحیتوں کو جلا تب ملتی ہے جب اس کی قدر ہوتی ہے، اسے تسلیم کیا جاتا ہے اور اس کی حوصلہ افزائی کی جاتی ہے۔ اس معاملے میں زاہد توقع سے زیادہ نبض شناس ثابت ہوئے ہیں۔
عافین اپنے شوہر انجینئر محمد زاہد انصاری اور اپنے دونوں بچوں کے ساتھ بہت خوش تھیں۔ انہیں معاش کی قطعاً کوئی فکر نہیں تھی لیکن کورونا کی وبا کے بعد لاک ڈاؤن نے پورے ملک کو تہہ و بالا کیا تو عافین اور زاہد بھی حالات سے متاثر ہوئے بغیر نہیں رہ سکے۔ اس کے بعد عافین نے گھر سے کوئی کاروبار شروع کرکے اپنے شوہر کا ہاتھ بٹانے کا فیصلہ کیا۔ کورونا کی وجہ سے دنیا اپنے گھروں میں قید تھی، ایسے میں عافین نے مسائل کا رونا رونے کے بجائے اپنے وسائل کا جائزہ لیا اور پھر ذہن میں ایک ایسے کاروبار کا خاکہ ترتیب دیا جو ایک خاتون کیلئے بہت بڑا چیلنج تھا۔ انہوں نے چیلنج قبول کیا اور ’سی فوڈ‘ اور ’فروزن مچھلی‘ کا کاروبار شروع کر دیا۔ ابتدا میں اپنے کاروبار کا آغاز گھر سے کیا۔ گھر کے فریج میں سامان رکھ کر وہاٹس ایپ اسٹیٹس اور وہاٹس ایپ گروپ میں پوسٹ ڈال کر اپنے پروڈکٹ کی تشہیر کی۔ کاروبار آگے بڑھا تو ایک ڈیپ فریزر خریدنا پڑا اور پھر کچھ ہی دن میں اس کاروبار کو گھر سے دکان میں منتقل کرنا پڑا۔ ۲۰۲۰ء میں انہوں نے ایک ہزار روپے سے اپنے جس کاروبار کا آغاز کیا تھا، وہ آج نہ صرف شہر اور بیرون شہر اور بیرون ریاست تک پھیل گیا ہے۔ بھیونڈی کے ہوٹلوں، ڈھابوں اور اسنیک کارنروں کے علاوہ ان کے یہاں سے شادیوں کیلئے ’سی فوڈ‘ کے آرڈر لئے جاتے ہیں۔ اسی طرح اورنگ آباد سے حیدرآباد تک اور ان تمام جگہوں پر جہاں تک لگژری بسیں چلتی ہیں، ان کے یہاں سے مچھلیاں پہنچائی جاتی ہیں۔ گزشتہ سال انہوں نے اپنا ایک برانچ گجرات کے شہر سورت میں بھی کھولا ہے۔
عافین نے بھلے ہی عصری تعلیم حاصل کی ہو اور جدید دنیا کے چیلنجز کا سامنا کرتے ہوئے اپنی جگہ بنائی ہو لیکن کسی بھی موقع پر انہوں نے اپنی پہچان اور اپنے تشخص سے سمجھوتا نہیں کیا۔ جہاں جہاں بھی ضرورت پڑی، وہ گئیں لیکن وہ ہر جگہ ایک مسلم اور باحجاب خاتون کے طور پر ہی دنیا کے سامنے پیش ہوئیں۔ کاروبار مستحکم ہوا تو ذہن میں موجود ایک ادھوری خواہش پھر کلبلانے لگی۔ وہ دینی تعلیم حاصل کرنا چاہتی تھیں۔ اس کیلئے انہوں نے عالمیت کے ایک ۷؍ سالہ آن لائن کورس میں داخلہ لیا۔ مالونی ملاڈ میں واقع ’کلیۃ الراشدات الاسلامیہ‘ میں ہفتے میں ۵؍ دن آن لائن لیکچر کا اہتمام کیا جاتا ہے۔ ابھی حال ہی میں انہوں نے سال اول کے امتحان میں ۹۷؍ فیصد مارکس کے ساتھ کامیابی حاصل کی ہے۔
عافین زاہد کی ایک بڑی خوبی یہ ہے کہ وہ دن اور گھنٹوں کے حساب سے نہیں بلکہ منٹوں اور سیکنڈوں کے حساب سے اپنا ٹائم ٹیبل بناتی ہیں۔ وہ کچھ کرتی ہیں تو یہ سوچ کر نہیں کرتیں کہ اس کا انجام کیا ہوگا؟ ان کا کہنا ہے کہ کوشش اپنی ہونی چاہئے اور نتائج کی ذمہ داری خالق کائنات پر چھوڑ دینی چاہئے جس نے حرکت میں برکت کی ذمہ داری لی ہے۔ ان کا کہنا ہے کہ میں کوئی کام کرنے شروع کرنے سے قبل احتشام اختر کےاس شعر کو سامنے رکھتی ہوں اور آتش نمرود میں کود پڑتی ہوں کہ:
شہر کے اندھیرے کو اک چراغ کافی ہے
سو چراغ جلتے ہیں اک چراغ جلنے سے!
عالمی یوم ِ خواتین کے موقع پر خواتین کے لئے پیغام
’’عصر حاضر میں جس برق رفتاری کیساتھ انقلابات رونما ہو رہے ہیں، نت نئی ٹیکنالوجی نے زندگی کے ہر شعبے میں اپنے پنجے گاڑے ہیں۔ ایسے میں خواتین سے کہنا چاہوں گی کہ وقت اور ٹیکنالوجی کے ساتھ ہم آہنگ ہونے کی بھرپور کوشش کریں۔ وقت کی کمی اور بچوں کی مجبوری جیسی رکاوٹوں سے قطعی نہ گھبرائیں ۔ جن کے ارادے اور حوصلے کے پروں میں طاقت اور مضبوطی ہوتی ہے انہی کی کامیابی کی پرواز سب سے شاندار اور بلند ہوتی ہے۔ رکاوٹوں کو اپنی کامیابی کا سنگ میل بنائیں، کامیابی خود منزل پر آپ کا استقبال کرے گی۔‘‘