Inquilab Logo Happiest Places to Work
Ramzan 2025 Ramzan 2025

شیفالی بلال خان نے شادی کے بعد خانگی ذمہ داریاں نبھاتے ہوئے بزنس شروع کیا اور کامیابی حاصل کی

Updated: March 10, 2025, 1:43 PM IST | Shahab Ansari | Mumbai

محض ۲؍ برس کے عرصہ میں ۱۸۰؍ مربع فٹ کے گھر سے کرایے کی بڑی دکان میں کاروبار کرنے کے ساتھ مختلف شہروں میں خود ہال بُک کرکے نمائش لگانے کا انوکھا طریقہ اپنایا جو کامیاب ثابت ہوا۔

Shefali Khan can be seen at her shop `Fashion Ka Patara`. Photo: INN
شیفالی خان کو اپنی دکان ’فیشن کا پٹارا‘ میں دیکھا جاسکتا ہے۔ تصویر: آئی این این

مصطفیٰ بازار کے سیتا پھل واڑی میں خوجہ شیعہ قبرستان کے سامنے ’فیشن کا پٹارا‘ میں داخل ہونے لگیں تو دکان کی دیوار پر کپڑوں کی ڈھیر ساری تصویروں کے درمیان ’نو مین الائوڈ‘ (مردوں کا داخلہ ممنوع ہے) کا بورڈ بھی آپ کا خیر مقدم کرتا ہے۔ شہر میں خواتین کے کپڑوں کی شاید ہی ایسی کوئی دکان ملے گی جس میں مرد گاہکوں کو داخلہ نہیں دیا جاتا اس کےباوجوود اس کاروبار کو چلانے والی شیفالی بلال خان کا ماننا ہے کہ اللہ نے ان کے کاروبار میں خوب برکت عطا فرمائی ہے۔
 شیفالی نے انقلاب کو بتایا کہ تعلیم یافتہ ہونے کی وجہ سے وہ ہمیشہ سے کاروبار کرنا چاہتی تھیں لیکن موقع نہیں مل سکا اس دوران ان کی شادی ہوگئی اور ان کا بیٹا ۵؍ سال کی عمر کو پہنچ گیا تب انہوں نے فیصلہ کرلیا کہ انہیں کاروبار کرنا ہے۔ ان کے شوہر ایک اچھی کمپنی میں ملازمت کرتے ہیں اور گھر اچھے سے چل رہا تھا اس لئے سب کے ذہن میں یہی سوال تھا کہ ’’تمہیں کام کرنے کی کیا ضرورت ہے؟‘‘ تاہم شیفالی کو یقین تھا کہ ان میں کاروبار کرنے کی صلاحیت ہے اس لئے انہوں نے اپنے شوہر اور سسرال والوں کو قائل کرکے ان سے اجازت لے لی۔ اگرچہ موجودہ وقت میں کپڑوں کی دکانیں بہت زیادہ ہیں اس کے باوجود انہوں نے کپڑوں کی تجارت شروع کرنے کا فیصلہ کیا۔
 شیفالی کی سسرال باندرہ میں ہے لیکن جنوبی ممبئی سے قریب ہونے کی وجہ سے انہوں نے بائیکلہ کے مصطفیٰ بازار میں واقع اپنے والد کے چھوٹے سے ۱۸۰؍ مربع فٹ کے گھر سے بہت چھوٹے پیمانے پر کپڑوں کا کاروبار شروع کیا تھا۔ لیکن مسئلہ یہ تھا کہ ان کا میکہ چوتھے منزلے پر واقع ہے اور اس عمارت میں لفٹ نہیں ہے جس کی وجہ سے اکثر خواتین کو ۴؍ منزلے طے کرکے ان کے گھر تک پہنچنے میں بہت دشواری پیش آتی تھی۔
 کچھ ہی عرصہ میں انہیں اندازہ ہوگیا کہ انہیں گاہک مل رہے ہیں لیکن خواتین کو ۴؍ منزلے چڑھنے میں تکلیف ہوتی ہے اس لئے انہوں نے مجگائوں ولیج میں واقع ۳۰۰؍ مربع فٹ کی ایک دکان کرایے پر لی۔ تاہم یہاں گاہکوں کی اتنی بھیڑ ہونے لگی کہ دکان چھوٹی پڑ گئی اور خریداروں کو سڑک پر انتظار کرنا پڑتا تھا۔ اس عمارت کے مکین بھی عمارت کے نیچے اور سڑک پر بھیڑ بھاڑ پر اعتراض کرنے لگے۔ انہیں خود بھی بڑی دکان کی ضرورت محسوس ہورہی تھی اس لئے انہوں نے سیتا پھل واڑی میں بڑی دکان کرایے پر لے لی۔
 البتہ محض ۲؍ برسوں میں ایک چھوٹے سے گھر سے اس بڑی دکان تک کا ان کا سفر اتنا آسان نہیں تھا جتنا نظر آرہا ہے۔ وہ بتاتی ہیں کہ چھوٹے بچے کے اسکول کی تیاری، اس کی پڑھائی، کھانا پکانا اور دیگر کام کے بعد تجارت کرنے کیلئے وقت نکالنے کیلئے نیند کی قربانی دینی پڑی کیونکہ کم سو کر ہی اس کام کیلئے وقت نکال سکتی تھیں۔ دیگر مسئلہ یہ پیش آیا کہ ’مینوفیکچرر‘ وغیرہ کے پاس جانا شروع کیا تو کوئی یقین نہیں کرتا کہ کم عمر لڑکی تجارت کرسکے گی اس لئے مارکیٹ میں کوئی انہیں سنجیدگی سے نہیں لیتا تھا۔ وہ متعدد مرتبہ کئی کئی گھنٹے انتظار کرواتے لیکن ان کی پسند کے کپڑے دینے کے بجائے بچے کچے کپڑے دینے کی کوشش کرتے تھے۔ اس وجہ سے چند تاجروں سے ان کا جھگڑا بھی ہوا۔ وہ کہتی ہیں کہ ’’کوئی ہمیں سنجیدگی سے نہیں لیتا۔ بہر حال ہم نے ہمت نہیں ہاری اور کچھ کپڑے فروخت کرنے میں کامیاب ہوگئے جس پر تاجروں کو ہم پر یقین آیا اور پھر تجارت کچھ آگے بڑھنے لگی۔‘‘
 شیفالی کیلئے مثبت بات یہ رہی کہ ان کی ۴؍ چھوٹی بہنیں ہیں جو اس کام میں ان کے ساتھ لگ گئیں جس سے ان کا کام تقسیم ہوگیا اور کام کرنا آسان ہوگیا۔ یہ سب خواتین پردے کے اہتمام کے ساتھ تجارت کرتی ہیں۔
 ان کا کہنا ہے کہ ان کا سب سے مثبت پہلو یہ رہا کہ وہ جو کپڑے اور کوالیٹی سوشل میڈیا پر دکھاتی تھیں وہی گاہکوں کو دیتی تھیں اس میں کوئی دھوکہ بازی نہیں ہوتی کہ ڈیزائن وہی ہے کپڑا بدل دیا یا پھر قیمت بدل دی۔ اس سے انہیں یہ فائدہ ہوا کہ لوگ بھروسہ کرنے لگے اور دیگر لوگوں کو ان سے خریداری کی صلاح دینے لگے۔ اب بہت سی خواتین ان سے کپڑے لے کر اپنے علاقوں میں فروخت بھی کرتی ہیں اور کئی خواتین نے ان کا شکریہ بھی ادا کیا کہ ان سے ہمت پاکر انہوں نے خود بھی تجارت شروع کردی۔
 ترقی کیلئے انہوں نے نقصان کا خطرہ مول لے کر ایسا قدم بھی اٹھایا جو عام دکاندار نہیں اٹھاتے اور وہ یہ تھا کہ سوشل میڈیا پر شہرت ملنے کی وجہ سے دیگر شہروں کے لوگ انہیں کپڑے فروخت کرنے کیلئے اپنے شہر میں آنے کی دعوت دے رہے تھے لیکن ’’ان کا کہنا تھا کہ وہ کپڑے خریدنے کیلئے ممبئی کا سفر نہیں کرسکتے اس لئے آپ کپڑے لے کر ہمارے شہر میں آیئے۔‘‘
 شیفالی نے بتایا کہ، ’’مجھے یہ پتہ ہے کہ تجارت نفع اور نقصان دونوں کا نام ہے اور اس میں ’رِسک‘ لینا پڑتا ہے۔ حیدرآباد سے تقریباً ۱۰۰؍ لوگ ہم سے کپڑے خریدنے کی خواہش ظاہر کررہے تھے اور ان کا کہنا تھا کہ اگر ہم ان کے شہر میں آتے ہیں تو وہ مزید گاہک لے کرخریداری کرنے پہنچیں گے۔ اس لئے میں نے رسک لینے کا فیصلہ کیا اور پھر ہم نے اپنے رابطہ میں موجود گاہکوں کی مدد سے حیدرآباد میں ایک ہال بُک کیا اور پوری دکان کا سامان لے کر حیدرآباد پہنچ گئے۔ یہاں اس ہال میں ’ایگزیبیشن‘ رکھا اور وہاں جانے سے قبل حتی الامکان اس کی تشہیر کی۔ تاہم اللہ نے ہمیں کامیابی دی۔ وہاں کے گاہک بہت اچھے تھے انہوں نے ہمارے کھانے کا انتظام بھی کیا اور اپنے جان پہچان والوں کے ساتھ خریداری کرنے پہنچے جس سے تقریباً ایک ہزار گاہک وہاں آگئے تو ہمیں اس سفر میں نقصان نہیں ہوا۔ اس طریقہ کار کا ایک فائدہ یہ بھی ہوا کہ وہاں ہمارے مستقل گاہک بن گئے اور اب بھروسہ پر آن لائن آرڈر کرکے حسب ضرورت کپڑے منگواتے رہتے ہیں۔‘‘
 اسکے بعد انہوں نے بنگلور، جئے پور، احمدآباد (جہاں خود کپڑوں کا بہت بڑا بازار ہے)، پونے جیسے متعدد شہروں میں جاکر اسی طرز پر کپڑے فروخت کئے۔

عالمی یوم ِ خواتین کے موقع پر خواتین کے لئے پیغام
’’اگر خواتین ہمت کریں تو پردہ یا خانگی ذمہ داریاں ان کی کامیابی میں رکاوٹ نہیں بنتیں۔ ہاں خواتین کی ذمہ داریاں زیادہ ہوتی ہیں اس لئے اپنے پسند کے کام کو کرنے کیلئے نیند یا دیگر کسی ذاتی کام کی قربانی دینی پڑسکتی ہے۔ اہم بات یہ ہے کہ آپ ہمت نہ ہاریں، سب کو ساتھ لے کر چلیں اور ہر کام کو ایمانداری سے کریں تو اللہ ضرور کامیابی دے گا۔ کاروبار میں ترقی اور تنزلی ایک ہی سکہ کے دو پہلو ہیں لیکن تجارت سنت ہے اس لئے نقصان کے بعد منافع بھی ہوتا ہے اورہمت نہ ہارنا کامیابی دلانے میں اہم کردار ادا کرتا ہے۔‘‘

متعلقہ خبریں

This website uses cookie or similar technologies, to enhance your browsing experience and provide personalised recommendations. By continuing to use our website, you agree to our Privacy Policy and Cookie Policy. OK