Inquilab Logo Happiest Places to Work
Ramzan 2025 Ramzan 2025

صوفیہ عبد الواحد خان نے کمیونٹی کی مشترکہ کاوشوں سے تبدیلی کو راہ دی ہے

Updated: March 12, 2025, 2:24 PM IST | Raeesa Munawar | Mumbai

خواتین کی ذمہ داریاں، ان کی معاملہ فہمی اور جدوجہد ہر شعبے میں ہمیشہ نمایاں رہی ہے۔ گھر سے لے کر خاندان اور معاشرے تک کی فکر ان کے خمیر میں ہوتی ہے۔ صوفیہ خان ایسی ہی ایک باحوصلہ خاتون ہیں۔

Sofia Abdul Wahid (center) can be seen with her school children. Photo: INN
صوفیہ عبدالواحد (درمیان میں) کو اپنے اسکول کے بچوں کے ساتھ دیکھا جاسکتا ہے۔ تصویر: آئی این این

صوفیہ عبدالواحد خان، صرف ایک خاتون کا نام نہیں بلکہ اپنے آپ میں ایک انسٹی ٹیوٹ کا نام ہے۔ بی ایم سی اسکول کے چند بچوں کو شوقیہ پڑھانے کے آغاز سے لے کر ایک اسکول کے قیام تک کم و بیش ۲۸؍ سال کا سفر انہوں نے طے کیا ہے جس میں کورونا کا دور بھی شامل ہے اور حوصلے کو پست کرنے والے عناصر کی ریشہ دوانیاں بھی۔ لیکن جہد ِ مسلسل کے ذریعے انہوں نے ثابت کیا ہے کہ جب ایک عورت تبدیلی کا عزم کر لیتی ہے، تو پوری کمیونٹی اس کے ساتھ کھڑی ہو جاتی ہے۔ آئیے، ان سے کچھ گفتگو کرتے ہیں:
ابتدائی سفر کے بارے میں کچھ بتائیے؟
 بچپن ہی سے ٹیچنگ کا شوق تھا۔ ہمارے خاندان میں ملازمت وغیرہ کا تصور نہیں تھا مگر جوگیشوری میں، جہاں ہم رہتے تھے، اجیت گلاس میونسپل اسکول ہے، اپنا شوق پورا کرنے کے لئے میں یہاں کے بچوں کو پڑھاتی تھی۔
 شادی کے بعد، ۲۰۰۷ء میں ہم مالونی ملاڈ آئے۔ یہاں بہت بڑا سلم ایریا (جھوپڑپٹی) ہے جہاں ہماری دکان تھی، میں نے اپنے گھر والوں کی اجازت سے یہیں ایک دکان میں بچوں کو پڑھانے کا سلسلہ شروع کردیا۔ اس علاقے میں میں نے دیکھا کہ بچوں کی ایک بڑی تعداد ایسی ہے جو منشیات کی عادی ہے۔ میں نے اس پر بھی کام کیا، متعلقہ شعبوں تک شکایت بھی کی لیکن بہت زیادہ تبدیلی نظر نہیں آئی۔ پھر میں نے سوچا کہ کیوں نہ تعلیم کے ذریعے ہی ان میں بیداری پیدا کی جائے۔ اپنی کلاسیز میں جہاں بلڈنگوں میں رہنے والے نسبتاً خوشحال بچوں سے بہت معمولی فیس لیتی تھی وہیں انتہائی غریب اور پسماندہ بچوں کو بنا کسی فیس کے پڑھانے کا سلسلہ جاری تھا۔
باقاعدہ اسکول کا آغاز کب ہوا؟
 کورونا کی وبا کے دوران ہم نے دیکھا کہ ان غریب بستیوں میں رہنے والے لوگ شدید مالی مشکلات کا شکار تھے، ان کی تعلیم اور روزمرہ کی ضروریات رک چکی تھیں۔ بہت سے بچوں پر اس صورتحال کا منفی اثر پڑا اور وہ ذہنی دباؤ میں مبتلا ہوگئے۔ لاک ڈاؤن میں جب ہم سب گھروں سے باہر نکلنے سے بھی ڈرتے تھے ان علاقوں کے بچے بغیر کسی خوف کے میدان میں کھیل کود میں مصروف رہتے تھے۔ یہی وہ موقع تھا جب میں نے اپنے معاشرے کے لئے کچھ اور کرنے کا فیصلہ کیا۔ چونکہ میرا نصب العین ان علاقوں کے بچوں کو تعلیم سے آراستہ کرنا تھا اس لئے ۲۱۔۲۰۲۰ء میں نے اپنی کلاس کو وسعت دیتے ہوئے گراس روٹ فاؤنڈیشن کے زیراہتمام امبوج واڑی، گائیکواڑ نگر، مالونی میں ایک باقاعدہ اسکول، انڈین گلوری انگلش ہائی اسکول کی بنیاد رکھی۔
 یہ ایک چھوٹے سے اقدام کے طور پر شروع ہوا تھا، لیکن اب یہ ایک مکمل اسکول میں تبدیل ہو چکا ہے جہاں ۳۴۸؍ طلبہ زیر تعلیم ہیں۔ اسکول میں پرعزم خواتین اساتذہ کی ایک ٹیم ہے جو بچوں کے ذہنوں کو سنوارنے اور ان کے مستقبل کو بہتر بنانے کے لئے دن رات محنت کر رہی ہے۔ اسکول رجسٹریشن کے پروسیس میں ہے۔ ہم بچوں کو مارشل آرٹ، یوگا اور مختلف کورسیز بھی سکھاتے ہیں اور وقتاً فوقتاً سائیکالوجسٹ کے ذریعے کونسلنگ بھی کرواتے ہیں۔
کیا کسی مخالفت کا سامنا کرنا پڑا یا کوئی مشکل وقت آیا جب آپ کی ہمت جواب دے گئی ہو؟
 ایسے بہت سے مواقع آئے جب ہم نے اسکول شروع کیا تھا تو پتھر تک برسائے گئے۔ جیسا کہ میں نے بتایا، بچوں کی اکثریت ایسی تھی جو منشیات کے بھی عادی تھے۔ ہمارے سامنے ایک تو ان کو اس لت سے نجات دلانے کا چیلنج تھا اور دوسرے تعلیم کے لئے اسکول تک لانے کا۔ چونکہ میں نے نارکوٹکس ڈپارٹمنٹ میں شکایت کی تھی اس لئے پولیس کی گاڑیاں وغیرہ بھی آتی تھیں جس سے وہ ناراض رہتے تھے۔ جب میں جاتی تھی تو کہتے تھے ’’آگئی ہمیں سکھانے اور سدھارنے والی۔‘‘ ایسے اور کئی جملے سننے ملتے تھے۔ دوسری طرف یہ بھی کہا جاتا تھا کہ میڈم یہ بہت مشکل ہے، آپ کو بہت پریشانی ہوگی وغیرہ۔ لیکن اللہ کا شکر ہے کہ اس نے مجھے حوصلہ دیا۔ البتہ میں نے اس دوران ایک چیز بہت اچھی طرح سمجھی اور وہ یہ کہ آپ کو سب سے پہلے تعلیم پر ہی توجہ دینی ہے۔ یہ تعلیم ہی ہے جو بچوں کو کیا اچھا ہے اور کیا برا، اس میں تمیز کرنا سکھاتی ہے اور وہ سمجھ جاتے ہیں کہ مجھے کیا کرنا چاہئے۔ اور یقین جانئے کہ تعلیم کی طرف زیادہ توجہ دینے کا بہت اچھا نتیجہ نکلا۔ اب بچہ کتنا بھی جارحانہ مزاج کا حامل ہو، لیکن اس کو معلوم ہے کہ میں اس کی بہتری کے لئے ہی کام کررہی ہوں۔
آپ نے اتنے بڑے کام کو کس طرح جاری رکھا ہے؟ مطلب کیا کسی کا تعاون رہا؟
 میری سب سے بڑی اور بہترین مددگار (سپورٹر) میری ساس اور میرے شوہر عبدالواحد خان ہیں، ان کے علاوہ میرے دیگر سسرالی رشتےدار بھی ہیں۔ جب میں نے روم کرائے پر لیا تھا تو اس کارِ خیر میں ان لوگوں کی طرف سے مکمل مالی تعاون حاصل رہا، جس کے ذریعے ہم نے نہ صرف کرایہ ادا کیا بلکہ بچوں کے لئے نیوٹریشن کا بھی اہتمام کیا اور ان کے تعاون کے سبب ہی ہم نے شروع میں کسی سے کوئی فیس نہیں لی۔ اب جو انتہائی معمولی فیس لیتے ہیں تو اس کی وجہ بھی یہ ہے کہ شاید مفت کی چیز کی اتنی اہمیت نہیں ہوتی جتنی کہ آپ اپنی جیب سے خرچ کرکے کچھ حاصل کرتے ہیں۔

عالمی یوم ِ خواتین کے موقع پر خواتین کے لئے پیغام
’’حقیقی بااختیاری صرف ذاتی کامیابی میں نہیں، بلکہ ان لوگوں کو اوپر اٹھانے میں ہے جنہیں دنیا نے نظرانداز کر دیا ہے۔ آپ کا ایک چھوٹا سا عمل بھی بڑے پیمانے پر مثبت تبدیلی لا سکتا ہے۔‘‘

متعلقہ خبریں

This website uses cookie or similar technologies, to enhance your browsing experience and provide personalised recommendations. By continuing to use our website, you agree to our Privacy Policy and Cookie Policy. OK