Inquilab Logo Happiest Places to Work
Ramzan 2025 Ramzan 2025

ملئے مولانا آزاد نیشنل اُردو یونیورسٹی سے ڈاکٹریٹ کرنیوالی ڈاکٹر شگفتہ پروین سے

Updated: March 13, 2025, 2:33 PM IST | Saaima Shaikh | Mumbai

پی ایچ ڈی میں داخلہ لینے کے ایک بعد ان کی شادی ہوگئی، پھر بیٹے کی ولادت ہوئی اور اس کی نگہداشت کی ذمہ داری آن پڑی اسکے باوجود انہوں نے ڈاکٹریٹ کی سند حاصل کی۔

Shagufta Parveen, daughter of Imtiaz Ahmed. Photo: INN.
شگفتہ پروین بنت امتیاز احمد۔تصویر: آئی این این۔

اگر حوصلہ اور عزم ہے تو کوئی کام مشکل نہیں۔ یہ بات مئوناتھ بھنجن کی شگفتہ پروین بنت امتیاز احمد نے ثابت کی ہے۔ ۲۰۱۶ء سے انہوں نے مولانا آزاد نیشنل اردو یونیورسٹی (حیدرآباد) سے اپنی پی ایچ ڈی کی تیاری کی شروعات کی تھی۔ اس کے ایک سال بعد ان کی شادی ہوگئی۔ خانگی ذمہ داریوں کے ساتھ انہوں نے اپنی تعلیم جاری رکھی۔ ۲۰۱۹ء میں بیٹے کی ولادت کے سبب ذمہ داریاں بڑھ گئیں۔ مزید مشکل تب بڑھ گئی جب لاک ڈاؤن نافذ ہوگیا۔ چونکہ کووڈ ۱۹؍ کے زمانے میں وہ اپنے آبائی وطن لوٹ آئی تھیں اس لئے انہیں وقفہ وقفہ سے حیدرآباد یونیورسٹی جانا پڑتا تھا۔ گھریلو اور بچے کی ذمہ داریوں کے علاوہ ان کی اپنی صحت کے معاملات کے سبب کئی بار ان کا حوصلہ پست ہوا لیکن میکے، شوہر اور سسرال والوں کے تعاون نے انہیں آگے بڑھنے میں بھرپور مدد کی۔ اسی کا نتیجہ ہے کہ انہوں نے ڈاکٹریٹ کی ڈگری حاصل کی۔ واضح رہے کہ انہوں نے مولانا آزاد نیشنل اردو یونیورسٹی ہی سے بی ایڈ بھی مکمل کیا تھا۔ بتا دیں کہ شگفتہ کے مقالے کا عنوان ’’گھریلو کامگار خواتین کے چیلنجز ایک تنقیدی مطالعہ شہر مئو ناتھ بھنجن کے حوالے سے‘‘ تھا۔
شگفتہ اپنی پی ایچ ڈی سے متعلق تفصیل سے بتاتی ہیں کہ ’’گھریلو کامگاری غیر منظم شعبہ کا ایک اہم حصہ ہے جس سے وابستہ افراد میں اکثریت خواتین کی ہے۔ دنیا کے مختلف ممالک کی طرح ہندوستان میں بھی گھریلو کامگاری کا رواج روز بروز بڑھتا جا رہا ہے۔ مختلف سرکاری و غیر سرکاری رپورٹیں، تحقیقات و کتابیں اس کی شاہد ہیں۔ ریاست اتر پردیش میں گھریلو کامگاری کیلئے معروف علاقوں میں شہر مئو ناتھ بھنجن ایک اہم علاقہ ہے۔ یہاں گھریلو کامگاری کے مختلف کام جیسے بنائی، سلائی، کڑھائی، دستکاری وغیرہ امور انجام دیئے جاتے ہیں جس میں خواتین کی شرکت بڑے پیمانے پر پائی جاتی ہے۔ شعبہ تعلیم نسواں سے وابستگی نے مجھے اس عنوان کی طرف مہمیز کیا۔ میری اس تحقیق سے میرے آبائی وطن یعنی شہر مئو ناتھ بھنجن کی گھریلو کامگار خواتین کی صورتحال کا مفصل تحقیقی جائزہ لیا جاسکے۔‘‘
پی ایچ ڈی کرتے وقت آپ نے کن چیلنجز کا سامنا کیا؟ اس کا جواب دیتے ہوئے وہ کہتی ہیں کہ ’’ایک خاتون ہونے کی وجہ سے گھریلو ذمہ داریوں کو نبھاتے ہوئے تعلیمی اور تحقیقی مصروفیت قدرے دشوار ضرور رہی۔ خاص طور پر اتنی بڑی تعداد میں خواتین کا سروے میری تحقیق کا ایک مرحلہ تھا۔ دوران تحقیق کووڈ ۱۹؍ جیسی ناگہانی وبا نے آمد و رفت کے علاوہ کئی طرح کی دشواریاں پیش آئیں لیکن ایسے حالات میں یونیورسٹی انتظامیہ کی جانب سے کئے جانے والے اقدامات اور اساتذہ بالخصوص نگراں مقالہ کی شفقتوں اور رہنمائی نے تحقیقی مراحل کو آسانی سے طے کرنے کا حوصلہ پیدا کیا۔‘‘
اس ریسرچ کے نتیجے کے متعلق وہ کہتی ہیں کہ ’’تحقیق کی روشنی میں یہ کہا جاسکتا ہے کہ گھریلو کامگار خواتین کی پست تعلیمی حیثیت ان کیلئے سب سے بڑا اور بنیادی چیلنج ہے۔ حکومت کی توجہ، سرکاری اسکیموں اور پالیسیوں سے تعلیمی میدان میں بہتری آئی ہے لیکن ضرورت اس بات کی ہے کہ خواتین اعلیٰ تعلیم سے آراستہ ہوں اور جدید ٹیکنالوجی کے استعمال میں مہارت حاصل کریں تاکہ وہ اس دور میں کسی سے پیچھے نہ رہیں اور اپنے آپ کو ایسے ہنر سے آراستہ کرسکیں جو اس وقت کی ضرورت ہے۔ اس سے ان کی معاشی اور سماجی حیثیت بھی بہتر ہوگی اور وہ اپنی آنے والی نسلوں کی تعلیم و تربیت بھی مزید بہتر انداز میں کرنے کی اہل ہوسکیں گی۔ مزید یہ کہ تعلیمی ترقی دیگر تمام مسائل کو حل کرنے کی شاہ کلید ہے۔ اس کے ذریعے دیگر تمام مسائل از خود رفتہ رفتہ ٹھیک ہوسکتے ہیں۔‘‘
عالمی یوم ِ خواتین کے موقع پر خواتین کے لئے پیغام
یوں تو خواتین کو بہت سارے مسائل و چیلنجز کا سامنا ہے لیکن ان سب سے نبرد آزما ہونے کے لئے سب سے مؤثر راستہ یہی ہے کہ خواتین کے اندر خود اعتمادی کے لئے اقدام کیا جائے۔ اپنی ذات پر بھروسے اور حوصلے کے ذریعہ خواتین کسی بھی مشکل کام کو آسان بنا سکتی ہیں۔ اور بلند سے بلند مقام تک رسائی حاصل کرسکتی ہیں۔‘‘

متعلقہ خبریں

This website uses cookie or similar technologies, to enhance your browsing experience and provide personalised recommendations. By continuing to use our website, you agree to our Privacy Policy and Cookie Policy. OK