Inquilab Logo

معاشرے میں حقوق کیلئے جدوجہد کرتی خواتین

Updated: September 28, 2022, 1:48 PM IST | Sarita Danu | Kupkot, Uttarakhand

؍۲۱؍ ویں صدی کے جدید ہندوستان میں خواتین اب بھی اپنے حقوق کے لئے لڑ رہی ہیں۔ انہیں تعلیم جیسے بنیادی حقوق کے حصول کے لئے بھی معاشرے کے ساتھ جدوجہد کرنی پڑتی ہے۔ معاشرے میں بیداری لانے کی اشد ضرورت ہے اور یہ صرف تعلیم ہی سے ممکن ہے

 To empower girls, it is important to equip them with education .Picture:INN
لڑکیوں کو بااختیار بنانے کیلئے ضروری ہے کہ انہیں تعلیم سے آراستہ کیا جائے ۔ تصویر:آئی این این

چند ماہ قبل ملک کی سب سے بڑی عدالت نے ایک تاریخی فیصلہ سناتے ہوئے باپ کی جائیداد پر بیٹیوں کا حق دینے کا حکم دیا تھا۔ عدالت کے مطابق باپ کی جائیداد میں بیٹوں کے ساتھ ساتھ بیٹیوں کو بھی مساوی حقوق حاصل ہوں گے۔ عدالت نے اپنے فیصلے میں کہا کہ اگر کسی شخص کے، اس کی موت سے پہلے اس کی کوئی وصیت نہیں ملتی ہے تو اس کی موت کے بعد بیٹوں اور بیٹیوں میں جائیداد کی مساوی تقسیم ہوگی۔ جبکہ اس سے قبل جائیداد متوفی کے بیٹے اور اس کے بھائی کے بیٹوں میں تقسیم ہوتی تھی۔یہ سن کر حیرت ہوتی ہے کہ اب تک ملک کے کچھ مذہب میں خواتین کو ان کے پدرانہ جائیداد سے باہر رکھا جاتا تھا لیکن حقیقت یہ ہے کہ ۲۱؍ ویں صدی کے جدید ہندوستان میں خواتین اب بھی اپنے حقوق کیلئے لڑ رہی ہیں۔ انہیں تعلیم جیسے بنیادی حقوق کے حصول کیلئے بھی معاشرے کے ساتھ جدوجہد کرنی پڑتی ہے۔ تاہم، شہروں میں ان کے حقوق کافی حد تک حاصل ہیں۔ لیکن ان کی جدوجہد آج بھی ملک کے دور دراز دیہی علاقوں میں کس طرح جاری ہے اس کی ایک مثال کپکوٹ بلاک کا کرمی گاؤں ہے جو اتراکھنڈ کی پہاڑی ریاست میں باگیشور ضلع سے ۱۰؍ کلومیٹر دور واقع ہے۔ جہاں قدامت پسند عقائد اور روایات کے نام پر لڑکوں کو لڑکیوں کے مقابلے تعلیم میں ترجیح دی جاتی ہے جبکہ لڑکیوں کو ’’پرائے گھر جانا ہے‘‘ کے نام پر علم حاصل کرنے کے حق سے محروم کر دیا جاتا ہے۔ جس کی وجہ سے لڑکیاں پوری طرح تعلیم حاصل نہیں کر پاتی ہیں۔ گاؤں میں پرائمری اور سیکنڈری سطح پر دو اسکول کام کر رہے ہیں۔ لیکن اساتذہ کی عدم موجودگی میں یہاں اچھی تعلیم حاصل کرنا ممکن نہیں ہے۔ ان اسکولوں میں اس وقت ضرورت سے کئی گنا کم اساتذہ تعینات ہیں۔ جو اساتذہ تعینات ہیں ان کے کندھوں پر بچوں کو تمام مضامین پڑھانے کے ساتھ ساتھ دفتر سے متعلق فائلوں کو روزانہ اپ ڈیٹ کرنے کی بھی ذمہ داری ہے۔ ایسے دباؤ والے ماحول میں استاد سے معیاری تعلیم فراہم کرنے کی توقع بے کار ہو جاتی ہے۔ اس کا براہ راست اثر لڑکیوں کی تعلیم پر پڑتا ہے، کیونکہ والدین لڑکوں کو معیاری تعلیم حاصل کرنے اور اپنا کریئر بنانے کیلئے شہر بھیجتے ہیں، جبکہ لڑکیاں انہی اسکولوں میں پڑھنے پر مجبور ہیں۔ تاہم، اس وقت گاؤں میں کچھ لڑکیاں ایسی ہیں جو اچھی تعلیم حاصل کرنے کیلئے میلوں دور جاتی ہیں۔ جن کی آدھی توانائی صرف اسکول جانے میں صرف ہوتی ہے۔ اس کے باوجود وہ ہمت نہیں ہارتی۔ کچھ پڑھے لکھے اور باشعور والدین گاؤں سے ۲۱؍ کلومیٹر دور کپکوٹ بلاک میں سرکاری زیر انتظام کستوربا گاندھی گرلز ریزیڈنشیل اسکول میں بیٹیوں کو پڑھا رہے ہیں۔ لیکن گاؤں کی تمام لڑکیوں کو یکساں طور پر یہ موقع ملنا ممکن نہیں ہے۔
 اس حوالے سے گاؤں کی ایک نوعمرلڑکی گیتا بتاتی ہے کہ اسے پڑھنے کا بہت شوق ہے، پڑھنے کے ساتھ ساتھ وہ رقص، موسیقی اور بنائی جیسے فنون میں بھی دلچسپی رکھتی ہے۔ لیکن وہ ان مہارتوں سے محروم ہے کیونکہ اسے گاؤں میں ان تمام چیزوں کی تربیت کے بارے میں کوئی علم نہیں ہے۔ اسی گاؤں کی ایک اور لڑکی بھاؤنا کہتی ہیں کہ وہ جانتی ہیں کہ خود انحصاری اور نوعمر لڑکیوں کو بااختیار بنانے سے متعلق بہت سی اسکیمیں حکومت کی طرف سے چلائی جاتی ہیں، لیکن وہ اسکیمیں نہ تو ہم تک پہنچتی ہیں اور نہ ہی ہمیں اس کا علم ہے۔ یہی وجہ ہے کہ دیہی نوعمر لڑکیاں اس کا فائدہ اٹھانے سے محروم ہیں۔ بھاؤنا، جو آئی اے ایس بننا چاہتی ہیں، کہتی ہے کہ ’’تعلیم کی کمی کی وجہ سے گاؤں کے لوگ اپنے حقوق سے آگاہ نہیں ہیں۔ گاؤں میں اسکول کی بہت ضرورت ہے، جہاں سب کو یکساں تعلیم حاصل ہو۔‘‘ وہ اپنی بات کو جاری رکھتے ہوئے کہتی ہے کہ ’’میری طرح گاؤں کی بہت سی لڑکیاں ہیں جو پڑھنا چاہتی ہیں لیکن سہولیات نہ ہونے کی وجہ سے ان کی خواہش ادھوری رہ گئی ہے۔ تعلیم ہی وہ واحد ذریعہ ہے جس سے نہ صرف معاشرہ بیدار ہوگا بلکہ کئی قسم کی برائیوں کا خاتمہ کیا جاسکتا ہے۔ تاہم، ملک کے دیہی علاقوں میں لڑکیوں کی تعلیم جیسے بنیادی حقوق کی جدوجہد سے یہ بھی پتہ چلتا ہے کہ آج بھی پدرانہ معاشرے میں خواتین مساوی حقوق کیلئے جدوجہد کر رہی ہیں۔ ایسے میں سوال یہ پیدا ہوتا ہے کہ جب آئین ِ ہند میں خواتین کو مساوی حقوق دیئے گئے ہیں اور وقتاً فوقتاً مرکز سے لے کر تمام ریاستی حکومتیں خواتین کو بااختیار بنانے کی اسکیمیں چلاتی رہتی ہیں، اس کے باوجود عورتوں اور مردوں کے درمیان یہ امتیازی فرق اتنا وسیع کیوں ہے؟ دراصل حقوق فراہم کرنے اور اسکیموں کو چلانے سے مسئلہ کا حل ممکن نہیں ہے بلکہ اس کیلئے بیداری ضروری ہے اور یہ صرف تعلیم ہی سے ممکن ہے۔ یہ ایک واضح سچائی ہے کہ معاشرہ جتنا زیادہ تعلیم یافتہ ہوتا ہے وہ اتنا ہی زیادہ باشعور ہوتا ہے۔ جس معاشرے میں اس کی کمی ہو وہاں خواتین کو اپنے حقوق کیسے حاصل ہوں گے؟

متعلقہ خبریں

This website uses cookie or similar technologies, to enhance your browsing experience and provide personalised recommendations. By continuing to use our website, you agree to our Privacy Policy and Cookie Policy. OK